بھارت میں مذہب کے سیاسی استعمال کی جِہتیں

بھارت میں مذہب کے سیاسی استعمال کی جِہتیں

بھارت میں مذہب کے سیاسی استعمال کی جِہتیں

از، عادل فراز، بھارت   

ہندوستان میں انتہا پسندی اپنے عروج پر ہے۔ رنگ و نسل اور قوم و قبیلے کی بنیاد پر برتی جانے والی تفریق کو زوال نہ سہی مگر اس تفریق میں کچھ ٹھہراؤ ضرور آیاہے ۔اس کے برعکس مذہب اور فرقوں کی بنیاد پر جنم لینے والے منافرانہ ماحول نے سماج پر غلبہ حاصل کرلیاہے ۔اس کی بنیادی وجہ مذہب کا سیاسی استحصال ہے ۔فرقہ پرست طاقتوں نے مذہب کو آلہ کی طرح استعمال کرنا شروع کر دیا ہے جیساکہ پہلے بھی ہوتارہاہے مگر آج اس استعمال نے جنون اور دہشت گردی کی شکل اختیار کرلی ہے۔

مذہب کے نام پر استعمال ہونے والے افراد کو اس حقیقت کا علم بھی نہیں ہو پاتا کہ کب وہ انتہاپسندی کی راہ پر چلتے چلتے دہشت گرد بن جاتے ہیں اور سماج و معاشرہ کے لیے ناسور ۔یہ صورتحال ہر مذہب اور قوم میں سرایت کرتی جارہی ہے ۔ہندو ؤں کو مختلف حیلوں اور بہانوں کے سہارے متشدد کیا جارہاہے اور مسلمانوں کی ناقص تعلیم کا فائدہ اٹھا کر شدت پسندی کی راہ پر دھکیلا جا رہا ہے۔ اس وقت ہمارے ملک میں مذہب کو سیاست کے حصول کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے اور مذہب چند انتہا پسند تنظیموں کے ہاتھوں کا کھلونا بن کر رہ گیا ہے۔ روشن خیالی کے عذاب میں مبتلا مہذب سماج کے افراد یا تو خاموش تماشائی ہیں یا پھر اس انتہا پسندی کے بنیادی نظریات کے حامی ہیں۔ مختصر یہ کہ سماج خطرناک دوراہے پر کھڑاہے جہاں ایک طرف انتہا پسندی کا عِفریت ننگا ناچ کر رہا ہے اور دوسری طرف روشن خیال اور سیکولر طبقہ انسانیت کے قتل پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔

انتہا پسندی کیاہے؟

بظاہر انتہا پسندی کا تعلق میدان سیاست سے رہاہےمگر آج انتہا پسندی زندگی کے ہر شعبہ میں داخل ہوچکی ہے ۔ چونکہ آج سرمایہ دار اور حکمراں طبقہ سیاسی حیلہ گری سے زیادہ مذہب کی آڑ میں سیاسی شعبدہ بازی کا حامی ہے اس لیے انتہا پسندی سیاسی طبقہ سے زیادہ مذہبی طبقہ میں حلول کرگئی ہے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی سیاسی انتہا پسندی سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ سیاست کی فریب کاریوں اور نظریاتی تحفظات کو سمجھنا گوکہ آسان نہیں ہے مگر پھر بھی عام انسان سیاست مداروں کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا ۔سیاسی شعبدہ بازی اور سیاست مداروں کی عیاریوں سے ایک زمانہ واقف ہے ۔مگر اس واقفیت کے بعد بھی عوام سیاسی پروپیگنڈہ کا شکار ہوتی ہے اور اپنی معلومات پر غفلت اور لاعلمی کا کفن ڈال لیتی ہے۔

مذہب کا معاملہ سیاست سے قدرے مختلف ہے ۔مذہب کچھ لوگوں کے لیے منفور ہوسکتاہے مگر دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی مذہب، مذہبی رہنماؤں اور ان کے نظریات کی پابند ہوتی ہے ۔یہ رہنما مذہب کی ترقی اور بقا کے لیے عوام کے جذبات کا استحصال کرتے ہیں کیونکہ جس مذہب کی ترقی اور بقا کے لیے وہ جدو جہد کررہے ہوتے ہیں در اصل ان کے یا ان جیسوں کے ذاتی نظریات پر مشتمل مذہب ہوتاہے جسے عوام پر تھوپنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔اصل مذہب صرف کتابوں اور مسودوں میں قید ہوتاہے جس کی حقیقت عوام کے سامنے آشکار نہیں کی جاتی ۔در اصل یہ طبقہ عوام کو مذہبی جارحیت اختیار کرنے پر مجبور کرتاہے تاکہ سیاست اورسماج میں اپنی ساکھ کو برقرار رکھ سکے یا میدان سیاست میں اپنے مفاد کے لیے تگ و دو کرسکے ۔چونکہ مذہب ایک مقدس نظام کا آئینہ دار ہوتاہے اس لیے عوام مذہبی رہنماؤں کو بھی مقدس سمجھ لیتے ہیں اور ان کے پروپیگنڈہ کے شکار ہوجاتے ہیں۔

