بولی وڈ میں جنسی ہراسانی کی یلغار

حسین جاوید افروز
حسین جاوید افروز

بولی وڈ میں جنسی ہراسانی کی یلغار

از، حسین جاوید افروز

جنسی ہراسانی سے مراد کسی شخص کو خوف زدہ یا مرعوب کر کے اس سے جنسی تسکین بہ زور حاصل کرنے کی کوشش کے ہیں۔ لیکن ضروری نہیں کہ اس عمل میں زبر دستی سِفلی خواہشات کی تکمیل ہی کا نام جنسی ہراسانی کے زُمرے میں آئے گا۔ بَل کہ اگر کسی شخص کو کسی دوسرے کی جانب سے مسلسل گھورا جائے اور بار بار اس سے نزدیکیاں پیدا کرنے کی بلا وجہ کوشش کی جائے تو ایسا عمل بھی جنسی ہراسانی ہی کہلاتاہے۔ جب کہ اس حوالے سے کسی پر نا پسندیدہ فقرے کسنا اور ذُو معنی جملے پھیکنا بھی ہراسانی کا ہی حصہ شمار کیا جا سکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق جنسی لَت کا شکار ہونا کوئی نفسیاتی بیماری نہیں ہے بَل کہ یہ انسانی جِبلِّت کا حصہ ہے۔ لیکن اس حوالے سے دماغ اگر مسلسل بے سر و پا خیالات کی زَد میں رہے اور شہوت انگیز تصور انسانی حِسِیّات پر غالب رہیں تو ایسے میں جنسی ہراسانی کے لیے امکانات پیدا ہو ہی جاتے ہیں۔ اور اب یہ ضروری نہیں کہ مشرقی یا مغربی معاشروں میں عورت ہی ہراسانی کی ایسی کیفیات کا شکار ہوتی ہے بَل کہ اب مرد حضرات اور کم سِن بچے بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں۔

آج ہم انٹر نیٹ کے دور میں موجود ہیں جہاں چاروں طرف ہم اطلاعات کے گرداب میں دھنستے جا رہے ہیں۔ انفارمیشن کے اس سیلاب میں پورنوگرافی کی ویب سائٹس، سوشل میڈیا، اور انسٹا گرام کے ذریعے عالمی سماج میں ہیجان ہر سُو پھیل چکا ہے اور اس طرح یہ جنسی ہراسانی کی نشو و نما کے لیے تمام لوازامات بہ خوبی پیدا کر رہا ہے۔

اکتوبر 2017 میں ہالی وڈ فلم ڈائریکٹر ہاروے وائن سٹین پر کئی ادا کاراؤں نے جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات لگائے جس سے ایک بھونچال سا آ گیا۔ یوں وہاں ’’می ٹو مہم‘‘ نے کئی سال خاموش رہنے والے ان ادا کاروں کو آواز دی جو کہ جنسی حملوں کا شکار رہے۔ اب یہی مہم ایک سُونامی کی طرح ممبئی کے ساحلوں پر بھی دستک دے رہی ہے۔

بولی وڈ میں بھی جنسی حملوں اور ہراسانی کے خلاف ایک طوفان برپا ہو چکا ہے۔ اور اب تقریباً ہر روز کوئی نہ کوئی ہولناک انکشاف ہوتا ہی چلا جا رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہاں بے شمار ہاروے وائن اسٹین موجود ہیں جو بھوکے بھیڑیوں کی مانند کئی ادا کاروں کے لیے خون آشام عِفرِیت کا روپ دھار چکے ہیں۔ اب بھارت میں اس حوالے سے دو گروہ بن چکے ہیں۔ ایک کہہ رہا ہے کہ اب ہی کیوں آواز کھولی گئی یہ کام پہلے کیوں نہیں کیا گیا؟ تو دوسری جانب دوسرا گروہ اس امر کی دلالت کر رہا ہے کہ دیر سے ہی سہی مگر اب کم از کم کسی نے تو آواز بلند کی ہے کیا اپنے اوپر کیے گئے استحصال پر بولنے کے لیے کسی خاص مدت کا تعین کرنا ضروری ہے؟

