لیکن دل نے راہ چیر نکالی: سفرنامہ کالام و جھیل مہوڈنڈ

writer's name
ڈاکٹر عرفان شہزاد

(سفر نامہ نگار: ڈاکٹر عرفان شہزاد)

28 تا 31 جولائی 2016، راقم کو زندگی میں پہلی بار سوات، کالام اور مہوڈنڈ جھیل کے سفر کا اتفاق ہوا۔ سفر کی دعوت ہمارے دوست جناب ندیم صاحب کی طرف سے موصول ہوئی۔ سفر کے اتنے محرکات انہوں نے اکٹھے کردیئے کہ انکار کا مطلب محروم القسمت ہونا تھا۔ جناب ریحان احمد یوسفی جیسی علمی و ادبی شخصیت اور ہمارے دوست محمد تہامی بشر علوی صاحب جیسے فاضل عالم کا شریک سفر ہونا بڑی نعمت اور بڑے اعزاز کی بات تھی۔چنانچہ فورًا ہامی بھر لی۔

ندیم صاحب ہی کی گاڑی میں بعد از فجر راولپنڈی سے براستہ موٹر وے ہم نکلے، راستے میں ہلکا پھلکا ناشتہ کیا اور خیبر پختونخواہ میں داخل ہوئے۔ خواتین اوراہل علم جہاں باہم اکھٹے ہو جائیں، ان کا خاموش رہنا محال بلکہ ممنوع ہوتا ہے۔ چنانچہ سارے راستے مختلف دینی اور سماجی مسائل، اور علمی نکات پر تبادلہ خیال ہوتا رہا، ایک دوسرے کے نکتہ ہائے نظر سے آگاہی اور فہم سے استفادہ جاری رہا۔ بحرین تک تقریبًا 9 گھنٹے کا سفر باتوں ہی باتوں میں کٹ گیا۔ مردان کے قریب آڑو کے باغ کے کنارے دن کا کھانا کھایا اور پھر بحرین کے مقام پر گاڑی پارک کی۔ وہاں سے آگے کالام تک سڑک بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، جس میں جگہ جگہ کھڈے پڑے ہوئے ہیں۔ ذاتی گاڑی پر آگےجانا نامناسب تھا، چنانچہ گاڑی ایک گیراج میں پارک کی اور ایک سخت جان قسم کی مقامی گاڑی میں مزید دو گھنٹے کا سفر طے کر کے 5 بجے کالام پہنچے۔

اس دو گھنٹےکے سفر نے ہمارے انجر پنجر ہلا کر رکھ دیئے۔ جگہ جگہ گہری کھائیاں تھیں۔ سڑک دریائے سوات کے کنارے چلتی ہے۔ ایک طرف سرسبز پہاڑوں کے دامن میں بہتے سبزی مائل پانی والے دریائے سوات کے حسین مناظر چلتے ہیں، تو دوسری طرف سڑک کے کناروں پر حفاظتی بلاکس یا باڑ نہ ہونے کی وجہ سے عدم تحفظ کا احساس مسافروں کو مسلسل محسوس ہوتا ہے۔ زیادہ عمر کے افراد، بچوں اور خواتین کے لیے یہ سفر یقیناً بہت تکلیف دہ ہوگا۔ ہم نے دیکھا کہ بہت سے لوگ جو اپنی گاڑیوں پر خاندان کے ساتھ آئے تھے، راستے کا یہ حال دیکھ کر بحرین سے ہی واپس لوٹ رہے تھے۔ کچھ لوگ البتہ ہمت کرکے اپنی ہی گاڑی پر آگے جا رہے تھے ۔ راستے میں ایک ایسے ہی گاڑی دیکھی جس کا ٹائی راڈ سڑک کے گڑھوں کا مقابلہ نہ کر سکا اور ٹوٹ گیا تھا۔ گاڑی کے مسافر اس کو سڑک کے کنارے چھوڑ جانے پر مجبور ہوگئے تھے۔

یہاں لوگوں کو اپنی گاڑیوں کو بحرین میں ہی پارک کرکے مقامی گاڑیوں میں سفر کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ہر کوئی اپنی قیمتی گاڑی مقامی گیراجوں میں چھوڑ کر جانا گوارا نہیں کرتا۔ یوں سیاحوں کی بڑی تعداد بحرین سے آگے کے خوب صورت مناظر سے محروم  لوٹ جاتی ہے اور مقامی لوگ اور صوبائی حکومت ان سیاحوں کے ذریعے ہونے والے ممکنہ آمدنی سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔ مقامی ڈرائیور سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ بحرین تک کی سڑک بھی گزشتہ دور میں اے این پی کی حکومت نے بنوائی تھی۔ پی ٹی آئی کو ابھی ان علاقوں کی طرف توجہ کرنے کی فرصت نہیں مل سکی۔

