صبحِ طفلی ہے بڑھاپا میرا، مگر پڑھاپا گزرے کیسے

Yasser Chattha
یاسر چٹھہ

صبحِ طفلی ہے بڑھاپا میرا، مگر پڑھاپا گزرے کیسے

از، یاسر چٹھہ

(برٹرینڈ رسل کے مضمون How to Grow Old کا اخذ و ترجمہ، اسمِ واحد متکلم ہی رکھا گیا ہے۔ برٹرینڈ رسل نے یہ مضمون اپنی عمر کے 81 ویں برس میں لکھا۔)

اس مضمون کا میرا عنوان بھلے جو کوئی بھی ہو مگر اس سے میرا مطلب یہی ہے کہ کیسے خود کو بوڑھا نہیں ہونے دینا؛ عمر کے جس حصے میں، مَیں ہوں یہ موضوع اور زیادہ اہمیت پکڑ لیتا ہے۔

اس سلسلے میرا پہلے پہل کا مشورہ تو یہی ہے کہ اپنے آباء و اجداد تگڑے حاصل کرو؛ گو کہ یہ مشورہ دیتے ہوئے میں تھوڑا عجیب سا بھی لگ رہا ہوں۔ میرے اپنے ماں باپ جواں سالی ہی میں گزر گئے تھے۔ مگر حالات اتنے بھی ماٹھے نہیں تھے بھئی؛ میرے باقی کے آباء و اجداد نے اس بابت میری لاج رکھی ہوئی ہے، ان کی باری میں نے حالات سے مار نہیں کھائی۔

اس سچ کے ماننے میں بھی کیا حرج ہے کہ میرے نانا جان بھی اپنی کِھلتی جوانی کے دنوں میں ہی گزر گئے تھے، یعنی یہ پھول کِھلا ضرور مگر کِھل کر مسکرا نہ سکا، اپنی لطافت کی داد پا نہ سکا۔ نانا جان سڑسٹھ برس کی عمر میں ہی دنیا کو الوداع فرما گئے۔

یہ جو میں نے اپنے نانا جان کی عمر بتائی ہے اس سے پنجابیوں کو گنتی کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ اس کی گنتی درست کرانے کے لیے بندیال، اعجاز الاحسن اور منیب اختر کے پاس نہ چلے جانا، سڑسٹھ کا مطلب ہوتا ہے تِن وِیاں تے سَت یا پھر تِن گھٹ ستّر کہہ کر سمجھ لو۔

اگر گنتی کا مسئلہ سمجھ میں آ گیا ہو تو بتاتا چلوں کہ میرے باقی کے تینوں اجدادی رشتے یعنی میری نانی، میری دادی، اور میرے دادا اسّی کے پیٹے سے گزر کر دنیا سے گزرے۔

portraits from memory russell
Portraits from Memory and Other Essays

اپنے کچھ دُور کے اجداد میں سے ہی ایک اور بھی تھے جن کے بارے میں میری تحقیق اور دریافت نے نا مساعد سی خبر دی؛ مطلب کہ وہ بھی کوئی زیادہ طویل عمر نا پا سکے۔ میرے یہ جدِّ عزیز اس عارضے کا شکار ہوئے جو اب بہ فضلِ عقلِ تعالیٰ کم کم ہی نظر میں آتا ہے۔

(قبلہ رسل صاحب! آپ کی عزت کرتا ہوں، پر تاریخ کو مسخ نہ کریں؛ خلافِ شرع بات نہ کریں، اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمارے اپنے برادر اسلامی ملک سعودی عرب اور غریب محلے دار افغانستان میں گردنیں اڑانے کا یہ معاملہ ابھی بھی چلتا ہے۔ ہمارے دیس کا چاکلیٹ سپریڈ لبرل پھانسی دو، پھانسی دو کا ٹوسٹ کرتا ہے، اور انڈیا، پاکستان کی جھڑپ ہونے پر آنکھوں میں خون لے آتا ہے۔ ادارہ کو آپ کی اس بات پر شدید اعتراض ہے۔)

میری ایک پڑدادی جو Decline and Fall of the Roman Empire کے مصنف ایڈورڈ گِبن، Edward Gibbon، کی دوست بھی رہیں، انھوں نے بانوے برس کی عمر پائی؛ اور کیا کہوں کہ اپنے آخری دن اور اپنی آخری سانس تک اپنی اَگلی نسل کے لیے رعب اور دبدبے کا نشان رہیں۔

