غیر سیاسی سیاست اور عوام

غیر سیاسی سیاست اور عوام

از، ذیشان علی

تاریخ حیرت ناک اور نا قابلِ فراموش واقعات سے بھری پڑی ہے مگر ان تمام واقعات میں ایک چیز مشترک ہے جسے طاقت کہا جاتا ہے۔ تاریخ، فاتح اور مفتوح دونوں کو یاد رکھتی ہے مگر دنیا کو بدلنے کا کام فقط طاقت ور کے حصے میں آیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ طاقت اور طاقت ور ہی دنیا پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اسی نتیجے کی بنیاد پر میں خیال کرتا ہوں کہ یہ دنیا صرف طاقت وروں کی ہے جس میں ایمان داری، صلہ رِحمی اور بھائی چارے جیسے انسانی جذبات کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ مشہور روسی انقلابی لینن کا کہنا ہے، “سیاست میں اخلاقیات کو کوئی دخل نہیں ہوتا اور ایک بد معاش فقط اس لیے بھی کار آمد ہو سکتا ہے کہ وہ بدمعاش ہے۔”

نظامِ کار میں اس طاقت کا واحد سر چشمہ سیاست ہے۔ مذہب، تعلیم، سائنس حتیٰ کہ فنونِ لطیفہ پر بھی سیاست کی چھاپ رہی ہے۔ اگر چِہ تاریخی اعتبار سے مذہب بہ ذاتِ خود طاقت کا اہم ترین فریق رہا ہے اور اقتدار اور مقتدر حلقوں پر اپنا تسلط رکھتا تھا مگر اب اس کی حیثیت محض معاون کی ہے جو بہ وقتِ ضرورت سیاسی مفادات کے حصول میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ جب کہ دورِ جدید میں میڈیا، طاقت اور سیاست کا اہم ترین ہرکارہ ہے۔

مطلق العنان آمر ہو یا جمہوری حکومت، سب سے بنیادی کام عوام سے ابلاغ کو قائم رکھنا ہے جس کے لیے ذرائع ابلاغ کو استعمال کیا جاتا ہے، میڈیا اور ٹیکنالوجی کے جدید اور تیز ترین دور میں یہ کام مزید آسان بھی ہوگیا ہے اور قدرِ مشکل بھی واقعی ہوا ہے۔

گزشتہ زمانوں میں حالات و واقعات کو نشر ہونے سے باز رکھنا مقتدر حلقوں کی ضرورت تھا جب کہ دورِ حاضر میں غلط انفارمیشن کو وسیع پیمانے پر پھیلانا طاقت ور حلقوں کی اہم ترین ضرورت ہونے کے ساتھ ساتھ مؤثر ترین حربہ بھی ہے۔

یہ طاقت کا قانون ہے کہ وہ ایک طوفان کی طرح ہر کم زور شے کو اپنے ساتھ بہا لے جاتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی جد و جہد مزید پختۂِ کار ہوتی گئی اور طاقت بھی منظم ہونے لگی (جو چند گروہوں کے درمیان گردش کرتی رہی اور مزید طاقت کے حصول کے لیے کوشاں ہے) تو تعلیم، صحت اور سائنس پر بھی فقط اس لیے مقدور بھر توجہ دی جانے لگی کہ یہ سیاست اور طاقت ور طبقے کی ضرورت تھی اور اس میں بہ ہر حال طاقت ور طبقے ہی کا مفاد تھا۔ اس کی ایک مثال یوں پیش کی جا سکتی ہے کہ گزشتہ ادوار میں سائنس پہ اس لیے کام کیا جاتا رہا تا کہ ایٹم بم اور میزائل بنائے جا سکیں اور دنیا پہ حکم رانی کی جا سکے جب کہ نفسیات اور صحت کے شعبوں میں اس ترقی کی رفتار نسبتاً سست رہی۔

یہ سیاست ہی ہے جو اکیسویں صدی میں بھی غریب ممالک کو ایٹمی طاقت بننے کی ترغیب دیتی ہے جب کہ غربت اور کسمپُرسی کے لیے کوئی مناسب حل پیشِ نظر نہیں رکھتی۔ جارج آرویل اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ “ہمارے زمانے میں ایسی کوئی چیز نہیں تھی جس سے سیاست کو کوئی سروکار نہ ہو۔ ہر مسئلہ، سیاسی مسئلہ تھا اور سیاست خود صرف جھوٹ، بے ایمانی، نفرت اور دماغی عارضوں کی ایک مشترکہ صورت تھی۔”

پاکستان کی سیاسی صورتِ حال بھی پریشان کُن حد تک ابتر ہے اور مستقل قریب میں اس کے حل کی کوئی امید رکھنا بھی دیوانے کا خواب ہے لیکن پاکستان میں نہ کوئی سیاسی نظام ہے اور نہ ہی کوئی سیاست دان ہے بَل کہ جو کچھ اس ملک کے سیاسی منظر نامے پر موجود ہے وہ فقط اس خلا کو پر کرنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے یقینی اور نا امیدی ہے جو ایک وبا کی طرح پوری آب و تاب سے پھیلتی ہی چلی جارہی ہے۔

بے حسی کا دور دورہ ہے جو مقتدر حلقوں سے شروع ہوتا ہوا عوامی دھڑوں تک جا پہنچتا ہے اور نفسیاتی عارضوں کا سبب بنتا ہے۔ یہ زبوں حالی با قاعدہ طور پر مقتدر حلقوں کی طرف سے سیاست کے نام پر پھیلائی جاتی ہے اور اس کے حل کے لیے مزید کئی قسم کے سیاسی ہنگامے برپا کیے جاتے ہیں اور ریاستی ذرائع استعمال کرتے ہوئے عوام کو ان مسائل کے حقیقی ہونے کا یقین دلایا جاتا ہے۔

