احمد جاوید: کہانی کار، داستان گو، رات کی رانی

احمد جاوید : کہانی کار، داستان گو، رات کی رانی

(ڈاکٹر رفعت اقبال)

ادبی دنیا میں احمد جاوید ایک ایسے صاحبِ فکروفن افسانہ نگار ہیں جنہوں نے انیس سو ستر کی تلاطم خیز دہائی میں اپنی وقیع کہانیوں کے بل بوتے پر تخلیقی شناخت و مقام کو مستحکم بنا لیا تھا۔یوں وہ کئی ادبی نسلوں کے پیش رو ہوتے ہوئے معروف قد آور افسانہ نگاروں کی اس صف میں شامل ہیں جن کا تخلیقی کام روشن مثالوں کی حیثیت رکھتا ہے اور جن کا نام لیے یا حوالہ دیے بغیر ادبی روایت کا تسلسل باقی نہیں رہتا۔احمد جاوید نے ایک پورے عہد کو بِتایا،تخلیقی سیلف کا حصہ بنایا اور عمیق مشاہدے،گہرے ادراک و شعور،متنوع دبیز فنی وسائل کو اُسلوبیاتی انفرادیت کے ساتھ بروئے کار لا کر اردو کہانی کے دامن کو گہر بار کیا ہے۔ اُن کا چوتھا افسانوی مجموعہ ’’رات کی رانی‘‘کے نام سے رواں سال کے آغاز پر اشاعت پذیر ہوا اور پہلی تین کتابوں کے ساتھ یکجا بھی کر دیا گیا ہے جس سے عام قاری اور ناقد دونوں کو سہولت بہم ہو گئی ہے۔۔اس طرح احمد جاوید کی چاروں کتابیں نئے اور کُلیتی نقدو نظرکے ساتھ زیرِ تجزیہ لائی جا سکیں گی۔یہاں نو آمدہ کتاب ’’رات کی رانی‘‘ کے حوالے سے سماجی تناظر کو سامنے رکھتے ہوئے چند ایسے نکات کی طرف اشارہ کرنامقصود ہے جو بہت واضح دکھائی دیتے ہیں۔
یہ بات تو احمد جاوید نے پیش لفظ میں خود ہی کہہ دی کہ اُن کی کہانیوں کے دیگر مجموعوں کی طرح یہ کتاب بھی یک رنگی کی صفت لیے ہوئے ہے اور یہاں یہ یک رنگی عورت کو ان کہانیوں کا موضوعاتی مرکزہ بنانے کے سبب ظہور پذیر ہوتی ہے۔ واقعہ یہی ہے کہ یہ تمام کہانیاں فکری دبازت اور فنی مشاقی کے ساتھ مختلف تاریخی و سماجی، ثقافتی و نفسی یا معاشی و طبقاتی زاویوں سے اسی بے پایاں جہانِ معنی کے در وا کرتی ہیں جو زمانہٗ قدیم ہی سے شعرو ادب کے لیے کشش انگیز رہا ہے۔گزشتہ چند ادوار سے عورت کی وجودی معنویت یا تاریخی و عمرانیاتی مقسوم کو شعورِ نو کے ساتھ زیرِ بحث لایا گیا اور بالخصوص سماجی فلسفہ و ادب کی وساطت سے ایسے سوالوں کے چند در چند جوابات فراہم ہوئے جو کئی اہلِ فکر و تخلیق کے لیے پُر اسرار،ناقابلِ اعتنا یا ناقابلِ کشود عقدوں کی حیثیت رکھتے تھے۔جدید زندگی کے نت نئے تجربات جن مزیدپیچیدگیوں کو جنم دیتے چلے جاتے ہیں ،آج کے لکھنے والے،مرد ہوں یا عورتیں ،ان کی گرہوں کو سُلجھانے میں مصروف ہیں۔احمد جاوید نے بھی یہ کہانیاں لکھ کر شعورو آگہی کا قرض ادا کیا ہے ۔ان کہانیوں میں ایسے معاصر سماج میں عورت کی تقدیر ،ذات ،ذات کی نفی و اثبات کا سوال اُٹھایا گیا ہے جس کا بیش ترحصہ بعض صدیوں پُرانی قبائلی جاگیردارانہ ساخت،اقدار،کرداری رویوں یا نفسیات کے ا ثر میں ہے۔