نئے سوالات اوراُردو کے نئے رسائل

نئے سوالات اوراُردو کے نئے رسائل

(محمد شعیب خان)

ادب کی ترویج و اشاعت میں جو کردار رسائل کا رہا ہے وہ کتاب کلچر یا دیگر ادبی سرگرمیوں سے کہیں بڑھ کے ہے۔خوش قسمتی سے اُردو میں بہت سے اہم جرائد و رسائل اس اہم ذمہ داری کو نبھاتے رہے ہیں۔ رسائل کلچر اصل میں انگریزعہد میں آیا جب ادب کو ایک سماجی حقیقت کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ پریس نے برصغیر میں ایک نئی تخلیقی دنیا کا دروازہ کھول دیا۔ اخبارات اور کتابوں کی اشاعت نے ہماری سماجی اور تخلیقی زندگی پر بہت سے اثرات ڈالے۔ ادب بھی ان اثرات سے بہرہ مند ہونے لگا۔ نِت نئے رسائل جاری ہونے لگے۔ بیسویں صدی میں خصوصاً اس اہم شعبے کی طرف ادیبوں نے توجہ دی۔سرسید نے ’’تہذیب اخلاق‘‘ نکالا ۔ جو ادبی رسالہ تو نہ تھا مگر ادب پر گہرے اثرات مرتب کرتا گیا۔’’تہذیب اخلاق ‘‘کے رد عمل میں ایک بہت اہم رسالہ ’’تیرہویں صدی‘‘ بھی ہے جو میر ناصر علی خان دہلوی نے ۱۸۷۶ء کو جاری کیا۔ یہ اہم رسالہ رومانوی فکر کا نمائندہ تھا جو سرسید کی عقل پرستی کے رد میں جاری ہوا۔ چار پانچ سال کے بعد یہ بند ہو گیا پھر میر ناصر علی دہلوی نے نام تبدیل کر کے ’’صلائے عام‘‘ کے نام سے ایک اور رسالہ نکالا جو۱۹۰۸ ء سے۱۹۳۲ء تک جاری رہا۔ اس رسالے کی تنقیدی اور فکری سرمایے پر ابھی نظر نہیں پڑی۔ جامعات کو اس پر پوری توجہ دینی چاہیے اور میر ناصر علی دہلوی کی ادبی خدمات پر کام کروانا چاہیے۔ صلائے عام میں اُس وقت کے تناظرات کو پہچاننے میں مشکل پیش نہیں آتی۔ وہ عقل پرستی کے خلاف ایک جہاد کی طرح کام کرتے رہے۔ بہت کم لوگوں کو پتا ہے کہ اُردو میں رومانوی تحریک کے پس منظر میں میر ناصر علی کا نام اور کام ایک تحریک کی طرح تھا۔اسی عہد میں ’’مخزن‘‘ کا کام اور ادبی خدمات نمایاں ہیں جسے سر عبد القادر نکالتے تھے۔ ’’مخزن‘‘ میں خصوصاً جدید شاعری کو زیادہ موضوع بنایا گیا۔ یہ بھی رومانوی تحریک کا نمائندہ رسالہ بن کر سامنے آیا۔ آگے چل کر ’’ساقی‘‘ اور’’ ادبی دنیا‘‘ کی اہمیت کا کون انکار کر سکتا ہے۔ادبی دنیا کو میرا جی اور ساقی کو شاہد احمد دہلوی نے اپنے اعلیٰ ادبی ذوق سے اعلیٰ ادب کا مرکز بنا دیا۔ان دو جریدوں نے مجموعی طور پر ادب کی شکل نکھارنے میں ایک قدم بڑھ کے کام کیا۔ یہی وہ دور تھا جب اُردو میں تخلیقی ادب اپنی جون بدل رہا تھا۔ نئے نئے سوالات نئی اصناف کے ساتھ مرکز گفتگو بن رہے تھے۔ ساقی میں حسن عسکری نے باقاعدہ ’’جھلکیاں‘‘ کے عنوان سے کالم لکھنے کا آغاز کیا جس میں ادب میں اٹھنے والے نئے سوالات کو اپنا موضوع بنایا جاتا۔
پاکستان بھر کی جامعات کے مختلف شعبہ جات ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ہدایات کی روشنی میں تحقیقی مجلے شائع کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے قومی زبان اردو کے شعبہ جات کی کار گزاری نمایاں ہے۔البتہ معیار کے اعتبار سے اِن مجلات کے درجات میں فرق ضرور ہے۔چند ماہ پہلے ایشیا کی سب سے بڑی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی،اسلام آباد کے شعبۂ اردو نے تحقیق کی حقیقی روح کے گلستان کو سینچنے کے لیے اپنے تحقیقی مجلے تعبیرکا اجرا کیا۔اس کے حقیقی تحقیقی مزاج،مدیر کے ادارتی اوصاف وذوقِ تدوین اورپروف کی اغلاط سے پاک کتابت کی بدولت علمی ، ادبی اور تحقیقی حلقوں نے خوشگوار حیرت کے ساتھ تعبیرکو خوش آمدید کہا۔