اس ملک کے عوام کے ساتھ ایک ظلم یہ کیا گیا ہے کہ ان کے عقیدہ اور یقینوں کو اس خاموشی اور ہول ناکی سے مسخ کیا گیا ہے کہ اپنے دشمنوں کو پہچاننا تو ایک طرف خود انہی بہروپیوں کو مسیحا اور نجات دہندہ تصور کر بیٹھے ہیں بل کہ انہیں یہ باور کروایا گیا ہے کہ ہم ہی ہیں جو تمہاری نجات کا واحد اور آخری مرکز ہیں، ہمارے بعد بھلا کون ہے جو تمہارے حال پہ رحم کرنے والا ہو گا اور تمہاری حالتوں کی فکر کرے گا؟

لوگ انہی جذباتی تقریروں پر ناچتے ہیں اور نعرے لگاتے ہوئے اپنے سینوں کو پیٹتے ہیں اور اپنے ہی لوگوں کے گریبانوں کو چاک کرتے ہیں مگر اپنے نام نہاد لیڈروں اور پوشیدہ آقاؤں پر ایک حرف بھی آنے نہیں دیتے، ان کے ہاں فلاں اور فلاں پر سوال کرنا ان کے خدا کے رُو بَہ رُو آنے کے مترادف ہے۔ اگر کوئی اس صورتِ حال کو سیاسی جد و جہد سمجھتا ہے تو سمجھا کرے، لیکن میں اسے وہ خلا سمجھتا ہوں جو سیاست کے نہ ہونے سے پیدا ہوتا ہے۔

اسی بناء پر میرا مشاہدہ ہے کہ عوام کی سیاست، سیاسی محاذ آرائیوں اور مقتدر حلقوں کی آپسی چپقلش سے نہ کوئی دل چسپی ہے اور نہ ہی وہ ان جنگوں کی خبر گیری سے کوئی سروکار رکھتے ہیں، اس ساری زور آزمائی میں عام فرد جو کچھ سوچتا اور دیکھتا ہے وہ اس کا ذاتی عقیدہ ہے جسے نقصان پہنچنے کی صورت میں وہ آپ کی املاک کو توڑ پھوڑ بھی سکتا ہے، آگ بھی لگا سکتا ہے اور جان لینے اور دینے کے لیے بھی تیار ہو سکتا ہے۔ ۱۹۹۶ میں بے نظیر بھٹو حکومت ختم کیے جانے کے بعد ایک انٹرویو میں کہتی ہیں، “اگر کوئی خرابی تھی تو انہیں عدالت میں جانا چاہیے تھا اور ہمارا عدالتی احتساب کرنا چاہیے تھا لیکن انہوں نے میڈیائی احتساب کیا اور میڈیا کے ذریعے عوام کو بے وقوف بنایا۔ عوام نہ تو قواعد و ضوابط جانتے ہیں، نہ ان کی دستاویزات تک رسائی ممکن ہوتی ہے اور نہ ہی وہ تمام اُمُور سے واقف ہوتے ہیں، انہوں نے ایسا اس لیے کیا کیوں کہ عوام معصوم ہیں۔”

ہم بھلا آئین اور قانون کی

کب تلک سہتے رہیں غداریاں

آخر اس سیاسی محاذ آرائی میں فرد کی کیا دل چسپی ہو سکتی ہے جو برس ہا برس سے جاری ہے مگر فرد کے وُجود کو یَک سَر مسترد بھی کرتی ہے اور مسلسل تضحیک بھی کرتی ہے۔ جسے زبان کی ذرا سی جنبش پر کبھی عقائد کا سامنا ہوتا ہے تو کبھی اداروں اور ادارتی شخصیات کا تقدس دیو بن کر سامنے کھڑا ہو جاتا ہے اور چابک لہراتا رہتا ہے اور یہ باور کرواتا ہے کہ تم (ایک عام اور محض فرد) اگر بولتے ہو تو غدار ہو اور سنتے ہو تو سن رکھو کہ سننے کی مسلسل سزا پاؤ گے اور رسوا کر دیے جاؤ گے۔

جب کہ ہماری مجموعی دانش کے فلسفوں کی بوچھاڑ بھی بس یہیں تک ہے کہ یہ جمہوریت کی جنگ ہے اور اس جنگ میں زبان کھولنے والا جاہلِ مطلق ہے اور حالات کو سمجھنے کا اہل ہی نہیں ہے۔ ان کے نزدیک یہ سیاست فہمی کی ارفع ترین حالت ہے اور معقول آدمی ہونے کی ایک ہی صورت ہے کہ نظریاتی طور پر ان سے اتفاق کر لیا جائے۔

میں جو کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارے دانش ور اور تجزیہ کار اپنے فرائض سے ہی منحرف ہو چکے ہیں۔ آپ اپنے خیالات ضرور پیش کیجیے مگر مخالف نظریہ رکھنے والوں کے بال تو مت نوچیے، آپ ان سے ہر طرح کا اختلاف رکھیے مگر ان کی زبان بندی تو مت کیجیے، مختصر یہ کہ گالی تو مت دیجیے۔

آج اگر دنیا کے کسی بھی کونے عوام ابتری اور کسمپُرسی کا شکار ہیں تو اس کی وجہ وسائل کا محدود ہونا نہیں بَل کہ اقتدار کے بھوکوں اور سیاست کے بھوتوں کی نیت کا فتور ہے۔

بہ قولِ جون ایلیا، “ہم ایک ہزار برس سے تاریخ کے دستر خوان پر حرام خوری کے سوا اور کچھ نہیں کر رہے‌‌۔”