میری نانی سے نو بچے پَل کر جوان ہوئے؛ ایک ایامِ طفولیت میں وفات پا گیا، اور ان کے کتنے ایک سارے حمل ضائع بھی ہوئے۔ لیکن ان ساری پیدائشوں، نیم پیدائشوں اور وفاتوں کو جھیل کر جب وہ بیوہ ہوئیں تو انھوں نے خواتین کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کا بِیڑہ اٹھا لیا۔ میری یہ نانی گَرٹن کالج Girton College کے بنیاد گزاروں میں شامل تھیں۔ آپ نے ہی خواتین کے میڈیکل پروفیشن میں داخلے کے دروازے کھولے۔

(اور رسل صاحب اس وقت سے آج تک ہمارے یہاں پاکستان میں لڑکیاں میڈیکل میں داخلے کے چکر میں اپنی عمریں اور بال گَنوا دیتی ہیں۔ کتنی ساری ہیں جو ڈاکٹری کی ڈگری لے کر خاتونِ خانہ کا عہدہ تھامنے کے لیے بٹھا دی گئی ہیں۔ ان کے گھر کے مردوں کی عقل کے سر کے بال جھڑ گئے ہیں۔ نانی سے بات ہو تو انھیں یہ حالات بتائیے گا، ادارہ آپ کا شکر گزار ہو گا۔)

ہماری یہ نانی خاندان کے ہم بچے لوگوں کو بتایا کرتی تھیں کہ اٹلی میں ان سے کس طرح ایک معمر آدمی سے ان کا آمنا سامنا ہوا۔ یہ بزرگ مغمُوم سے نظر آتے تھے۔ نانی نے ان بزرگوں سے دریافت کیا بھئی آپ کیوں ایسے غمگین سے نظر آ رہے ہیں؟

اداس نظر آنے والے بزرگ بولے کہ ان پر انھی دنوں میں اپنے دو نواسوں کی جدائی غم کا پہاڑ بن کر ٹوٹا ہے۔

“اوہ خدائے پاک! مولا خوش رکھے میرے بہتّر نواسے نواسیاں ہیں۔ اگر ان بہتّر میں سے کوئی ایک گزر جائے اور میں اس غم میں خود کو سُکھانے لگ جاؤں، سوکھ کر کِشمش بن جاؤں تو پھر میرا جینا اور میری جِندڑی تو گئے بھاڑ میں…” میری نانی اُن نواسوں کے گزر جانے کے غم میں چھوہارا ہوتے بزرگ کی بات سن کر اچنبھے سے بولیں۔

غم میں گُھلتے وہ بزرگ بولے، “آہ، مادرِ فطرت و قدرت!”

ان بہتّر نواسے نواسیوں میں سے ایک نواسے کے قدرتی کردار کے طور پر مَیں ان کے فارمولے کو پلّے سے باندھ لینے کا حامی و ناصر تو نہیں، مگر حامی ہوں۔

اسّی برس کی عمر میں پہنچِیں تو اُنھیں احساس ہوا کہ اُنھیں اب کم خوابی نے آن لیا ہے۔ انھوں نے اس کا حل یہ ڈھونڈا کہ انھوں نے رات کے بارہ بجے سے صبحِ صادق کے تین بجے تک با قاعدگی سے پاپولر سائنس کا مطالعہ شروع کر دیا۔

میرا نہیں خیال کہ ان کے ذہن میں کبھی یہ خیال بھی پھٹکا ہو گا کہ وہ بوڑھی ہو رہی ہیں؛ ان کے پاس ایسے کسی خیال کے لیے وقت ہی نہیں بچتا تھا۔ میرے خیال میں جوان رہنے کا یہ بہترین طریقہ ہے۔ اگر آپ کی دل چسپی کی باتیں، موضوع متفرق رنگوں کے ہوں اور ان دل چسپیوں کے تقاضوں کو نبھانے کا یارا ہو تو کوئی فکر کی بات نہیں بچتی۔ بس پھر آپ یہی سمجھیں کہ عمر اور گزرے سال بس حسابی گنتی کے اعداد کے سوائے کچھ بھی نہیں، آپ کا عَدُو نہیں۔ جب گزری عمر اور بیتے برس بے معنی حسابی ہندسے ہی ہیں تو پھر مستقبل کی، باقی کے بچے برسوں کی ممکنہ تنگ دستی کا، پیچھے کیا مطلب ہی کیا بچا؟

