منشا یاد کی کہانیوں کے کردار بولتے ہیں

ایم اے چشتی)

سماج ایک سکول ہے جو انسانی شخصیت بنانے اور بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ انسان اس سکول میں جس قسم کے حالات وواقعات سے دوچار ہوتا ہے وہ اس کی شخصیت میں واضح دکھائی دیتے ہیں۔
منشایاد بھی اپنی ابتدائی زندگی میں مختلف مسائل کا شکار رہے ہیں۔ اس لئے انہوں نے اپنے اردگرد پھیلے ہوئے سماج کی کمزوریوں، ناانصافیوں، ظلم اور زیادتیوں کو محسوس کیا، دیکھا، پرکھا اور اپنے لفظوں میں بیان کیا۔ وہ ہمیشہ معاشرے کے گرے پڑے، پسے ہوئے نچلے طبقے کے لوگوں کی بات کرتے ہیں جن کی اپنی کوئی زبان نہ تھی جو حق بات کرنے کی سکت نہ رکھتے تھے۔ منشایاد اپنے گہرے مشاہدے اور وسیع تجربے کی بنیاد پر سماجی زندگی کے نباض اور نفسیاتِ انسانی کے رازداں کہلائے۔ انہوں نے بناوٹ کے دبیز پردوں میں چھپی انسانوں کی فطری، معصوم اور سچی تصویریں جس طریقے اور سلیقے سے اتاریں ہیں وہ صرف انہی کا فنّی کمال ہے۔ منشایاد ہمیشہ اپنے افسانوں میں خود کو دوسروں کی جگہ رکھ کر دیکھتے ہیں۔ یہ کمال انہوں نے سماج میں پائی جانے والی اُن ناانصافیوں سے سیکھا تھا جو عموماً گرے پڑے، غریب اور کمزور لوگوں کے ساتھ ہوتی ہیں۔
دراصل منشایاد نے جس علا قے میں پرورش پائی وہاں بھٹی اور کھرل قبائل آباد ہیں۔ یہ دونوں قبیلے بہت لڑاکا اور انا پرست ہیں۔ ان میں چودھراہٹ کا جوش خوفناک سمندری طوفان کی مانند نمو دار ہوتا ہے اور غریب لوگوں کے ہستے بستے گھر تباہ وبرباد کردیتا ہے۔ ان کا مزاج کھردرا اور کرخت ہے۔ بات بات پر بگڑ جانا ان کا معمول ہے۔ قتل کرنا وہ شغل سمجھتے ہیں۔ کئی خاندانوں میں نسل در نسل دشمنی چلی آ رہی ہے۔ چوری اور ڈاکہ ان کا پیشہ ہے جس پر وہ فخر کرتے ہیں۔ کمی کاریوں کو وہ زرخرید غلام سمجھتے ہیں جو بیچارے ان درندہ صفت انسانوں کے درمیان بھیڑ بکریوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ منشا یاد اس استحصال زدہ طبقے سے پیار کرتے ہیں وہ انہیں اس دلدل سے نکالنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ان کے دکھ درد کو اپنے دکھ درد میں شامل کر کے ایسا حلول تیار کیا کہ وہ درد منشایاد کا اپنا درد بن گیا جسے انہوں نے لفظوں کی لڑیوں میں پرو کر کہانیوں کی شکل میں کاغذ پر اتارا۔ وہ کہتے ہیں:
”مجھے لت پڑ گئی کہ میں خود کو دوسروں کی جگہ پر رکھ کر دیکھوں۔ ان کی لذتوں، مسرتوں، حسرتوں اوراذیتوں کو محسوس کروں۔ میں نے سینکڑوں روپ بدلے۔ ان گنت قالبوں میں ڈھلا مجھے بہت سی ایسی زندگیوں کے تجربات حاصل ہوتے رہے جو میں نے خود نہیں گزاری تھیںلیکن مجھے ایسا لگتا تھا جیسے میںنے خود گزاری ہیں۔”(۱)
چونکہ منشایاد دیہاتی آدمی تھے، انہوں نے ایک عرصہ گائوں میں گزارا تھا اوروہ گائوں کے ماحول کو خوب جانتے تھے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے دیہی مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا اور اپنے ماضی سے گہرا رشتہ جوڑے رکھا۔ان کی کہانیوں میں ایسا رویہ واضح موجود ہے جو پسے ہوئے، گرے پڑے، پسماندہ اور بے توقیر لوگوں کے مسائل بیان کرتا ہے۔ وہ معاشرتی جبروتشدد اور انسان دشمنی کا ذکر ایک خوبصورت سطر”ان کے منہ میں بھی بھیڑیئے کے دانت ہوتے ہیں”(۲) میں کرنے کا فن جانتے تھے۔ ایسا وہ اپنے گہرے مشاہدے اور وسیع تجربے کی بنیاد پر کرتے ہیں کیونکہ ان کی ابتدائی زندگی طرح طرح کی مشکلات میں گھری ہوئی تھی کبھی ماں کا پیار نہیں، کبھی کھانے کے لئے روٹی نہیں، کبھی پہننے کے لئے جوتا نہیں، کبھی سفر کے لئے کرایہ نہیں اور کبھی دوسروں کو مشکل سے نکالنے کا اختیار نہیں۔ اس لئے وہ پریشان دکھائی دیتے ہیں وہ فکر مند نظر آتے ہیں ان کے اندر لاواپک رہا تھا ان کے لاشعور کے گہرے سمندر میں طوفانی لہریں اٹھ رہی تھیں۔ ابتدا میں ان کی فکر کا دائرہ ان کی ذات تک محدود رہا پھر سماج اور بعدازاں پوری کائنات تک پھیل گیا۔
