ایک عورت کی کہانی

لکھاری کا نام
منزہ احتشام گوندل

(منزہ احتشام گوندل)
میں ایک شخص کی پہلی بیوی ہوں۔میری شادی چوبیس برس کی عمر میں ہوگئی تھی۔میرے شوہر بھی اس وقت اسی عمر میں تھے۔شادی کے جلد بعد اللہ نے مجھے دو بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا۔گھر میں پیسے کی بھی کوئی کمی نہیں رہی کبھی۔اب میری شادی کو چوبیس سال ہوگئے ہیں۔بچے خیر سے جوان ہیں،پڑھ لکھ رہے ہیں،سب ٹھیک ہے ۔اگر کوئی دکھ ہے تو یہ کہ میرے شوہر نے ایک جوان لڑکی سے دوسری شادی کرلی ہے۔اور اس کے ساتھ رہنا شروع کردیا ہے۔جانے کون لچی لفنگی ہے،کہاں سے بہتی بہاتی آئی ہے اور میرے شوہر پہ قابض ہو کے بیٹھ گئی ہے۔کوئی اس کا آگا پیچھا نہیں ہے۔سنا ہے ماں ماپ بھی مر چکے ہیں،بھابھیوں نے گھر میں رکھنے سے انکار کردیا ہے۔وغیرہ وغیرہ
میں نے کہانی سن لی ہے۔اب میری باری ہے۔مجھے اس اڑتالیس سالہ جوان بچوں کی خوشحال ماں کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں۔میری ساری ہمدردیاں اس بے سہارا لڑکی کے ساتھ ہیں۔یہ کالم لکھنے کی ضرورت مجھے اس لیے بھی پیش آئی کہ میرا افسانوی مجموعہ آنے کے بعد مجھ پہ ایک الزام بڑے تسلسل سے لگ رہا ہے،اور وہ یہ کہ میں مردوں کے خلاف لکھتی ہوں،میرے اندر مردوں کے لیے بے تحاشا زہر ہے۔اور یہ الزامات مجھ پہ میرے پڑھے لکھے دوستوں نے لگائے ہیں۔میں صرف یہ بتانا چاہتی ہوں کہ میں صنفی امتیازات سے بالا ہوکر لکھنے کی کوشش کرتی ہوں،لیکن میرا اب تک کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ بعض معاملات میں مرد عورت کی نسبت جلدی سیکھتا ہے،اور چیزوں کو آسانی سے قبول بھی کرتا ہے۔جب کہ عورت کو کچھ چیزوں کے لیے قائل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔اوپر میں نے جو کہانی لکھی وہ ہمارے سماج کے ہردوسرے گھر کی کہانی ہے،اگر کوئی مرد کسی بے سہارا لڑکی کو اپنی ذات کا آسرا دیتا ہے تو ہم سب بطور ایک اکائی کے اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ہم اس لڑکی کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ہم نے کبھی انصاف کے ساتھ موازنہ نہیں کیا کہ کس کو کس کی کتنی ضرورت ہے۔ایک عورت جس نے شادی شدہ زندگی کے چوبیس پچیس سال گزار لیے ہیں۔جس کے پاس جوان بچے ہیں،جس کے پاس گھر بھی ہے،اب وہ ڈھلتی عمر کی ایک معزز ماں ہے۔اس کے مقابل ایک نوجوان عورت ہے،جس کے پاس ابھی اولاد بھی نہیں،گھر کا سہارا بھی نہیں،اول الذکر عورت کی نسبت اس کے پاس کچھ بھی نہیں۔۔پھر بھی اول الذکر عورت کو شکایت ہے۔
سوال صرف یہ ہے کہ آخر ہم کب یہ سیکھیں گے کہ زندگی کی بساط پہ بھر پور اننگ کھیلنے کے بعد ہم نے کب اور کس وقت میدان دوسروں کے لیے خالی کرنا ہے۔ہم کب یہ سیکھیں گے کہ ہمارے پاس کیا ہے اور ہمارے مقابل جو کھڑا ہے اس کے پاس کیا ہے؟
ہم دوسروں کی محرومیوں کو حقیقت کی عینک لگا کر دیکھنے کی سعی کیوں نہیں کرتے۔ایک جاننے والی کو میں نے سنا ،وہ دوسری کو کہہ رہی تھی کہ