اگر ماضی کے مقابلے میں سوشل میڈیا کے طاقت ور عامل کو استعمال کرتے ہوئے عورت آج اظہار کرنے کی جرات پیدا کر سکتی ہے تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟ یہاں اس حقیقت کو سمجھنا ہو گا کہ اتنا آسان نہیں ہوتا کہ اپنے اوپر ہونے والی گھناؤنی زیادتی پر فوراً ہی زبان کھول دی جائے۔

یہی وجہ ہے کہ ’’می ٹو ‘‘کا پرچار انڈین سماج کے اب ہر گوشے میں ببانگِ دہل کیا جا رہا ہے۔ غریب لڑکیوں کو اوپر جانے کے لیے خود کو پیش کرنا اب ایک مجبوری بن جاتا ہے جو بھارت کے دور دراز علاقوں سے سپنے لیے اور شہرت کے سنگھاسن پر براجمان ہونے کے لیے ممبئی کے پوش علاقے لوکھنڈ والا میں اپنا جسمانی استحصال کرانے سے بھی گریز نہیں کرتیں کیوں کہ بے رحم ممبئی شہر میں بسیرا کرنا ہے تو کچھ تو قربان کرنا ہی پڑے گا۔


مزید دیکھیے:  سماج اور جنسی تصورات  از، ارشد محمود


حال ہی میں اس حوالے سے بولی وڈ میں بھی ’’می ٹو مہم‘‘ اس وقت زور پکڑ چکی ہے اور اس کو بڑھاوا دینے میں کئی سال تک گوشہ نشین رہنے والی ایکٹریس تنو شری دتہ نے بنیادی کردار نبھایا ہے۔ تنو شری نے معروف ادا کار نانا پاٹیکر پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عاید کیا ہے جس نے 2008 میں ایک فلم کی شوٹنگ کے دوران ادا کارہ کے ساتھ عامیانہ انداز میں گانا فلم بند کرنے کی فرمائش کر ڈالی۔

یہی نہیں بَل کہ اس نے ڈائریکٹر سے کہہ کر تنو شری کے ساتھ ایسے بولڈ مناظر فلم بند کرانے کی صلاح بھی دے ڈالی جس کا فلم کی کہانی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ نانا پاٹیکر کی ان گھٹیا حرکات سے نالاں تنو شری نے جب ڈائریکٹر سے شکایت کی تو اس کی کوئی شِنوائی نہیں ہوئی۔

یہی نہیں نانا نے تنو شری کے خاندان کا بھی جینا دُوبھر کر دیا اور یوں تنو شری کو کچھ عرصے بعد فلمی دنیا سے سنیاس لینا پڑا۔ اب دس برس بعد تنو شری نے میڈیا کے سامنے اپنے اندر چھپے ہوئے کرب کو بیان کیا ہے۔ اس کے بہ قول دس برس پہلے کسی نے میرا ساتھ نہیں دیا لہٰذا مجھے میں اس طرح کھل کر سامنے آنے کی ہمت نہیں تھی۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے سماج میں مجرم سے زیادہ شرمندہ متاثرہ شخص کو ہونا پڑتا ہے۔ بولی وڈ میں اب ہیرو حضرات اتنے با اثر ہو چکے ہیں کہ کاسٹنگ ڈائریکٹر کی بجائے خود ہی فلم ہیروئن کا چناؤ کرتے ہیں اور اس ضمن میں وہ ہیروئن کو لوٹ کا مال سمجھ کر اس کا کھل کر استحصال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حیران ہوں کہ کہ کیسے اکشے کمار اور رجنی کانت جیسے بڑے سٹارز نانا جیسے جنسی بھیڑیوں کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں؟ ایسے گھٹیا شخص کا تو بائیکاٹ کر دینا چاہیے۔