مردان سے آگے سارا سفر دریائے سوات کے کنارے کنارے دریا کےدھارے کے مخالف سمت جاری رہا۔ کالام میں اسی دریائے سوات کے کنارے ہوٹل نیو ہنی مون میں قیام کیا۔ بخدا ہمارا اس رومانویت سے بھرپور نام کے ہوٹل میں قیام کے علاوہ کوئی اور چاند چڑھانے کا ارادہ ہر گز نا تھا۔ کچھ آرام کر لینے  کے بعد ظہرین (ظہر اور عصر کی نمازیں ایک ساتھ) ادا کی اور قدرت کے نظارے دیکھنے باہر نکل پڑے۔

کالام جہاں قدرتی حسن کی فیاضی کا شاہکار ہے، وہاں یہ انسانی ناقدری اور غفلت شعاری کا شکار بھی ہے۔ نگاہ اوپر اٹھائیے تو چاروں طرف سبز چادر اوڑھے خوبصورت پہاڑ، اور ان سے پرے برف کی ٹوپیاں پہنے کوہ ہندوکش کے دوسرے پہاڑ دلفریب نظارہ پیش کرتے ہیں۔ لیکن جب نگاہ لوٹ کر اس جنت نظیر علاقے کے لوگوں پر پڑتی ہے اور سوات کے غربت زدہ گھروں اور زندگی کے ساتھ بقا کی جنگ لڑتے مفلس لوگوں پر آ کر ٹھہرتی ہے تو دل مسوس ہو کر رہ جاتا ہے۔ ایک طرف قدرت کی اتنی فیاضی کے جدھر نظر ڈالئے، حسن ہی حسن اور دوسری طرف حکومت اور انتظامیہ کی اتنی نااہلی کے اس جنت کے مکینوں کو دوزخ کا باشندہ بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ افسوس اس لئے بھی زیادہ ہوا کہ محض سیاحت کو فر وغ دے کر ان علاقوں کی خوشحالی کا خود کار نظام وضع کیا جا سکتا تھا۔ حکومت صرف سڑک  ہی بنا دیتی تو سیاحت کی ترقی سے باقی کام اور ذرائع آمدن یہاں کے محنتی لوگ خود پیدا کر سکتے تھے۔ اس پر افسوس کی ایک وجہ اور یہ بھی ہے کہ خیبر پختون خواہ کا ترقیاتی بجٹ ہر سال بچ رہتا ہے، پورا استعمال ہی نہیں ہوتا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ شہروں  سے پرے ان سیاحتی مقامات کو پی ٹی آئی کی حکومت نے نظر انداز کر رکھا ہے۔  اگر بجٹ دستیاب نہ بھی ہوتا، تو بھی اگر کسی بین الاقوامی نج کی  (private)کمپنی کو سڑک بنانے اور دیگر سہولیات مہیا کرنے کا ٹھیکہ دیا جا سکتا ہے، وہ کمپنی اپنے خرچ پر انفراسٹریکچر تعمیر کرتی اور پھر سیاحوں سے ٹیکس وصول کر لیتی۔ یعنی یہ کام مفت میں بھی ہو سکتا تھا، لیکن صوبائی حکومت کی اس مجرمانہ غفلت پر کیا کہا جائے۔

سوات اور کالام کے سفر میں ہم نے نمازوں کو جمع کر کے پڑھا، یعنی ظہر اور عصر کو ایک ساتھ اور مغرب اور عشاء کو ایک ساتھ پڑھا۔ جس وقت ہم فقہ حنفی پر عمل کے علاوہ کسی اور فقہ پر عمل کرنا گمراہی سمجھتے تھے تو مجھے یاد ہے کہ سفر میں نماز کی پریشانی پورے سفر پر چھائے رہتی تھی۔ حنفی فقہ کے مطابق نمازوں کو جمع کرنا صرف صورتًا جائز ہے؛ یعنی، مثلاً نماز ظہر کو اس کے آخر وقت میں اور نماز عصر کو اس کے شروع کے وقت میں پڑھ لیا جائے یا اس کے برعکس کر لیا جائے۔ لیکن ایک نماز کو دوسری نماز کے وقت میں اکٹھا کرنا جائز نہیں۔ اس فتوٰی کی وجہ سے عملی دنیا میں کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا تجربہ ہر مسلمان مسافر کو ہوا ہوگا۔ ذاتی گاڑی وغیرہ نہ ہو تو عملًا ایسا ہونا بہت مشکل ہے کہ سفر میں اس وقت وقفہ ملے جب ایک نماز کا آخر اور دوسری نماز کا اوّل وقت قریب آ لگے۔ مجھے یاد ہے کہ ہم کس طرح لوکل ٹرانسپورٹ کو بڑے احتجاج سے رکوا کر اور تمام مسافروں کو تنگی میں ڈال کر نماز کا فریضہ ادا کرتے تھے۔ ٹرین کے سفر میں یہ مشکل دو چند ہو جاتی ہے۔ نیز دنیا کے جن ممالک میں سورج جلدی غروب ہوتا ہے وہاں خصوصًا دفتری لوگوں کو ظہر اور عصر کی نماز کے لیے ہر بار دفتر سے رخصت لینا مشکل ہو جاتا ہے۔ بلکہ اب تو بڑے شہروں کے حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچنے میں ایک نماز کا وقت نکل جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ ایسے حالات میں دینِ یسر (آسان دین)کی اس سہولت سے فائدہ اٹھانے دینا چاہیے۔

