میری آپا: اپنی بڑی بہن پہ ایک مضمون

عامر رضا
عامر رضا، صاحبِ مضمون
عامر رضا کا یہ مضمون ایک یونیورسٹی کے امتحانی سوال پر ہونے والے اعتراضات کے ضمن میں لکھا گیا ہے، سوال پہ اعتراض یہ کیاجا رہا ہے کہ اُس میں بڑی بہن پر مضمون لکھنے کا کہا گیا ہے جو کہ ایک معیوب سماجی رویہ تصور کیا جاتا ہے۔ کچھ تنقیدی نقطۂ نظر اس قسم کا بھی پیش کیا جا رہا ہے کہ بہن پر مضمون جس میں اُس کی ’’فزیک اور لوکنگ‘‘ وغیرہ کو مدِ نظر رکھ کے لکھا ہی نہیں جا سکتا، یہ ایک بے ہودہ سوال تھا جس کی سزا کے طور پر یونیورسٹی کے خلاف مقدمہ قائم ہونا چاہیے۔ عامر رضا نے نہایت احسن انداز سے یہ مضمون لکھ کے دکھایا ہے کہ مسئلہ مضمون میں نہیں بلکہ ہمارے اذہان میں ہے جو معاشرے کی دقیانوس ذہنیت میں پروان چڑھتا ہے۔
مضمون کے رائٹس لوک سجاک سے ادھار لیے گئے ہیں، جس کے لیے ادارہ اُن کا ممنون ہے۔
(‘‘مدیر: ’’ایک روزن)
——————————————————-
———————————————
———————————-

مجھے اچھی طرح یاد ہے بچپن میں ہمیں دو لوگ کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ ایک میری والدہ اور دوسری میری بڑی بہن۔ میری دو بہنیں تھیں ایک مجھ سے چھوٹی تھی اور دوسری بڑی ہیں۔ چھوٹی میڑک میں پڑھتی تھی جب وہ ایک حادثے میں اللہ کو پیاری ہوگئی۔ اس کے بعد نہ صرف میری بلکہ ہم تمام بھائیوں کی محبت اور نذر کا مرکز ہماری آپی بن گئیں۔

میرے والد اور والدہ کو اپنی اولاد میں لڑکیوں سے زیادہ محبت تھی جس کی وجہ شاید یہ تھی کہ ان کی صرف دو ہی بیٹیاں تھیں۔ چھوٹی بہن کوبچپن میں مٹی کھانے کی عادت تھی  جس کی وجہ سے والد صاحب  پریشان رہا کرتے تھے۔ وہ اسے اپنے ساتھ آفس لے جاتے تاکہ وہ گھر میں نہ رہے اور مٹی نہ کھائے۔ اس کو اپنی گود میں بٹھا کر آفس کا کام کرتے۔ بیٹیوں سے محبت کی وجہ سے میرے والد نے ہمشہ ان کی ہر خواہش پوری کی۔

مجھے تھوڑا تھوڑا یاد ہے کہ پڑتا ہے کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب پی ٹی وی پر جنگل یا دیواریں ڈرامہ نشرہوتا تھا۔ آپی اس وقت مڈل یا نویں جماعت میں پڑھتی تھیں۔

ہمارے محلے میں سخی محمد ساندل صاحب رہا کرتے تھے جو کہ شہر میں قابل اور محنتی استاد کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ان کی بیٹی آپی کی سہیلی اور ہم جماعت تھیں۔ امتحان کی تیاری کا وقت آیا تو ماسٹر صاحب اپنی بیٹی کے ہمراہ ہمارے گھر رات آٹھ بجے تشریف لاتے اور دونوں کو امتحان کی تیاری کرواتے تھے۔

آٹھ بجے آنے کہ وجہ ان کی وہ ٹیوشن تھی جو وہ شہر کے امرا کے بچوں کو دیا کرتے تھے اور اس سے فارغ لگ بھگ اسی وقت ہوتے تھے۔ آٹھ بجے ڈرامے کا نشر ہونا اور اسی وقت ماسٹر صاحب کا تشریف لانا ہمارے گھر کی فضا کو آپی کے احتجاج اور بے چینی سے بھر دیتا تھا۔ یہ احتجاج اس لیے بھی تھا کہ یہی وقت ان کی تفریح کا ہوتا تھا۔

سکول جانے سے پہلے وہ والدہ کے ساتھ ناشتے کی تیاری میں مدد کرتی تھیں، گھر کا کام کرتی تھیں جس میں بعض اوقات بھینس کو چارہ ڈالنا اور دودھ دوھنا بھی شامل ہوتا۔

ہم اس وقت کوئی ملازمہ افورڈ نہیں کر سکتے تھے۔ سکول سے واپسی پر بھی وہ والدہ کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹاتی تھیں۔ کچھ وقت پڑھائی کو دیتی تھیں اور پھر شام آٹھ بجے کا ڈرامہ ہی ان کی تفریح کا ایک بڑا ذریعہ رہ جاتا تھا اوراب وہ بھی اب ہم جماعت کے ساتھ پڑھائی کی نظر ہونے لگ گیا تھا۔

