مہناز:دنیائے موسیقی کا ایک گم کردہ نام

(نجم آرا)

مہناز نے تقریباً تین دہائیوں تک عالمی سطح پر اپنا جادو جگائے رکھا اور اچھے اخلاق اور کردار سے نمایاں رہیں۔ مہناز مجھ سے جونیئر تھیں۔ میں نے گلے کی خرابی کے سبب ریڈیو جانا بہت کم کر دیا تھا پھر بھی اچانک سلیم گیلانی سے ملاقات کے دوران مہناز کا ذکر آیا۔ انھوں نے مجھے مہناز کا ایک گیت جس کی کمپوزیشن مہدی حسن صاحب کے بڑے بھائی نے کی تھی، سنوایا اور میں نے محسوس کیا کہ ایک بے حد سریلی آواز کا اضافہ ہو گیا۔ مہناز نے اپنی ہم عصروں میں نمایاں مقام ٹھمری اور دادرا گانے سے حاصل کیا۔ جو انھوں نے والدہ کجن بیگم سے سیکھا تھا۔ ان کے والد سید اختر وصی علی اور والدہ کجن بیگم ریڈیو کے سینئر فنکار تھے اور مہناز کو یہی سریلا پن ورثہ میں ملا۔ مہناز کی خالہ شمیم بانو سے میرے دیرینہ مراسم ہیں وہ بھی بہت اچھی گلو کارہ ہیں مگر انقلاب موسیقی کے سبب خاموش ہیں۔ ان کے شوہر سید تراب نقوی مرحوم ہی مہناز کو ریڈیو پر لے کے گئے تھے۔ وہ خود بھی پروگرام منیجر تھے اور زندگی بھر مہناز کے معاون رہے۔ مہناز نے تقریباً ۲۵۰۰ گانے ریڈیو اور ٹی وی کے لیے گائے جن میں زیادہ تر مشہور ہوئے اور خصوصاً مسرور انور مرحوم کا خوشبو فلم کے لیے لکھا ہوا گانا (میں جس دن بھلا دوں ترا پیار دل سے) بے حد مقبول ہوا۔ ریڈیو پر احمد فراز کی غزل (اب کہ تجدید وفا) اور ضیا جالندھری کی غزل (رنگ باتیں کریں) بے حد مقبول ہوئیں۔ مہناز ۴ بھائیوں کی اکلوتی بہن تھیں۔ بھائی سب امریکہ میں مقیم ہیں وہ کراچی اپنی خالہ کے ساتھ رہتی تھیں۔ان کی خالہ شمیم بانو نے ان کا بالکل والدہ کی طرح خیال رکھا۔ اسی لیے کراچی سے امریکہ کے لیے آمدورفت جاری رہتی تھی۔ کافی عرصہ سے علیل تھیں مگر بہادری سے بیماری کا مقابلہ کرتی رہیں۔ اپنی ذات سے لاپروائی کو اپنا شعار بنا لیا تھا اور بد پرہیزی کی انتہا نے اس کی جان لے لی۔ ویسے بھی اب ریڈیو اور ٹی وی کے پروگرام تو برائے نام رہ گئے تھے اور یہ بات اس فنکار کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہوتی ہے جو بہت زیادہ مصروف رہا ہو۔ بیرون ملک ان کے پروگراموں کی بے حد پذیرائی ہوتی تھی۔ کاش کہ یہ تعریفی الفاظ میں ان کی زندگی میں لکھتی مگر کیا کیا جائے۔ بعد از مرگ واویلا کی ہمارے یہاں رسم چلی آ رہی ہے۔ بڑے بڑے عظیم فنکاروں کی موت کے بعد ان کی خوبیوں کا پتہ چلتا ہے۔ دعا ہے کہ قابل قدر فنکاروں کی زندگی میں قدر کی جائے اور ان کی ہمت افزائی کی جائے اور ان کی موت کا انتظار نہ کیا جائے۔