اب رہی صحت اور تن درستی کی بات تو کیا کہوں اس معاملے پر میرا تجربہ صفر برابر ہے؛ اس متعلق آپ کے سُود کا سودا میرے پاس نہیں۔ مجھے جو من بھاتا ہے وہ کھاتا ہوں، پیتا ہوں؛ اور اس وقت سو جاتا ہوں جب اور جاگنے کا یارا نہیں رہتا۔ میں کبھی کوئی چیز اس لیے نہیں کرتا کہ یہ فُلانی چیز صحت کے لیے اچھی ہو گی، مگر جو جو چیزیں اور کام میں کر رہا ہوتا ہوں وہ عام طور پر صحت مندانہ ہی ہوتے ہیں۔

جب عمر کچھ بڑھ جائے تو نفسیاتی طور پر دو چیزوں کے متعلق محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ خواہ مخواہ ماضی میں نہیں کُھبے رہنا؛ یادوں میں وقت گزاری کرنے سے گزارا نہیں چلتا، اچھے گزرے دنوں کی حسرت میں خود کو جلانا کیا، اور گزر چکے دوستوں کی غم میں گُھلنے رہنے سے کیا بنتا ہے۔ خیال رہنا چاہیے تو مستقبل کی ان چیزوں کی طرف جو ابھی کرنی باقی ہیں۔

یہ کہنے کو کہہ تو رہا ہوں، مگر ایسا کرنا کبھی بھی اتنا آسان کام نہیں ہوتا۔ ہمارا گزرا وقت آہستہ آہستہ ہمارے اوپر لدا بوجھ بنتا جاتا ہے۔ اپنے من کے اندر ہی اندر سوچنے میں تو آسانی ہے، کوئی خاص بات نہیں کہ کبھی آپ کے جذبات اور احساسات زندگی سے بھر پُور تھے، اور کبھی آپ کا دِماغ بھی ہمہ دَم زور آور اور پُھرتیلا تھا۔ اگر یہی حقیقت تھی تو اسے بھولنا اچھا، اور اگر یہ بھول چکا تو شاید یہ سِرے سے حقیقت تھی ہی نہیں۔

ایک اور بات یاد رکھنے کے قابل ہے۔ جوانی سے صرف اس آس میں ہی چمٹے نہ رہیے کہ اس مُنھ زور طاقت سے لذت کا آخری قطرہ تک چُوس لینا ہے۔ جب آپ کی اولاد بڑی ہو جائے، وہ اپنی زندگی جینا چاہتی ہے، اور ما سوائے یہ کہ آپ کی اولاد از حد بے حِس نہ ہو، اور پھر بھی تم ان کے بَچپنے کی زندگی کی طرح ہی ان کی چوکی داری کرتے رہے، یا ان کے آس پاس منڈلاتے رہے تو وہ آپ کو اپنے اوپر بوجھ سمجھنا شروع ہو جائیں گے۔

میں ہر گز یہ نہیں کہتا کہ ان کی طرف سے مکمل مُنھ موڑ لو، بَل کہ اپنے بچوں کے بارے میں صرف سوچ بچار کی حد تک رہیں اور اگر ممکن ہو سکے تو ان کی مدد کر دیں، لیکن خواہ مخواہ جذباتی نہیں ہو جانا۔

جان ور اپنی اولاد سے اس وقت مُنھ موڑ لیتے ہیں جب وہ اپنا آپ سنبھالنے جوگے ہو جاتے ہیں۔ لیکن انسانوں کو ایسا کرنے میں مشکل پیش آتی ہے؛ وجہ یہ ہے کہ ان کی اولاد کی طفلانہ عمر زیادہ لمبے عرصے تک چلتی ہے۔

جہاں تک مجھے سمجھ آئی ہے عمر گزاری کو کام یابی سے بِتانے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جن کی اپنے ذاتی فائدوں سے بلند تر نوعیت کے مُناسب و متفرق مشغلے اور شغل ہوتے ہیں۔ اس معاملے میں طویل تجربہ بہت معاون ثابت ہوتا ہے، اور اسی معاملے میں تجربے سے حاصل شدہ فہم و ذکاوت بہترین استعمال میں لائے جا سکتے ہیں اور اس دوران آپ خواہ مخواہ کے سخت گیر کھڑُوس بھی محسوس نہیں ہوتے۔

