مجلسِ بصیرت کی تیسری نشست کا احوال

writer's name
ڈاکٹر عرفان شہزاد

ڈاکٹر عرفان شہزاد

20 جولائی، 2016 کو ‘مجلسِ بصیرت’ کی تیسری نشست کا انعقاد، جناب ثاقب اکبر صاحب کے ادارے ‘البصیرہ’ اسلام آباد میں ہوا۔ مجلس کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک سے ہوا۔ تعارفی کلمات کے بعد ثاقب اکبر صاحب کے حکم پر راقم نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بات کا آغاز کیا۔ عرض کیا کہ بندے کا آبائی تعلق کشمیر ، ضلع پونچھ سے ہے۔ تاہم، شرعی نقطہ نظر سے میں کشمیر میں جاری مسلح جدوجہد کو درست نہیں سمجھتا۔ اسلام نے مظلوم اور محکوم عوام کو جو لائحہ عمل دیا ہے وہ سورہ النساء آیت 75 کے مطابق  ہجرت، صبر اور بیرونی ریاستی طاقت کی امداد ہے، جب کہ مظلوم مسلم بھائیوں کی مدد کرنا مسلم ریاست کا فرض قرار دیا ہے:

وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَـٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا

“آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مدد گار پیدا کر دے ۔”

کہیں بھی مظلوم محکوم مسلمانوں کو اپنے حق کے لیے ہتھیار اٹھانے کا حکم نہیں دیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے مکی دور میں جب کہ ریاستی طاقت مسلمانوں کے ہاتھ میں نہیں تھی، مسلح مزاحمت کا حکم نہیں دیا، حتٰی کے جب ریاستِ مدینہ کو جہاد کی اجازت دی گئی، تب بھی مکہ کے کمزور مسلمانوں پر جہاد فرض نہیں کیا گیا۔ ان پر وہی ہجرت فرض تھی، اور اگر ہجرت سے بھی قاصر تھے تو صبر کے ساتھ بیرونی ریاستی طاقت کی مدد کا انتظار کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اب یہ مسلم ریاستوں خصوصًا پاکستان کا فرض ہے کہ اپنے کشمیری مسلم مظلوم بھائیوں کی مدد کو آگے آئے نہ کہ کمزور کشمیری نوجوانوں کو معمولی ہتھیار تھما کر اپنے سے سینکٹروں گنا زیادہ طاقت ور دشمن کے آگے ڈال دےاور پھر جب طاقت ور دشمن مزید اشتعال میں آ کر ظلم کرے تو اس کے ظل کا ڈھنڈورا پیٹ کر تماشا لگائے۔ دنیا ہمارے اس کھیل کو سمجھتی ہے، اس لیے بھی وہ اس تنازع میں نہیں پڑتی۔  

کشمیر کی جنگ آزادی درحقیقت اقتدار کی رسہ کشی کی جنگ ہے، جس میں ہر فریق اپنے موقف پر قربان ہونے کے لیے کشمیری جذباتی نوجوان ڈھونڈ لیتا ہے۔  کشمیر میں کشمیری ہی حکومت کر رہے ہیں، لیکن دوسرے کشمیریوں کے لیے وہ قابلِ قبول نہیں کہ وہ بھارت نواز ہیں، انہیں پاکستانی نواز کشمیری حکمران چاہیں اور اس مقصد کے لیے کچھ نوجوان جانیں قربان کر رہے ہیں، دوسری طرف ایسے کشمیریوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے جو بھارت اور پاکستان دونوں سے گلو خلاصی  اور اپنی حکومت قائم کرناچاہتے ہیں، چنانچہ ان کے پاس میں ایسے نوجوان ہیں جو اپنی اس مقصد کے لیے اپنی جانیں دئیے چلے جا رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ مختلف گروہوں کی اپنی قوم پر حکومت کرنے کا خبط ہے جسے جنگِ آزادی کا مقدس نام دیا گیا ہے۔

اس پر ثاقب اکبر صاحب نے تائید کرتے ہوئے کہا کہ ان شھداء کے اخلاص میں شبہ نہیں اس لیے ہم ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں، تاہم مسلح جدوجہد کی بجائے سیاسی جدوجہد کرنا ہی درست رویہ ہوسکتا ہے، جسے کشمیری قائدین اور نوجوانوں کو اپنانا چاہیے۔  حقِ خود ارادیت ان کا حق ہے، اور یہ حق انہیں ملنا چاہیے۔