بعض کہانیوں مثلاُ’’بیر بہوٹی‘‘ یا ’’قصہٗ غم کی ہیروئن‘‘میں تاریخی و سماجی تناظر بہت اُجاگر کیا گیا ہے۔ماضی قدیم میں زرعی وپدر سری نظام کے متشکل و مستحکم ہونے کے بعد عورت کی لا فرد تقدیر بھی ترتیب پذیر ہو کر صدیوں کی زندانی ہوئی۔یہاں تک کہ آج اکیسویں صدی میں صنفی مساوات کا دعویٰ رکھنے والے جدید تر معاشروں میں بھی متنوع تہذیبی و سماجی مظاہر یا شماریاتی تجزیے صنفی استحصال و امتیازات روا رکھے جانے کی تصدیق کرتے ہیں۔اس ضمن میں جہانِ سوم کی صورتِ احوال کئی حوصلہ افزا تغیرات کے باوجود زیادہ گھمبیراور الم ناک ہے۔
اپنے طویل تخلیقی سفر میں اس نوعیت کے حقائق احمد جاوید کی نظر میں رہے ہیں۔اس ذیل میں اُن کے ۱۹۸۳ء میں شائع ہونے والے پہلے مجموعے ’’غیر علامتی کہانی ‘‘اوراب حالیہ چوتھے مجموعے’’رات کی رانی‘‘کے انتساب بھی توجہ طلب ہیں جو بزرگ ماؤں کے نام کیے گئے ہیں۔ اُن کے یہاں معاصر سماج کے کثیر حصے میں عورت کی صورت حال کے حوالے سے پہلے مجموعے میں بھی حساس تخلیقی ردِعمل کا اظہارملتا ہے جب مذہب کا لبادہ اوڑھے فوجی آمریت کے جابرانہ ریاستی قوانین کا سامنا خواتین کے علاوہ پوری قوم کو تھا۔جبر اپنی مزاحمت بھی ساتھ لاتا ہے۔مزاحمت کی ایک صورت تلخ سماجی احوال کااس طرح موٗثر تخلیقی اظہارہے کہ اُس کی خوش گوارتقلیب کا شعور فروغ پذیرہو۔ فکشن کے معروف نقاد ڈاکٹر انوار احمد نے ’’غیر علامتی کہانی‘‘میں شامل افسانے ’’زنجیر‘‘کے موضوع کا ذکر ان الفاظ میں کیا تھا۔
’’پاکستانی معاشرت میں ناخواندہ اور نیم خواندہ عورت کو بیوی بننے کے بعد جس طرح مرد کی جانب سے مسلط کردہ جنسی،جسمانی اور ذہنی تذلیل کو عبادت کے طور پر قبول کرنا ہوتا ہے،اُس پر احمد جاوید نے ایک بہت عمدہ افسانہ ’’زنجیر‘‘کے عنوان سے لکھا ہے جس میں روایتی بیانیہ سے ہٹ کر پیرایہٗ بیان تو اپنا مخصوص ہی رکھاہے مگر یہ بے حد موئثر افسانہ ہے جس میں مجید امجد کی اعلیٰ افسانوی نظموں کی جھلک موجود ہے۔‘‘
احمدجاوید کا چوتھا مجموعہ ’’رات کی رانی‘‘اپنے عنوان کی معنی آفریں بلاغت کے ساتھ اسی موضوع کی توسیع ہے۔تکمیلیت کا احساس دلاتی یہ کہانیاں بھی خلاق فن کارانہ شعوراور درد مندانہ احساس میں گُندھی ہوئی ہیں۔ مثلاً ’ ’بیر بہوٹی‘‘مرد عورت کے ازدواجی رشتے کے حوالے سے متعلق سماجی رسم سے آغازہوتی او ر مرحلہ بہ مرحلہ آگے بڑھتی ہے ۔اس رشتے کے بغیر انسانی معاشروں میں ربط و تنظیم کو مذاہب کے علاوہ اکثر علمائے عمرانیات نے محال سمجھا ۔کہانی میں بالا دست مردانہ تشکیلات کے تحت مروج ،اس کی افسوس ناک نوعیت سامنے آتی ہے۔یہاں تاریخی تناظرات کے ساتھ پاکستانی سماج میں عورت کے اُن ارتقا پذیر تقدیری امکانات کو سامنے رکھتے ہوئے کہانی بُنی گئی ہے جنہیں اُس نے اپنی جدوجہد سے خود متشکل کرنا ہے ۔عالمی تحریکِ نسواں کی ردِ عملی نظریہ ساز سیمون دی بووا (Simone De Beavoir)کے مطابق:
