گالیاں دلیل کے ختم ہونے کاا علان ہوتی ہیں

(سجاد خالد)

 

گالی نفرت کی کیفیت میں دی جاتی ہے، اس کا مقصد کسی ناپسندیدہ شخص کی تذلیل، تحقیر یا استہزاء ہوتا ہے۔ گالی اپنی تذلیل، تحقیر یا استہزاء کا بدلہ لینے کے لئے، تصور میں کسی کی نیت پر شک کرتے ہوئے یا اُس کے کسی مجرمانہ فعل پر بھی دی جا سکتی ہے۔ گالی دلائل کے ختم ہو جانے کا اعلان بھی ہو سکتی ہے اور اپنے مدمقابل سے زیر ہو جانے کا اعتراف بھی۔  ایک وجہ گالی دینے کی یہ بھی ہے کہ اپنی بے تکلفی یا محبت کا والہانہ اظہار کیا جائے۔ دوستوں میں ایسی گالیوں کا برا نہیں مانا جاتا۔

کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب

گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا

[غالب]

گالی کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں، اِس پر زیادہ بحث کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ تجربہ ہر ایک کی زندگی میں کسی نہ کسی پہلو سے ہو ہی جاتا ہے۔ میرے نزدیک سوال یہ ہے کہ ہم جن بنیادوں پر گالی دیتے ہیں وہ دوسرے کی تذلیل کے لئے درست ہیں بھی یا نہیں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا گالی کو سُن کر ہم گالی دینے والے کے ذہن کو پڑھ سکتے ہیں یا نہیں۔

مثلاً گالی کچھ رشتوں کے حوالے سے دی جاتی ہے اور جنسی افعال سے متعلق بھی ہوتی ہے۔ گالی میں کچھ جانوروں سے نسبت بھی دی جاتی ہے، جیسے کتا اور  سُور۔ اسی طرح  کچھ مقامات کا ذکر بھی کیا جاتاہے، جیسے چکلا، چوک، گلی  اوربازار وغیرہ۔

رشتوں کے حوالے سے گالی دینے میں سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ اُس شخص کا ذکر بھی گالی میں ہو جاتا ہے جس کا کوئی قصور نہیں بلکہ جسے پتا بھی نہیں کہ ہوا کیا ہے۔یہ  رشتہ بھی عام  طور پر عورتوں سے متعلق  ہوتا ہے،-کسی کو ماں، بہن، بیوی، بیٹی یا  بھانجی سے متعلق گالی دینے سے گالی دینے والے کی تسکین تو ہو جاتی ہے لیکن اگر پوچھا جائے کہ جناب اِن رشتوں کو کیوں گھسیٹ لائے ہیں تو اِس معاملے میں  جواب یہ ملے گا کہ میرا مقصد اِن رشتوں کے حوالے سے اُسی شخص کو تکلیف پہنچانا ہے جسے میں گالی دے رہا ہوں۔ کیونکہ ہر کوئی اِن رشتوں کے معاملے میں حساس ہوتا ہے اِس لئے ایسے الفاظ کبھی نہیں سُننا چاہتا۔

مجھے جب کسی شخص پر بہت غصہ آتا ہے تو میں مجبور ہو کر زیرِ لب اُسے کسی جانور کا بچہ  یا جانورکہہ کر سکون حاصل کرتا ہوں۔ حالانکہ مجھے معلوم ہے کہ میں جس جانور کا نام استعمال کر رہا ہوں وہ اپنی جبلت کی بنیاد پر فطرت کے عین مطابق بغیر کسی مجرمانہ ارادے کے پوری زندگی گزارتا ہے جبکہ میں جس شخص کےعمل پر ناراضگی کا اظہار کر رہا ہوں وہ شعور کی حالت میں ارادتاً ایسا کرتاہے۔ اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ اُس شخص کی ذہنی حالت درست نہیں تو میرا غصہ جاتا رہتا ہے۔ کبھی کبھی تو خیال آتا ہے کہ اگر ممکن ہو تو اُن تمام جانوروں سے معافی طلب کی جائے جن کے نام گالی کے طور پر میری زبان پر آئے۔ ان جانوروں کا نام استعمال کرنے کا واحد مقصد یہ ہے کہ کوئی بھی اِن کے ساتھ اپنی نسبت کو باعثِ عزت نہیں سمجھتا۔