جوان اولاد کو ان کی غلطیاں بتانے کا کوئی فائده نہیں ہوتا: ایک تو یہ ہے کہ وہ آپ کی بات پر اعتبار نہیں کر سکیں گے، اور دوسرا یہ کہ غلطیاں سیکھنے کے عمل کا لازمہ ہوتی ہیں۔

لیکن اگر آپ ایسے ہیں کہ آپ کی کوئی بالائے ذات دل چسپیاں نہیں ہیں تو آپ کی زندگی بالکل تہی دامن ہے؛ آپ کو لگے گا کہ آپ کی ساری زندگی آپ کی اولاد سے جُڑی ہے۔ اس کے بہ غیر یہ زندگی کچھ بھی نہیں۔ اس صورت میں یہی سوچیں کہ آپ انھیں کون سی مادی سہولتیں پیش کر سکتے، ان کی کچھ مدد کر دیں؛ پر یہ توقع مت رکھیں کہ وہ آپ کے ساتھ وقت گزارنے کو لطف سمجھیں، جانیں گے۔

کچھ معمّر لوگ موت کے خوف سے مرے مرے جاتے ہیں۔ جواں عمر لوگوں میں تو اس احساس کا کوئی جواز بھی بنتا ہے … مگر کسی معمّر انسان میں جب کہ وہ زندگی کے گرم سرد کو دیکھ چکے، اور جس قابل وہ تھے اسے وہ اپنی بساط میں نبھا چکے تو ان سب چیزوں کی بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ ایسی صورت حال میں موت کا خوف پست اور حقیر درجے کی ہی کوئی چیز لگتی ہے۔

اگر مجھ سے پوچھیں تو اس کیفیت پر قابو پانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ آہستہ آہستہ اپنی دل چسپی کے موضوع وسیع تر کرتے جائیے اور یہ موضوعات اور دل چسپیاں اپنی ذات کی حدوں سے بالا درجے کی ہوں، حتیٰ کہ اناء کی دیواریں آہستہ آہستہ مُنہدِم ہوتی جائیں؛ اور آپ کی زندگی آفاقیت کے رنگوں میں رنگتی جائے۔

کسی فرد کا وجود دریا کی مانند ہو تو کیا کہنے۔ یہ دریا شروع میں چھوٹا سا ہوتا ہے، اپنے کناروں کے اندر سِمٹا ہوتا ہے؛ پھر پوری تُندی تیزی سے چٹانوں سے اور آب شاروں سا گزرتا ہے۔ آہستہ آہستہ دریا چوڑا اور کُھلا ہوتا جاتا ہے۔ اس کے کنارے ختم ہوتے جاتے ہیں۔ اب پانی دھیرج سے چلتا ہے، اور یونھی چلتے چلتے آخر پر دریا اپنا پورا وجود سمندر کو سونپ دیتے ہیں؛ دریا سمندر کو اپنا آپ سونپتے وقت کوئی آہ نہیں کرتے، کراہتے نہیں، کوئی شور و غُل نہیں کرتے۔

ان برسوں میں کہ جب ضعیفی آن پہنچی ہو، جو لوگ اور فرد اپنے آپ کو ایسا دریا صفت کر لیتے ہیں اور ایسے ہی دیکھتے ہیں، تو انھیں پھر موت کا نہ کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ ہی ڈر؛ وجہ یہ ہے کہ وہ چیزیں جو اس کی من پسند کی چیزیں ہیں وہ تو ایسے ہی چلتی جاتی ہیں، ایسے ہی چلتی جائیں گی؛ دنیا نہیں رکتی۔

اور جب سے زندگی کا بَھرا پُرا پن وقت کے ساتھ آمادۂِ زوال محسوس ہونا شروع ہو جائے تو مرنے کو آرام سمجھ لینا بھی کوئی کم اہم بات تو نہیں۔

میری تو اپنی تمنا ہے کہ موت آئے تو صحت و تن درستی اور اپنے کاموں کے کرنے کے دوران آئے؛ یہ یقین جاتے دَم ساتھ ہو کہ جو جو کام کر رہا تھا، پورے نہ کر پایا، ان کو دوسرے لوگ جاری رکھیں گے؛ اور اس بات کا اطمینان ہم راہ ہو کہ میں جو کر سکتا تھا وہ کر چکا ہوں۔

How to Grow Old from Portraits from Memory and Other Essays by Bertrand Russell

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