’’جس لمحے عورت کو ایک شخص تصور کیا جاتا ہے،تب اُسے اُس کی مرضی کے بغیر فتح نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
احمد جاوید نے اپنے پرت دار،رمزیہ بیانیے میں زمانی حد بندیوں کو تحلیل کردینے والی تکنیک کو استعمال کر کے غیر مساویانہ پدر سری معاشروں کی تاریخ کو سمیٹااور اسی محولہ بالا حقیقت سے متصل نکتے کی طرف توجہ دلائی ہے۔کہانی میں حال کا منظر نامہ بھی یہی ہے۔ رسمیاتی متعلقات کی بیان کردہ صورتِ واقعہ دیکھیے:
’’اُس نے لکھا،یہاں سب خوش ہیں۔قلعہ فتح ہوچکا ہے اور فوجیں اندر داخل ہو گئی ہیں۔۔۔۔ہر طرح کا مالِ غنیمت،سازو سامان اور نوادرات دیکھنے کے لائق ہیں۔۔۔۔بیشتر نے اُنگلیاں دانتوں میں داب رکھی ہیں۔۔۔مگر کچھ کی پیشانی پر شکنیں بھی ہیں۔۔۔شاید اُن کی توقع سے کم ہے مگر سب دیکھ رہے ہیں۔‘‘ ( بیر بہوٹی ، ص۱۱)
المیہ یہ ہے کہ دُلہن کا کردار بھی اسی مالِ غنیمت کا حصہ ہے جسے عُرفِ عام میں جہیز کہا جاتا ہے اور جو متن کے مطابق بعض صورتوں میں عورت کے وجود سے زیادہ بیش قیمت ہو جاتا ہے۔اس افسانے سے اُجاگر ہونے والا ایک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ موجودہ سماج میں بوجوہ بہت سی تعلیم یافتہ عورتوں کواظہارِ ذات اور انسانی وجودی معنویت کو تسلیم کرانے کا قضیہ درپیش ہوجاتا ہے۔کہانی کا مرکزی کردار اپنے ہونے کا اعلان لکھنے کے عمل سے کرتا ہے۔قلم دوات چھن جانا اُن پابندیوں اور لگے بندھے غیر تخلیقی معمولات کی طرف اشارہ کرتا ہے جن سے کئی طباع،باشعور حقیقی کرداروں کو معاشرتی ساخت و ترجیحات کے باعث گزرنا پڑ تا ہے۔سوچ سکنے اور لکھ سکنے کا تکراری اشارہ جہاں قدرے تغیر پذیر سماجی صورتحال کا عکاس ہے،وہیں تخیلی مثالیے کی موجودگی کا پتہ دیتا ہے۔ایسے ہی تخیلی مثالیے کی موجودگی عمر کے دورانیے میں کیفیتِ انتظار پیدا کرتی ہے جس سے مخصوص تشکیلاتی جبرمیں فردی وسماجی کیفیتِ حال بھی نمایاں ہو جاتی ہے۔
’’۔۔۔اُس نے لڑکی کے جاتے ہی جھک کر میز کے نیچے سے تہ کیا ہوا کاغذ اُٹھایا،کھولا اورروشنی کے قریب لا کر پڑھا ۔۔۔لکھا تھا۔۔۔یہ نمائش کا دن ہے۔۔۔آج پھر کچھ لوگ دیکھنے آ رہے ہیں۔۔۔۔تم کب آوٗ گے؟۔۔۔‘‘  (بیر بہوٹی۔ص۱۷)
احمد جاوید کی ایک اور کہانی ’’قصہٗ غم کی ہیروئن‘‘میں محبوبیت سراب بن کرسامنے آتی اور مثالیاتی رومان کو شکستہ کر دیتی ہے۔’’بیر بہوٹی‘‘میں برتی گئی تکنیک،زمانی وسعت اور احمد جاوید کے بلیغ،تکراری اُسلوب نے اس کے تائثر کو دوچند کر دیا ہے۔ شے کی طرح سمجھا جانے والامرکزی کردار وجودِ اصل اورسماجی وجود میں منقسم ہے۔