انتہا پسندی در اصل ایک نظریہ ہے ۔ایسا نظریہ ’’جواپنی طرز میں اڑیل ہو اور اپنے مخالف کو بغیر دلیل اورنظریے کو سمجھے بغیر ہی رد کردے‘‘۔علم نفسیات میں انتہاپسندی سے مراد ’’کسی رویے کا مسلسل اظہار ہے جو عام طرز سے مقدار اور معیار میں بڑھتا ہوا دکھائی دے ‘‘۔ اس نظریہ کو میدان سیاست سے زیادہ اس وقت مذہب کے میدان میں استعمال کیا جارہاہے ۔یہی نظریہ عوام کو شدت پسندی اور دہشت گردی کی طرف لے کر جارہاہے ۔ چونکہ مذہب کی آڑ میں انسان کا استحصال بہت آسان ہوتاہے اس لیے مذہبی شعبدہ بازوں کے سیاسی بازی گر بھی مذہبی لبادہ اوڑھ کر نوجوانوں کو شدت پسندی اور دہشت گردی کی راہ پر ڈال رہے ہیں۔ دنیا میں دہشت گردی کا فروغ در اصل سیاسی و مذہبی انتہا پسندی کے فروغ کی دین ہے۔ علمائے نفسیات نے اس نظریہ کو ’’تہذیبی نرگسیت ‘‘کا نام دیاہے۔

اختلاف رائے

انسانوں میں اختلاف رائے ایک فطری جذبہ ہے۔ اس جذبہ کی مذمت نہیں کی جاس کتی کیونکہ اختلاف رائے ایک صحت مند رائے کو استوار کرتی ہے ۔نظریوں کا اختلاف فکری اختلاف کو جنم دیتاہے اور فکری اختلاف انسان کو تحقیق کے میدان میں عرق ریزی پر ابھارتاہے۔ تحقیق انسان کو ایک صحت مند نظریہ کی طرف لے جاتی ہے۔ ایسا نظریہ جو سماج اور معاشرہ کے لیے کارآمد اور صحت مند سماج کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتاہے ۔صحت مند اختلاف کے لیے لازم ہے کہ وہ زندہ موضوعات پر ہو اور نتیجہ خیز بھی ہو۔ اختلاف اور عداوت میں بال کے برابر حدفاصل ہوتی ہے جسے ارباب نظر سمجھتے ہیں مگر صاحبان سیاست اور کم نظر علمائے مذہب اس حد فاصل کو جان بوجھ کر نظر انداز کرتے ہیں تاکہ اپنے مفاد کو حاصل کرسکیں۔

سیاست اور مذہب دونوں جگہ اختلاف رائے کو مذموم تصور نہیں کیا گیا ہے بلکہ نظریاتی اختلاف کو علمائے سیاست و مذہب نے بہت اہم قرار دیاہے ۔ آج دنیا میں جتنی بھی ترقی ہمارے سامنے ہے اس کی بنیادی وجہ نظریوں اور آراء کا اختلاف ہے اور اس اختلاف کے بعد جو نئی تحقیق ہوتی ہے وہ نئی ترقیاتی راہوں کو ہموار کرتی ہے ۔یہ اختلاف اس وقت خطرناک شکل اختیار کرلیتاہے جب انسان اس فکری و نظریاتی اختلاف کو ذاتی اختلاف سمجھ لیتاہے اور اس اختلاف کو ایک پروپیگنڈہ کی شکل دیدیتاہے۔ یا ایک نظریہ کو اس طرح رد کردیا جائے کہ اس کے دلائل پر بھی غور و خوض نہ کیا جائے۔خطرناک ترین صورتحال اسی ماحول کی کوکھ سے جنم لیتی ہے اور ایک انسان پوری انسانیت کو گمراہی کی راہ پر ڈال دیتاہے۔

