کیا تجریدی و علامتی کہانیاں افسانے کا حصہ نہیں؟

Naeem Baig
نعیم بیگ

کیا تجریدی و علامتی کہانیاں افسانے کا حصہ نہیں؟

از، نعیم بیگ

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ تجریدی اور علامتی تحریروں کو ادب کی کوئی بھی صنف کا نام دیں، افسانے اور کہانیاں تو ہر گز نہ کہنا چاہیے۔ (یہ مباحث عالمی اردو افسانہ پر 2013 میں خوب چلی تھی۔)

گو اس موضوع پر وقتًا فوقتاً اس سے پہلے بھی بہت ادبی گفتگو اور بحث و مباحثے ہو چکے ہیں، تاہم اس ضمن میں چند باتیں کہنا ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ کہ کہانی بنیادی اکائی ہے۔ یہ تاریخ ادب کا قدیم ورثہ ہے جو حکایت، قصہ اور داستان سے چلتا ہوا کہانی کی شکل میں ہم تک پہنچا۔ اپنے اس ارتقائی سفر میں جہاں اور بہت کچھ زبان و بیاں اور اسلوب و تیکنیک نے کروٹ لی، وہیں اس میں افسانوی رنگ اپنی تخیل کی خوش بو لیے داخل ہوتے گئے۔

میں ابتدائی مغربی ادب کی تو بات نہ کروں گا، لیکن اردو ادب کی اولین کہانیاں قصہ چہار درویش، طلسم ہوش رُبا و فسانۂِ عجائب وغیرہ، طویل کہانی در کہانی کے مجموعے تھے۔ پھر وقت نے کہانی کو کانٹ چھانٹ کر افسانے کے روپ میں انیسویں صدی کے اواخر میں پیش کر دیا۔ تاہم افسانہ کا بہترین وقت پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کا وقت رہا جب مشرق و مغرب میں شارٹ سٹوریز اپنے عروج پر تھیں۔

اُدھر مغرب میں ڈی۔ ایچ لارنس سماجی برائیوں کا اپنی کہانیوں میں ذکر کر رہے تھے، وہیں امریکن سٹیفن کرین نے دی اوپن بوٹ لکھ کر ٹیبوز کو آشکار کر دیا۔


مزید دیکھیے:  نئی صدی کے افسانے پر ایک تنقیدی نوٹ  از، رفیع اللہ میاں


مارے ہاں کے بڑے افسانہ نوسیوں سے سبھی واقف ہیں۔ ان میں سے چند بڑے ادیبوں نے کچھ روایتی افسانے کے ساتھ ساتھ تجریدی افسانوں کے تجربے بھی کیے۔

منٹو نے لکھنا شروع کیا تو انھوں نے سب سے پہلے آسکر وائلڈ کی کہانیوں کا ترجمہ کیا۔ اپنی پہلی کہانی ’’تماشا‘‘ جلیاں والا باغ کے واقعہ سے متاثر ہو کر لکھی تھی۔ گو یہ مکمل علامتی کہانی نہیں لیکن علامت کا خوب صورت اظہار ان کی پہلی کہانی میں ہی تھا۔ بعد میں تو موزیلا اور ٹوبہ ٹیک سنگھ نے وائی۔ ایم ۔ سی ھال میں جہاں یہ افسانہ منٹو نے پہلی دفعہ پڑھ کر سنایا تھا سناٹا چھا گیا تھا۔ یہ بھی نیم علامتی کہانیاں تھیں، لیکن ایک مکمل افسانہ جس نے بعد میں افسانوی تاریخ میں اپنا مقام بنایا۔

ہاں یہ بات لازم ہے کہ علامتی افسانہ میں بھی ایک کہانی کا ہونا ضروری ہے۔ ورنہ وہ افسانہ کی صنف سے نکل جائے گی۔ دوسرے اس افسانہ کا ابلاغ (صحافتی نہیں ادبی) اگر قاری تک نہ پہنچے تو پھر اسے تحریر کے دائرہ تک سے نکالنا ہو گا۔

اس مختصر پسِ منظر بیان کرنے کا مقصد یہ عرض کرنا ہے کہ آپ تجریدی افسانہ کو کسی اور صنف میں نہیں شمار کر سکتے۔ اسے ادبی مقام دینے کے لیے ابھی کوئی ایسی صنف رائج ھی نہ ہو پائی ہے۔ تاہم آنے والے وقت پر شاید کیے گئے تجربات کچھ اور ثابت کر دیں۔

About نعیم بیگ 145 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔

1 Trackback / Pingback

  1. گلناز اور اس کی نظمیں — aik Rozan ایک روزن

Comments are closed.