موٗخر الذکر پر کتنے ہی تاریخی ادوار یا عمر بیت چلی ہے اور وجودِ اصل یا تخلیقی ذات سماج کی نفی کے باوجود ،بہر حال ،شگفتہ و شاداب ،جیتی جاگتی،سانس لیتی اور خود کلامی کرتی ہے۔کہانی ختم ہو جاتی ہے لیکن جاری رہتی ہے۔۔۔۔احمد جاوید کی اس فکر انگیز،اثر آفریں کہانی سے ایک اور بنیادی نکتہ یہ ابھرتا ہے کہ صدیوں کا کڑا سفر طے کرنے کے بعد اس عہد کی عورت نے اور خاص طور پر جدید عہد میں نسبتاً پس ماندہ پاکستانی سماج کی تعلیم یافتہ عورت نے حقیقی باشعور جدو جہد سے اپنے ہونے کی گواہی خود دینی ہے۔وہ کئی صورتوں میں ایسا کر بھی رہی ہے۔بحیثیتِ مجموعی علم و قلم یا لکھنا سیکھ لینے کا عمل نوعِ انسانی کے لیے عظیم انقلابی پیش رفت تھی جو وجہِ شرف و فضیلت اور خود آگہی کا وسیلہ بنی۔اس تاریخی و فکری تناظر میں متذکرہ کہانی کی آخری سطر ان بامعنی ارتقائی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتی ہے جن کے مثبت امکانات متنوع پس ماندگیوں کے باوجود گردو پیش میں موجود ہیں۔
’’۔۔۔تو اُس نے لکھا۔۔۔نہ اُس کے پاس قلم ہے نہ کاغذ ہے نہ دوات۔۔۔مگر اُس نے پھر بھی لکھنا سیکھ لیا ہے۔‘‘ (بیر بہوٹی۔ص۱۷)
یوں تاریخی و عصری حسیت سے ثروت مند بالغ نظری کے ساتھ وجودِ نسواں کے سیاق و سباق کو فنی گرفت میں لے کر مستقبل کی جہت کو کہانی کے عُمق میں رکھ دیا گیا ہے کہ آگہی،خود شعوری،خود اعتمادی کے بتدریج حصول سے غیر انسانی ،غیر مساوی طرزِ زیست یا ملکیت و تصرف کے رواجوں سے آزاد ہو کروجودی اظہار و اثبات کا راستہ ماضی کی نسبت کم تاریک ہے۔
’’گالی‘‘کے عنوان سے لکھی گئی کہانی بھی مجموعی طور پر پاکستانی سماج میں پائے جانے والے روایتی مردانہ تصورات و اقدار اور ان کے نتیجے میں مرتب ہونے والی نفسیات کے باہمی تصادم سے عبارت ہے۔اس معاشرے میں ذاتی ملکیت و تصرف کے اصول پر مبنی رواج نسل در نسل منتقل ہوتے ہیں۔اس رواجی وراثت کے حامل مرد عورت دونوں ہوسکتے ہیں۔کہانی میں ایک عورت ہی ماں کی صورت بیٹے کو باور کراتی ہے کہ :
’’یہ تو مرد کے ہاتھ میں ہے جسے چاہے بیاہ لائے۔‘‘  (گالی۔ ص ۱۸)
کہانی کا متلون مزاج مرد کردار نچلے متوسط طبقے کے ایسے روایت پرستوں کی نمائندگی کرتا ہے جن کے لیے عورت پر اعتماد کرنا ممکن نہیں ہوتااور جن کے لیے عصری سماجی تغیر و تبدل،تعلیم کا عام چلن،عورت کی معاشی خود انحصاریت،بڑھتا ہوا فعال سماجی کردار یا خود اعتمادی زمانے کی خرابی و بد چلنی کا مظہر بن جاتی ہے۔اس کردار کے لیے :
’’ یہ تعین کرنا مشکل تھا کہ سڑک پر جانے والی عورت اور سٹاپ پر کھڑی سکولوں اور کالجوں کو جانے والی لڑکیوں کی اصل منزل کیا ہے؟۔۔۔بسوں میں اور چوراہوں پہ اور دفتروں میں کام کرنے والی عورتوں کے بارے میں اس کا ذہن فوراً کوئی افسانہ بنا لیتا تھا۔‘‘  (گالی۔ ص ۱۹)
