فلسطینیوں کی احد التمیمی اور پختونوں کا حیات پریغال

Ahmed Jameel Yousufzai

فلسطینیوں کی احد التمیمی اور پختونوں کا حیات پریغال

از، احمد جمیل یوسفزئی

امریکہ میں سیاہ فام لوگوں کے حقوق کے لیے کامیاب تحریک چلانے والے بیسویں صدی کے ایک عظیم انسان مارٹن لوتھر کنگ کا ایک قول ہے، “نا انصافی کہیں بھی ہو یہ ہر جگہ انصاف کے لیے خطرہ ہے۔”

اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت کی علامت بن جانے والی سترہ سالہ فلسطینی لڑکی الاحد التمیمی کو آٹھ ماہ کی قید کے بعد 29 جولائی 2018 کو رہا کر دیا گیا۔

یہ 15 دسمبر 2017 کا دن تھا۔ اسرائیلی فوجیوں نے دو پہر کے تین بجے غرب اردن کے نبی صالح علاقے میں سولہ سال کی احد التمیمی کے گھر پر چھاپہ مارا تو احد نے اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ جھگڑنا شروع کیا اور ان کی ماں اس کی ویڈیو بنانے لگی۔ اس دوران احد نے ایک فوجی کو دھکا دیا اور دوسرے کو زور دار تھپڑ رسید کر دیا۔

یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور اسے ہزاروں بار دیکھا گیا۔ اس کے بعد احد کو گرفتار کر لیا گیا اور اس پر بارہ الزامات لگے جن میں سے چار کا اس نے اعتراف کر لیا۔ اسے آٹھ ماہ قید اور پانچ پزار شیکلز جرمانے کی سزا سنائی گئی۔

احد کو فلسطینی 2012 سے ایک ہیرو کے طور پر جانتے ہیں جب اس کو پہلی بار 11 سال کی عمر میں ویڈیو میں ایک اسرائیلی فوجی کو اپنے بڑے بھائی کی گرفتاری کے وقت مُکے سے ڈراتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ اب گرفتاری اور مہینوں بعد جیل سے رہائی نے احد کو اسرائیلی قبضے کے خلاف ایک مزاحمت کے علامت کے طور پر پہچان دلائی ہے اور رہائی کے بعد فلسطینیوں کے ایک جمِ غفیر کی شکل میں اس کے والدین اسے لینے گئے۔


مزید دیکھیے: مارٹن لوتھر، یورپ کی تقسیم اور اسلامی دنیا کا حال

استاد منگو کے دن اب کے پھر نہیں بدلے


یہ 5 جولائی 2018 کی رات تھی۔ پختونخواہ کے ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک گھر میں رات کے ساڑھے گیارہ بجے پولیس کی وردی اور سادہ کپڑوں میں ملبوس سرکاری اہل کار زبردستی گھسے اور ایک نوجوان کو پکڑا۔ گھر والوں کی مزاحمت پر ان کو زد و کوب کیا، نوجوان کے بھائی کے مطابق اس کے والد کو دھکے دیے، گالیاں دی، گرفتار نوجوان کا موبائل اور لیپ ٹاپ چھینا اور اس کو اپنے ساتھ لے گئے۔

بات جنگل کے آگ کی طرح پھیلی تو پتہا چلا کہ اٹھایا گیا نو جوان پختون تحفظ تحریک کا ایک اہم کار کن اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ حیات پریغال تھا جس کو تحریک کی حمایت کرنے اور اس کے مطالبات کے حق میں سوشل میڈیا پر کیمپیئن چلانے کی وجہ سے اٹھا کے غائب کیا گیا ہے۔

اس پر پی ٹی ایم کی جانب سے احتجاج کا ایک سلسلہ شروع ہوا کہ حیات کو غیر قانونی اور غیر آئینی طریقے سے ملک کی خفیہ ایجنسیوں کے اہل کار اٹھا کے لے گئے ہیں اس لیے اس کو فوری رہا کیا جائے۔ ٹویٹر پہ #ReleaseHayatPreghal کا ٹرینڈ چلایا گیا۔

خفیہ اداروں کی جانب سے حیات کے اغوا سے لا تعلقی کا اظہار کیا گیا مگر احتجاج نہیں رکے۔ چھ دن بعد حیات نے گھر فون کیا اور کہا کہ وہ اسلام آباد کے ایف آئی اے کے دفتر میں ہے اور اسے جلد اڈیالہ جیل منتقل کر دیا جائے گا۔ حیات تب سے اب تک اڈیالہ جیل میں ہے۔

