اپنا خود کو پرسہ دو

Nasim Syed aik Rozan
نسیم سید، لکھاری

اپنا خود کو پرسہ دو

نسیم سید

ہم نے انگریزی بولنا سیکھ لیا۔ بڑے فخرسے بولتے ہیں۔ لباس، لہجہ، عادات اطوار، لٹریچر، اشیاء سب کچھ مغرب سے لے کے جیب میں رکھ لیا مگر کاش کہ زندگی کی کیا اہمیت ہے یہاں اس منظرکو آنکھوں اوردل میں بسایا ہوتا۔ اس سے کوئی سبق لیا ہوتا۔

گاڑی سے انسان تو انسان کسی جانور کی ٹکر ہوجائے تو ٹریفک رک جاتا ہے۔ جس کی گاڑی سے ٹکر ہو وہ رک کے فوراً ہیومین سوسائٹی کو فون کرتا ہے۔ زخمی جانور کا جانوروں کے اسپتال پہنچایا جاتا ہے۔ 911 ایمرجنسی سروس کا نمبر ہے ایک کال پر فائر بریگیڈ۔

پولیس کی گاڑی، اورہر طرح کی فوری ضرورت سے لیس ایمبولینس سیکنڈز موجود ہوتی ہے دروازے پر۔ فائربریگیڈ یا پولیس کی گاڑیاں حفظ ما تقدم کے طور پر ساتھ ہوتی ہیں۔

ایمبولنس کو راستہ نہ دینا جرم ہے۔ وہ ہوا کی طرح سڑک پردوڑتی ہے۔ ہاسپٹل میں ہر طرح کا انتظام اتنی دیر میں تیاررکھا جاتا ہے مریض کو ہاتھون ہاتھ لینے کا۔

مگر ہم جومغرب کی ہر ادا کے اسیر ہیں ان چیزوں کو سیکھنے سے معذور ہیں۔ ایک شاہانہ جلوس ہارے ہوئے جواری کا چل رہا تھا، گلا ب کی پتیاں نچھاور ہورہی تھیں۔ بھنگڑے ڈا لے جا رہے تھے اس میں ایک بچہ کچل کے مرگیا۔

تو مرگیا ہوگا کسی نے زحمت نہیں کی اس کی طرف الٹ کے دیکھنے کی۔ حسب دستور نامعلوم تھا وہ فرد جس نے اسے کچلا۔

یہ سانحہ یہ واقع کوئی نیا نہیں ہے۔ یہ جو قوم کے نام کا ایک جم غفیر ہے ایک غول ہے اس کی سزا قدرت نے مقرر کردی ہے اور عذاب کے طور پر یہ سیاست دان مقرر کردیے ہیں اس بھیڑ کے لیے۔ یہ ان کے لیے بھنگڑے ڈالتے ڈالتے اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے۔ جو کچھ بچا کھچا ہے یہ لٹیرے گدھ وہ بھی کھا پی کے اپنے کسی ایسے محل میں اپنی اولاد کو لے کے جا بسیں گے، جومغرب میں تعمیر کیے بیٹھے ہیں۔

دوستواپنا خود کو پرسہ دو۔ جاہل اور وحشی بھیڑمیں گھرکے اپناماتم کرو۔ تاریخ ہمارے حوالے سے کیا لکھ رہی ہے؟ ہم سب جانتے ہیں مگرمذہب کی تلوار سونتے جلاد ہمارے اطراف موجود ہیں وہ ہماری زبانیں تو کاٹ چکے ہیں سرقلم کرنے میں کب تاخیرکریں گے۔ ہمارے قلم دم بخود ہیں۔ ہماری سامنے ایک بچہ تڑپ تڑپ کے مرگیا مگر کیا لکھیں؟ کیسے لکھیں اس غم کو؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسی سلسلے میں ایک نظم ملاحظہ کیجیے:

سبھی نے حسبِ طبیعت خدا خرید لیا
پرانا ٹوک رھا تھا، نیا خرید لیا

یہاں وہ طفل کچل دے کہ روند ڈالے جوان
اجارہ دار نے ھر راستہ خرید لیا

ہم اپنا چہرۂ کم زیب کیا بدلتے میاں
یہی کِیا کہ نیا آئنہ خرید لیا

ہمیں خبر تھی کہ رستے کی رات لمبی ہے
سو آفتاب کو بیچا، دِیا خرید لیا

کسی بھی طور نہ بھرتا تھا زخمِ دیدہ وری
عقیدہ خرچ کیا، معجزہ خرید لیا

ہمارا کیا ہے کہ ہم ہیں ازل سے خاک نشیں
تمہیں بٹھانے کو اک بوریا خرید لیا

اگر قصیدہ نہ کہتے تو بے نشاں رہتے
سخن فروخت کیا، مرتبہ خرید لیا

عارف امام

(نظم کا انتخاب از مدیر ایک روزن)