عورت کے بارے میں خام،روایتی تصورات و تعصبات کے اسیر اس کردار کی یہ سوچ جمی جمائی گھریلو زندگی کے لیے تباہ کن الفاظ کہلواتی ہے۔یوں عورت کی روح سے لپٹی مردانہ شک کی آکاس بیل ایک ایسے رشتے کو بے نمو کر کے شکستہ کر ڈالتی ہے جو دو انسانی اکائیوں کے ما بین محبت،ہم آہنگی،اعتماد کی بجائے تصرف و ملکیت،اتفاق،فطری بشری احتیاج یا فقط سماجی ضرورت کی اساس پر اُستوار ہوا تھا۔وارث کی طلب اور دعوائے ملکیت کا روایتی تاریخی معاملہ جہاں عورت کی آلہٗ کار حیثیت کو ظاہر کرتا ہے،وہاں بطور ماں اس کے منتقم ردِ عمل کا اظہار کہانی کو قدرے غیر متوقع موڑ سے گزار کر اختتام پذیر کرنے میں معاونت کے علاوہ بعث کی اس روایت کی طرف بھی قاری کو متوجہ کرتا ہے جس کے مطابق بچے کی شناخت ماں کے حوالے سے متعین ہوتی ہے۔عورت کا اپنے مرد نہ ہونے کا افسوس اور لا چار صورت حال میں اپنی عصمت کی نفی کرتے ہوئے مرد کو پدری احساسِ ملکیت سے محروم کرنا نفسیاتی سطح پر مرد/ عورت جوڑے کی فوقیتی ترتیب کو اُلٹ دینے کے علاوہ متذکرہ نوع کے ازدواجی بندھن کی وقعت پر بھی سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔
کہانی’’پارسائی کی گرہ‘‘کا پُرکشش نسوانی کردار بھی نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔یہ لڑکی کم عمری میں خود سے خاصے بڑے شوہر کی دوسری بیوی بن گئی اور شادی سے قبل اپنے شوہر کو دیکھ تک نہیں پائی۔ بظاہر شگفتہ و بے نیاز انداز و ادا سے پتہ نہیں چلتا کہ اب اُسے آسائشِ زیست کے علاوہ بھی کچھ درکار ہے لیکن افسانے کے آخر میں کُھلتا ہے کہ حیاتی تقاضوں کی نوعیت و اظہار بیک وقت سادہ و پیچیدہ ہے۔یہی سادگی و پُرکاری کہانی کے اُسلوب اور برتاوے میں بھی در آئی ہے۔احمد جاوید کے باریک مشاہدے اور انسانی نفسیات کے اُن معروف پہلووٗں سے فن کارانہ آگاہی کی تحسین واجب ہو جاتی ہے جنہیں وہ اپنا موضوع بناتے ہیں۔ لڑکی کا تمسخرانہ انداز ،اور وہ بھی عام سرکاری تنخواہ دار طبقے کے ادھیڑ عُمرمردوں کے حوالے سے،نہ صرف اس کردار کی نفسی گرہ کھولتا ہے بلکہ طے کردہ سماجی تشکیلات پر بھی تمسخر کا رنگ اختیار کر لیتا ہے۔تمسخر یا مضحک کی صورتیں معاشرتی معیارات و مظاہر کے اندر موجود ہیں۔بعض اوقات ان کا بے جوڑ پن،نقص،تضادات،عدم تناسبات یا بالفاظِ دیگرمضحک پن بہت نمایاں ہوتا ہے۔عدم تناسبات و تضادات کا یہ سلسلہ مروجہ مذہب،سیاست،معیشت،معاشرت سے لے کر افراد کی نجی زندگیوں،حالتوں تک پھیلا ہوا ہے۔سماجیات میں یہ جستی معیارات اتنے تسلسل کے ساتھ برتے جاتے ہیں کہ ان پر حیرت بھی حمق کا درجہ اختیار کر لیتی ہے۔
’’میں نے ایک روز اُس سے پوچھا،’’جب تُم نے اس کو دیکھا بھی نہیں تھا ،اس سے شادی کیسے کر لی؟اسے میری یہ بات بڑی احمقانہ سی لگی اور پھر ہنستے ہنستے کہنے لگی’’اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔‘‘ (پارسائی کی گرہ ۔ص۴۵)