ویسے تو ہمارے ہاں کئی ادا کار، عورتوں کو با اختیار بنانے کے لیے مہم چلاتے ہیں اور اخلاقیات کا درس دیتے نظر آتے ہیں مگر جب جہاں کسی متاثرہ لڑکی کے حق میں بولنے کی ضرورت ہوتی ہے وہاں مجرمانہ چپ سادھ لیتے ہیں۔

منافقت کی اس سے بڑی مثال کیا ہو سکتی ہے؟ تنو شری کی اس گولہ باری کے جواب میں نانا نے اس کے الزامات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے اور اسے لیگل نوٹس بھی بھجوا دیا ہے۔ جب کہ فرحان اختر، ٹوئنکل کھنہ، سونم کپور ان ادا کاروں میں شامل ہیں جنہوں نے اس مدعے پر کھل کر تنو شری دتہ کی حمایت کرنے کا اعادہ کیا ہے۔ ڈمپل کپاڈیہ نے بھی نانا پاٹیکر کو ایک مکروہ کردار قرار دیا ہے اور کہا کہ اس کی زندگی کے تاریک پہلو سے سارا بولی وڈ واقف ہے۔

صرف تنو شری ہی نہیں کئی دوسرے فن کاروں نے بھی اس حساس موضوع پر لب کشائی کی ہے جن میں نیشنل ایوارڈ جیتنے والی فن کارہ اوشا یادیو  بھی شامل ہیں جو ویراپن جیسی فلموں میں ادا کاری کے جوہر دکھا چکی ہیں۔ اوشا نے یہ اعتراف کر کے سب کو حیران کر دیا ہے کہ ان کو جد و جہد کے دور میں اکثر اپنے ڈائریکٹرز کی نا جائز خواہشوں کا احترام کرنا پڑا ہے اور افسوس کہ اب بھی یہ سلسلہ اس کے ساتھ جاری و ساری ہے۔

بھٹ فیملی کی مایہ ناز ادا کارہ اور ڈائریکٹر پوجا بھٹ کے مطابق ان کو بھی اکثر اپنے بوائے فرینڈز کی جانب سے شراب کے نشے میں کئی بار ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور وہ بھی اس درندگی کے متاثرین میں سے ایک ہیں۔ معروف فن کارہ ملائیکہ شراوت نے بھی اعتراف کیا کہ ان کو فلموں میں مقام بنانے کے لیے کئی بار اپنی عزت ڈائریکٹر حضرات کے ہاتھوں گروی رکھنا پڑی ہے۔

ورسٹائل ادا کارہ ودیا بالن کا کہنا ہے کہ چُوں کہ ان کا تعلق ایک با اثر فلمی خاندان سے رہا ہے لہٰذا وہ کبھی ایسے حالات کا شکار نہیں رہی، مگر یہ سچ ہے کہ بولی وڈ میں استحصال کرنے والے شکاری ہر جگہ موجود ہیں۔ اسی طرح آرٹ اور کمرشل فلموں کے کہنہ مشق ادا کار عرفان خان نے بھی اعتراف کیا کہ ان کو بھی ابتدائی دور میں کئی عورتوں اور مردوں کی جانب سے غلط راہ پر مائل ہونے کے لیے پیشکش کی گئی مگر جب سے وہ اپنا مقام بنانے میں کام یاب ہوئے تو اب وہ ایسی مکروہ کمپنی سے محفوظ اور دور ہو چکے ہیں۔ ایسے ہی خیالات کا اظہار آج کے سپر اسٹار رنویر سنگھ نے بھی کیا کہ ان کو بھی جد و جہد کے دور میں ایک ڈائریکٹر کی جانب سے’ ’کاسٹنگ کاؤچ‘‘ کی آفر کی گئی جو انہوں نے ٹھکرا دی۔