ہم نے اپنے اس سفر میں دین کی مہیا کردہ اس سہولت کا خوب فائدہ اٹھایا۔ نماز تو پہلے ہی قصر تھی اس پر جب ہم دو دو نمازوں کو ملا کر ادا کرتے تو دل خدا کی عظمت اور رحمت کے احساس سے معمور ہو جاتے جس نے ہم کمزوروں کی جسمانی اور ذہنی بے آرامی کا اتنا خیال کیا کہ اپنے حق میں کمی فرما دی۔ اس سہولت سے فائدہ اٹھانے سے دل میں جذبہ تشکر پیدا ہوتا ہے جس سے خدا سے محبت پیدا ہوتی ہے۔ اس کی بجائے بالفرض اگر خدا ہماری کمزوری کا خیال نہ کرتا تو نماز تو ہم پھر بھی ادا کرتے لیکن اس میں اطاعت تو ہوتی لیکن محبت کی یہ خُو نہ ہوتی، یہ احساس نہ ہوتا کہ خدا کو ہمارا کتنا خیال ہے۔

کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ دین کی دی ہوئی رخصتوں اورسہولتوں کو لوگوں سے چھپانا چاہئیے تاکہ لوگ دین پر زیادہ عمل کر سکیں، لیکن وہ یہ بات نظرانداز کر دیتے ہیں کہ اس طرح خدا کا تصور ایک کوتوال جیسا بنتا ہے جو ہر حال میں بس قانون پر عمل کروانا چاہتا ہے، جسے انسانوں کے احساسات کا خیال نہیں ہوتا۔ جب کہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ خدا ہماری کمزوریوں کا احساس کرتے ہوئے ہمیں آسانیاں دیتا ہے۔ خدا کی دی ہوئی آسانیوں کو چھپانا یا ان کو بھی مشکل بنا دینا، دراصل دین سے نادان دوستی  ہے، یہ  اپنی غیر لچک دار فقہی نفسیات کو دین پر مسلط کرنے کا گناہ ہے۔

رات ہم نے ہوٹل میں گزاری۔ رات کا کھانا ریحان صاحب کی فرمائش پر دال ماش منگوا کر کھایا، ندیم صاحب جو گوشت خوری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، نے مروتاً کھانے میں ساتھ دیا۔ رات کو ایک چھوٹے سے چوہے نے پہلے میرے سر اور پھر میری پاؤں کا طواف کیا۔ کمبخت کی علماء سے محبت کیسی کمال کی ہے کہ میرے سر تا پا سے انسیت کے تقاضے نبھانے سے بسم اللہ کی۔ اس کے بعد اسے ایک شاپنگ بیگ مل گیا جس سے وہ ساری رات کھیلتا رہا۔ اگلے دن ہم نے کمرہ تبدیل کروا لیا کہ ارادت مندوں سے کچھ فاصلہ ضروری ہے۔

صبح ہم نے گاڑی کرائے پر لی اور مہوڈنڈ کی طرف عازمِ سفر ہوئے۔ سڑک یہ بھی ویسے ہی ٹوٹی پھوٹی تھی۔ تاہم، خوب صورت پہاڑوں، آبشاروں اور گلیشئیرز کے نظاروں نے سفر کی تکلیف کو محسوس نہ ہونے دیا۔ ہر جگہ جی مچلتا کہ تصویر بنوائیں لیکن جہاں دیدہ رفیقِ سفر ندیم صاحب فرماتے کہ آگے زیادہ خوبصورت نظارے آئیں گے، اس لیے جگہ جگہ  وقت ضائع نہ  کیا جائے، ورنہ زیادہ اچھی جگہوں کے لیے وقت کم پڑ جائے گا۔  اس سفر میں جتنا ہم ریحان صاحب کی دینی بصیرت کے قائل ہوئے اتنا ہم ندیم صاحب کی سفری اور انتظامی صلاحیتوں کے معترف بھی ہوئے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس سفر کے اتنے خوبصورت انتظامات انہوں ہی نے کئے  تھے۔ ان کی وجہ سے سفر کا حقیقی لطف برقرار رہا۔