ان دو الگ واقعات سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟

۱۔ یہ کہ اگر ظلم قانون کا درجہ پا جائے تو اس کے خلاف مزاحمت کرنا فرض بن جاتا ہے۔

۲۔ یہ کہ ظلم چھپائے نہیں چھپتا اور ایک نہ ایک دن اس کا حساب ہو کہ رہتا ہے۔

۳۔ یہ کہ دونوں احد التمیمی اور حیات اپنے لوگوں پر ہونے والے ظلم اور نا انصافی کے خلاف مزاحمت کی علامت ہیں۔

۳۔ یہ کہ زیادتی چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو اس کو زیادتی کہا جائے اور اس کے خلاف آواز بلند کی جائے۔

۴۔ یہ کہ عزت نفس اور وقار کی زندگی گزارنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔

۵۔ یہ کہ اگر آپ سچے ہو اور آپ کی مزاحمت عوام کے اصل مسائل کی نمائندگی کرتی ہے تو آپ کی اس کوشش کو لوگوں کے حقوق دلوانے کی طرف ایک مثبت قدم کے طور پر دیکھا جائے گا چاہے مخالفت کتنی ہی شدید کیوں نہ ہو۔

۶۔ یہ کہ تاریخ ایسے لوگوں کو ہیرو کے طور پر یاد رکھتی ہے جو اپنے لوگوں پر ہوئے ظلم و جبر کے خلاف کلمۂِ حق بلند کرتے ہیں۔

۷۔ یہ کہ ان دونوں کی غیر قانونی گرفتاری نے ان کے لوگوں میں احتجاج کے شعور کو فروغ دیا۔

مگر افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ حیات کے ساتھ جو رویہ پاکستان جیسے آزاد ملک میں ایک پاکستانی ہونے کے باوجود روا رکھا گیا وہ رویہ احد التمیمی کے ساتھ اسرائیل جیسے قابض ملک نے ایک فلسطینی کے ساتھ بھی نہیں رکھا۔ مثلاً

۱۔ احد نے اسرائیلی فوجیوں کو لات، گُھونسیں اور تھپڑ مارے مگر فوجیوں نے کچھ بھی نہیں کہا۔

۲۔ حیات نے نہ تھپڑ مارے تھے، نہ لاتیں اور نہ گُھونسے بَل کِہ پولیس اور سادہ وردی میں اہل کاروں نے یہی سب کچھ حیات اور ان کے فیملی ممبرز کے ساتھ کیا۔

۳۔ وہاں فوجی دن کی روشنی میں چھاپہ مارنے گئے اور یہاں رات کی تاریکی میں چھاپہ مارا گیا۔

۴۔ وہاں عدالتی کارِ روائی (گو کہ اس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور اس پر سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں) کر کے احد کو جیل کیا گیا جب کہ یہاں پہلے تو چھ دن غائب رکھا گیا اور پھر زبر دست عوامی احتجاج کے بعد پہلے FIA کے حوالے کیا گیا اور پھر اڈیالہ جیل بھیجا گیا۔

۵۔ احد کے لیے احتجاج کرنے والوں کو دھمکیاں نہیں ملیں جب کہ حیات کے لیے احتجاج کرنے والوں کو نا معلوم نمبروں سے دھمکی آمیز کالز کی گئی۔

۶۔ احد کے لیے نہ صرف فلسطینیوں نے آواز اُٹھائی بَل کہ اقوام متحدہ کے ادارے برائے انسانی حقوق اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اس کی گرفتاری کی مذمت کی۔ جب کہ حیات پریغال کے لیے اس کے گھر والوں اور پختونوں کے سوا کسی نے آواز اٹھانے کی زحمت نہیں کی۔

۷۔ احد پہ مقدمہ چلا اور اس کا جرم ثابت ہونے کے بعد اس کو آٹھ ماہ کی قید ہوئی۔ حیات پر FIA والے ملکی دشمنی اور ملک کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہ کر سکے مگر اس کے بعد بھی حیات کی ضمانت منظور نہیں کی گئی اور وہ اب تک جیل میں ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ عدالت پاکستان کے آئین کے آرٹیکلز 9، 10 اور 10-A پر عمل در آمد کو یقینی بناتے ہوئے انسانی زندگی کے تحفظ کے لیے خطرہ بننے، غیر قانونی گرفتاریاں کرنے اور حبسِ بے جا میں لوگوں کو رکھنے اور صاف و شفاف عدالتی ٹرائل کی راہ میں روڑے اٹکانے والوں کے خلاف ایکشن لے۔ اور اگر حیات پریغال آئین و قانون کے مطابق بے گناہ ثابت ہوتا ہے تو اس کو با عزت بری کیا جائے۔ اس سے لوگوں کے دِلوں میں عدالت کے وقار میں اضافہ ہو گا اور ان عناصر کی سر کوبی ہو گی جو قانون کو روندتے ہیں۔