کردار عموماً دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک مرکزی جبکہ دوسرے ضمنی۔ بعض اوقات ضمنی کردار مرکزی کردار سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کر جاتے ہیں جو کہانی کا رخ موڑ دیتے ہیں۔ کہانی کا سارا دارومدار کرداروں پر ہے۔ کردار جیسے مضبوط، جاندار اور حقیقی ہوں گے کہانی ایسے ہی جاندار، خوبصورت اور دلچسپ ہو گی۔ منشایاد کے زیادہ تر کردار نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ معاشرتی ناانصافیوں کی چکی میں پسے ہوئے کردار ہیں۔ یہ بھوک اور افلاس کے مارے ہوئے مظلوم کردار ہیں جو زندگی کے سفر کو نہ چاہتے ہوئے بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بقول ڈاکٹر اقبال آفاقی:
”منشا کی کہانیوں کے موضوعات اور کردار ہمارے ملک کے اندر موجود تیسری دنیا کے مصائب زدہ اور مفلوک الحال لوگ ہیں جو بیسویں صدی میں سانس لینے کے باوجود تاریک صدیوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں یا مجبور کر دیے گئے ہیں۔ جن پر زندگی شکر دوپہر کی طرح نازل ہوئی ہے۔ جو توہمات کے سہارے اور موہوم امیدوں کو دل میں بسائے زندگی بتا دیتے ہیں اور کنویں کے مینڈک کی طرح عمر گزار کر مر جاتے ہیں”(۳)
دراصل منشایاد نے ایک عرصہ انہی مصائب زدہ مفلوک الحال کرداروں کے درمیان گزارا ہے لیکن شہر آ جانے کے بعد یہ تعلق صرف روحانی بنیادوں پر قائم رہا جس کا واضح اظہار ہمیں ان کے افسانوں میں دکھائی دیتا ہے۔ منشایاد نے ماضی کے ان کرداروں کی متعدد تصویریں اپنی نگاہوں کے کیمرے سے اتار کر لاشعور کے سٹوڈیومیں سجا رکھی تھیں۔ وہ حسب ضرورت ان میں سے کسی ایک پکچر کو اتارتے لفظوں کے فریم میں سجاتے اور قارئین کے سامنے پیش کردیتے۔ وہ ماضی کے ان کرداروں کواپنی فنّی صلاحیتوں کے پیش نظر کہانی میں اس طرح پیش کرتے کہ ہمیں وہ حال کا کردار معلوم ہوتا۔ وہ اپنی کہانیوں میں ہمیں ہماری حقیقی زندگی کی تصویریں دکھاتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر اقبال آفاقی ”وہ کہانی کو جیسا کہ زندگی ہے کی صورت میں بازیافت کرتا ہے۔”(۴) منشایاد زندگی کو چار دن کا میلہ تصور کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے تھے! میںخود اس میلے میں نہیں آیا بلکہ مجھے اس میں لایا گیا ہے۔ ان کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں مگر وہ مجبوراً میلے میں موجود ہیں۔ انہوں نے میلے میں موجود مختلف کرداروں کو اپنی ذہانت اور زیرک سے دیکھا پرکھا اور کہانیوں میں پیش کیا۔ میلے کے یہی کردار منشایاد کی کہانیوں کے کردار ہیں۔ اس میلے کا سب سے بڑا اور اہم کردار ناتوسانسی ہے جو افسا نہ ”ماس اور مٹی” کا مرکزی کردار ہے۔ ماس اور مٹی کا تصور انسان کی حیات اور موت کا استعارہ ہے۔ انسان مٹی تھا جب اس میں روح پھونکی گئی تو وہ ماس بن گیا اور اس ماس کی آخری منزل پھر مٹی ہے۔ یہ ایک سرکل ہے جس میں حیات اور موت رواں ہے۔ جہاں سے خمیر پھوٹا تھا وہیں جا ملے گا اور سب انسان ایک ہی خمیر کی پیداوار ہیں۔ اسی لئے منشایاد کہتے ہے کہ ناتو سانسی کی کہانی میرے اردگرد کی کہانی ہے اور ہم د ونوں ایک ہی گائوں کے رہنے والے ہیں۔ ناتو سانسی کچھ عرصہ پہلے گائوں چھوڑ کر شہر آ گیا تھا۔(۵) شہر میں وہ انوکھی قسم کی چوریاں کرتا ہے یعنی کھانے پینے کی چیزیں باورچی خانوں اور فریجوں سے نکال کر چٹ کر جاتا ہے۔ وہ شربت، بیئر اور سکوائش کی بوتلیں پی جاتا ہے مگر نقدی اور قیمتی چیزوں کو ہاتھ نہیں لگاتا کیونکہ وہ کم ذات نہیں صرف بھوکا ہے۔وہ اپنے پیٹ کی بھوک مٹانا چاہتا ہے لیکن دنیا کے اس میلے میں اس کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں۔ شہر آنے سے پہلے وہ لوگوں کے گھروں میں ڈربوں سے مرغیاں اور باڑوں سے بھیڑ بکریاں چراتا، مارتا اور کھاتا۔ جب وہ مردار کھاکھا کر تنگ آ گیا تو اس نے زندہ جا نوروں کا گوشت کھانا شروع کر دیا۔ لیکن کچھ ہی دنوں بعد ناتو سانسی کا جی گوشت سے بھر گیا۔ وہ کوکا کولا پینا چاہتا ہے، مختلف قسم کے پھل کھانا چاہتا ہے اس لئے اس نے شہر کا رخ کیا ہے۔ پیٹ کی بھوک کے ساتھ ساتھ جنس کی بھوک کی چنگاریاں بھی ناتو کے وجود میں جلنے لگی تھیں اس لئے وہ شہر آتے ہوئے مادو کو بھی اپنے ساتھ گھسیٹ لانے کی کوشش کرتا ہے۔