 

 مہوڈنڈ پہنچے تو میں ششدر رہ گیا۔ معلوم ہوتا تھا جنت میں آ گئے ہیں۔ علامہ اقبال کا شعر سارے سفر میرے وردِ زبان رہا:

حسن بے پروا کو اپنی بے حجابی کے لئے

ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن

اتنا حسین نظارہ ساری عمر کبھی نہیں دیکھا تھا۔ چاروں طرف بلند پہاڑ، درمیان میں پھیلی ہوئی وادی، ایک طرف سبزے کا قالین بچھا ہوا، اور اس کے ساتھ ساتھ ندی بہتی ہوئی، جس کا پانی شفاف سبزی مائل رنگ لیےہوئے تھا۔ پانی کا ایسا رنگ کہیں دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ یہ پانی اوپر ایک آبشار سے آتا ہے۔ دل للچا اٹھا کہ دیکھیں پانی کہا ں سے آتا ہے۔ پتا نہیں یہ اندر کا کوئی سائنسدان تھا یا فطرت کی گود میں ایک طفل پر تجسس۔ ہم اوپر کی طرف چل پڑے لیکن زیادہ اوپر نہیں۔ ریحان صاحب اور ندیم صاحب نے نیچے رک جانے میں عافیت جانی۔ میں اور بشر علوی صاحب اوپر پتھروں کو پھلانگتے ہوئے چڑھتے چلے گئے۔ جیسے جیسے بلندی بڑھتی جاتی ہے، پانی کا جوش بھی زیادہ ہوتا جاتا ہے۔ ہم نے جگہ جگہ تصویریں لیں۔ ممکنہ بلندی تک  جب پہنچ پائے تو دیکھا کہ آگے جانے کے راستہ نہیں تھا۔ بادلِ نخواستہ واپس آنا پڑا۔ تحقیق کا یہ سفر تشنہ رہ گیا۔ بہرحال، پھر سہی، انشاء اللہ۔ گلیشئیر کے ٹھنڈے یخ جیسے پانی سے وضو کیا تو اعضاء سُن سے ہوگئے۔

ندی  کی طرف واپس آ کر ہم  کشتی میں بھی بیٹھے اور پانی کا لطف لیا۔ نماز کی جگہ پر پکنک پر آئے کچھ مولوی حضرات نماز ظہر باجماعت ادا کررہے تھے، ہم بھی شامل ہو گئے۔ سلام پھیر کر مقتدیوں نے کہا کہ عصر کی نماز بھی ادا کر لی جائے۔ امام صاحب حنفی معلوم ہوتے تھے۔ ان کو کچھ تامل ہوا۔ لیکن کچھ تو  عصر کا وقت بھی قریب آ لگا تھا اور کچھ سفر نے بھی ان کو سمجھا دیا تھاکہ شریعت کی آسانی کو آسانی سمجھ کر برتا جائے، چنانچہ وہ عصر کی نمازپڑھانے پر بھی راضی ہوگئے۔

مہوڈنڈ سے واپسی پر راستے میں دیکھا کہ کسی شخص نے خیبر پختونخواہ کی حکومت کی عدم توجہی سے تنگ آکر ایک آبشار کے پانی کی مدد سے ذاتی طور ہر ٹربائن لگا کر بجلی پیدا کرنے کا انتظام کر رکھا تھا۔ معلوم ہوا کہ قریب کے لوگوں کو پچاس روپے ماہانہ پر وہ لامحدود بجلی مہیا کر رہا تھا۔ مہوڈنڈ سے کالام تک ایسے متعدد مقامات ہیں جہاں پانی کے کا دھارا اتنا تیز ہے کہ چھوٹی قسم کی ٹربائن چلائی جا سکتی ہے اور مفت میں بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ سننے میں آیا تھا کہ چین ایسی ٹربائن پاکستان کے چند تیز رفتار دریاؤں کے چنیدہ مقامات پر لگا کر کامیابی سے بجلی پیدا کر رہا ہے۔ کی پی حکومت بھی اگر توجہ کرتی تو ان علاقوں کو بجلی کی ضرورت میں خود کفیل کرنا کچھ مشکل نہ ہوتا لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ عمران خان تعمیری کاموں میں توانائیاں اور وسائل صرف کرنے کی بجائے اسلام آباد میں وزارت عظمی کے سیٹ پر نگاہیں گاڑھے بیٹھے ہیں، اور کرنے کا جو کام ہیں ان کی طرف ان کی توجہ نہیں۔