بولی وڈ میں کام کرنے والی مغربی ادا کارہ کالکی نے بھی اعتراف کیا کہ بچپن میں بار ہا وہ جنسی ہراسانی کا شکار رہی ہیں لیکن اب بہ طور ایک معروف ادا کارہ کے وہ اب محفوظ زندگی بسر کر رہی ہیں۔ جب کہ نانا پاٹیکر کے بعد سینئر ادا کار رجت کپور پر میڈیا کے نشانے پر ہیں جن پر چند خواتین کی جانب سے الزامات عاید کیے گئے کہ وہ فون پر آڈیشن لینے کے بہانے اکیلے ملاقات پر اکثر اصرار کرتے رہتے تھے۔ جب کہ رجت کپور نے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے اپنے طرزِ عمل کی معافی مانگی ہے اور کہا کہ جو میں نے کیا اس پر شرمندہ ہوں اور مستقبل میں اب ایک اچھا انسان بننے کی کوشش کروں گا۔

رجت کپور کے بعد انڈین ٹی وی کے معروف فن کار الوک ناتھ جو ’’میں نے پیار کیا، ہم ساتھ ساتھ ہیں، ہم آپ کے ہیں کون‘‘ جیسی فلموں میں ایک شریف النفس انسان کے کردار میں ایک نرم امیج کے حامل تھے اور اس کے ساتھ مقبولِ عام انڈین ڈرامہ سیریل بنیاد کے ذریعے بھی شہرت سمیٹ چکے تھے ان پر ادا کارہ سندھیا مردل نے سنگین الزامات عاید کیے ہیں۔ بہ قول سندھیا، شراب پی کر الوک ناتھ کے طرزِ عمل میں وحشت سی آ جاتی ہے اور اس وجہ سے تمام ادا کارائیں اس سے خوف زدہ رہتی تھیں۔ اسی طرح نشے میں دھت ہو کر اس نے میرے ساتھ بھی زیادتی کی کوشش کی۔ جب کہ زی ٹی وی کے مشہور ڈرامے تارا کی ڈائریکٹر ونتا نندا نے تو الوک ناتھ پر سیدھے ریپ کرنے کا الزام عاید کیا ہے۔ ونتا نے دھائیوں پہلے اس دل خراش واقعہ پر اب لب کشائی کی ہے اور الوک ناتھ کے مکرو ہ کردار کو بے نقاب کیا ہے۔

ونتا کے بہ قول الوک ڈرامے کی ہیروئن نونیت نشان پر ہاتھ صاف کرنے کی بھی کئی کوشش کر چکا تھا مگر اسے کام یابی نہیں ملتی تھی۔ ایک بار سب کے سامنے نونیت نشان نے اسے تھپڑ بھی رسید کیا تھا مگر یہ شخص سدھرنے کے عمل سے کوسوں دور رہا۔

اسی طرح ادا کارہ کنگنا رانوت نے بھی ڈائریکٹر وکاس بہل پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عاید کیا ہے۔ کنگنا کے بقول فلم کوئن کے سیٹ پر اکثر وکاس بہل بہا نے بہانے سے اسے چُھونے کی کوشش میں لگا رہتا تھا۔ جب کہ وکاس بہل پر ہی دوسرا الزام یہ سامنے آیا کہ اس نے اپنے پروڈکشن ہاؤس کی کولیگ کا بھی ریپ کیا۔ جب متاثرہ کولیگ نے دوسرے ڈائریکٹر سے اس پر احتجاج کیا تو اس نے وکاس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔

تازہ ترین اطلاع کے مطابق ادا کار ہریتک روشن نے بھی وکاس بہل کے ساتھ کسی بھی پراجیکٹ پر کام کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ با صلاحیت ادا کارہ رادھیکا آپٹے اس ایشو پر بے باکی سے اظہار خیال کرتی رہی ہے۔ اس کے بہ قول ’’می ٹو مہم” ایک مثبت اور جرات مند اقدام ہے لیکن اس کو ایک پائدار سپورٹ سسٹم کی اشد ضرورت ہے۔ جنسی طور پر ہراساں ہونے والے افراد کو جرات کے ساتھ اپنے ساتھ پیش آنے والی زیادتیوں پر بات کرنا ہوگی‘‘۔