اس وقت میرے سامنے تعبیرکا تیسرا شمارہ ہے،جسے’’مکتوبات نمبر‘‘کے طور پر مرتب کیا گیا ہے۔ تعبیرکے مدیرڈاکٹرعبدالعزیزساحر،جوصدر شعبۂ اردو بھی ہیں،خطوط کی تدوین کا اعلیٰ ذوق رکھنے کے ساتھ اس صنف سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں اور اس تحقیقی مجلے کے تیسرے ہی شمارے کو’’مکتوبات نمبر‘‘کے طور پر شائع کرنا ،اِن کے اسی ذوق کا باعث ہے۔
۲۰۲صفحات پر محیط تعبیرمیں نو(۹)مضامین ہیں،مجلے کااداریہ مکتوب نگاری کی نزاکتوں اور اس کی تاریخی اہمیت کو سمیٹے ہوئے ہے۔الفاظ کی مسحور کن نشست وبرخاست نے اداریے میں حسنِ ادا کی فضا بنا دی ہے اور زبان وبیان کے اس پُرلطف انداز نے اداریہ نویسی میں ایک معنی خیز بول چال کی رسم کا آغاز کیا ہے۔مدیر کے اسی شاعرانہ ومحققانہ اسلوب کی لپک جھپک اور غزلیہ آہنگ سے مالا مال اظہاریہ کی چندجھلکیاں اداریہ سے ملاحظہ کیجیے:
’’اس(مکتوب) میں خود کلامی کے عناصر بھی جلوہ گر ہیں اور ہم کلامی کی خوش بو بھی ،اس کے حیطۂ ادراک سے باہر نہیں۔ یہ کسی بھی انسان کے داخلی جذبوں کا اظہاریہ بھی ہوتا ہے اور اس کے خارجی رنگوں کا اشاریہ بھی۔ اس میں رنگ بھی ہوتے ہیں اور بے رنگی بھی۔آرٹ جب حسنِ خیال کی رعنائی سے فائن آرٹ بن جائے تو اس کے رنگوں کی بہار دیدنی ہوتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اس فن نے کہیں کہانی کے باطن سے اپنا اظہار کیا۔ اس میں کہانی کے کئی زاویے نمو پذیر ہوئے۔ یہ مراسلے سے مکالمہ بنا تو اس میں بے تکلفی کے رنگ بکھرنے لگے اور یہ خوشبو کی طرح اُڑ کر دلوں میں اُترنے لگا۔‘‘
تعبیرمیں شامل مضامین کے سرنامے محققانہ زاویۂ فکر رکھنے والے قاری کوچونکادیتے ہیں:’’علامہ اقبال کا ایک نَو دریافت خط‘‘از حسن نواز شاہ،’’علامہ اقبال کے حوالے سے ایک نادر مکتوب کی بازیافت‘‘ازطارق الیاس اور ’’مولانا امتیاز علی خاں عرشی کے چار پوسٹ کارڈ‘‘از سفیر اختر ،خیابانِ مکتوب نگاری میں نئی بنیادوں کی بازیافت ہیں۔ظفر حسین ظفر کا مضمون:’’سیّدابوالاعلیٰ مودودی کے چند غیر مطبوعہ مکاتیب،مشتاق احمد ساقی کی کاوش: ’’مولانا ابوالکلام آزاد کے پانچ خطوط‘‘اور عظمت حیات کی خوشہ چینی،بعنوان:’’ڈاکٹر سیّدمحمود الرحمن کے نام مشاہیر کے خطوط‘‘خاصے کی چیزیں ہیں، جبکہ اعجاز نقی،محمد توقیر احمد اور فیصل ریحان نے بالترتیب:’’ ڈاکٹر سیّد عبداللہ کے خطوط‘‘، ’’جمیل آذر کے نام خطوط‘‘ اور’’ صاحبزادہ حمید اللہ کے تین خطوط‘‘میں مکاتیب کے ہمہ جہت دریچوں کو وا کرنے کی سعی کی ہے۔
مجموعی طور پر تعبیرکا شمارہ:۳،مکتوب نگاری کی راہ میں ایک اہم سنگِ میل اور نادر دستاویز ہے۔بقول ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر:’’مقالہ نگاروں نے آسمانِ ادب کے کتنے ہی ستاروں کے خط تعبیرکے طاقِ ابد پر رکھ دیے ہیں،یقیناً وقت کی رو اِن چراغوں کی لَو کو بڑھاوا دیتی رہے گی اور تعبیر کے طاق پر رکھے یہ چراغ روشن رہیں گے۔‘‘
تعبیرکی اشاعت کی بدولت علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں رائج تحقیقی و علمی رویوں کی بلندیاں اور تعلیمی عمل کی رفتار آشکارہوتی ہے،جن کے پیچھے ادارے کی انتظامیہ اور شعبۂ اردوکی مخلصانہ قیادت کی اَن تھک جہدِمسلسل صاف طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