راستے میں ایک جگہ ہم نے چائے پی اور ان کے ساتھ پکوڑے کھائے۔ ویٹر کے حلیے نے ہمیں اپنی طرف متوجہ کیا۔ اس نے وہ حلیہ بنایا ہی متوجہ کروانے کے لیے تھا۔ بظاہر وہ ایک نارمل نوجوان نظرآ رہا تھا۔ لیکن اس نے لباس میں زنانہ اور مردانہ دونوں احساسات سموئے ہوئے تھے۔ معلوم نہیں یہ اس طبیعت کا تقاضا تھا یا کسی مجبوری نے اسے یہ راہ دکھائی تھی۔

راستے میں کچھ سواتی بچے ملے، جو چنے سے چھوٹے سائز کے جنگلی پھل کاپی کے کاغذوں میں ڈال کر پیچ رہے تھے۔ ان میں سے ایک 9 یا 10 سال کے بچے کے بارے میں معلوم ہوا کہ اس کا والد نہیں تھا، اور وہ اپنے گھر کا واحد کفیل تھا۔ وہ اسی طرح کچھ چھوٹی موٹی مزدوریاں کر کے اپنی استطاعت کے مطابق اپنے گھر کا خرچ چلا رہا تھا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت کو جب کاغذی اور آئینی اصلاحات سے فرصت مل جائے گئی تو وہ زمینی حقائق پر توجہ دے پائے گی اور صوبے کے ایوان اور اسلام آباد سے باہر نکل کر مفلسی کی  ایسی ان گنت داستانوں کی طرف متوجہ ہو پائے گی۔

واپس آکر ہم نے کھانا کھایا۔ مہوڈنڈ میں ٹراؤٹ مچھلی دستیاب تھی، لیکن مصدقہ نہیں تھا کہ وہ فارم کی ہے یا دریا سے پکڑی ہوئی۔ سارے راستے بشر علوی صاحب ٹراؤٹ مچھلی کی گردان کرتے رہے۔ واپس آ کر ہم مچھلی ڈھونڈنے بھی نکلے، لیکن ملی نہیں اور بشر صاحب کو رات مچھلی کے بغیر ایسے گزارنا پڑی، جیسے مچھلی پانی کے بغیر گزارا کرتی ہے۔ اگلے دن ہم ہوٹل سے باہر نکلے، ناشتہ کیا اور دریا کے کنارے بیٹھ کر علمی گفتگو کرتے رہے۔ دو پہر کا کھانا ہم نے نہیں کھایا اور رات کو ایک اور ہوٹل ہنی مون پہنچے اور نہایت لذیذ کھانا کھایا۔ یہاں ٹراؤٹ مچھلی بھی دستیاب ہوگئی تھی۔ نیت سچی ہو تو چیز مل ہی جاتی ہے، بشر صاحب کی مراد بر آئی تھی۔ ہمیں بشر صاحب، خدا کے بہت قریب اور قسمت کے دھنی معلوم ہوئے۔

کالام میں ایک جگہ یہ دکان دیکھی جس کے بورڈ پر بائیں طرف اوپر لکھا ہوا تھا۔ ‘خریدا ہوا مال بخوشی واپس یا تبدیل ہوگا۔’

رات اپنے ہوٹل میں گزاری اور اگلے دن صبح سویرے بعد از نمازِ فجر واپسی کی راہ لی۔

واپسی پر یہ منظر دیکھا جسے ہم نے اپنے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر لیا۔ یہ  کچھ لوگ دریا کے اوپر پہاڑ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایک رسی کے ذریعے لگی ہوئی خود ساختہ لفٹ کی مدد سے شادی کا سامان لے کر جا رہے تھے، جس میں انسان کے حفاظت کے لیے کوئی چیز نہیں تھی۔ آدمی کو خود ہی اپنا آپ سنبھالنا تھا۔ یہ سراسر مہلک لفٹ تھی۔ معلوم ہوا کہ اس کی وجہ سے حادثات پیش آتے رہتے ہیں۔ وہ لوگ شادی کا سامان  اپنی جان پر کھیل کر لا رہے تھے۔ یہ حالات دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس علاقے کی پسماندگی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ سڑکیں جو 8 یا 9 برس پہلے آنے والے سیلاب میں تباہ ہو گئی تھیں وہ بھی تعمیر نہیں کی گئیں ہیں۔ بجلی کا انفراسٹرکچر موجود ہونے کے باوجود بجلی سرے سے ہے ہی نہیں۔ ہوٹل بھی چند گھنٹوں کے لیے جنیریٹر سے بجلی پیدا کرتے ہیں۔ موبائل فون کے سگنل کمزرور ہیں۔ انٹر نیٹ بھی نہیں چلتا۔ پی ٹی آئی سے وابستہ یہاں کے لوگوں کی امیدیں دم توڑ چکی ہیں۔ اس سب کے باوجود قدرتی حسن کی بے پناہی لوگوں کو یہاں آنے پر مجبور کرتی ہے اور اس سے یہاں کے لوگوں کا روزگار سال میں تقریباً تین ماہ چلتا ہے۔ باقی سارا سال اسی جمع شدہ سرمائے سے کام چلاتے ہیں۔

