نصرت فتح علی خان: ایک قوال،ایک فن کار، ایک صوفی

قاسم یعقوب

نصرت فتح علی خان قوالی کی دنیا کا ایسا فن کار ہے جو اپنی جدتِ طبع اور غیرمعمولی 152539-050-0e348da1گائیکی میں تجربات کی وجہ سے رہتی دنیا تک زندہ رہے گا۔ نصرت اپنے عظیم فن کے ساتھ ساتھ موسیقی کے میدان میں ایک مجدد کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے۔ جس نے مشرقی اور مغربی موسیقی کے خوبصورت امتزاج سے دو مختلف خطوں کے آرت کی روح کو ایک جیسا ثابت کر دیا کہ آرٹ کہیں کا بھی وہ اپنی اصل میں ایک ہے۔
نصرت فتح علی خان13اکتوبر 1948ء کو فیصل آباد شہر کے مرکزی علاقے’’جھنگ بازار ‘‘ سے متصل ایک محلے میں پیدا ہوا۔ فیصل آباد کے مزاج ہی میں موسیقی اور آرٹ کا خمیر رچا ہُوا ہے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے بھی اس علاقے کو فنِ گائیکی کی وجہ سے خاص شہرت تھی۔ نصرت فتح علی خان اپنے باپ کا پانچواں بچہ اور پہلا بیٹا تھا۔ نصرت کا ایک بھائی فرخ فتح علی خان تھا[جو نصرت کی وفات کے چند سال بعد ہی فوت ہوگئے]۔ نصرت کی شادی 1979ء میں اپنے چچا سلامت علی خان کی بیٹی’’ناہید‘‘ سے ہوئی۔ نصرت کی اولاد میں صرف ایک بیٹی’’ندا‘‘ ہے۔
نصرت فتح علی خان کے والد استاد فتح علی خان ، نصرت کو آواز کے بھدے پن کی وجہ سے پہلے پہل گائیکی سے دور رکھتے تھے۔ نصرت نے اس دوران طبلہ اور ہارمونیم پر کمال حاصل کر لیا۔ بہت کم لوگوں کو پتہ ہوگا کہ نصرت کا اصل میدان گائیکی نہیں بلکہ طبلہ تھا، نصرت حیران کن حد تک طبلہ پر عبور رکھتے تھے۔ نصرت کی خفیہ صلاحیتوں کا ادراک کرتے ہوئے استاد فتح علی خان نے کلاسیکی تعلیم بھی دینا شروع کر دی۔ نصرت نے بہت جلد’’خیال‘‘ جیسی مشکل چیزوں پر عبور حاصل کرلیا۔ اس سلسلے کو شدید دھچکا لگا جب 1964ء میں استاد فتح علی خان کا اچانک انتقال ہوگیا۔ اب نصرت کی ساری تربیت تایااُستاد مبارک علی خان اور چچا سلامت علی خان کے ذمے آگئی۔ نصرت کو اپنی پہلی پرفارمنس کا موقع بھی اپنے والدِ محترم کے ’’چہلم‘‘ پر ملا۔ یہی وہ موقع تھا جب نصرت کے والد کی روح نصرت میں حلول کر گئی۔ یہ نصرت کی بہ ظاہر تو پہلی پرفارمنس تھی مگر اصل میں اُس محرومی کا نوحہ تھا جو نصرت کو اپنے والد سے بچھڑتے ہوئے ورثہ میں ملا تھا۔ نصرت گاتے ہوئے رو رہا تھا کہ اُس کا باپ آنے والے بڑے فن کار کی کامیابیوں پر اُسے داد نہیں دے سکے گا۔
1971ء میں اُستاد مبارک علی خان بھی انتقال کر گئے۔ یوں نصرت اپنے خاندان کے کلاسیکی ورثے کا اکیلا محافظ رہ گیا۔اس گھرانے کی قوال حکمرانی کا تاج نصرت اور اُن کے چچازاد مجاہدمبارک علی خان کے سر پر رکھ دیا گیا۔ نصرت کے بھائی’’فرخ فتح علی خان‘‘ بھی اس پارٹی میں شامل ہو گئے ۔ نصرت کی پہلی عوامی پرفارمنس ریڈیو پاکستان فیصل آباد کے پروگرام’’جشنِ فیصل آباد‘‘ کے موسیقی کے میلے میں تھی۔ پہلی معروف قوالی’’حق علی علی‘‘ تھی۔
نصرت واحد وہ عظیم فن کار تھا جو قوالی جیسی مشکل اور منفرد ترین گائیکی کے ساتھ ساتھ کلاسیکی ٹھاٹھ بھی جانتا تھا۔ نصرت نے پلے بیک موسیقی میں بھی اپنا لوہا منوایا۔ نصرت اپنی کمپوزیشنز خود بنائیں۔ اتنے سارے میدانوں میں کام کرنے ولا آدمی ہر میدان میں کامیاب رہا۔ نصرت نے اپنی خلاقانہ صلاحیتوں کا ادراک کرتے ہوئے 80کی دہائی مکے آغاز میں اورینٹل ایجنسی[OSA]برمنگم کے ساتھ ایک معاہدہ کر لیا تھا۔ اس ایجنسی نے نصرت کو یورپی حلقوں میں متعارف کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔ نصرت نے یورپ کے روابط میں مندرجہ ذیل البمز تیار کروائے:
The Last Temptation of Christ (1985) with Peter Gabriel
Must Must (1990) with Michael Brook
Night Song(1996) with Michael Brook
Sound Track ” Dead Man Walking and Natural Born Killers” (1995) with Pearl Jam
