مولانا ابو الحسن علی ندوی کا تضاد فکر

ڈاکٹر عرفان شہزاد

مولانا ابو الحسن علی ندوی کا تضاد فکر

از، ڈاکٹر عرفان شہزاد

مولانا ابو الحسن علی ندوی اپنے آپ میں ایک ادارہ تھے۔ ان کی سِحَر انگیز کتابوں میں علامہ اقبال کی شعری رومانویت کی حامل ان کی خطیبانہ نثر اسلامیت کے جذبے کو مہمیز کرتی ہیں۔ ان کی کتابوں کے مقدمے اور پیش لفظ کتاب سے زیادہ خاصے کی چیز ہوتے ہیں۔

دیوبندیت کی اسلاف پرستی سے ایک قدم آگے ان کی کتب میں  مسلم تاریخی شخصیات کی پرستش دیکھی جا سکتی ہے۔ تاریخ کے نام پر ایسی معتبر افسانہ نویسی ان کے ہاں پائی جس کے حسین گنبد سے میں نکلنے کو جی نہیں چاہتا۔

ان کی کتب رومانیت کی ایک فضا طاری کر دیتی ہیں۔ ندوی صاحب کی کتابیں، در حقیقت، مولانا مودودی صاحب کے سیاسی اسلام یا حاکمیت اسلام کی ایمان افروز تعبیری تشریحات ہیں۔ بہت دیر میں جا کر معلوم ہوتا ہے کہ ابو الحسن علی ندوی صاحب تاریخ کا استحصال کس خوب صورتی سے کرتے ہیں کہ آدمی جب تک آزاد مطالعہ نہ کرے، اس پر یہ منکشف نہیں ہوتا کہ اپنی پسندیدہ شخصیات کی تاریخ بیان کرتے ہوئے وہ کس کس طرح اس کی بد نمائی کو چھپاتے ہیں۔ اس کی واضح مثال، سید احمد شہید پر لکھی ان کی کتب ہیں۔

سید احمد شہید کے اخلاص اور نیت میں شک کا حق تو کسی کو نہیں، اپنے نظریات کی صداقت پر یقین تھا تو انہوں نے اتنی تکالیف سہیں اور اپنی جان بھی دے دی۔ لیکن مولانا ندوی، سید صاحب کی حکمتِ عملی کے واضح جھول بَل کہ سنگین کوتاہیوں کی عجیب معتقدانہ تاویلات کرتے ہیں، جو عقل و فہم کی میزان پر پوری نہیں اترتیں۔ خاص طور پر پٹھانوں کے ساتھ سید صاحب کے نا روا رویے، ان کی تکفیر اور ان کے خلاف ان کا جہاد، ان پر شریعت کے تمام احکام کی فوری اور بے لچک اور بے حکمت شرعی تنفیذ کے  پہلوؤں پر پردے ڈالے گئے ہیں۔

پٹھانوں کے خلاف سید صاحب اور شاہ اسماعیل نے کفر اور منافقت کے جو فتوے لگائے اور اس بناء پر ان کے خون کو حلال قرار دیا، ان کے مرنے والوں کے جنازے پڑھانے سے انکار کیا، ان سب باتوں کو ندوی صاحب ذکر میں ہی نہیں لاتے یا بڑی مہارت سے اشارہ کر کے گزر جاتے ہیں۔ سید احمد شہید کا اپنے سے کئی گنا بڑی سکھوں کی فوجی طاقت کو بلا کسی مناسب تیاری کے للکار دینا ایک بدیہی غلط پالیسی تھی، لیکن مولانا ندوی اس کو بھی جواز بخشتے ہیں۔

سید صاحب کی عسکری حکمتِ علمی اصلاح احوال یا غلبہ اسلام کا ایک نہایت غلط نمونہ ہے، جو نِج کے جہاد (Private Jihad) کو جواز دیتا ہے اور مولانا ندوی یہ نمونہ پوری شد و مد سے مسلم نو جوانوں کے تحریکی ذہن کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

اسی تناظر میں مولانا ندوی کے اپنے لائحۂِ عمل میں واضح تضاد دکھائی دیا کہ ایک طرف تو وہ سید احمد شہید کی ہندوستان میں اسلامی حکومت یا حکومت الہیہ کے قیام کے لیے پرائیویٹ جہادی تحریک کو مثالی نمونۂِ عمل قرار دیتے ہیں، جسے سید صاحب اپنے ہزار بارہ سو افراد کے ساتھ رُو بہ عمل لانے نکل کھڑے ہوئے تھے، اور دوسری طرف مولانا ندوی خود اپنے ہزاروں، بَل کہ لاکھوں متعلقین کے ہوتے ہوئے بھی ہندوستان میں سیکولر ازم کے شدید حامی تھے۔ ان دو متضاد باتوں کو وہ کیسے لے کر چلتے رہے، یہ وہی جانتے ہیں۔

ہندوستان کا مسلمان کیا کرے؟ سید احمد شہید کے اسوہ پر چلے یا ابو الحسن علی ندوی کے اسوہ پر؟ وہ اسلامی حکومت کے قیام کے لیے سید صاحب کی طرح جتھا بندی کریں یا جمہوریت میں رہ کر سیکولر ازم کی حمایت کرے؟ اس تضادِ فکری میں ندوی صاحب ہی نہیں، ہندوستان کا پورا دیوبند شامل ہے۔ اسلام کی سیاسی بالا دستی کا فقہی نظریہ ایک طرف اور زمینی حقائق دوسری طرف کھڑے ہیں، جو انہیں وہ طرزِ عمل سکھا چکے ہیں، جو ایک کثیر القومی اور کثیر المذھبی معاشرے میں بقاء کے لیے ضروری ہے۔

مسئلہ صرف یہ نہیں کہ وہ اسلام کی سیاسی بالا دستی کے نظریے سے عملی طور پر تائب ہوئے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ وہ علمی طور پر اب بھی اسی کے قائل ہیں۔ لیکن اس کے لیے کوئی کوشش بھی نہیں کرتے۔ در حقیقت یہ اسلام کے سیاسی بالا دستی کے فقہی نظریے کی علمی شکست ہے۔