میونسپل اداروں اور ان کی خدمات کا تو معلوم ہوتا ہے کوئی وجود ہی پایا نہیں جاتا ان علاقوں میں۔ کوڑا کرکٹ اور تمام سیوریج دریائے سوات کے خوبصورت شفاف پانی میں ڈال دیا جاتا ہے جس سے نہ صرف دریا کا حسن متاثر ہو رہا ہے بلکہ پانی بھی خراب ہو رہا ہے۔

بحرین پہنچ کر ہم نے اپنی گاڑی لی اور پنڈی کی طرف واپس چل پڑے۔ راستے میں ایک چھپر ہوٹل پر شاندار ناشتہ کیا۔ ناشتہ ایسا عمدہ ملا کہ آج بھی زبان کو اس کا ذائقہ یاد ہے۔ واپسی پر ہم “حلال” موسیقی سے بھی لطف اندوز ہوتےآئے۔ بشر صاحب کو مرزا غالب کا جنون ہے۔ انہوں نے جگجیت، راحت فتح علی وغیرہ کی گائی ہوئی غالب کی غزلیں سنوائیں۔ نصرت فتح علی، رفیع اور لتا نے بھی بہت لطف دیا۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر آپ کی جمالیاتی حس کی مناسب نشو و نما نہ ہوئی ہو تو آپ نہ انسانی سماج  کو درست طور پر سمجھ سکتے ہیں نہ ہی فرد کو۔ دین بھی جمالیاتی رو پ میں نازل ہوا ہے، قرآن جمالیات کا معجزہ ہے۔قرآن کا فہم بھی بد ذوق یا کم ذوق پر نہیں کھلتا۔

اس سفر کے شرکاء بے مثال لوگ تھے۔ کچھ ان کے بارے میں اپنے تاثرات پیش کرتا ہوں۔ ندیم صاحب کے بارے میں تو گاہے گاہے تبصرہ آتا رہا ویسے بھی وہ اپنے بارے میں زیادہ تبصرہ پسند نہیں کرتے۔ محمد تہامی بشر علوی صاحب کے ساتھ فیس بک کے ذریعے دوستی کا سلسلہ چلا۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ فیس بک کے ہمارے مشترکہ حلقئہ احباب میں سب سے پہلے میں تھا جسے ان کے نام کے چاروں حصے ان کی درست ترتیبِ توقیفی سے یاد ہوئے، یعنی محمد تہامی بشر علوی۔ بشر صاحب کشمیری ہیں اور بقول علامہ اقبال تیز دست اور تر دماغ بھی رکھتے ہیں۔ بے لاگ سوچنے اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں۔ استدلال کا حق ادا کر دیتے ہیں اور یہ صلاحیت ہمارے معاشرے میں کم یاب ہے۔ اسی لئے روایتی فکر کے گنبد میں قید نہ رہ سکے۔ سوچنے اور کھوجنے کی عادت نے ان کے لئے دین و فہم میں نئی راہیں کھولیں ہیں جو صرف ان کے لیے ہی کھلتی ہیں، جن کے لئے حق جاننا زندگی کا مسئلہ ہو، جن میں سوچے سمجھے مسائل اور اپنے ہی اخذ کردہ نتائج کو پرکھنے کا حوصلہ بھی ہو۔ وہ ان نہایت قلیل افراد میں سے ہیں جو اختلاف کے ساتھ باہمی احترام  کا رشتہ حقیقتًا برقرار رکھ سکتے ہیں۔ یہ دعوٰی کیا تو بہت جاتا ہے کہ لیکن لوگوں کی اپنے نظریات سے جذباتی  وابستگی نہ تو ان کو درست طور پر کوئی صحیح فیصلہ کرنے دیتی ہے اور نہ اختلاف رکھنے والے سے ہمدردی یا اخوت کا رشتہ ہی برقرار رہنے دیتی ہے۔ لوگ آستین میں خنجر چھپا کر ملتے ہیں اور موقع ملتے ہی گھونپ دیتے ہیں۔ بہرحال اختلاف کے ساتھ احترام کا یہ حوصلہ کم ہی نصیب ہوتا ہے، اور بشر صاحب کو نصیب ہوا ہے۔ تضادات سے وہ نبھا نہیں کر سکتے، یہ ان کی دیانت کا تقاضا ہے۔ اس کی قیمت بھی بہرحال انہیں ادا کرنا پڑتی ہے۔لیکن وہ جو کہا ہے نا کسی نے کہ:

دو عالم سے بے گانہ کرتی ہے دل کو

عجب چیز ہے لذتِ آشنائی

اس لذتِ آشنائی کے سامنے تمام مشکلات ہیچ نظر آتی ہیں۔ ابھی وہ تحصیل علم میں مصروف ہیں۔ اس کے باوجود معاشرے کو بہت کچھ دے رہے ہیں۔ حال ہی میں ا ن کے دو فکر انگریز کتابچے، ‘اسلام اور مذھبی اقلیتیں’ اور ‘ذکر نوجوانوں کی محبت کا’ طبع ہو کر منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم انہیں نے کیسے جان لیا تھا کہ ان کی کتاب “ذکر جوانوں کی محبت کا” پر تقریظ لکھنے کے لئے میں موزوں ترین ہو سکتا ہوں۔ دونوں کتب پڑھنے کے لائق ہیں۔ خدا انہیں علم و عمل میں برکت دے۔

ریحان احمد یوسفی صاحب (ابو یحیی) سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ اس سے پہلے ان سے بس ایک بار فون پر بات ہوئی تھی۔ ان کی کتب، ‘جب زندگی شروع ہوگی’ اور ‘آخری جنگ ‘ وغیرہ نظر نواز ہوئی تھیں۔ جس سے ان کے منہجِ فکر اور احساس کی گہرائی کا اندازہ تھا۔ ان کا مطمع نظر انسان کو خدا سے جوڑنا ہے، نبوی (ص) فکر کی یہ وراثت ان کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ قرآن پر براہ راست غور و فکر نے ان کی فکر کو جِلا بخشی ہے۔ ہر مسئلہ کا حل وہ قرآن سے اتنی وضاحت سے بیان کرتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔

حق کے راہی ہونے اور خود سوچنے کا حق مانگنے کی قیمت انہیں بھی چکانی پڑتی رہی ہے۔ دین شناسی کسی کی ذاتی پراپرٹی نہیں ہوتی۔ خدا جس کو چاہے کہ نعمت عطا فرما دے۔ لیکن ہمارے ہاں دین کی زمانی تعبیروں کے اسیر، کسی دوسرے کو سوچنے سمجھنے کا حق دینے کو تیار نہیں۔ دین کے خود ساختہ محافظ بھی وہی بنے ہوئے ہیں اور اپنے سے مختلف لوگوں کو سزا دینے کا اختیار بھی اپنے لئے روا سمجھتے ہیں۔  دوسروں کو معتزلہ کے فکری وارثین کہنے والے، اپنے طرزِ عمل اور تشدد کی نفسیات کے لحاظ سے خود معتزلہ کے اصلی فرزند بنے ہوئے ہیں۔

ریحان صاحب جیسے  لوگ بہرحال غور و فکر کے چراغ روشن کیے ہوئے ہیں، جن سے جمود پانی میں ہل چل رہتی ہے۔ اقبال نے خوب کہا تھا:

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

چراغ مصطفوی سے شرار بو لہبی

خدا اندھیرے کے سفیروں کے شر سے ایسے لوگوں کو محفوظ فرمائے۔ ریحان احمد یوسفی  صاحب نے اپنے لئے نسبت تو یوسفی اختیار کی ہے لیکن مجھے ان  میں عیسوی نسبت زیادہ نظر آتی ہے۔ یعنی جس طرح عیسیؑ نے علمائے یہود کے قانونیت زدہ دل و دماغوں کو اخلاقیات کا درس پڑھانے کی کوشش کی تھی، اور جس طرح انہوں نے معاشرے کی اصلاح کے لیے اخلاقیات کا پرچم بلند کیا تھا، اور جواب میں بھی بے جا مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا، کچھ اسی طرح جناب یوسفی صاحب نے بھی علمی اور کلامی مباحث کے کار زار میں اخلاقیات کا آوازہ بلند کر رکھا ہے۔ بحث و مباحثہ کی اس موجودہ فضا میں بھی ان کی آواز مسلسل بلند آہنگ ہوتی جا رہی ہے۔ ان کے ناولوں اور دیگر کتب کی لاکھوں کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں اور ہو رہی ہیں۔

یوسفی صاحب کا سب سے اہم کام یہ ہے کہ انہوں نے اپنے اصلاحی کام کو ایک نظام کی شکل دے دی ہے۔ اخلاقیات کی تربیت کو باقاعدہ  تعلیم بنا دیا ہے۔ وہ اپنی کتاب ‘قرآن کا مطلوب انسان’  کو اپنی سب سے اہم تصنیف قرار دیتے ہیں، جس میں انہوں نے قرآن اور احادیث کی منتخب آیات سے یہ دکھایا ہے کہ اللہ کے نزدیک کس قسم کا انسان مطلوب ہے۔ گویا دین کا اصل مقصد اس کتاب میں بتایا گیا ہے۔ اور وہ بھی اس طرح کہ مصنف کی حیثیت صرف مرتب کی ہے، اس نے اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کی۔

