کیا ہوا، کدھر گئی دیوار مہربانی کا؟

(عبدالعلیم چودھری)

یہ رواں برس وسط مارچ کی ایک سہانی صبح تھی جب موبائل پر ایک دوست کا ایس ایم ایس موصول ہوا۔ بتایا گیا کہ شہر کے ایک پوش علاقے میں ” دیوارِ مہربانی” کا افتتاح اختتامِ ہفتہ پر ہو رہا ہے۔ آپ کو بھی شرکت کی دعوت ہے۔ اسلام آباد جیسے خشک شہر کے باسی ہوں۔ جہاں ہم جیسا متوسط طبقہ محض فیس بک یا ٹوئٹر پر ہی اپنے خیالات کا اظہار کرنے کو کافی سمجھتا ہے۔ اس کے لیے ایسی کسی تقریب میں شرکت بھی خاصی مشکل ثابت ہوتی ہے۔ وجہ یہ کہ اس کے لیے درکار وقت اور انتظار کی کوفت کی عادت نہ ہونے کے برابر ہے۔ تاہم گزشتہ کچھ ہفتوں سے ملک کے مختلف کونوں میں ایسی کئی” مہربان دیواروں “کے افتتاح کے بارے میں پڑھنے اور سننے کے کی وجہ سے تجسس پیدا ہوا کہ ہم بھی اس نیک عمل میں شرکت کی سعادت حاصل کرلیں۔

اسی جذبے کے تحت دوست کو مثبت جوابی پیغام ارسال کردیا۔ ہفتہ کی صبح دس بجے کے طے شدہ وقت سے ” محض” تین گھنٹے تاخیر سے شروع ہونے والی اس تقریب میں حاضرین کی تعداد قابلِ داد تھی جو یقینا ًغریبوں کی امداد کے اس جذبے کے تحت شریک تھے کہ پرانے ہی سہی انہیں بھی کپڑوں اور جوتوں کی نعمت نصیب ہو۔ تقریب میں شریک زرق برق کپڑوں میں ملبوس خواتین و حضرات نے دل کھول کر نئے اور پرانے کپڑے اور جوتے نئی افتتاح شدہ دیوار کی نذر کئے اور ان کے سامنے “سیلفیاں” بنوائیں۔

لوگوں کی ہر موقع پر تصاویر بنوانے کی عادت اپنی جگہ تاہم یہ دیکھ کر خوش گوار احساس ہوا کہ پاکستانی قوم میں خیرات کا جذبہ دیگر کئی قوموں سے بہتر ہے۔ اسی طرح کی ایک تقریب کی تصاویر مجھے اپنی یونیورسٹی کے سامنے والی دیوار پر بھی نظر آئیں۔ جسے یونیورسٹی انتظامیہ نے اپنی نگرانی میں اچھی طرح پینٹ کرواکر اس کے سامنے فوٹوگرافی کا ایک اچھا خاصا سیشن کروایا۔ یہ الگ بات ہے کہ یونیورسٹی جس جگہ موجود ہے وہ قریب ترین آبادی سے بھی 2 کلومیٹر دور ہے۔ اس دیوار پر بھی کچھ دنوں تک کپڑوں اور جوتوں کی خاصی تعداد نظر آتی رہی۔

جس دیوارِ مہربانی کی تقریب میں میں نے شرکت کی تھی اس کے سامنے سے بعد میں بھی گزرنے کا موقع ملا اور اس پر کچھ عرصہ تک کپڑے اور جوتے نظر آتے رہے تاہم تقریباً دو ماہ کے بعد ان کی تعداد کم ہوتے ہوتے ختم ہوگئی۔ اب میرے مشاہدے میں کم ازکم تین ایسی دیواروں پر نہ کوئی کپڑا ٹنگا نظر آتا ہے اور نہ ہی جوتا۔ اگر کوئی وہاں موجود ہوتا ہے تو وہ غریب جو حسرت سے ان خالی دیواروں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ رمضان المبارک جیسے بابرکت مہینے میں بھی یہ دیواریں ایسے ہی ان غریبوں کا منہ چڑاتی نظر آئیں۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جس دیوار مہربانی کو ہم نے اتنے شور و غل اور پاکستانی عوام کی فیّاضی کے تاشے پیٹنے کے بعد بنایا تھا۔ کیا وہ جذبہ محض فوٹوسیشن تک محدود تھا؟ کیا یہ دیواریں بھی ان غریبوں کو اب اپنے ہی گھروں میں ہونے کا احساس نہیں دلاتیں۔ جو ایسے ہی خالی ہیں اور دن رات ان کا منہ چڑاتی ہیں؟ کیا ہم نے یہ دیواریں بنا کر غریب کا مذاق نہیں اڑایا؟ یہ وہ تمام سوالات ہیں جو کسی بھی ذی شعور شہری کے ذہن میں گونجتے ہیں۔