اس کے بعد حسبِ پروگرام، محترم وقار حیدر رضوی صاحب نے اسلامی ریاست کا قیام ایک دینی مطالبہ’ کے عنوان پر اپنا نقطہ نظر جامعیت سے پیش فرمایا۔  انہوں نے گزشتہ مجلس میں اٹھائے گئے  بشر تہامی اور راقم الحروف  کے نکات کا رد  کرتے ہوئے کہا کہ ریاست  دینی مطالبہ ہے۔ دین کے بہت سے احکامات کی تنفیذ کا دارمدار ریاست کے قیام پر ہے، مسلمانوں اور ان کی اسلامی اقدار  کا تحفظ ریاست کی طاقت کے بغیر ممکن نہیں۔  انہوں نے قران کی مختلف آیات اور رسول اللہ ﷺ کے قیامِ ریاست کے اقدامات سے استدلال کیا ہے کہ ریاست کا قیام دین کا مطالبہ قرار پاتا ہے۔ قیام ریاست مخصصاتِ رسول نہیں ہے جیسا کہ ڈاکٹر عرفان شہزاد نے کہا، بلکہ مستقل دینی مطالبہ ہے۔ اگر یہ مخصصات نبوت ہے تو رسول کے بعد کے ادوار میں ریاست کا قیام بے معنی ہو جاتاہے ، بیز دین کے اجتماعی احکامات کی تنفیذ کا محل ہی نہیں رہتا ۔ رسول اللہ ہمارے لیے اسوہ حسنہ ہیں جن کی پیروی ہم پر لازم ہے بمطابق آیت :

لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ

در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا

چنانچہ رسول اللہ ﷺ کے ہر عمل پر عمل کیا جائے گا، الا ما خرج بالدللیل، یعنی سوائے اس کام کے جو کسی دلیل کی وجہ سے ہمارے لی واجب العمل قرار نہ پائے ۔

نیز  انہوں نے درج ذیل آیات اپنے موقف کے استدلال میں پیش کیں۔

1۔إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ

حکم اللہ ہی کا ہے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا

اے لوگو جو ایمان لائے ہوئے، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں، پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔

احمد علی کاظمی صاحب نے فرمایا کہ اسلامی ریاست نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ، عدل و انصاف آفاقی کی قد ر ہے، اس کی تعریف کا تعین کرنے کی ضرورت ہے۔ جو ریاست بھی عدل و انصاف قائم کرے تو کیا وہ آپ کی نظر میں اسلامی ریاست قرار پائے گی؟ آپ اسی ریاست کو اسلامی ریاست گردانے گے جہاں چند مخصوص شرعی احکامات پر عمل ہو، یعنی چور کا ہاتھ کاٹا جائے، قاتل کو قصاصًا قتل کیا جائے۔ تو کیا جہاں یہ قوانین نافذ ہو جائیں اور عدل نہ ہو، وہ ریاست اسلامی ہوگی؟ اگر ایسی ریاست بھی اسلامی نہیں تو کیوں؟ اگر ایک مسلمان اللہ اور رسول کو مانتا ہے، لیکن عملی کوتاہی کا شکار ہے آپ اسے مسلمان ہی مانتے ہیں، لیکن ایک ریاست جیسے کہ پاکستان جس نے آئینی طور پر کلمہ پڑھا ہوا ہے، وہ اگر عملی کوتاہی کا شکار ہے تو وہ اسلامی ریاست کی تعریف سے خارج کیوں ہو جاتی ہے؟

‘اولی الامر’ پر بھی کافی بحث ہوئی۔ محترم ثاقب اکبر صاحب نے فرمایا کہ اولی الامر سے یہ بھی مراد لیا گیا ہے کہ اس آیت کا مصداق خود اس  آیت کے نزول کے وقت  کے لوگ بھی تو تھے۔ ان کے لیے اس پر عمل کی کیا صورت تھی۔ وہ یہی ہو سکتی ہے کہ جس کو رسول اللہ ﷺ کہیں تعینات فرماتے، وہ اولوالامر تھا، جس کی اطاعت واجب تھی، اور اس کے ساتھ تنازع کی صورت میں رسول کی طرف رجوع کیا جاتا تھا۔

میں نے اس پر عرض کیا کہ وقار صاحب کا استدلال یہ ہے کہ چونکہ آیت یہ کہتی ہے کہ اولواالامر کی اطاعت کرو، اس لیے اولوالامر کا ہونا واجب ہے تاکہ اس آیت پر عمل ہو سکے، تو اس استدلال  کے مطابق، اٰتوا الزکوۃ پر عمل کرنے کے لیے ایک غریب آدمی پر مال کمانا بھی فرض قرار دیا جانا چاہیے تاکہ زکوۃ ادا کرنے کا حکم پورا کیا جاسکے۔ اور اسی طرح اس استدلال کے مطابق دین کا ہر حکم ہر کسی پر واجب قرار پاتا ہے، اور اس کے لیے ضروری قرار پاتا ہے کہ ایسے حالات اگر موجود نہ ہوں تو ایسے حالات بھی پیدا کرتے تاکہ دین کے احکامات پر عمل کر سکے۔ اگر ایسا آپ درست نہیں مانتے تو پھر مانیے کا آپ کا استدلا ل درست نہیں کہ اولوالامر کی اطاعت کے لیے اولوالامر کو موجود بھی کیا جائے۔