سوال یہ ہے کہ ہمارے رشتے  اور جانوروں سے ہمیں دی جانے والی نسبتیں کیا واقعتاً ایسی ہیں کہ اُن پر شرمندہ ہوا جائے یا کچھ اور ایسے خصائص ہیں جن سے ہماری نسبت حقیقت میں زیادہ باعثِ نفرت ہو سکتی ہے۔ مثلاً اگر کوئی مجھ سے کہے کہ تو جھوٹا ہے، دھوکے باز ہے، مطلبی ہے یا بے وفا ہے تو مجھے زیادہ ذلت کا احساس ہونا چاہئیے۔ اگر کوئی مجھے موقع پرست، زُود رنج، کینہ پرور یا لالچی کہے تو میرے لئے یہ الفاظ زیادہ قابلِ نفرت ہونے چاہییں۔ مجھے اِس بات سے پناہ مانگنی چاہئے کہ کوئی مجھے ظالم کہہ ڈالے۔

گالی میں استعمال ہونے والے رشتے اور الفاظ کے استعمال کی ایک وجہ تو خود زبان اور کلچر ہیں۔ ہم جن الفاظ یا جس انداز میں  غصے یا نفرت کا اظہار دیکھتے ہیں وہی انداز اور الفاظ اختیار کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اگر ہم زبان اور کلچر کے اثر سے کسی حد تک بچ بھی جائیں تو جسے گالی دی جارہی ہے ضروری تو نہیں کہ وہ بھی اُن الفاظ سے ناواقف ہو۔ اُسے لازماً تکلیف پہنچانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اُس کا اظہارِ نفرت  کا انداز بھی وہی ہو جو ہمارا ہے۔باقی رہا الفاظ میں کسی طرح کا فرق آ جانا تو یہ موقع، جراءت اور’ تخلیقی استعداد’  پر منحصر ہے۔

جاگیر داری سماج نے انسان کی حساسیت کے دائرے کو انسانی خوبیوں کی بجائے رشتوں اور ملکیت کی اشیاء سے جوڑ دیا ہے۔  یہاں ہر شئے جسے ملکیت میں لیا جا سکتا ہے وہ حقیر ہے۔ عورت کو کیونکہ ملکیت سمجھا جاتا ہے اس لئے اکثر گالیوں کا عنوان اور متن اُس کی مختلف حیثیتوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اولاد بھی ملکیت کی اعلٰی ترین شکل کے طور پر سمجھی جاتی ہے اِس لئے عورت، جنسی رشتہ ء ازدواج جس کے نتیجے میں اولاد اور خاندان تشکیل پاتا ہے، سب گالی میں استعمال ہوتے ہیں۔ اگر کوئی انسان اپنا تصورِ ملکیت بدل لے اور اعلٰی انسانی اقدار  اور علم و ہنر کی تحصیل کے لئے زندگی کا وقت اور وسائل استعمال کرے تو ایسے شخص کو روایتی گالیوں سے بے عزت نہیں کیا جا سکتا اور نہ وہ خودکبھی روایتی انداز میں گالی دے سکتا ہے۔ وہ غصے میں کسی کو جاہل، کسی کو ظالم یا مکار تو کہہ سکتا ہے، کسی کی ماں، بہن، بیٹی یا بیوی  کی نسبت سے برے الفاظ کا استعمال نہیں کر سکتا۔ وہ کسی کو بے اعتمادی لالچ یا بیوفائی کا طعنہ تو دے سکتا ہے، اُسے جانوروں سے تشبیہ نہیں دے سکتا۔

ہمارا نظریہ حیات اور کلچر اگر متضاد بنیادوں پر کھڑے ہوں تو ہماری زبان اور عمل میں رشتہ تلاش کرنا مضحکہ خیز عمل بن جاتا ہے۔ ہمیں نہ ادا کیے گئے لفظوں کی وجہ معلوم ہوتی ہے اور نہ اپنے اعمال کی بنیاد میں محرکات سے واقفیت۔