،،دیکھو فلاں عورت کو بھوکی مرتی تھی،ساری عمر ایک کمرے میں رہی،اب اس کا بیٹا افسر بن گیا ہے،اب وہ بھی کوٹھی میں بیٹھ جائے گی،،اور اس جملے کے بعد باقاعدہ نفرت آمیز تاثرات اس کے چہرے پر تھے۔گویا جس عورت نے اپنی زندگی کے چالیس پچاس برس ایک کمرے میں رہ کر گزارے ہیں وہ اتنے برسوں بعد بھی اتنی رعایت کی حقدار نہیں کہ اب کسی کوٹھی میں بسیرا کرے۔ہماری سوچ اور ہمارے رویے اس کو یہ حق نہیں دیتے۔وہ غریب تھی،اسے غریب ہی رہنا چاہیے تھا۔کیونکہ یہ اس کا مقدر ہے۔ایک امیر آدمی اپنی بیٹی یا بہن کی شادی کسی دوسرے امیر آدمی کے ساتھ ہی کرتا ہے۔کیونکہ یہ ان کا مقدر ہے۔اوراسکو ایسے ہی رہنا ہے۔اور ہم ان چیزوں کو قبول کرتے ہیں کیونکہ یہی عام معاشرتی رویے ہیں۔اردو کی لکھنے والی خواتین میں ،،زاہدہ حنا،، سے میں اس لیے بھی متاثر ہوں کہ بے پناہ تاریخی شعور کے ساتھ ساتھ ان کے اندر ایک بہت بڑی سطح کی وسعت اور گہرائی ہے۔ان کے افسانوی مجموعہ ،،تتلیاں ڈھونڈنے والی،،میں شامل ایک افسانہ ایسا ہے جو انقلاب خیز ہے۔افسانے کا نام یاد نہیں مگر مجھے اس کا متن یاد ہے کہ ایک عورت اپنے محبوب آدمی کو صرف یہ سوچ کے چھوڑ دیتی ہے کہ ۔۔۔
اس کی بیوی ایک سیدھی سی گھریلو عورت ہے۔جبکہ میں نے زمانے کے دھکے کھائے ہیں۔مجھے سمجھ بوجھ ہے۔میں وقت گزار
سکتی ہوں۔میرے پاس ملازمت بھی ہے۔تو میں اس لیے چپکے سے ایک دن بن بتائے وہ شہر چھوڑ آئی کہ میں ایک سادہ لوح
عورت کا سہارا نہیں چھین سکتی تھی جس کے بچے بھی ابھی بہت چھوٹے تھے۔
کیا بطور ایک اہم سماجی رکن کے،عورت پہ کوئی اخلاقی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ وہ دوسری عورت کے لیے آسانی پیدا کرے۔وہ اس کے لیے سرنڈر کرے،ہم نے کبھی یہ سیکھا ہی نہیں۔ہم ان موضوعات پہ کبھی بات کرنا ہی نہیں چاہتے۔کیونکہ ہم نے طے کر لیا ہے کہ عورت شوہر یا محبوب کا بٹوارہ برداشت نہیں کرسکتی،وہ اپنی عزیز بیٹی کا ہاتھ غیر کے ہاتھ میں دے دیتی ہے۔وہ اپنا بیٹا جسے اس نے کوکھ میں پالا ہوتا ہے کسی دوسری لڑکی کے حوالے کرسکتی ہے تو باامر مجبوری شوہر کیوں کسی دوسری کے حوالے نہیں کرسکتی؟
ہم ہمیشہ مرد کے حوالے سے ملکیت کا ڈھنڈورہ پیٹتے ہیں۔کہ ملک عورت کی ذات اور جسم پر ملکیت اور حاکمیت میں مبتلا ہے۔اور یہ درست بھی ہے،مگر عورت اس معاملے میں مرد سے کئی گنا آگے ہے۔ملکیت اگر دیکھا جائے تو کچھ بھی نہیں،اگر محسوس کیا جائے تو بالکل بھی کچھ نہیں۔کچھ رویوں کے ساتھ جن شدتوں کو ہم نے جوڑ لیا ہے،انہیں تھوڑا تھوڑا کرکے ہمیں گھٹانا ہوگا۔۔
ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ ،،سوتیلی،، کا لازمی مطلب ،،بری،، نہیں۔۔
ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ ،،سوتن،، ضروری نہیں ایک چڑیل یا ڈائن کا ہی دوسرا روپ ہو۔۔
ہمیں سیاہ لفظوں کی دوسری طرف سفیدی کو کھوجنا ہے۔جو نہ جانے کتنے قرنوں سے سامنے آنے کی منتظر دبی پڑی ہے۔
جب ایک بار ہمیں اپنی جگہ کسی ضرورت مند کے لیے خالی چھوڑنے کی لذت کا ادراک ہوگا تو ہم کبھی بھی اس عمل کو جانے نہ دیں گے۔۔
آپ کر کے دیکھیں۔۔۔۔