مرد کا فیمنسٹ ہونا جرم ہے!

صاحب مضمون: تقی سید

مرد کا فیمنسٹ ہونا جرم ہے

از، تقی سید

جب بھی حقوق نسواں کی بات کی جاتی ہے تو ہمارے ذہنوں میں “فیمینزم” کی اصطلاح آتی ہے اور یہ سوال اکثر اٹھایا جاتا ہے کہ فیمینزم کیا ہے- عموما اس تحریک کو مغرب زدگی اور خواتین کی بے لگام آزادی سے منسوب کیا جاتا ہے- آپ نے اکثر مردوں سے یہ بھی سنا ہوگا کہ ہمارے ملک میں عورت دوہرے استحصال کا شکار ہے یا ان پر بڑا ظلم ہوتا ہے مگر دوسرے ہی سانس میں وہ کہتے ہیں کہ میں فیمنسٹ نہیں ہوں، ان میں پیشہ ور مردوں سے لے کر سماجی کارکن، ادیب و شاعر بھی شامل ہوتے ہیں- جو ہمیشہ عورتوں کے حق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں مگر اپنے آپ کو فیمنسٹ کہلانا پسند نہیں کرتے- کیونکہ ان کے ذہن میں ہے کہ یہ بھی ایک مغربی نظریہ ہے جسے مردوں سے نفرت، انتہا پسند نسوانیت اور گھرتباہ کرنے کے محرک سمجھا جاتا ہے- دراصل ایسے لوگ اسی پروپیگنڈہ کا شکار ہیں جو فیمینزم کو صرف انتہا پسندانہ نظریات سے ہی جانچتے ہیں- حالانکہ حقیقت یہ نہیں ہے- خواتین پر ظلم و زیادتی کے خلاف آواز اٹھانا یا ان کے حقوق کی بات کرنا فیمینزم ہے۔

جنوبی ایشیا کے پس منظر میں دیکھیں تو پاکستان،ہندوستان ،بنگلہ دیش،نیپال اور سری لنکاہ کی خواتین نے اپنی ورکشاپس میں دو تعریفیں کی ہیں۔

.1 “Feminisim is an awareness of women’s oppression and exploitation in society, at the place of work, within the family and conscious action to change this situation.”
(Kamala Bhasin & Nighat Saeed Khan: P 3 Feminism and its relevance in south Asia).
.2″Feminism is an awareness of patriarchal control, exploitation and oppression at the material and idealogical level of women’s labor, fertility and sexuality, in the family, at the place of work and in society in general and conscious action by women and men to transform the present situation”.

ان دو تعریفوں کی رو سے کوئی بھی عورت یا مرد ان حالات کی بدلنے کی کوشش کرے وہ فیمنسٹ ہو سکتا ہے- مگر آج پاکستان کے حالات دیکھیں تو میں یہ سمھجتا ہوں کہ جتنا نا انصافی کا شکار خواتین ہمارے معاشرے میں ہیں دنیا میں بہت کم مثالیں ملتی ہیں-
تین دن پہلےایک NGO
” سنگتانی وومن رورل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن”کے تحت دو دن کے ٹریننگ سیشن میں جانے کا موقع ملا جس کا انعقاد راجن پور میں تھا- سیشن کا مقصد “Training women and men lawyers to provide legal services to women including minority women” پہلے دن کے سیشن میں جینڈر بیس پر عورت سے روا رکھے جانے والے سلوک کا جائزہ لیا گیا-

جس میں سیشن میں شریک اکثر لڑکوں نے عورت کو کمزور، کم عقل اور فیصلہ نہ کر سکنے والی جنس کے طور پر پیش کیا مگر لڑکیوں کی جانب سے ان راے جات کی مخالفت کی گئیں- اس کے علاوہ صنفی مساوات پر بات ہوئی مگر اکثرمرد شرکاء سمیت لڑکیاں بھی صنفی برابری سے انکاری تھیں، نیز معاشرے میں عورت کے سیاسی و سماجی اور معاشی مساوات کی بات انھیں ہضم نہیں ہو رہی تھی-
سیشن کے دوسرے دن عورتوں کے حقوق کے تحفظ میں بناے گئے موجودہ قوانین و ایکٹس سے اگاہ کیا گیا۔

