اکڑ بکڑ بمبے بو

Masoom Rizvi
معصوم رضوی

اکڑ بکڑ بمبے بو

از، معصوم رضوی

پاکستان میں کالا دھن سفید کرنے پہلے بھی کئی بار کوشش ہوئی ہے مگر ہر بار مُنھ کی کھانی پڑی، کیونکہ کالے دھن والے آپ سے زیادہ اسمارٹ ہیں۔ اب عباسی صاحب کہتے ہیں صرف دو فیصد دو اور اٹھانوے فیصد کو سفید کر لو، بھائی میری بات مانیں ہونا کچھ نہیں، بس جاتے جاتے حکومت اکڑ بکڑ بمبے بو کھیل رہی ہے، یہ کھیل تو آپ نے بھی بچپن میں کھیلا ہو گا، کبھی کوئی نتیجہ نکلا۔ علامہ گوگل حکومتی اسکیم پر چراغ پا تھے ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ از خود نوٹس لیکر حکومت کو وہ سب کچھ کہہ ڈالیں جو آج کل صرف عدالتوں کی صوابدید تصور کیا جاتا ہے۔

علامہ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے میں نے عرض کیا کہ حضور حکومت پر ہتک ٹیکس کا مقدمہ چلانا ہے تو اور بات ہے ورنہ ٹیکس دینے والی قومیں ہی ترقی کرتی ہے، بس علامہ تو پھٹ پڑے، کہنے لگے یہ خوب کہا آپ نے، کیا آپ کو پتہ ہے کہ پاکستانی ٹیکس کیوں نہیں دیتے؟ موڈ کا اندازہ کرتے ہوئے کچھ کہنا مناسب نہ تھا صرف کندھے اچکا کر رہ گیا، گھمبیر آواز میں گویا ہوئے عوام کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری مگر آپ کو پرائیوٹ سیکیورٹی گارڈ رکھنے پڑتے ہیں۔

تعلیم کے لیے آپ کو پرائیوٹ اسکولوں کی ہولناک فیسیں اور من مانے نخرے، صحت کے لیے نیم ڈاکٹروں کو بھاری بھرکم فیسیں اور ہوشربا ٹیسٹ، صاف پانی پینا ہو تو منرل واٹر، بجلی کے بلوں کے بدلے لوڈ شیڈنگ، گیس سے محروم ٹھنڈے چولہے، گٹروں سے ابلتی خوشبودار غلاظتیں، سڑکوں کے مدوجزر، معاف کیجیے گا اس کے بعد ٹیکس مانگنے والے کی وہی سزا ہونی چاہیے جو مسولینی کو دی گئی تھی۔

ڈرتے ڈرتے عرض کیا علامہ میری تنخواہ سے تو ہر ماہ ٹیکس کٹتا ہے، تو بولے بھیا پھر دوسروں کی زندگی کیوں خراب کرتے ہو، پاکستان میں صرف تنخواہ دار طبقہ ہی ٹیکس دیتا ہے، کیونکہ کاٹ لیا جاتا ہے ورنہ باقی سب تو صرف وہ پندرہ فیصد سیلز ٹیکس ادا کرتے ہیں جو سمدھی اعظم قوم کے گلے میں ڈھول کیطرح باندھ چکے ہیں۔

بُھنویں چڑھا کر بولے جن قوموں کی آپ بات کر رہے ہیں ناں، وہاں نہ یہ سب ہوتا ہے اور نہ ہی سمدھی وزیر بنتے ہیں۔ انہیں یقین ہوتا ہے کہ ٹیکس سیاستدان اور ایف بی آر ہڑپ نہیں کرے گا، عوام پر لگے لگا۔ تو میں نے پوچھا کہ آپ کے خیال میں یہ اسکیم ناکام ہو گی، کہنے لگے آپ کو کوئی شک ہے، حکومت کے اب دن ہی کتنے بچے ہیں، بتا تو چکا ہوں کہ بس اکڑ بکڑ بمبے بو کا معاملہ ہے۔

پھر خفیہ انداز میں بولے بھائی ابھی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے صرف گرے لسٹ میں شامل کیا ہے، جون میں فیصلہ ہونا ہے۔ آپ پر ویسے ہی الزام ہے کہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت روکنے کا کوئی ٹھوس طریقہ موجود نہیں، اگر یہ بھی ہو گیا تو سمجھیے بلیک لسٹ میں شامل ہونے سے صرف بابا بلیک شپ ہی روک سکتا ہے۔