منشایاد نے ماس اور مٹی کے اس کردار کے ذریعے معاشرے میں پائی جانے والی ناانصافیوں اور کمزوریوں کو بیان کر کے ہماری آنکھوں میں پڑی گرد کو ہٹانے کی کوشش کی ہے۔ جہاں حلال اور حرام کی تمیز ختم ہو چکی ہے ہم اپنا پیٹ بھرنے کی غرض سے دوسروں کا پیٹ کاٹ رہے ہیں۔ اس افسانے میں منشایاد نے فرد کی جنسی بھوک کی طرف بھی اشارہ کیاہے کیونکہ یہ بھوک بھی فطری ہے۔ کہانی کا یہ منظر قاری کے ذہن میں کئی وسوسے پیدا کرتا ہے۔ قاری ایسا سوچنے پر مجبور ہے کہ ناتو مادو کو شہر لے جا کر جنسی بھوک مٹانا چاہتا ہے مگر ایسا نہیں کیونکہ مشرقی سوسائٹی میں ایسا ممکن نہیں۔ دراصل منشایاد نے ایسی منظر کشی کر کے ہمارے معاشرے کی ایک ناپسندیدہ رسم وٹے سٹے کی شادی کی طرف اشارہ کیاہے جو ناتو شہر جا کر اپنی بہن مادو کے بدلے کرنا چاہتا ہے لیکن جب اسے معلوم ہوا کہ مادو مرد ہے نہ عورت تو وہ ہکا بکا رہ گیا اور اکیلا شہر چلا گیا۔
ماس اور مٹی کے اس کردار ایسے کئی کردار ہمارے آس پاس موجود ہیں۔ ایسے کردار سماجی نظام کی تباہی کا سبب ہیں۔ ہمارے اندر لالچ اور ہوس کی جو آگ بھڑک چکی ہے ہم اس کو جائز و نا جائز دونوں طریقوں سے ٹھنڈا کرنا چا ہتے ہیں۔ ایسا معاشرے میں موجود ظلم، ناانصافیوں اور زیادتیوں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ سماج کی ان زیادتیوں کا شکار’ ‘کچی پکی قبریں” کا مرکزی کردار کوڈوفقیر بھی ہے۔ کوڈوفقیر بھی زندگی کے اُس میلے کا حصّہ ہے جس میں منشایاد رہتے ہیں۔ کوڈو قبرستان کے ایک کونے میں چھوٹی سی جھونپڑی میں رہتا ہے۔ وہ بھی سماجی ناانصافیوں کا شکار ہے۔ کوڈوفقیر کے من میں پیٹ اور جنس دو طرح کی بھوک ہے۔ پیٹ کی بھوک مٹانے کے لئے وہ بھیک مانگتاہے اور بوٹی پیتا ہے۔ منشایاد لکھتے ہیں:
”دن کو وہ بوٹی کے چند پیالے پی کر نہر کے کنارے جا بیٹھتا ہے اور اسے ہر چیز سبز نظر آنے لگتی ہے۔ نہر کا سبز رنگ کا پانی دیکھ کر اس کا جی چاہتا ہے کسی بڑے راجباہ کے موگھے کی طرح ڈیک لگا کر نہر کا سارا پانی پی جائے۔ وہ قریبی پل کے نیچے سے بہتی ہوئی نہر کو دیکھتا ہے تو اسے لگتا ہے جیسے نہر کا پانی پل کے نیچے سے نہیں بہہ رہا کسی دیو قامت کوڈو کے حلق میں اترتا جارہا ہے۔ وہ پہروں نہر کے کنارے بیٹھا حقہ پیتا اور خوبصورت خیالوں سے کھیلتا رہتا ہے۔”(۶)
کوڈوفقیر کی بھوک کی شدت دیکھیں کہ وہ راجباہ کے موگھے کی طرح ڈیک لگا کر نہر کا سارا پانی پی جانا چاہتا ہے مگر کوڈو کے لئے عملاً ایسا ممکن نہیں کیونکہ پانی پر بھی انہیں لوگوں کا اختیار ہے جنہوں نے کوڈو کو فقیر بنایا ہے۔ کوڈوفقیرکو چودھری بخشے کی بیٹی نوراں سے عشق ہو گیاہے وہ روزانہ دو بار بھیک مانگنے گائوں جاتا ہے تاکہ محبوب کا دیدار کر سکے۔ کوڈوفقیر اس بات سے آشنا ہے کہ وہ نچلے طبقے کا حقیر اور بے توقیر فقیر ہے اور نوراں اونچے طبقے کی حسین وجمیل لڑکی ہے لہٰذا وصال ممکن نہیں ہے۔ مگراس نے تو ایک تصوراتی دنیا بسائی ہوئی ہے جس میں غوطہ خوری کر کے وہ اپنی آگ کو کم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کوڈوفقیر کی اس تصوراتی دنیا کا نقشہ کھینچتے ہوئے منشایاد لکھتے ہیں:
” نہر کے سبز رنگ کے پانی میں نہانے کے لیے اترتی ہے۔ وہ کالو اور ڈبو کو منہ دوسری طرف کر لینے کی ہدایت کرتا ہے لیکن خود آنکھیں پھاڑے نہر کے اس پار اسے پانی میں اترتے ہوئے دیکھتا رہتا ہے۔ وہ سنہری مچھلی کی طرح تیرتی ہوئی نہر کے وسط میں آ جاتی ہے اور اپنا بدن چھپانے کے لیے بار بار غوتا لگا کر تہہ میں چلی جاتی ہے اور وہ اس کے اوپر آنے کا انتظار کرتا رہتا ہے۔”(۷)
کوڈوفقیر غریب اور پسے ہوئے طبقے کا فرد ہے۔ وہ اپنی مرضی سے جینا چاہتا ہے مگر اسے خوف ہے کہ زندہ اور جابر معاشرے میں شاید وہ اپنی مرضی سے نہ جی سکے اس لئے قبرستان میں وہ خوش ہے وہاں اس پر رعب ڈالنے والا کوئی نہیں۔ وہ اپنی مرضی سے اٹھتا ہے اور اپنے دکھوں کے مداوے کے لئے بھنگ گھوٹ کر پیتا ہے۔ بھنگ پی کر اسے عرش کے کنگرے نظر آنے شروع ہو جاتے ہیں۔ وہ کالو اور ڈبو سے پیار کرتا ہے۔ پیار کی یہ لہر ایسا پلٹا کھاتی ہے کہ اس کے اندر چودھری بخشے کی بیٹی نوراں کے عشق کی آگ دھکنے لگتی ہے۔ نوراں چودھری کی بیٹی ہے۔ وہ جوان اور حسین ہے۔ لیکن کوڈو ایک فقیر ہے چودھری کے در سے مانگ کر کھانے والا۔ کوڈو کو یہ معلوم ہے کہ وہ غریب اور بھیک مانگنے والا حقیر فقیر ہے اور جس راستے پر اس نے قدم رکھا ہے وہ خاردار ہے اس کے پہریدار ظالم ہیں۔ اس لیے وہ عشق کی تصوراتی دنیا میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ منشایاد نے اس افسانے میں کمال مہارت سے معاشرے کی طبقاتی ناہمواری کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کیونکہ انسان تو سب ایک جیسے ہیں ان کے جذبات ایک جیسے ہیں ان کی اصل ایک ہے۔