ان دو دن کی ٹریننگ سیشن میں نے یہ محسوس کیا کہ مرد کا فیمنسٹ ہونا جرم ہے کیونکہ میں نے عورتوں کے سیاسی و سماجی اور معاشی سطح پر مردوں کے برابر ہونے کو ترجیح دی- یہ بات کرکے میں چند شرکاء کی نظر میں مجرم ٹھہرایا گیا- ان کی راے میں ایک مخصوس طبقے کی چھپی سوچ واضح نظر آرہی تھی۔ جہاں اس جدید دور میں ترقی یافتہ ملکوں کی عورتیں چاند پر جا رہی ہیں وہاں ہم پارلیمنٹ میں بیٹھ کر عورت پر تشدد کی اقسام اوراسکی لمٹ طے کر رہے ہیں۔

کچھ احباب نے فیمینزم کو مغربی تحریک اور اور مغربی زدگی کا مجھے حامی بول کر عورت کے مقام کو اسلامی اصول و قوانین کے خلاف لے جانے کا طعنہ دیا- حالانکہ جہاں تک مغرب زدگی کی بات ہے تو پہلی بات یہ ہے کہ مشرق نے ترقی یافتہ معاشروں سے کئی نظریات مستعار لیے ہیں- مثلا جمہوریت،انسانی حقوق، بچوں کے حقوق وغیرہ وغیرہ،انہیں یہ اپنے پر تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا لیکن جہاں خواتین کے حقوق کی بات آتی ہے تو فورا مغربی نظریے کا لیبل چسپاں کر دیا جاتا ہے اور خود عورتیں بھی اس لابی میں شامل ہو جاتیں ہیں جس کا مقصد عورتوں کو پیچھے اور پسماندہ رکھنا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنے حقوق کے بارے میں اگاہ ہو کر غلامی کی زنجیر نہ توڑ سکیں- اس مہم کے پیچھے مذہبی استحصالی اور ایسی قوتیں ہوتی ہیں جو فرسودہ اور جاگیردارانہ سوچ رکھتی ہیں اور معاشرے میں کوئی تبدیلی نہیں چاہتیں- خصوصا عورتوں کی آزادی کو وہ اپنے لئے ظاہر قتل سمجھتی ہیں اور پدر شاہی نظام کو برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔

پاکستان میں عورتوں کے حقوق کی آزادی کی جدوجہد بڑے ابتدائی مراحل میں ہے یہاں تو فیمینزم، زندگی کے بنیادی حقوق مثلا زندہ رہنے کا حق،تعلیم کا حق،آمدورفت پر پابندی نہ ہونے، اپنی مرضی کا پیشہ اختیار کرنے، پسند کی شادی کرنے اور بحثیت انسان معاشرے میں پہچانے جانے کا حق مانگ رہا ہے- عورت علم، صحت،ملازمت اور سماجی حقوق میں مردوں سے کہیں کم ہے اور اپنی زندگی کے فیصلوں پر اسکا کوئی اختیار نہیں ہے- غیرت کے نام پر قتل، عورت کی خریدوفروخت، وٹہ سٹہ، اور کم عمری کی شادی، بدل صلح،سام رکھنا اور ولور کی رسمیں بلا روک ٹوک جاری ہیں- ان سب رسموں کا ختم ہونا عورت کی عزت اور حثیت بحال کرنے کی طرف پھیلا قدم ہوگا- یہ سب کہنے کا مقصد کہ پاکستان میں فیمینزم کا مقصد عورتوں کے بنیادی سطح کے حقوق کی جنگ ہے جس میں عورت بحثیت انسان ہونے کا حق مانگ رہی ہے۔

وہ اپنی مرضی سے علم، ملازمت اور شادی کرنے کا حق چاہتی ہے- یہ فیصلہ بھی عورت کا ہونا چاہیے کے وہ کب اور کتنے بچے پیدا کرنا چاہتی ہے- یہ بھی طے شدہ بات ہے کہ جب عورتیں معاشی طور پر خود کفیل ہوں اور انھیں اپنے آپ پر اعتماد ہو تو وہ ایک سے زیادہ بیوی ہونا برداشت نہیں کرتیں اور کثیرالازواجیت (Polygamy) کے خلاف بھی آواز اٹھاتی ہیں مگر مذہب کے ٹھیکداروں کو یہ گوارا نہیں آتا اس لیے وہ اس کی آزادی پر بے راہ روی یا مغرب زدگی کا الزام لگاتے ہیں اوراس پدر شاہی نظام میں کسی مرد کا فیمنسٹ ہونا جرم قرار دیتے ہیں۔