نام ور فن کارہ ششمیتا سین کہتی ہے کہ ’’می ٹو سے وقتی طور پر تو فایدہ ہو سکتا ہے مگر اس سے کچھ نہیں بدلے گا اصل معاملہ یہ ہے کہ سوچ میں بدلاؤ لانا بہت ضروری ہے‘‘۔ یہاں معروف ڈائریکٹر ایکتا کپور اور سروج خان کے بیانات بھی ایک دوسرا ہی رخ بیان کرتے ہیں۔ ان کے بقول ہم سارا لزام ہیروز یا ڈائریکٹرز پر نہیں تھوپ سکتے۔ اپنے ساتھ ایسے سلوک کی ذمہ دار ادا کارائیں بھی ہوتی ہیں جو شہرت اور دولت کمانے کے جنون میں ہر حد پار کرنے کو تیار رہتی ہیں۔ یہ اتنا برا بھی نہیں ہے کیوں کہ ممبئی میں رہنے کے لیے اور کمانے کے لیے ایسا کرنا بہت ضروری ہو جاتا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ بولی وڈ کے کئی بڑے نام جن میں امتیابھ بچن، سلمان، شاہ رخ اور عامر خان شامل ہیں وہ اس سارے معاملے پر ایک چپ سادھے ہوئے ہیں اور بچن صاحب سے جب میڈیا نے تنو شری اور نانا پاٹیکر والے تنازعے پر رائے طلب کی تو وہ اتنا ہی بولے نہ ہی میرا نام تنو شری ہے اور نہ ہی میں نانا ہوں۔

جب کہ یہ بچن صاحب ہی تھے جو کہ اپنی فلم میں’’پنک‘‘ میں جنسی ہراسانی کے خلاف اثر انگیز مکالمے ادا کرتے رہے۔ اور عامر خان اپنے ٹاک شو ’’ستیہ میہ جیت‘‘ میں جنسی ہراسانی کے حساس ایشو پر زار و قطار روتے دیکھے گئے۔ جب تک اس برائی کے خلاف بولی وڈ کے بڑے ایک زبان نہیں بولیں گے یہ بے راہ روی یوں ہی پروان چڑھتی رہے گی۔ آج اگر یہ موضوع ہر جگہ زیرِ بحث ہے اور اس کی وجوہات اور اثرات پر سیر حاصل گفتگو کی جا رہی ہے تو کہیں نہ کہیں یہ ماننا پڑے گا کہ یہ سب کچھ تنو شری جیسی خواتین کی بدولت ممکن ہوا کہ اب سماج میں ’’می ٹو مہم‘‘ ایک سلگتا ہوا ایشو بن چکی ہے۔

سوچنے کی بات ہے کہ اگر تنو شری آواز بلند نہیں کرتی تو کیا آج یہ موضوع چرچا میں ہوتا؟ اگر ہم مغرب کی مثال لیں تو وہاں تاریخ کے کام یاب گولفر ٹائیگر وڈزورتھ، ہالی وڈ ادا کار مائیکل ڈگلس بھی جنسی لت کا بری طرح شکار رہے۔ مگر انہوں نے اس لت سے نجات پانے کے لیے خاص طور پر بنائے گئے مراکز میں داخلہ لیا اور اس کے مثبت اثرات سامنے آئے۔

افسوس کا مقام ہے کہ مودی حکومت جہاں ایک طرف ’’بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ‘‘ جیسے اثر انگیز پروگرام دینے اور اس کا جم کر پرچار کرنے سے نہیں تھکتی۔ وہاں بولی وڈ میں ’’می ٹو‘‘ جیسے سیلاب کے آنے پر با لکل خاموش بیٹھی تماشا دیکھ رہی ہے۔

About حسین جاوید افروز 84 Articles
حسین جاوید افروز جیو نیوز سے وابستہ صحافی ہیں۔