منشا یاد کے اس میلے کا ایک اور کردار بچہ جمورا ہے جو ان کے افسانے ”تما شا” کا ضمنی کردار ہے۔ بڑا جو کہانی کا مرکزی کردار ہے اپنے بیٹے بچے جمورے کے ساتھ مل کر تماشا دکھا کر روزی کما نے کا دھندا کرتاہے۔ دونوں باپ بیٹابونوں کی ایک بستی میں تماشے کے دوران مختلف کرتب دکھاتے ہیں لیکن بونوں کو خوش نہیں کر پاتے۔ آخر تنگ آ کر بڑا کہتا ہے ”اب آخر میں جمورے کے گلے پر چھری چلائوں گا اور اسے ذبح کر کے دوبارہ زندہ کر دیکھائوں گا۔”(۸) یہ منظر دیکھ کر سب تماشا ئی زور زور سے تالیاں بجاتے ہیں جس سے بڑے کو حیرانگی ہوتی ہے۔ وہ تماشے کے دوران جب بھی اس آخری کھیل کو پیش کرنے کا اعلان کرتا تھا تماشائی اسے ناپسند کرتے اور کرنے سے منع کر دیتے تھے۔ مگر ایسے تماشائی جو چھری چلانے کی بات سن کر تالیاں بجا رہے ہیں بڑے نے پہلی بار دیکھے تھے۔ وہ حسب روایت بچے جمورے کو زمین پرلٹا کر اس پر چادر ڈالتا ہے۔ پھر تھیلے سے چھری نکال کر کہتا ہے ”صاحبان… قدردان… کوئی باپ اپنے بیٹے کی گردن پر چھری نہیں چلا سکتا… نہ ہی اللہ کے پیغمبروں کے سوا کسی میں اتنی ہمت اور حوصلہ ہوسکتا ہے… یہ سب کچھ ایک کھیل ہے… نظر کا دھوکا ہے… اس پاپی پیٹ کی خاطر۔”(۹) اسی دوران مجمع سے بونوں کے سردار کی آواز آتی ہے ”چھری چلائو… چھری چلاؤ”(۱۰) بڑا حیران رہ جاتا ہے اور جمورے کے قریب آ کر چھری چلا دیتا ہے۔ تماشائی تالیاں بجاتے ہوئے آہستہ آہستہ کھسک جاتے ہیں کوئی اسے ایک ڈھیلا تک نہیں دیتا۔ جب وہ جمورے کو آواز دیتا ہے تو وہ کچھ جواب نہیں دیتا بلکہ اس کی خون میں لت پت گردن کٹی لاش ٹھنڈی ہو چکی ہوتی ہے۔ ”تماشا” کے روپ میں منشایاد کی معاشرے پر جسے وہ عموماً میلہ کہتے ہیں کڑی تنقید ہے۔ مادہ پرستی کی وجہ سے انسانی خون سفید ہو چکا ہے۔ پیٹ کی خاطر لوگ اولاد تک قربان کردینے پر تیار ہیں۔ یہ دنیا بونوں کی بستی بن چکی ہے انسانی قدریں کھو چکی ہیں چھوٹے بڑے سب برابر ہو گئے ہیں۔ اس افسانے میں سماجی بے حسی اپنے عروج پر ہے جس کا مشاہدہ غالباً ہم ہر روز کسی نہ کسی حوالے سے کر رہے ہیں۔
منشایاد کے افسانوں کا کوئی بھی کردار لیں اُس کی اپنی ایک الگ دنیا آباد ہے۔ وہ ہمارے ہی سماج کا حصّہ ہے اور ہمارے اردگرد موجود ہے۔ ہم اسے دیکھ رہے ہیں مگر بے حس ہو چکے ہیں کیونکہ ہم غلامانہ زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم اپنی روایات کھو رہے ہیں۔ اس صورت حال میں منشایاد واحد افسانہ نگار ہیں جو دیہی کرداروں کے ذریعے ہمیں عوامی جذبات سے آگاہ کرتے ہیں اُن لوک روایات کی یاد دلاتے ہیں جو ہماری شناخت ہیں۔ ان کے افسانے ”پانی میں گھرا ہوا پانی” کا ایک اہم کردار دتہ کمہار جو محنت مزدوری کرکے روزی روٹی کماتا ہے گائوں سے باہر سرس کے نیچے بیٹھ کر گھگھو گھوڑے بناتا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ وہ ایک ایسا بندہ بنائے جو معاشرتی سوچ کوصحیح سمت فراہم کرنے میں مدد گار ثابت ہو مگر اس سے بندہ بن نہیں پا رہا کیونکہ وہ بانجھ ہے۔ اس کا ساتھی کردار زیناں ہے جو اس کی زرخرید بیوی ہے۔ وہ جوان ہے اور اس کی مست اور منہ زور جوانی کے جذبات کالی ناگن کی طرح پھنکار رہے ہوتے ہیں مگر وہ اپنے جذبات کو دبائے زندگی کے اس مشکل سفر میں دتے کمہار کا ساتھ دے رہی ہے۔ دِتّا کمہار مجبور ہے زیناں کی وجہ سے مایوس ہے وہ اسے ایسا پیوند لگانا چاہتا ہے جس سے زیناں ایک خوبصورت پھل دار لسوڑی کی طرح نیچے جھک جائے۔ جب وہ ایسے جذبات کا اظہار زیناں سے کرتا ہے تو زیناں کے اندر دبی آگ بھڑک اٹھتی ہے اور وہ کہتی ہے ”دتے تم پانی میں گھرے ہوئے پانی ہو تمہیں کیا پتہ آگ کیا ہوتی ہے؟ تم آوی میں چیزیں پکاتے ہو لیکن تم نے آوی میں پک کر کبھی نہیں دیکھا، مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ میں آگ میں گھری ہوئی آگ ہوں۔”(۱۱)