کہانی کے عنوان اور متن میں سموئے ہوئے وقوعے کے دیگر معنوی اَطراف سے صرفِ نظر کر کے دیکھا جائے تو واحد متکلم مرد کردار کی نسبت بھی کسی ایسی لڑکی کے ساتھ طے کی جا چکی ہے جسے اُس نے دیکھا تک نہیں۔یوں واضح ہوتا ہے کہ بالعموم مختلف سماجی و ثقافتی ،معاشی و طبقاتی یا نفسیاتی وجوہات کے باعث انسانی رشتوں،افراد،خاندانوں کے مقدر کے فیصلے قلب و ذہن کی اُمنگیں نہیں بل کہ رواج و روایت طے کرتے ہیں اور اس تقدیسی،تحکمانہ دباؤ کی قتیل صرف عورت نہیں مرد بھی ہوتا ہے۔جدید صنفی تحریک کے اثرات و مباحث کی ذیل میں اس سے ایک ایسے نسبتاًمتوازن نقطہٗ نظرکا پتہ ملتا ہے جونوعِ انسانی کاعظیم کُل بناتی اساسی اکائیوں کوفکری سطح پر متحارب فریقین کے طورپر دیکھنے کی بجائے سماجی معروض کو زیادہ اہم سمجھتا ہے۔
افسانہ ’’رات کی رانی‘‘کے دونوں نسوانی کردارمخصوص فردی و سماجی صورت حال میں مردوں کی بے وفائی،بے اعتنائی یا کٹھور پن کے مارے ہوئے ہیں۔یہی اشتراک دونوں کو ذرا دیر کے لیے یک جا کر دیتا ہے۔ افسانے کے آخری حصے میں اس انتخابی ، ترجیحی نکتے کو اجاگر کیا گیا ہے کہ فطرت سے گریز پا اور مجبور ردِعملی جذباتی مفاہمت پر فطرت کی آواز غالب آتی ہے ۔ مزید یہ کہ بعض انفرادی نفسیاتی رویوں کے اسبا ب جسمانی تشنگیوں میں تلا ش کیے جا سکتے ہیں۔
’’تیسرا رنگ‘‘ایک ایسی کہانی ہے جس میں محکمہٗ جنگلات کے ایک چھوٹے افسر کے متکلمانہ بیانیے کی وساطت سے جنگل کی فضا و ماحول کو تخلیق کر کے عام انسانی ا ور دراصل پاکستانی معاشرے میں کارفرما جنگل کے قانون اوراستحصال کے بظاہر بے ضرر دکھائی دینے یا سمجھے جانے والے سفاک معمول کو سامنے لایا گیا ہے۔جنگل کے سپاہیوں کے استحصالی رویے کا ہدف بے معاش، لا چار،بیماردیہاتی مردوں کے کچے گھروں کی عورتیں ہیں۔ان عورتوں کی مجبوری اور کمزوری،ہمیشہ کی طرح،انہیں سپاہیوں کی چیرہ دستی کا شکار بناتی ہے۔چشم پوش ،بد عنوان نظام میں طاقت ور ٹمبر مافیا اور سفارشی شکاری اپنا کام کرتے رہتے ہیں ۔حکومت بدلنے پر کسی دوسرے با اثر گروہ کی جگہ بنانے کے لیے کارروائی بھی ہوتی ہے لیکن سپاہیوں کے اختیار سے تجاوز معمول میں فرق نہیں پڑتا۔جنگل کے خطرناک ،جھولتے پُل پر سے گزرنے کی ناگزیر مجبوری کے احساس اورخوف کی پیدا کردہ صعوبت سے دوچار ،گردو پیش کی زندگی کی زد میںآئی ہوئی کم سِن،معصوم لڑکی کی آنکھوں میں تحفظ کا سوال دیکھ کر متکلم افسر کی غیر ارادی تنبیہ سپاہیوں کواسے مزید ستانے سے باز رکھتی ہے ۔بظاہرمتکلم افسر کو لڑکی کے خوف و سکون کی بدلتی کیفیات دیکھنے سے دلچسپی ہے جن کا تعلق پُل پر چڑھنے اُترنے سے ہے۔اس نگراں دلچسپی اور جوابی متشکرانہ،حیاآمیز،شناسامسکراہٹ کا سلسلہ افسر کی چند روزہ غیر حاضری سے ختم ہو گیا۔