paintingپیٹرگبرئیل نے نصرت کی قوالیوں کے پانچ البمز اپنے سٹوڈیو سے ریلیز کیے۔ یہیں سے نصرت کو بین الاقوامی شہرت ملی۔ نصرت کے البم Intoxicated Spiritکو 1997ء میں بہترین ثقافتی فوک البم کا جرمنی حکومت کی طرف سے جرمنی ایوارڈ دیا گیا۔ نصرت نے بہت سی پاکستانی اور ہندوستانی فلموں کے لیے بھی اپنی دھنیں تیار کیں۔ اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے ہندوستانی فلم انڈسٹری کی دو معروف فلموں’’کچے دھاگے‘‘ اور ’’اورپیار ہوگیا‘‘ کی موسیقی دی تھی۔ اس کے علاوہ فلم ’’دھڑکن‘‘ کا ٹائٹل سونگ بھی نصرت نے تیار کیا تھا۔ نصرت نے ہندوستان کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر اے آر رحمن کی کمپوز کی ہوئی البم ’’وندے ماترم‘‘[Vinde Mataram]کے گانے بھی گائے۔
گینس بُک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق نصرت فتح علی خان واحد قوال فن کار ہیں جس نے قوالی کے125البمز اپنی زندگی میں ریکارڈ کروائے۔ قوالی سے وابستگی کا یہ عالم تھا کہ نصرت نے جدید میوزک میں کمال مہارت کے باوجود قوالی جیسی کلاسیکی اور روایتی موسیقی سے رو گردانی نہیں کی اور دنیا کے جدید ترین آلاتِ موسیقی کے ساتھ قوالی کو پیش کر کے اپنی محبت کا اظہار کیا۔ نصرت جب تک زندہ رہے، وہ ہر سال بابا لسوڑی شاہ [جنگ بازار،ریگل چوک،لائل پور] کے دربار پر قوالی پیش کرتے رہے۔[آج کل راحت فتح علی خان نے اس خاندانی روایت کو زندہ رکھا ہوا ہے]۔
نصرت کی قوال پارٹی میں مجاہد مبارک علی خان(ووکل)، فرخ فتح علی خان(ووکل، ہارنیم) رحمت علی( ووکل، ہارمونیم) راحت فتح علی خان( ووکل،کنی) دلدار حسین[Percussion]، مجاہد عباس(تالی، ووکل،گٹارس،طبلہ)محمد اقبال نقوی(نصرت کا سیکرٹری،کورس،تالی) غلام فرید(کورس ،تالی) کوکب(اسد علی(کورس،تالی) شامل تھے۔
نصرت فتح علی خان کے ساتھ ساتھ پوری پاکستانی قوم کے لیے یہ اعزاز کی خبر تھی جب ٹائم میگزین کے 6نومبر 2006ء کے شمارے میں ’’ایشین ہیروز کے60سال‘‘ کے نام سے ایک سروے رپورٹ پیش کی گئی جس میں نصرت کو دنیا کے پہلے 12لوگوں میں شامل کیا گیا۔
جگر اور گردوں کی ناگہانی بیماری کے سبب 11اگست 1997کو لاس اینجلس کے لیے جاتے ہوئے لندن میں گردے کی Trans Plantکے لیے روکا گیا۔ حالت زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے کروم ویل ہسپتال لندن میں علاج شروع کر دیا گیا مگر قدرت کا اپنا نظام ہوتا ہے جو ہر ذی روح کی تخلیقیت کے ساتھ ساتھ محوِ سفر ہوتا ہے۔ نصرت 6 دن حیات و موت کی جنگ لڑتے ہوئے بالاخر16اگست کو اس جہانِ فانی سے رخصت فرما گئے۔ نصرت کو اس کے آبائی شہر فیصل آباد میں دفنا دیا گیا۔
نصرت فتح علی خان چلا گیا مگر اپنے سر اور گیت پیچھے چھوڑ گیا۔ اب اسکرین پر نصرت کا بھتیجا راحت فتح علی خان جلوہ افروز ہے۔ قافلہ رُکا تھا پھر چل پڑا ہے، لیکن اب کی بار واقعی کچھ ہو گیا ہے۔ نصرت فتح علی خان کے سروں کی مٹھاس کبھی کبھی راحت کے سروں کے رس میں نظر آ جاتی ہے مگر کیا کیا جائے! نصرت فتح علی خان ہم تجھے یاد کرتے ہیں!!!!!

About قاسم یعقوب 69 Articles
قاسم یعقوب نے اُردو ادب اور لسانیات میں جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے ماسٹرز کیا۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل کے لیے ’’اُردو شاعری پہ جنگوں کے اثرات‘‘ کے عنوان سے مقالہ لکھا۔ آج کل پی ایچ ڈی کے لیے ادبی تھیوری پر مقالہ لکھ رہے ہیں۔۔ اکادمی ادبیات پاکستان اور مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد کے لیے بھی کام کرتے رہے ہیں۔ قاسم یعقوب ایک ادبی مجلے ’’نقاط‘‘ کے مدیر ہیں۔ قاسم یعقوب اسلام آباد کے ایک کالج سے بطور استاد منسلک ہیں۔اس کے علاوہ وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے وزٹنگ فیکلٹی کے طور پر بھی وابستہ ہیں۔