دراصل یہ عورت کے حقیقی جذبات ہیں۔ یہ عورت کے اندر چھپی ہوئی خواہش ہے اور یہ خواہش فطری ہے۔ ”پانی میں گھرا ہوا پانی” میں منشایاد نے عورت کے داخلی جذبات کی عکاسی کی ہے۔ انہوں نے اس افسانے میں ایک ماہر نفسیات کی طرح ایک مجبور عورت کا درد بیان کیا ہے۔ ہمارے سماج میں بہت ساری عورتیں ایسی ہیں جو بکتی ہیں جن کی شادیاں بوڑھوں سے کی جاتی ہیں۔ جنہیں صرف زرخرید کھانا پکانے والی باندیاں سمجھا جاتا ہے۔ ہم یہ نہیں دیکھتے کہ ان کے اندر بھی ایک عورت چھپی ہوئی ہے جو کبھی زندہ ہو گئی تو اس کا سامنا کیسے کریں گے۔ زیناں نے بھی وہی کیا جس کا امکان ایسے ماحول میں ہوتا ہے۔ منشایاد لکھتے ہیں:
”ایک ایسی صبح کو جب منڈیروں پر کوے کلول کر رہے تھے اور چڑیاں چہچہا رہی تھیں دتے کے گھر سے چلم کے لیے جلائے گئے اپلوں کا دھو اں اور زیناں کی چیخیں ایک ساتھ بلند ہو ئیں جو تھوڑی دیر بعد گھنگھریالے قہقہوں میں تبدیل ہو گئیں… اور اسے پتہ چلا کہ گھر کے آنگن میں ایک ننھا سا شرینہہ اُگ آیا ہے۔ پتہ نہیں شرینہہ کے بیج کب اور کیسے گھر میں آئے تھے۔ کیا خبر بیجوں کی کوئی پھلی زیناں کی کھاری یا چنگیر میں آ گئی ہو، کوئی بیج اس کے اپنے جوتوں کے ساتھ چپک کر وہاں پہنچ گیا ہو یا پھر ہوا کے جھونکے اسے اُڑا لائے ہوں۔”(۱۲)
ایسے بے جوڑ رشتے عموماً بہتری کے بجائے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ منشایاد نے ایسے مسائل سے دوچار ہونے والے افراد کے نفسیاتی پہلوئوں کو اپنے بہت سارے افسانوں میں بیان کیا ہے۔ اسی تناظر میں لکھا ہوا ان کا ایک افسانہ ”ساجھے کا کھیت” ہے۔ اس افسانے کا اہم کردار موجو موچی ہے جس کا تانی سے نکاح ہوا ہے۔ تانی ایک اُدھل عورت ہے جسے چودھری شریف دوسرے گاؤں سے بھگا لایا تھا مگر گھر والوں کے دبائو کی وجہ سے چودھری تانی کو اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا۔ اس لئے اس نے تانی موجو موچی کے نکاح میں دے دی اور جہیز کے بدلے موجو کو ایک کھیت حصّے پر دے دیا تاکہ تانی قدرے بہتر زندگی گزار سکے۔ تانی کی تین بیٹیاں بڑی، منجھلی اور چھوٹی تھیں۔ بڑی خوبصورت اور حسین تھی جس کی پورے علاقے میں شہرت تھی۔ ”یوں تو منجھلی اور چھوٹی بھی الگ الگ طرح کے فتنے تھیں جیسے مختلف گھروں سے حاصل کئے گئے بیجوں کے خربوزے۔”(۱۳) لیکن بڑی تو بڑی انوکھی چیز تھی ”جس پر نظر ڈال دیتی اسے وہیں چت کر دیتی۔ آدمی کھلے ہوئے قالین کی طرح دور تک بچھتا چلا جاتا۔”(۱۴) جب سے موجو اور تانی کی بچیاں جوان ہوئی تھیں ان کے گھر کے حالات بدل گئے وہ خوشحال ہوگئے تھے۔ انہوں نے گھر پکا کر لیا حتیٰ کہ گائوں سے شہر تک کی سڑک بھی بڑی کی وجہ سے پکی ہو گئی تھی۔ منشایاد لکھتے ہیں:
”موجو موچی گائوں کا سب سے بے توقیر اور تانی سے نکاح کے بعد رذیل آدمی، جس کے سلام کا جواب دینا بھی ضروری نہ سمجھا جاتا تھااب اپنی جون بدلنے لگا تھا۔ ادریس اکثر آنے لگا۔ کبھی خربوز، تربوز، کبھی چھولیا، کبھی ستو اور کبھی سبزی ترکاری لے کر۔ اکیلے آنا اور پہروں بیٹھے رہنا معیوب لگتا تھا اس لئے اس کے ساتھ کچھ اور لڑکے بھی آنے لگے۔ سب بیٹھ کر حقہ پیتے، گپ لگاتے، لطیفے سناتے اورچاچا موج دین اور چاچی سلطانہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں اور عادتوں کی تعریف کرتے اور اپنے اپنے گھروں اور کھیتوں سے دنیا بھر کی نعمتیں لالا کر ڈھیر لگاتے رہتے۔”(۱۵)
موجو اپنے گھر کے حالات جا نتا تھا مگر خوش تھا کیونکہ اس کے دن پھر گئے تھے۔ اب وہ معاشرے میں ایک عزت دار انسان کے طور پر پہچانا جاتا تھا۔ مال ودولت کی فراوانی ہو گئی تھی۔ لیکن اس ساری صورت حال کو دیکھ کر چودھری شریف کو دکھ ہوتا تھا۔ دکھ یہ نہیں کہ وہ گھر بے راہ روی کا شکار ہے، دکھ اس بات کا تھا کہ چودھری پر اس گھر آنے پر پابندی ہے۔ کیونکہ ایک روز چودھری شریف کا موجو موچی سے جھگڑا ہوا اس نے موجو کو سرزنش کی اور کھیت واپس لینے کی دھمکی بھی دی۔ یہ بات ادریس کو ناگوار گزری اور وہ طیش میں آ گیا اور کہنے لگا! چاچا شریف ”خبر دار جو اس گھر کے کسی فرد سے تم نے کوئی فضول بات کی۔ تمھاری شرافت کو سارا گائوں جانتا ہے۔ ایک کِلّہ زمین کی خاطر تم ان غریب لوگوں پر اتنا رعب جھاڑ رہے ہو، بے شک اپنی زمین واپس لے لومگر آئندہ اس گھر میں قدم نہ رکھنا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا۔”(۱۶) اس واقعہ کے بعد چودھری شریف کا موجو کے گھر آنا جانا بند ہو گیا تھا۔ چودھری کو اس بات کا شدید دکھ تھا مگر اس نے تعلق قائم رکھنے کی غرض سے اور آئندہ موسم میں اچھی فصل کی امید سے زمین واپس نہ لی تھی۔