منصفانہ رویوں سے بِرات

ہم ایک دوغلے سماج میں زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔ ایسا سماج جو غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنے کی جرات نہیں رکھتا۔ غیر متوازن رویوں کی تشکیل اسی وقت عمل میں آتی ہے جب معتدل طریق کار کو چھوڑ کر سماج غیر منصفانہ رویوں کا دلدادہ ہوجاتاہے ۔ہم نظریاتی انتہا پسندی کو صحت مند افکار سے باطل نہیں کرتے بلکہ مزید انتہا پسندی کی حمایت کرتے ہیں۔ہمارا مزاج یہ ہے کہ اگر کوئی ہمارے نظریہ ،تہذیب یا مذہبی نقطۂ نگاہ کی تردید کرتاہے یا مخالفت کرتاہے تو ہم برانگیختہ ہوکر ’’قومی بیداری‘‘ کے نام پر اس کے خلاف میدان میں آجاتے ہیں۔ردعمل کے طورپر ہم بھی وہی سب کچھ انجام دیتے ہیں جس کے خلاف ہم احتجاج کررہے ہوتے ہیں۔دراصل یہ بھی انتہاپسندی کی غیر مرئی شکل ہے جس کا احساس دیر سے ہوتاہے ۔اس انتہا پسندی کا شکار پورا سماج ہے ۔اگر ہم اپنے عقائد و نظریات اور مذہبی آئین کو دوسروں پر تھوپنے کی کوشش نہ کریں تو حالات کو متوازن کیا جاس کتاہے ۔ایک انسان پورے سماجی نظام کے خلاف کھڑ ا ہوجاتاہے اور کبھی پورا سماج ایک انسان کے نظریات کے خلاف میدان عمل میں ہوتاہے ۔قانون کی بالا دستی اور آئین کے مطابق عمل کرنے کو ہم اپنی کمزوری تصورکرلیتے ہیں جس کے نتائج اچھے نہیں ہوتے ۔اگر برسراقتدار طبقہ بلاتفریق اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرے اور آئین کے مطابق حقوق ادا کیے جائیں تو مسائل کا خاتمہ ممکن ہے مگر غیر منصفانہ طریق کار نے سماج کو حق چھیننے کے فلسفہ پر عمل کرنے کا جواز دیدیاہے ۔یعنی ایسا سماج جہاں ہر انسان حاکم ہے اور اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرتاہے۔

انتہا پسندی دہشت گردی کا مقدمہ

اکثر ہم سوچتے ہیں کہ آخر ایک انسان کسی دوسرے انسان کی جان کیسے لے سکتاہے جبکہ وہ اس سے متعارف بھی نہیں ہوتا اور نہ بظاہر ایک دوسرے سے ان کے مقاصد اور مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔ایک انسان ہزاروں لاکھوں افراد کو بغیر کسی ظاہری عداوت اور اختلاف کے موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے ۔اس جفا کشی پر نہ وہ نادم ہوتاہے اور نہ احساس جرم کرتاہے؟ اس کی بنیادی وجہ انسانوں میں بڑھتا انتہا پسندی کا رجحان ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسانوں کے قتل پر آمادہ کردیتاہے ۔ایک انسان جو نظریاتی انتہا پسندی کا شکار ہوتاہے آہستہ آہستہ فکری سطح پر وہ اپنی تمام تر توانائی صرف کرنے کے بعد بھی اس نتیجہ پر نہیں پہنچ پاتاکہ صحیح و غلط میں کیا فرق ہوتاہے ۔یہی فکری تنزلی اسے دہشت گردی کی طرف لیجاتی ہے اور ایک فکری سطح پر معزول انسان ان تمام افراد کی موت کا ذمہ دار بن جاتاہے جن کے انفرادی افکار و نظریات کا سے علم بھی نہیں ہوتا۔

مختلف طبقات میں مذہبی کشمکش کا ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے ۔صدیوں سے یہ روایت چلی آرہی ہے۔ مگرافسوس ناک امریہ ہے کہ تشدد کو جذبات سے منسلک کردیا جاتاہے۔ وہ معاشرہ جن کے درمیان عقائد کی بنیاد پر کشیدگی پائی جاتی ہے ان کی باگ ڈور مذہبی رہنماؤں کے ہاتھوں میں آجاتی ہے جس سے پر امن مکالمے اور مہذب رویوں کی جگہ قتل و غارت گری آجاتی ہے اور اکثریتی طبقہ جو علمی موشگافیوں سے ذرا بھی واقف نہیں ہو تا اسے نفرت وتعصب کی بنیاد بنا لیتا ہے۔ دہشت گردی کے پیچھے کوئی بھی سوچ یا نظریہ کا فرما ہوسکتا ہے۔ عقاید کی ترویج کے نام پر ہونے والے جہاد، فاشزم کی آڑ میں ہونے والی جنگیں، نظریاتی تبدیلی کے نام پر برپا ہونے والے انقلابات اور کشور کشائی اور فتوحات کے نام پر دنیا بھر کے حملہ آوراور جنگجوؤں کی قتل و غارت، لوٹ مار، آبرو ریزی اور سروں کے مینار بنائے جانے کے عمل، طاقت کے حصول یا معاشی اور سیاسی اثرو رسوخ حاصل کرنے کی خاطر لڑی جانے والی براہ راست یا بالواسطہ جنگوں کو میرے خیال میں دہشت گردی کے علاوہ کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔

وہ انتہا پسندی جو انسان کو دہشت گردی کی طرف لے کر جارہی ہے اس کے بظاہر تین عوامل ہیں

1۔مذہب اور فرقے کی بنیاد پر وجود میں آنے والی انتہا پسندی۔ ہندوستان کے علاوہ دنیا بھر میں اس صورتحال کا سامنا ہے ۔

2۔ قومیت اور علاقے کی بنیاد پر جنم لینے والی انتہا پسندی۔ جیساکہ سیاہ فاموں اور مغربی ملکوں میں مسلمانوں کے تئیں رویے سامنے آئے ہیں۔ ہندوستان میں بھی اس مسموم فکر کے شکار افراد کی اکثریت ہے۔

3۔ نسلی اور سیاسی غلبہ کے حصول کیلیے – جیسا کہ حالیہ دنوں میں ’’ہندتوؤ‘‘ کو بنیاد بناکر ملک کی فضا کو زہریلا بنادیا گیاہے۔

ان تین بنیادی وجوہات کے علاوہ بھی دیگر وجوہات ہوسکتی ہیں مگر دنیا میں انتہا پسندی کے جتنے بھی واقعات رونما ہورہے ہیں اور وہ انتہا پسندی جو انسان کو دہشت گرد بنارہی ہے ان تین نظریوں میں سے کسی ایک نظریہ کی بنیاد پر ہی وجود میں آتی ہے۔ زبان کے جھگڑے ، علاقائی تعصب ، رنگ و نسل کے امتیازات ، مذہب اور فرقوں کی نظریاتی کشمکش اور سیاسی غلبہ حاصل کرنے کی ہوس نے دنیا کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیاہے مگر ہم اپنی کوتاہیوں اور جہالت کا اعتراف کرنے کے بجائے کسی ایک انتہاپسند طبقہ کی حمایت میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے لگ جاتے ہیں۔

ہم کس طرف جارہے ہیں:

ہندوستان کا موجودہ سماج تیزی سے شدت پسندی اور مذہبی جنون کی طرف بڑھ رہاہے ۔ایسا سماج جہاں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے ۔خواہ وہ سیاست مدار ہو یا مذہبی مقدس افراد۔ہر طرف انتہا پسندی کا عروج ہے ۔ایسا سماج وجود میں آچکاہے جو اپنے نظریات و افکار کو جبراَ تسلیم کرانے یا اپنی سوچ کے خلاف سوچنے والے افراد کو زندہ رہنے کا حق نہیں دیتے ۔اس کی بنیادی وجہ ہمارے معاشرہ میں ’’عدم برداشت ‘‘ کا بڑھتا ہوا رجحان رواداری کاختم ہوتا ہوا ماحول ہے ۔

نظریاتی طورپر مفلوج انسان فکشن کو حقیقت کا روپ دے دیتا ہے اور حقیقت اس کے لیے فکشن بن جاتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں خطرناک صورتحال جنم لیتی ہے جو سماج و معاشرہ کے لیے مہلک بن جاتی ہے۔ ہمارا سماج یوں توروشن خیالی کا دعوے دار ہے مگر ہر طبقہ کے افراد میں تحمل کا جذبہ ناپید ہے ۔عدم برداشت کے ماحول نے انتہا پسندی کو فروغ دیاہے۔ یہ سماج کبھی جانوروں کے مذہبی تقدس کے نام پر انسانوں کا بے دریغ خون بہا دیتا ہے اور کبھی سیاست مداروں کے ورغلانے پر ’’لَو‘‘ کو جہاد کا نام دے کر قتل کے جواز تلاش کرتاہے۔ اگر ہم اس صورتحال سے نپٹنے میں ناکام رہتے ہیں اور برسر اقتدار طبقہ یا دیگر جماعتیں اور تنظیمیں اسی طرح مذہب کو سیاسی مفاد ات کے حصول کے لیے استعمال کرتے رہے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ ایوان سیاست اور مذہبی عبادت گاہوں میں دہشت گردوں کے ٹولےنظر آئیں گے۔ بہتر ہوگا کہ ہم اپنے نظریات کو اپنی ذات تک محدود رکھیں اور مذہب کے سیاسی استعمال کو ختم کرنے پر مضبوط لائحۂ عمل ترتیب دیں۔