میرے زانو پر ہاتھ مار کر بولے ارے بابا بلیک شپ پر یاد آیا، آپ نے بابا یحییٰ کو پڑھا ہے، ویسے یار کالا رنگ ان پر خوب کھلتا ہے، جٹا دھاری سفید زلفیں، سیاہ پیرہن اور خاموش پراسراریت انہی کوزیب دیتی ہے۔

میں نے کہا ہاں کتابیں اتنی مہنگی تھیں کہ دوست سے ادھار لیکر پڑھیں، پیا من کالا اور کاجل کوٹھا، نہایت دلچسپ اور معلومات سے بھرپور مگر یہ پتہ نہیں چلتا کہ روحانیت کہاں فکشن میں داخل ہو جاتی ہے اور کب لوٹ آتی ہے، آنکھ مار کر بولے یہی تو فن ہے، بابا یحییٰ حقیقت اور فکشن کی لائن کو اس کمال خوبی سے بریک کرتے ہیں کہ بس!

 میں نے کہا ہاں یہ تو ہے کہ تحریر گرفت میں لے لیتی ہے، بولے ان کی کتاب بابا بلیک شپ بھی ضرور پڑھیں، پھر یکایک بولے یار سلمان خان کو بھی تو کالا ہرن مارنے پر جیل یاترا کرنی پڑی، بھلا بتائیے یہ بھی کوئی قانون ہوا کہ ایک ہرن مارنے پر اتنے دبنگ ہیرو کو جیل بھیجا جائے، سلمان خان کو چاہیے پاکستان آ جائے، علامہ کا طنز سمجھتے ہوئے میں نے کہا ایسی بات نہیں سابق وزیر اعظم بھی تو ہر روز عدالت میں پیش ہوتے ہیں، قہقہہ لگا کر بولے ہاں مگر راؤ انوار کو پیش کرنے کے لیے منت ماننی پڑتی ہے اس سے آگے کی نوبت آئے تو معاملہ چلہ کشی تک پہنچتا ہے۔ علامہ سے جملہ بازی میں جیتنا ایسا ہی ہے جیسے عدالت میں پاناما کیس کی منی ٹریل ثابت کرنا۔

سگریٹ کا لمبا کش لیکر خیالی راکھ فضا میں جھاڑی اور مزے لیتے ہوئے بولے عباسی صاحب نے کالا دھن سفید کرنے کی جو اسکیم پیش کی ہے اس کا سب سے بڑا فائدہ تو بلوچستان اسمبلی کو پہنچے گا، شاید یہ انہیں سمجھ نہیں آیا ورنہ ۔۔۔۔ قہقہے کے ساتھ ایک اور زوردار ہاتھ میرے زانو کی جانب آیا تو میں اچھل کر دوسرے صوفے پر جا بیٹھا۔ میں نے کچھ تلخی سے کہا حضور پاکستان میں ایمنسٹی اسکیم کا کھیل نوے کی دہائی سے جاری ہے، ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں یہ کھیل کھیلتی رہیں نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔

ایف بی آر خوب ڈھول بجاتا ہے مگر کیا عوام کو ایک دھیلے کا بھی فائدہ ہوا۔ ساٹھ ہزار سے زائد کاروباری اداروں میں سے صرف دس ہزار ٹیکس ادا کرتے ہیں، سیاستدانوں کے ٹیکس گوشوارے دیکھیں تو ہم جیسے تنخواہ دار ان کی غربت پر شرم سے مُنھ چھپا لیں، پھر یہ کیسا گورکھ دھندا ہے، کیسا تانا بانا ہے اور آپ کو مذاق سوجھا ہے۔ علامہ سنجیدہ ہوتے ہوئے بولے یار یہ آپ نے مذاق کی خوب کہی، آپ کی جان کی قسم ایک لفظ بھی مذاق نہیں، مذاق تو عوام کے ساتھ ہو رہا ہے۔ میں نے کہا تو یہ سب کیا ہے، کیوں ہو رہا ہے، گہری سانس لیتے گویا ہوئے یار یوں سمجھیں ریاست کے چارستون ہوتے ہیں، فی الحال اکڑ پس منظر اور بکڑ پیش منظر بنا ہوا ہے، بمبے کے ہاتھوں بکڑ کی درگت بن رہی ہے اور بو مزے لے رہا ہے۔ اسی، نوے پورے سو ہوتے ہی چور نکل بھاگے گا اور عوام تکتی رہ جائیگی۔