اسلام آباد کے ایک پوش سیکٹر میں واقع دیوار مہربانی کے نظریے کے پیچھے کار فرما ایک خاتون سے جب میں نے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے میرے سوالوں کا جواب دینے کی زحمت نہیں کی۔ اسی طرح سیکٹر ایچ ایٹ میں واقع اقرا یونیورسٹی کے سامنے بننے والی دیوار کے معماروں، جن میں طلباء و طالبات کے ایک گروپ کے علاوہ یونیورسٹی کے ڈین بذاتِ خود شامل تھے، انہوں نے بھی میرے سوالوں کے جواب دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار نظر آئے۔ اقراء یونیورسٹی کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر محمد اسلام اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ وہ محض یونیورسٹی کے ایک ٹیچر کے کہنے پر اس افتتاحی تقریب میں شریک ہوئے تاہم اُنہیں اس کے بارے میں بہت زیادہ علم نہیں۔ جب اُن سے دریافت کیا گیا کہ کیا ایسی نیکی ایک دفعہ کرکے بھول جانا ٹھیک ہے تو ان کا جواب نفی میں تھا اور ان کا موقف تھا کہ ان کے خیال میں ایسی نیکیوں کا تسلسل ہونا چاہیے۔

یونیورسٹی کی دیوار بنانے کے پیچھے کار فرما ایک طالب علم (جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے) کے بقول ہم نے یہ عوام کو ایک پلیٹ فارم مہیا کیا ہے کہ وہ ضرورتمندوں کے لیے اپنی اضافی اشیا یہاں رکھ سکتے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کر رہے تو یونیورسٹی انتظامیہ یا اس دیوار کے پیچھے دیگر معماران کا اس میں کوئی قصور نہیں۔ یونیورسٹی کی ایک طالبہ ایمن نور کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں ایسی دیواریں یہ پلیٹ فارم فراہم کرنے کے پیچھے کار فرما جذبہ قابلِ ستائش ہے۔ تاہم اس جذبے کا تسلسل ایک سوالیہ نشان ہے۔

ڈیویلپمنٹ سٹڈیز میں ماسٹرز کر رہے ایک اور طالب علم باسم کا خیال ایمن سے مختلف ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یہ دیواریں محض نمود و نمائش کا ایک بہانہ ہے اور ان کے پیچھے غریب پروری کا جذبہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان کے ایک اور کلاس فیلو عبدالرحیم بھی ان سے متفق نظر آتے ہیں اور ان کا کہنا ہے یہ دیواریں محض ذاتی اور اپنے ادارے کی پبلسٹی کا ایک بہانہ ہے۔

دیوارِمہربانی کا آئیڈیا ایران سے آیا جہاں لوگوں نے اس جذبے کے تحت ایسی دیوار بنائی کہ وہاں ضرورت مندوں کے لیے اشیا رکھ دی جائیں تاکہ وہ اپنی ضرورت کی چیزیں اپنی خودداری متاثر ہوئے بغیر حاصل کرسکیں۔ پاکستان میں سب سے پہلے ایسی ایک دیوار پشاور میں قائم کی گئی جس کے بعد ایک سلسلہ چل نکلا اور ملک بھر میں ایسی دیواریں بنائی گئیں۔ یہ عمل اپنے آپ میں اچھائی لیے ہوئے ہیں تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ نیکی کا تسلسل قائم رہ سکے۔ سماجی رابطے کی ایک ویب سائٹ پر کسی نے بجا طور پر لکھا ہے کہ دیوار مہربانی کو دیوارِ گمنامی نہ بنایا جائے اور محض فوٹو سیشن سے آگے بڑھ کر ہمیں حقیقت میں ضرورت مندوں کی مدد کرنی چاہیے نہ کہ ایسے شو پیس کھڑے کرکے انہیں مزید حسرت کا شکار بنایا جائے۔