یہ آیت صرف یہ کہ رہی ہے کہ جب اولوالامر موجود ہو تو اس کی اطاعت کرو، یہ کہنا کہ اولوالامر کو موجود بھی کیا جائے ، اس کے لیے الگ سے کوئی نص دکھانا ہوگی ۔  اس پر وقار صاحب نے ان الحکم الا للہ کی آیت پیش کی۔ اس پر احمد علی کاظمی صاحب نے کہا کہ یہ آیت اقامت ریاست کےلیئے نص نہیں  بن سکتی، اس آیت کا سیاق تکوینی حکم کو ظاہر کرتا ہے۔ پھر میں نے عرض کیا کہ وقار صاحب نے اپنے موقف کی تائید میں جتنی بھی آیات پیش کی ہیں وہ نص کی حیثیت نہیں رکھتیں، کیونکہ یہ محکم نہیں ہیں۔  رہا ان کا دوسرا استدلال کے رسول اللہ ﷺ کی اقامت ریاست ہمارے ہیے اسوہ حسنہ کی تقلید کے مطابق لازم کرتی ہے کہ ہم بھی ریاست قائم کریں تو عرض ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ہر عمل ہمارے لیے واجب العمل نہیں، جیسا کہ وقار صاحب نے بھی کہا کہ ما خرج بالدلیل۔ تو عرض ہے کہ اس پر دلیل موجود ہے کہ  رسول اللہ کے قیام ریاست کا عمل ہمارے لیے واجب العمل نہیں ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اللہ نے لکھ دیا ہے وہ رسولوں کو غلبہ دے گا

كَتَبَ اللَّـهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي ۚ إِنَّ اللَّـهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ 

اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب ہو کر رہیں گے فی الواقع اللہ زبردست اور زور آور ہے 

چنانچہ اللہ نے رسول کا غلبہ دیا۔ لیکن غلبے کا یہ وعدہ ہمارے لیے عام نہیں کیا گیا، دوسری آیت بھی یہی بتاتی ہے

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ 

وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنس دین پر غالب کر دے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو

اس میں رسول کے غلبے کی بات ہے ہر دور کے مسلمان کے غلبے کی  کوئی ضمانت نہیں دی گئی ۔ دوسری بات یہ کہ اگر ہم خود سے اخذ کر لیں کہ یہ غلبے رسول کے ساتھ ان کی امت کے لیے بھی ہے، تو ہم جانتے ہیں کہ اس غلبے کے لیے کیسی کیسی اعلی صفا ت کی حامل ہستیوں نے کوشش نہیں کی، لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی کامیاب نہیں ہوا۔ ان کے پاس ایک دلیل اور بھی تھی،

وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ

دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو

تو کیا یہ باور کیا جائے کہ وہ مومن نہیں تھے، جب کہ ان میں کئی ایسے پاکیزہ صفات لوگ ہیں جن کے تقوی اور اخلاص پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ اس لیے یہ کہنا یہ رسول اللہ کا اسوہ ہم پر یہ لاگو کرتا ہے، نص اور تاریخ دونوں کے اعتبار سے ثابت نہیں۔

 محفل میں موجود ایک بیرسڑ صاحب نے کہا کہ پاکستان میں دیگر مسلم ریاستوں سے زیادہ اسلام  پایا جاتا ہے۔ انہوں نے ملیشیا اور سعودی عرب کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ان ممالک کے آئین میں بھی یہ نہیں لکھا ہوا کہ سپریم لاء قرآن و سنت ہے، لیکن پاکستان کے آئین میں لکھا ہوا ہے۔ جب کہ سماجی حوالے سے باوجود کسی  حکومتی دباؤ کے لوگ اسلام پر  ان مسلم اقوام کی نسبت زیادہ عمل  پیرا ہیں  جو حکومتی جبر کے تحت اسلام پر عمل کرتے ہین۔

وہاں موجود ایک  شاعرصاحب نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب  آپ اسلامی حکومت کی بات کرتے ہیں کہ قانون اسلام کے نام پر بن جاتا ہے تو تقدس کا درجہ اختیار کرلیتا ہے، جس کے خلاف بولنا پھر ممکن نہیں رہتا۔ مثلًا جاگیرداری کے بچاؤ کے لیے فیڈل شریعت کورٹ نے اس کے جواز کا قانون پاس کر دیا کہ  اب اس کے خلاف کون بولے، جب کہ جاگیر داری نظام کے برائیاں سب کو معلوم ہیں۔ اسی طرح دیگر قوانین کا حال ہے۔

محترم  فرحت حسین  صاحب نے فرمایا کہ حاکم بحرین حضرت منذر بن ساوی رضی اللہ تعالی عنہ کو جب حضور اکرم ﷺنے اسلام لانے کی دعوت دی تو اس نے اس دعوت کو قبول فرما لیا اس کے بعد اس نے حضور اکرم ﷺ سے کہا کہ میں کیا کر سکتا ہوں تو حاکم بحرین کو جواب دیا کہ تم لوگوں کے درمیان عدل و انصاف قائم کرو اور لوگوں کو نیکی کی ہدایت کرو آپ ﷺ نے حاکم بحرین سے حکومت کو اسلامی بنانے کی اپیل نہیں کی بلکہ فقط عدل و انصاف اور اچھائی کی تلقین فرمائی اس سے پتہ چلا ہے کہ حکومت اسلامی ،اسلام کا مطالبہ نہیں بلکہ اسلام کے قوانین اس کے علاوہ لاگوں ہو جائے تو بھی کافی ہے ۔