منشایاد کا یہ افسا نہ ہمارے معاشرے کی جیتی جا گتی تصویر ہے۔ یہاں ہزاروں کی تعداد میں تانی اور زیناں ایسی عورتیں موجود ہیں۔ زیناں نے اپنی سماجی اقدار کو پس پشت ڈالا اپنے جذبات کی آگ کو رات کے اندھیرے میں بجھایا اور اپنے احساس محرومی کو سراب کیا مگر وہ مجبور تھی کیونکہ سماج کی خونخوار آنکھیں اس کے چاروں طرف تیروں کی بارش برسارہی تھیں۔ جبکہ تانی ایک ایسا کردار ہے جو سماج سے اپنے ساتھ کئے ہوئے ظلم کا بدلہ لے رہا ہے۔ تانی نے اس محاذ پر موجوموچی کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ وہ چودھریوں سے چودھریوں ہی کا خون کروارہی تھی۔ وہ چودھریوں کی غیرت کا جنازہ چودھریوں کے ہاتھوں نکلوا رہی تھی۔ جسے کہانی کی صورت میں بیان کر کے منشایاد نے ہماری آنکھوں پر پڑے پردے کو ہٹانے کی کو شش کی ہے۔ منشایاد کے ہاں کرداروں کا دوہرا معیار بھی ہے جس سے ہماری گھریلو زندگی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کرماں ماری غفوراں ا فسا نہ ”شجربے سایہ” کا ایک ایسا کردار ہے جو منہ زور جوانی کی آگ میں بہہ کر گھر سے فرار ہو گئی تھی۔ لیکن کچھ عرصے بعد غفوراں کو تلاش کر کے زبردستی گھر واپس لایا گیا۔ وریامو اور گامو غفوراں کے وجود کو گھر میں برداشت نہیں کرتے وہ اسے مار کر اپنی غیرت کو زندہ رکھنا چاہتے تھے۔ غفوراں کو بھی اس بات کا علم ہے کہ وہ اس گھر میں چند دن کی مہمان ہے وہ اپنے بھائیوں اور ماں سے اپنی جان بخشی کی التجا کرتی ہے وہ ماں کے پائوں پکڑ کر روتے ہوئے کہتی ہے ”ماں مجھے مار، مجھ پر تھوک، مجھے گالیاں اور طعنے دے خدا کے لئے کچھ تو کہہ”(۱۷) ماں بے بس اور مجبور تھی اس لئے کہنے لگی ”میں تیری ماں نہیں ہوں”(۱۸)
غفوراں واقعی مہمان تھی کیونکہ ہماری سوسائٹی میں اُدھل عورتوں کے ساتھ عموماً ایساہی سلوک ہوتا ہے۔ غفوراں کو چند روز بعد واپس اس کے اصلی گھر بھیج دیا گیا جہاں سے کچھ سال پہلے وہ ایک نومولود کی شکل میں سکینہ کی گود میں رحمت کی کرن بن کر کھلی تھی۔ وقت کا دریا بہتا رہا حال ماضی بنا اور مستقبل نے حال کی شکل اختیار کی۔ گامو کی بیٹی صغراں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا۔ وہ حسین وجمیل ہے اور جوانی اس کے اندر زہریلی ناگن کی طرح جھوم رہی ہے۔ صغراں کے گھر کے باہر نوجوان سپیروں کا آنا جانا شروع ہوا۔ راتوں کو بانسریوں، الغوزوں اور فراقیہ گیتوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ جن سے وہ مسرور ہو گئی اور وہ ایک رات گھُپ اندھیرے ترکھانوں کے لڑکے فضلو کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی۔ صغراں کو بھی زبردستی گھر واپس لایا گیا، مارا پیٹا گیا۔ گامو غفوراں کی طرح اس کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دینا چاہتا تھا۔ وہ غصے سے دھاڑا ”ٹوکہ کہاں ہے میں اس کے ٹکڑے کر دوں گا۔”(۱۹) مگر رابعہ نے گامو سے کہا! ہوش میں آؤ غصے میں تم آپے سے باہر ہو جاتے ہو اور ”ٹوکہ پکڑ کر دور اندھیرے میں پھینک دیا اور زمین پر گری ہوئی صغراں کو سہارا دے کر اندر لے گئی۔”(۲۰) اس منظر کو دیکھ کر سکینہ کے اندر دبی مامتا جاگ اٹھی اور وہ غفوراں کو یاد کر کے رونے لگی ”دو ہتڑوں سے چھاتی پیٹنے کی آوازیں آنے لگیں جیسے غفوراں ابھی ابھی قتل ہوئی ہو۔”(۲۱) شجربے سایہ کے آخری جملے افسانے کی ساری کہانی کو ایک نقطہ پر منجمد کر دیتے ہیں۔ یہ منشایاد کی فنکارانہ صلاحیتوں کا کلائمکس ہے۔ انہوں نے جس خوبصورت طریقے سے غفوراں، صغراں، سکینہ، رابعہ اور گامو کے کرداروں کو پیش کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔
منشایاد نے اسی طرح کا ایک اور زندہ کردار افسانہ ”چیزیں اپنے تعلق سے پہچانی جاتی ہیں” کے فیکے مصلی کی بیٹی بی بی کا پیش کیا ہے۔ اس افسانے میں بھی شجربے سایہ کے کرداروں کی طرح کا دوہرا رویہ ہے۔ ایک وقت تھا کہ بی بی کی گھر میں کوئی وقعت نہ تھی ساس ہر وقت گالیاں بولتی رہتی یہاں تک کہ جس روز بی بی کی شادی ہوئی اور وہ گائوں میں پہلی بار آ رہی تھی تو اسے خوش آمدید کہنے والا کوئی نہ تھا۔ گلیوں میں بارش کا پانی، گوبر اور کیچڑ تھا۔ بی بی کی ساس اس کے ساتھ ہمیشہ ناروا سلوک کرتی اور بات بات پر میکے گائوں کے طعنے دیتی۔ بی بی شادی کے بعد کم کم ہی میکے جاتی کیونکہ اس کے میکے گائوں کی شہرت کچھ اچھی نہ تھی۔ وہ چوروں اور ڈاکوؤں کا گہوارہ تھا۔ بی بی کو اکثر میکے گائوں کے طعنے ملتے رہتے تھے مگر اسے اپنا میکہ بہت پیارا تھا۔ ”ایک بار قریبی قصبے کے میلہ مویشیاں میں اس کے گائوں کی ایک بھینس بکنے آئی جسے اس کے سسرالی گائوں کا ایک جاٹ خرید کر لے آیا۔ اسے پتہ چلا تو وہ یوں بیتاب ہو کر اس بھینس کو دیکھنے گئی جیسے وہ اس کی کوئی بچھڑی ہوئی سہیلی ہو۔ اس کے بعد بھی وہ کئی بار اسے دیکھنے گئی اور اس کے حال احوال سے با خبر رہتی۔”(۲۲)
بی بی کے سسرالی گائوں کے نمبردار کے پاس ایک گھوڑی تھی جو بڑی نسلی تھی اور پورے علاقے میں مشہور تھی۔ یہ گھوڑی نمبردار کی بیٹی بانو کو بہت پیاری تھی۔ ایک رات اچانک وہ چوری ہو گئی اور بڑی کوشش کے باوجود نہ مل سکی۔ نمبردار نے گھوڑی کا پتہ بتانے والے کے لئے انعام کا اعلان بھی کیا مگر گھوڑی کا کوئی سراغ نہ ملا۔ اس دوران بی بی کو مجبوراً ایک دن فوتگی کے سلسلے میں میکے گائوں جانا پڑ گیا۔ میکے گائوں کی ایک گلی میں اس کی ملاقات چاچاولو سے ہوئی۔ بی بی نے آگے بڑھ کر سلام کیا اس نے شفقت سے سر پر پیار پھیرا، دعا دی اور پوچھا کہاں بیاہی گئی ہو بیٹی۔ جب بی بی نے سسرالی گائوں کا نام بتایا تو چاچاولو چونک گیا اور کہنے لگا ”بیٹی سسرال واپس جانے سے پہلے ہمارے ہاں ضرور آنا ایک ضروری کام ہے۔”(۲۳) بی بی آنے سے پہلے چاچاولو کو ملنے گئی تو اس نے بتایا کہ تمہارے سسرالی گائوں کی گھوڑی کی شہرت سن کر میرا بیٹا اسے چُرا لایا تھا جسے تم چاہو تو واپس لے جا سکتی ہو۔ بی بی نے فوراً گھوڑی واپس لے جانے کا فیصلہ کیا اور اس کی اطلاع اپنے سسرالی گاؤں دی۔ جب بی بی گھوڑی لے کر گائوں پہنچی تو اس کا پرتپاک استقبال کیا گیا اسے ایسے خوش آمدید کہا گیا جیسے کسی کو کوئی بڑی فتح نصیب ہوئی ہو۔ دراصل یہ بی بی مصلن کی فتح تھی کہ نمبردار کی بیٹی بانو آگے بڑھ کر اسے گلے لگا رہی تھی۔ بی بی ہیرو لگ رہی تھی کبھی وہ اس گائوں میں زیرو تھی۔ منشایاد لکھتے ہیں ”جب بانو نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا تو پانی کا آخری ریلا موہگوں سے گزر چکا تھا اور دور دور تک کیچڑ ملی ریت ہی ریت تھی۔”(۲۴) بی بی بظاہر تو اس استقبال سے خوش ہوئی لیکن حقیقتاً وہ رنجیدہ تھی کیونکہ اس کی اپنی کوئی حیثیت نہ تھی۔
منشا یاد کے ہاں ایک کردار ”پنج کلیان” کی بیگی کا ہے۔ بیگی پیار کی پیاسی ہے۔ وہ چچا کے بیٹے طاہر سے محبت کرتی ہے مگر طاہر شہر میں کسی دوسری لڑکی سے پیار کرتا ہے۔ بیگی نظر انداز کئے جانے پر چڑچڑی، غصیلی اور ضدی ہو گئی تھی۔ ایک روز صبیحہ طاہر سے ملنے گائوں آئی تو بیگی کو اس پر بہت غصہ آیا۔ بیگی نے ہر لحاظ سے صبیحہ کا مقابلہ کر کے طاہر کا دل جیتنے کی کوشش کی۔ مگر وہ سادہ اور دیہاتی ہونے کی وجہ سے ہر دفعہ پڑھی لکھی چالاک شہری لڑکی سے ہار جاتی تھی۔ آخر تنگ آ کر وہ بر والوں کے بھینسوں والے باڑے میں گھس گئی۔ وہ یہ ظاہر کرنا چاہتی تھی کہ وہ شہری لڑکی سے زیادہ دلیر ہے۔ کیونکہ صبیحہ نے بروالوں کی ایک مارنے والی بھینس کی مرہم پٹی کر کے اس کا دل جیت لیا تھا اور بیگی بھی ایسا کارنامہ انجام دینا چاہتی تھی۔ اس واقعہ سے طاہر بہت پریشان ہوا اسے ڈر تھا کہ کہیں بروالوں کی مارنے والی بھینس بیگی کی ہڈی پسلی ایک نہ کر دے مگر ایسا نہ ہوا۔ یہ دیکھ کر طاہر حیران ہوا اور اسے گائوں کے چودھری کی بات یاد آئی کہ ”جو آدمی بزدل اور ڈرپوک ہوتا ہے اور جسے خوف ہوتا ہے کہ اس پر کوئی حملہ نہ کر دے وہی حملے میں پہل کرتا ہے۔”(۲۵) اس لئے بعض اوقات تمہاری چچی اور بیگی تم سے زیادتی کر جاتی ہیں کیونکہ وہ کمزور اور بزدل ہیں وہ خوف زدہ ہیں تمھاری توجہ انہیں اس خوف سے نجات دلا سکتی ہے اور اس سے بیگی کی کایا بھی پلٹ سکتی ہے۔ منشایاد نے ہمیشہ اپنی کہانیوں میں پیار اور محبت کی بات کی ہے۔ پیار سے ہر جنگ جیتی جا سکتی ہے مگر پیار کا خالص اور سچا ہونا ضروری ہے۔