عارضی تحفظ کی چھتری ہٹنے پرسپاہیوں کے لیے اناڑی،خوف زدہ لڑکی کو ڈھب پر لانے کا موقع میسر آیا اور یوں اس نے چند ہی دنوں میں جُھولتے پُل پر بھاگنا سیکھ لیا۔جنگل اپنے قاعدے اور تجربے سے جلد یا بدیر نوخیز نو واردوں کو آگاہ کر دیتا ہے۔جنگل کے قانون پر اُستوار انسانی معاشرے بھی یہی کرتے ہیں۔دونوں کی حدِ فاصل ہے بھی تو درحقیقت نہیں ہے۔ چنانچہ کہانی کے متن کے مطابق بھی معاملہ اخلاقیات،انسانی اقدار یاآدرشوں کی بجائے رموزوقوانینِ فطرت اور جبلت کا رہ جاتا ہے۔
احمد جاوید کی تخلیقات میں ایسے فنی وسائل کا خوب صورت استعمال ہوتا چلا آیا ہے جن کا تعلق شاعری اور فکشن دونوں سے ہے۔بل کہ آج کل تو ان کے تخلیقی بہاوٗ کا رُخ باقاعدہ نظم نگاری کی طرف بھی ہے۔اُن کے اُسلوبیاتی مزاج میں کُھردری ،تلخ حقیقت کو گوارا بنانے والی شعری لطافت و جمالیات کا خاصا دخل ہے۔اس کے با وصف اور تمام تر فنی تنوعات و تجربات کے ہوتے ہوئے ،کہانی کے فن کے اپنے تقاضے،پہچان یا معیارات بھی ہیں۔تخیلی صداقت کی بجائے معروضی سچائی سے کہانی کی جُڑت قدرے زیادہ باور کرتے ہوئے اسے حقیقت پسند صنف بھی سمجھا گیا ہے۔ اس لیے اور احمد جاوید کی ترجیحات کے باعث بھی ان کے پُرگدازافسانوں میں بھر پور المیاتی تاٗثر کے ساتھ زندگی کی سفاکی پوری طرح اُبھر کر سامنے آتی ہے۔ چاہے یہ کہانی ’’تیسرا رنگ‘‘ہویا’’جل پری‘‘،’’مورنی‘‘ہو یا’’تتلی‘‘،’’گُم شدہ ستارے‘‘ہو یا’’قصہٗ غم کی ہیروئن‘‘۔ان موٗثرکہانیوں کے نسوانی کرداروں کی فطری انسانی معصومیت،پاکیزگی،الہڑ پن،خوابوں کے لطیف اسرار و تحیر یا جہانِ تمنا کو بتدریج غیر موافق سماجی ماحول میں بے رحم حقائق کے اژدر نگلتے جاتے ہیں۔بقول احمد جاوید کے’’پُھولوں اور تتلیوں کا زمانہ بہت دیر قیام نہیں کرتا۔‘‘ طبقاتی تفریق ،معاشی خلیج،بالا دست سماجی تشکیلات،فرسودہ رسوم و رواج کے غلبے،جنگوں اور ہجرتوں میں تاریخ و عصر کی عورت پر کیا گزری ہے اور کس طور گزرتی ہے؟کس طرح مروجہ نظام طبقاتی حد بندیوں میں انسان کو نا انسان،مجبور،مجہول،لاتعلق یا لافرد بناتے ہیں؟طاقت ورکی بالا دست نفسیات کے مقابل کمزور کی صورتِ احوال، مزاحمت،ردِ عمل،مفاہمت و بقا کے اظہارکی نوعیت کیا ہے؟احمد جاوید تخلیقی ذمہ داری کے ساتھ کئی ایسے سوالوں کوقاری کے حیطہٗ ادراک میں لاتے ہیں ۔ضرور ہے کہ ’’رات کی رانی‘‘ کی کہانیوں کا مفصل تفہیمی و تجزیاتی مطالعہ کئی انتقادی زاویوں سے کیا جائے گا۔البتہ فی الوقت حرفِ آخر کے طور پر ایک بات خاصی سہولت سے کہی جا سکتی ہے کہ احمد جاوید نے اردو فِکشن کی تاریخ میں واضح،مربوط نقطہٗ نظر رکھنے والے صاحبِ فن،روشن فکر،دانش ور ادیب کے طور پر اپنا نقش مزید گہرا اور اَن مِٹ کیا ہے۔