مستنصر حسین تارڈ کا ناول ’’بہاؤ‘‘: انسانی تہذیب کی داستان

(محمد ساجد)

مستنصر حسین تارڑ کے ناول ’’بہاؤ‘‘ کو بجا طور پر اردو کا ایک بڑا ناول کہا جا سکتا ہے۔ یہ ناول ایک ایسا شاہکار ہے جو اپنے اندر صدیوں پرانے جہانِ رنگ و بو کو سُموئے ہوئے ہے۔
اس ناول میں انسان اور زندگی لازم و ملزوم ہیں۔ انسان کی موجودگی سے زندگی کے تارو پود کو دوام حاصل ہے۔ انسان کی تہذیب، انسان کی کہانی ہے۔ اس تہذیب کا ارتقاء آدمی کے دم قدم سے ہے۔ آدم کی پہلی تہذیب زرعی تہذیب تھی اور انسان کا اوّل شاہکار مٹی سے ظروف سازی تھی۔
زمانے میں نشیب و فراز آتے ہیں۔ پرانی تہذیب کی جگہ نئی تہذیب لے لیتی ہے۔ کھنڈروں کی جگہ نئی بستیاں آباد ہو جاتی ہیں۔ پرانی چیزیں فنا اور نئی چیزوں میں بقاء پیدا ہو جاتی ہے مگر انسان ہر حال میں باقی رہتا ہے۔ ہر طرح کے حالات و حادثات کے باوجود انسان بچ نکلتا ہے۔
پرانی تہذیب کی جگہ نئی تہذیب ، کھنڈر کی جگہ عمارت اور پرانی کی جگہ نئی چیز، ان سب کی تخلیقیت آدمی کے ہونے سے وابستہ ہے۔ اور یہی سب مستنصر حسین تارڑ کے ناول کا مرکزی تھیم ہے۔
اس ناول میں حیران کن چیز، مستنصرحسین تارڑ کا مضبوط تخیل ہے جو پانچ ہزار سال پہلے کی تہذیب ہماری آنکھوں کے سامنے لاکھڑی کرتا ہے۔
ناول قاری کو اُس تہذیب کا حصہ بنا دیتا ہے ۔ انسان اپنے آپ کو اسی ماحول کا باسی سمجھنے لگتا ہے۔ وہ اُن کرداروں کا ساتھی بن جاتاہے۔ اُن کے دُکھ سُکھ کا سانجھی اور خوشی و شادمانی کا شراکتی ہوتا ہے۔ ناول کے کردار جاندار اور جیتے جاگتے محسوس ہوتے ہیں۔ اس ناول میں جو تخلیقی دریافت ہے وہ تباہی (Disaster) ہے۔ جو بالکل منفرد قسم کی ہے۔
ایک فطری تباہی (Natural Disaster) ہوتی ہے، جیسے آندھیاں آتی ہیں، طوفان آتے ہیں، سمندر میں سونامی پیدا ہوتا ہے وغیرہ۔
دوسرا تباہی کا وہ پہلو ہے جس میں انسان خود ملوث ہے۔ جو انسان خود اپنے ہاتھوں سے لاتا ہے۔ جیسے ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں ایٹم بم گرایا۔ جیسے عراق اور افغانستان میں فاسفورس اور ڈیزی بم پھینکے لیکن جو تباہی (Disaster) مستنصر حسین تارڑ نے اپنے ناول ’’بہاؤ‘‘ میں دکھائی وہ اُن دونوں اقسام کی تباہی سے ہٹ کر ہے۔ وہ نہ فطرت لاتی ہے نہ انسان خود لاتا ہے بلکہ غیر محسوس انداز میں آتی ہے۔ یہ تباہی کا ایک الگ سا انداز ہے جو تخلیقی فن پارے ’’بہاؤ‘‘ میں ملتا ہے کہ سرسوتی اور گنگا دریا میں پانی کم ہونے لگتا ہے ۔ دریا آہستہ آہستہ اتنا خشک ہو جاتا ہے کہ زندگی تعطل کا شکار ہو جاتی ہے اور پانی (دریا سے وابستہ) جو زندگی کا اہم عنصر ہے مفقود ہو جاتا ہے۔
اس تباہی سے بہت سے حیوانات مر جاتے ہیں۔ کچھ دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتے ہیں۔ ڈائنو سار جیسے بڑے جانور ختم ہو جاتے ہیں مگر انسان واحد حیوان ہے جو محفوظ رہتا ہے۔
اس ناول کا دل چسپ عنصر بھی یہ ہے کہ انسان، ایک ایسی عجیب وغریب چیز ہے جو ان تمام حادثات و واقعات اور تباہی (Disaster) کے بعد بھی بچ نکلنے میں کامیاب رہتی ہے۔
اس ناول میں کرداروں کے نام اور اُن کے کارمنصب کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ پاروشنی(ایک دانش ور خاتون)، پکلی(مٹی کے ظروف بنانے والی)، ورچن(ایک سیاح)، سمسرو(کسان)، مامن ماسا(درویش) گاگری اور چیوہ(میاں، بیوی کی علامت)۔
ان کرداروں کے ذریعے اس قدیم عہد کی معاشرت اور سائیکی کو سمجھا جا سکتا ہے۔ پھر اس ناول میں جو اہم ترین بات ہے کہ انسان اپنی تہذیب و ثقافت کو بھی مصنوعات کے ذریعے آنے والے لوگوں کے لیے چھوڑ جاتا ہے۔ ’’بہاؤ‘‘ میں مستنصر حسین تارڑ نے بھی اس واقعہ کو اپنے ناول میں کسی فلم کی طرح فلمایا ہے۔
جیسے برتنوں پر اس وقت کا فن کار (پکلی) پُھول اور بیل بُوٹے بناتا ہے تو اس کا مقصد اپنے فن اور تہذیب کو آنے والے لوگوں کے لیے محفوظ کرنا ہوتا ہے۔
پھر آنے والی نسل(صدیوں بعد) اُن کو اپنے آباء کی یادگار سمجھ کر میوزیم میں سجا دیتی ہیں۔
’’بہاؤ‘‘ انسانی زندگی کا ترجمان ناول ہے جو اردو ادب میں ہمیشہ زندہ جاوید رہے گا۔
کنویں والا، گاری پہ لیٹا ہے، مست اپنی بنسی کی میٹھی سریلی صدا میں کہیں کھیت سوکھا پڑا رہ گیا اور نہ اس تک کبھی آئی پانی کی باری کہیں بہہ گئی ایک ہی تندریلے کی، فیاض، لہروں میں کیاری کی کیاری کہیں ہو گئیں دھول میں دھول ، رنگا رنگ فصلیں، ثمر دار ساری پریشان پریشان گریزاں گریزاں، تڑپتی ہیں خو شبوئیں دامِ ہوا میں نظام فنا میں یہ چکریونہی جاوداں چل رہا ہے،کنواں چل رہا ہے۔ (مجید امجد)