ریحان احمد صاحب کلامی مباحث اور فلسفیانہ اور فقہی موشگافیوں کو نکتہ آفرینی قرار دیتے ہیں۔ جس کا حقیقت سے کوئی تعلق کم ہی ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک اصل چیز اپنے اور دوسروں کے اخلاقیات کی اصلاح ہے۔ لیکن ہمارے ہاں دین کا قانونی اور کلامی پہلو زیادہ نمایاں ہو گیا ہے، جب کہ اصل چیز یعنی اپنے اخلاقی وجود کی اصلاح پس پشت چلی گئی ہے۔ ریحان صاحب کے اسی منہج کی وجہ سے میں ان کو یوسفی سے زیادہ عیسوی سمجھتا ہوں۔

ریحان صاحب سے بہت سے قیمتی باتیں سیکھنے کو ملیں۔ ان میں سے ایک یہ تھی کہ بہت مشکل مسائل کا حل بہت سادہ ہوتا ہے۔ محقق اور مفکر کو چاہئے کہ اس کا ڈھونڈ نکالے۔ مشکل پسند طبائع کو ایسے آسان حل پسند نہیں آتے لیکن اصل حل ہوتا وہی ہے۔ اسی وجہ سے کچھ لوگوں کو قرآن میں دلچسپی پیدا نہیں ہوتی، کیونکہ قرآن بہت سے پیچیدہ مسائل کا بہت آسان حل تجویز کرتا ہے۔ لیکن حق کے سچے متلاشی کے لیے وہی حقیقی علم ہوتا ہے۔

ریحان صاحب اتمام حجت کے دو پہلو بیان کرتے ہیں: ایک علمی اتمامِ حجت اور دوسرا اخلاقی اتمام حجت۔ ان کے مطابق علمی اتمامِ حجت کے لیے وقت زیادہ درکار ہوتا ہے، کیونکہ پہلے سے موجود تعصبات، علمی حجابات وغیرہ جیسے موانع ٹوٹنے میں وقت لگتا ہے، لیکن اخلاقی اتمامِ حجت میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ اخلاقی حس فطرت نے سب انسانوں میں ودیعت کر رکھی ہے۔ اسلام کا پیغام اخلاق کی اصلاح اور تربیت ہے، جب اس پیغام کا مقابلہ بد اخلاقی کے ساتھ ہوتا ہے تو یہ ثابت کرنے کی کوئی علمی ضرورت نہیں ہوتی ہے کہ کس کی اخلاقی پوزیشن درست ہے اور کس کی غلط۔۔ بد اخلاق کو بھی اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ اس نے باطل طریقہ اپنا رکھا ہے۔ جب یہ صورتِ حال پیش آتی ہے تو بد اخلاق پر جلد ہی اتمامِ حجت ہو جاتا ہے اور خدا ایسوں کی تباہی اور زوال کا فیصلہ نافذ کر دیتا ہے۔ ساری انسانی تاریخ اس اصول کی آئینہ دار ہے اور یہی اب بھی ہوگا۔ ہمارے معاشرے کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بد اخلاقی کا مظاہرہ جن حلقوں کی طرف سے ہو رہا ہے  وہ تباہی کو خود پکار رہے ہیں۔ ہماری قوم کے لیے یہ وقت بہت اہم ہے۔ انہوں نے اگر اپنی اخلاقی پوزیشن درست طور پر متعین نہ کی تو ممکن ہے کہ بد اخلاقی کے نتیجے میں آنے والے خدائی فیصلہ کا شکار ہو جائیں۔ ریحان احمد یوسفی صاحب کو اللہ اپنے مقاصدِ حسنہ میں کامیاب فرمائے۔

سفر نامے کے اختتام پر مجھے نصرت فتح علی خان کی گائی ہوئی غزل یاد آ رہی ہے جو رفیقِ سفر رہی تھی، سمجھنے والوں کے لیے اس میں نشانیاں ہیں:

شہر کے دوکاندارو’ کاروبارِ الفت میں ‘

سود کیا زیاں کیا ہے ؟  تم نہ جان پاؤ گے

دل کے دام کتنے ہیں ؟ خواب کتنے مہنگے ہیں ؟

اور نقدِ جاں کیا ہے ؟ تم نہ جان پاؤ گے۔۔۔۔۔۔

صرف لفظ سنتے ہو اور حرف چنتے ہو

ان کے درمیاں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے

تم مریضِ دانائی’مصلحت کے شیدائی’

راہِ گمراہاں کیا ہے؟ تم نہ جان پاؤ گے۔