شرارتی بچوں کی کہانی

Khizer Hayat

شرارتی بچوں کی کہانی

از، خضرحیات

گلی محلّوں میں شرارتیں کرتے بچے بڑے ہو کر بھی اپنی کارروائیاں جاری رکھنے پر فطرت کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں۔
یہ نہایت شرارتی بچے بچپن میں اتنی شرارتیں کرتے ہیں کہ اڑوس پڑوس تو کجا، اپنے گھر والے ان سے تنگ آ جاتے ہیں۔ ان بچوں پر مسلسل پہرہ بٹھایا جاتا ہے کہ معلوم ہو سکے وہ کہاں جا رہے ہیں، کیوں جا رہے ہیں، کوئی چیز ضائع تو نہیں کر دی، کسی کی کوئی چیز خراب تو نہیں کر دی، پڑوسیوں کی مرغیوں کے انڈے تو نہیں چرا لائے، محلے کے کسی گھر میں گوبر تو نہیں پھینک آئے، گھر آنے والے مہمان یا کسی راہی کے سائیکل، موٹر سائیکل یا گاڑی کی ہوا تو نہیں نکال دی، غُلیل سے کس کس کو نشانہ بنا آئے ہیں، کچے پھل تو نہیں توڑنے جا رہے، مسجد سے جوتے تو نہیں اٹھا کے بھاگ گئے، مسجد کے استنجا خانے سے لوٹا تو نہیں چرا لے گئے، کبوتروں کو تو نہیں تنگ کر رہے، مرغیوں کے پیچھے تو نہیں بھاگ رہے وغیرہ وغیرہ۔ غرضیکہ ایسے بچے مسلسل سکیورٹی کیمروں یعنی گھر والوں اور آس پڑوس کے باسیوں کی نظروں میں رہتے ہیں۔
ان کے محبوب مشغلے بھی کم و بیش وہی ہوتے ہیں جو اوپر بیان کئے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ یہ سارا سارا دن بنٹے کھیلیں گے، کھیل میں بے ایمانی کرتے رہیں گے اور کمزور بچوں کو مارتے پیٹتے، دھمکاتے اور گھسیٹتے نظر آئیں گے۔ پڑوسیوں کی مرغیوں پہ ان کی خاص نظر ہوتی ہے۔ ان مرغیوں کا لمحہ بہ لمحہ ٹائم ٹیبل ان جیسے بچوں کے پاس ہوتا ہے۔ کون سی مرغی کہاں کہاں جا کے دانہ دُنکا چگتی ہے، کون سی کہاں کہاں کھیلتی ہے اور کون سی کہاں کہاں انڈے دینے جاتی ہے۔ یہاں تک کہ مرغیوں کو بھی پتہ چل جاتا ہے کہ ہمارا انڈہ شاذ و نادر ہی اصل مالک تک پہنچے گا۔ اس بدگمانی میں کئی ایک تو انڈہ دینا ہی بند کر دیتی ہیں اور گھر والے مسلسل پریشان رہتے ہیں کہ ناجانے بے زبان کو کس مرغ کی آہ یا کس مرغی کی نظر لگ گئی۔
وہ بچے جنہیں گھر سے پاکٹ منی کے طور پر روزانہ کچھ پیسے ملتے ہوں وہ ان شرارتی بچوں کا خاص نشانہ ہوتے ہیں۔ یا تو سرے سے ہی سارے پیسے چھین کے بھاگ جاتے ہیں یا پھر شراکت داری میں ہی ساری چیزیں چٹ کر جاتے ہیں۔ بندر بانٹ والا محاورہ اپنی اصل روح کے ساتھ ہم نے انہی بچوں کے ہاتھوں نافذ العمل ہوتے دیکھا ہے۔ یہ اپنی چیزیں تو سنبھال کے اور چھپا کے رکھتے ہیں مگر دوسرے کی چیزوں پہ دوسرے سے بڑھ کر اپنا حق جتاتے ہیں۔
ان شرارتی بچوں میں بلیک میل کرنے کی صلاحیت بھی بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے۔ جب گھی ڈانٹ ڈپٹ اور لڑ کے نہیں نکلتا تو یہ چاپلوسی شروع کر دیتے ہیں اور مکارانہ عیاری کے ساتھ اگلے بچے کو بلیک میل کرتے ہیں کہ کل سکول تو جانا ہی ہے ناں، وہاں پوچھ لوں گا تم سے یا اس طرح کہ پچھلے سال جب دکان پر جاتے ہوئے کتے نے راستہ روک لیا تھا تو کس نے تمہیں بچایا تھا وغیرہ وغیرہ۔ غرض ہر طریقے سے یہ پرایا مال اینٹھ لینے میں استاد ہوتے ہیں۔
گلی میں یا گھر کے سامنے کھیلتے بچوں کی گیند ایک دفعہ گھر میں گرے تو سہی، سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ اصل مالکان کو یہ گیند مل جائے۔ ہوتا یوں ہے کہ ادھر گیند اندر گئی نہیں اور ادھر ان شرارتی بچوں کی دوڑیں لگی نہیں۔ یہ سب سے پہلے پہنچ جاتے ہیں اور ڈھونڈ کے گیند چھپا لیتے ہیں۔ اس کے بعد باقی بچوں کے ساتھ شامل ہو کر پہروں اس ڈھونڈی ہوئی گیند کو دوبارہ ڈھونڈتے رہیں گے اور مزے کریں گے۔
ایسے بچے سکولوں میں بھی شرارتیں کرنے ہی جاتے ہیں۔ بلاوجہ کی لڑائیاں لیتے رہیں گے۔ آدھا دن کاغذ کے جہاز بنانے اور اڑانے میں گزاریں گے اور باقی کا آدھا دن استادوں سے پھینٹی لگواتے رہیں گے۔ بلا وجہ اکٹھے ہو کر کسی کمزور سے بچے کو تاڑ کر اس کے سر ہو جائیں گے، اسے دھمکائیں گے، اس سے پیسے بٹوریں گے یا اگر پیسے نہیں ہیں تو بستے میں رکھا اس کا دوپہر کا کھانا چھین لیں گے۔ یہ اپنی پرانی تختیاں بڑی آسانی سے ان بچوں سے تبدیل کرلیتے ہیں جو نئی تختی لے کر آتے ہیں۔
یہی شرارتی بچے اگر بڑے ہوکر کچھ ملکوں کے سربراہ بن گئے ہیں تو آپ ان سے اور کس طرح کی توقعات لگا کے بیٹھے ہیں؟ یہ سبھی شرارتی بچے ہی تو ہیں؛ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کا، کم جون انگ شمالی کوریا کا، بنیامین نین یاہو بن یامین اسرائیل کا اور نریندر مودی بھارت کا۔

باقی بچے اپنی خیر منائیں بس!