کچھ عرصے تو گھر والوں نے اس احتجاج کو سختی سے دبانے کی کوشش کی پھر رفتہ رفتہ والد صاحب نے سخی صاحب سے گزارش کی کہ اگر وہ نو بجے آجایا کریں تو بہتر ہوگا۔ یوں آپی کا احتجاج رنگ لایا اور ان کی ٹیوشن کی کا وقت ایک گھنٹہ آگے چلا گیا۔

دیگر ٹین ایجرز کی طرح انہیں بھی عمران سیریز پڑھنے کا بڑا شوق تھا۔ بڑے بھائی صاحب اور آپی پیسے شیر کر کے کرایے پر ناول لاتے تھے۔ والدہ کی نظروں سے چھپ کر عمران سیریز پڑھا کرتے تھے۔ والدہ کی جب بھی نظر پڑ جاتی تو ڈانٹ ڈپٹ ہونے لگتی اور ساتھ ہی والد کو شکایت لگانے کی دھمکی بھی دی جاتی۔ والدہ سے معافی تلافی کر لی جاتی اور آئندہ ناول نہ پڑھنے کی یقین دہانی کروا دی جاتی لیکن ناول پڑھنا جاری رہتا مگر احتیاط بڑھا دی جاتی تھی۔

جب کبھی بڑے بھائی صاحب کا آپی سے جھگڑا ہو جاتا تو ناول کی شراکت داری ختم کر دیتے۔ ایسے حالات میں آپی مجھ سے ناول منگواتی تھیں اور اس کے بدلے میں مجھے کچھ نہ کچھ مالی رشوت چونی یا اٹھنی کے طور پر ملتی تھی۔ وہ اکیلی بازار جا نہیں سکتی تھییں جب بھی انہیں بازار سے کتاب، کاپی، پین یا کوئی اور چیز منگوانا ہوتی تو میں اپنی خدمات چونی اٹھنی کے عوض پیش کردیتا تھا۔ یہ قلیل رقم اس وقت مجھے بڑی کثیر لگتی تھی کیونکہ میرا جیب خرچ ایک روپیہ جبکہ آپی اور بھائی صاحب کو پورے پانچ روپے ملتے تھے۔

وہ اپنے کالج دور میں ایک ذہین طالبہ تھیں۔ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتیں اور پرائز حاصل کرتی رہیں۔ ہمارے گھر میں ان کے لائے ہو کپ اور شلیڈیں ابھی تک شاید کسی کونے میں پڑی ہوں۔ ایک بار والد صاحب نے ان کو دیکھا تو والدہ سے پوچھا کہ یہ کس بچے نے جیتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ آپ کی بیٹی نے، والد صاحب اس بات پر حیران ہوئے اور کہنے لگے یار میرے بیٹوں سے بیٹی زیادہ اچھی ہے جو کالج سے کوئی نہ کوئی پرائز تو جیت کر لائی۔

آپی ہمارے خاندان میں پہلی لڑکی تھیں جو پنجاب یونیورسٹی ایم سیاسیات کرنے گئی تھیں۔ ہاسٹل سے ویک اینڈ گزرانے جب وہ گھر آتیں تو ہمیں اپنے ہم جماعتوں کے قصے اور لطیفے سناتیں اور اس کے ساتھ ان سیاسی نظریات کے بارے میں بتاتیں جو وہ کلاس میں پڑھتی تھیں۔ میں نے مارکس، لینن، ہابز، ہیگل اور جان لاک کے نام پہلی بار انہی سے سننے تھے تب میں میڑک میں پڑھتا تھا۔

ان کی باتیں کہیں لاشعور میں بیٹھ گئیں اور پتہ نہیں چلا کہ میں کب مارکسسزم اور لینن ازم کی طرف نکل گیا۔ آج ان کے اور میرے سیاسی نظریات میں بڑا اختلاف ہے وہ پی ٹی آئی کی حمایتی ہیں اور میں اپنے نظریات پر ڈٹا ہوں۔ ان سے سیاسی بحث چلتی رہتی ہے وہ میری رائے کا احترام کرتی ہیں اور میں ان کی رائے کا۔

میرے ڈراموں کی کہانیاں بھی میری والدہ اور بہن کی بچپن میں سنائی ہوئی کہانیوں کی مرہون منت ہیں۔ میرے کردار کہیں نہ کہیں انہی کرداروں کا عکس ہیں جو ان کی کہانیوں میں ہوتے تھے۔

آپی کی شادی شدہ زندگی آٹھ سے دس سال پر محیط رہی۔ ہمسر کی وفات کے بعد چار بچوں کی کفالت کا ذمہ ان پر آن پڑا۔ انہوں نے سنگل پیرنٹ ہونے کے کے باوجود اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت بڑے احسن طریقے کی۔ سرکاری سکول میں ٹیچر کی ملازمت اور بچوں کے کفالت کے ساتھ انہوں نے اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔

ان کا بڑا بیٹا بی ایس فزکس کا طالبعلم ہے۔ زندگی کی گاڑی کو اکیلے کھیچنتے ہوئے ان کے مزاج میں تھوڑی تبدیلی آ گئی ہے۔ اب میوزک کبھی کبھار سنتی ہیں اور ناول بھی کبھی کبھار پڑھتی ہیں ۔ تھوڑا سا وزن بھی بڑھ گیا ہے جس پر میں انہیں اکثر کہتا ہوں کہ باقاعدگی سے واک کیا کریں تو کہتی ہیں کہ زندگی کے بکھیڑوں سے جانے چھوٹے تو کچھ کرنے کا موقعہ ملے۔

آخر میں میں اپنے اس صحافی دوست کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جہنوں نے میری توجہ اوپن یونیورسٹی کے پرچے کی جانب دلوائی کر کہا کہ یہ یونیورسٹی کس قسم کے اخلاقیات سے گرے ہوئے سوالات پوچھتی ہے۔ میں نے ان سے گزارش کی تھی کہ آپ جس بات کو خبر بنانے جا رہے ہیں وہ اتنی بڑی بات نہیں ہے کیونکہ بہن بھی انسان ہے اس سے بھی محبت اور احترام کا رشتہ ہوتا ہے اس کا بھی خاکہ لکھا جا سکتا ہے۔

ہم بہن کو انسان ہونے کی بجائے عزت کی علامت بنا دیتے ہیں اسے ایسے مقام پر فائز کر دیتے ہیں کہ وہ گوشت پوست کی انسان ہونے کی بجائے پتھر کی ایک مقدس مورتی بن جاتی ہے۔ جس کی اپنی کوئی پسند اور نہ پسند نہیں ہوتی۔ وہ اگر اپنی پسند یا ناپسند کا اظہار کرے تو ہماری غیرت کی عمارت کی بنیادیں کانپنے لگتی ہیں۔

اس کے بارے میں اگر کوئی پوچھ لے تو ہماری غیرت جوش کھانے لگتی ہے۔ ایسا ہی کچھ ماں اور بیوی کے ساتھ بھی وابستہ ہے۔ ہم ماں کا نام سرعام فخر نہیں لیتے لیکن کریڈٹ کارڈ کی معلومات میں ماں کا نام دیتے وقت ہمیں کبھی غیرت اور عزت کے سوال کا سامنا نہیں کرنا پڑتا کہ کیوں کوئی غیر شخص میری ماں کا نام پوچھ رہا ہے۔

کچھ ایسی ہی صورت حال امریکی کمپنی کو عبدالرحمن منیف کے ناول ’سٹی آف سالٹ‘ میں پیش آتی ہے۔ جب امریکی کمپنی اپنے عرب ملازموں سے ان کی ماں کا نام سکیورٹی کوڈ کے لیے پوچھتی ہے تو وہ میان سے تلواریں نکال لیتے ہیں۔ کمپنی کی طرف سے اعلان ہوتا ہے کہ جو ماں کا نام نہیں بتائے گا اسے کام سے فارغ کر دیا جائے گا تواس پر معاشی مسلہ اور بھوک غیرت پر حاوی ہو جاتے ہیں اور انہیں اپنی اپنی ماں کا نام بتا کر نوکری کو بچانا پڑتا ہے۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ایک پدرسری معاشرے سے چمٹے ہوئے ہیں جس سے ہم پیچھا نہیں چھڑانا چاہتے اور ہر اس کوشش کو ناکام بنانے پر تل جا تے ہیں جو پدری سری اور قبائلی معاشرے سے جان چھڑانے کے لیے کی جاتی ہے۔

اس کے بعد ہم عزت کے نام پر ہونے والی قتل و غارت  پر پیچ وخم کھائیں تو مناسب نہیں لگتے۔ اگر ہم اس طرح کے سوالات کو مہذب اور شائستہ انداز میں اپنے بچوں کو حل کرنا نہیں سیکھا سکتے یا ہم اسے اپنی عزت اور غیرت پر ایک تازیا نہ تسلیم کرتے ہیں تو ہمیں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بولنے اور اس پر قانون سازی کرنے کا بھی کوئی حق نہیں ہے۔ میں نے اپنی آپی کا خاکہ  اس لیے لکھا ہے کہ بہت سے صاحب سوشل میڈیا پر اوپن یونیورسٹی کا دفاع کرنے والوں کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ کیا وہ اپنی بہن کے بارے میں ایسا مضمون لکھیں گے؟

شکریہ اس بات پر بھی ادا کرنا چاہوں گا کہ شاید میں اپنی آپا کے بارے یہ باتیں اور جذبات کبھی نہ لکھ سکتا یا ان سے کہہ نہ پاتا جس کا موقعہ مجھے اوپن یونیورسٹی کے اس سوال نے فراہم کیا ہے۔

1 Comment

  1. اگر واقعی صرف سوچ کا ہی مسئلہ ہے تو اس سلسلے میں ابھی تک اتنے عرصے میں پاکستان کے اتنے سارے ہائی کوالیفائیڈ لوگوں کی طرف سے صرف ایک ہی مضمون کیوں لکھا گیا اور وہ بھی اتنا عرصہ لگا کر؟

Comments are closed.