منشایاد کے ہاں ایک شیخ صاحب کا کردار ہے جو امیر گھرانے کا چشم وچراغ ہے اور شوقیہ لڑکیوں کو گھروں میں ٹیوشنیں پڑھاتا ہے۔ شیخ صاحب کا اصل نام آصف ہے اس نے ایم اے کیا ہوا ہے وہ خوبرو، متشرع ہے۔ وہ کچھ دنوں سے رافعی کو ٹیوشن پڑھا رہا تھا۔ جب ”وہ آتا، بلند آواز میں وضو کے لئے پانی مانگتا۔ امی یا پھپھو جائے نماز بچھا دیتیں۔ وہ وضو کر کے نماز ادا کرتا، دعا مانگتا اور مصلا لپیٹ کر کپڑے کی ٹوپی پہنے اس کے کمرے میں آجاتا۔ پھر اچانک گزشتہ سے پیوستہ لیکچر شروع ہو جاتا۔”(۲۶) رافعی جوان اور خوبصورت تھی۔ شیخ صاحب نے رافعی کی نفسیات پڑھ کر کہا۔ ”تم مجھے بہت اچھی لگتی ہو۔”(۲۷) رافعی کو پہلے تو برا لگا مگر وہ جوان تھی ۔اس نے اپنا آپ شیخ صاحب کے حوالے کردیا۔ شیخ صاحب رافعی کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے بناتے ایک روز غائب ہو گئے اور یہی ان کا معمول تھا۔ منشا یاد نے شیخ صاحب کے کردار میں ان لوگوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جو بظاہر نیک اور شریف ہیں لیکن اندر سے کالے ہیں وہ شیطان کے روپ میں انسان ہیں۔ منشایادنے ایسے منافقانہ رویے کو محسوس کیا اور بیان کیا۔ وہ ہمیشہ ایسے رویوں اور کرداروں کے ذریعے سماجی کمزوریوں کو بیان کرتے رہے ہیں۔ منشایاد کے افسانوں میں چند کرداروں کے سوا تمام کے تمام کردار گائوں کے کمی کمین ہیں۔ کیونکہ ایسے لوگ نچلے طبقے سے تعلق کی بنا پر ظلم کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ اس لیے منشایاد نے انہیں اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ان کی طرف محبت کا ہاتھ بڑھایا۔ اس حوالے سے امجد طفیل رقم طراز ہیں:
”منشایاد کے کرداراکثر معاشرے کے انتہائی نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کوڈوفقیر، علیانائی، دتہ کمہار، صادوترکھان، شیرو مہترانی، منشا کے بہت مضبوط کردار ہیں۔ جو معاشرے کے بے زبان طبقے کو پیش آتے ہیں۔ یہ کردار طبقاتی تشدد کے باوجود اپنے باطن میں ایک محبت کرنے والا دل رکھتے ہیں۔ وہ محبت کرتے ہیں اور اپنے محبوب سے وصال کے طلب گار ہیں لیکن درمیان میں طبقات کی فصیل کھڑی ہے۔ یہ کردار اس فصیل میں شگاف ڈالنے کی سکت تو خیر نہیں رکھتے لیکن اپنے جذبات کی تسکین کے لئے دیگر ذرائع اختیار کرتے ہوئے اخلاقیات کے معیار کو یکسر نظر انداز کر جاتے ہیں۔”(۲۸)
حواشی؍حوالہ جات
۱۔ محمد منشایاد، ماس اور مٹی، گورا پبلشرز، لاہور، ۱۹۹۵ء ص فلیپ
۲۔ محمد منشایاد، ڈنگر بولی(دام شنیدن)، مشمولہ:شہرِفسانہ، دوست پبلی کیشنز، اسلام آباد، ۲۰۰۳ئ، ص۱۵۵
۳۔ اقبال آفاقی، ڈاکٹر، منشایاد کے منتخب افسانے، مثال پبلشرز، فیصل آباد، ۲۰۰۸ئ، ص۲۳
۴۔ ایضاً، ص۳۹
۵۔ محمد منشایاد، ماس اور مٹی، مشمولہ:ماس اور مٹی، گورا پبلشرز، لاہور،۱۹۹۵ء ص۵۲
۶۔ محمد منشایاد، کچی پکی قبریں، مشمولہ:ماس اور مٹی، گورا پبلشرز، لاہور،۱۹۹۵ء ص۲۶
۷۔ ایضاً، ص۲۶،۲۷
۸۔ محمد منشایاد، تماشا، مشمولہ:شہرِفسانہ، دوست پبلی کیشنز، اسلام آباد، ۲۰۰۳ء ص۱۰۴
۹۔ ایضاً، ص۱۰۴
۱۰۔ ایضاً، ص۱۰۵
۱۱۔ محمد منشایاد،پانی میں گھرا ہوا پانی، مشمولہ:ماس اور مٹی، گورا پبلشرز، لاہور،۱۹۹۵ء ص۳۳
۱۲۔ ایضاً، ص۳۶
۱۳۔ محمد منشایاد، ساجھے کا کھیت، مشمولہ:شہرِفسانہ، دوست پبلی کیشنز، اسلام آباد، ۲۰۰۳ء ص۳۳۵
۱۴۔ ایضاً، ص۳۳۵
۱۵۔ ایضاً، ص۳۳۲،۳۳۳
۱۶۔ ایضاً، ص۳۳۳
۱۷۔ محمد منشایاد، شجربے سایہ، مشمولہ:شہرِفسانہ، دوست پبلی کیشنز، اسلام آباد، ۲۰۰۳ء ص۲۱۲
۱۸۔ ایضاً، ص۲۱۲
۱۹۔ ایضاً، ص۲۱۷
۲۰۔ ایضاً، ص۲۱۸
۲۱۔ ایضاً، ص۲۱۸
۲۲۔ محمد منشایاد، چیزیں اپنے تعلق سے پہچانی جاتی ہیں، مشمولہ:شہرِفسانہ، دوست پبلی کیشنز، اسلام آباد، ۲۰۰۳ء ص۲۵۳
۲۳۔ ایضاً، ص۲۵۵
۲۴۔ ایضاً، ص۲۵۸
۲۵۔ محمد منشایاد، پنج کلیان، مشمولہ:شہرِفسانہ، دوست پبلی کیشنز، اسلام آباد، ۲۰۰۳ء ص۲۴۰
۲۶۔ محمد منشایاد، جھڑبیری، مشمولہ:خواب سرائے، دوست پبلی کیشنز، اسلام آباد، ۲۰۰۵ء ص۱۳۲
۲۷۔ ایضاً، ص۱۳۲
۲۸۔ امجد طفیل، منشایاد کی افسانہ نگاری، مشمولہ:پاکستان میں اُردوادب کے پچاس سال، مرتبہ:ڈاکٹر نوازش علی، اشاعت دوئم، گندھارا، راولپنڈی، ۲۰۰۲ئ، ص۲۸۷
٭٭٭