فکر کی کوئی بات نہیں، قوم سو رہی ہے

فکر کی بات

(عظیم نور)

قصور میں دس سے پندرہ سال کی عمر کے بچوں، بچیوں کی ریڑھ کی ہڈی میں انجکشن لگا کر انہیں زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا رہا، ان کی ویڈیوز بنا کر لاکھوں ڈالرز میں پورن ویب سائٹس پر بیچی گئیں۔ ان بچوں کے والدین کو بلیک میل کیا گیا اور وہ اپنے بچوں کے مستقبل، اپنے خاندان کی عزت کی خاطر لاکھوں روپے، زیورات ان درندہ صفت لوگوں کو دیتے رہے۔ قصور تو صرف ایک واقعہ ہے اس ملک کا تقریباً ہر بچہ جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ لیکن فکر کی کوئی بات نہیں۔

قصور کا یہ واقعہ ہمارے ملک کے معاشرے کا عکاس نہیں، یہ چند فتنہ پسند لوگ ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کا نام بدنام ہوتا ہے۔ ایسی خبروں کو ہائی لائٹ کر کے ہمارا صیہونی میڈیا مغرب کے ایجنڈا پر کام کرتا ہے۔ اور یہ بھی تو دیکھیں نا کہ قصور کے ان سفاک درندوں نے ویڈیوز بیچیں کن کو، جی بالکل۔ ہمارے دشمن مغربی ممالک کو، میں تو پہلے دن سے کہہ رہا ہوں کہ ہمارے خلاف یہ مغرب کی سازش ہے۔

لکھاری کی تصویر
عظیم نور

اس ملک کے چھوٹے سے چھوٹے گاؤں سے دیسی اور ولایتی شراب، چرس، بھنگ اور دیگر نشے بآسانی دستیاب ہیں، کوئی مائی کا لعل پوچھنے والا نہیں، پولیس ایک کو پکڑے گی شام کو اسی گاؤں کا چودھری اسے چھڑوانے پہنچ جائے گا کیونکہ شام کو چودھری صاحب نے بھی تو پینی ہے نا۔ لیکن فکر کی کوئی بات نہیں۔ یہ ملک محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ شراب چرس تو امریکہ میں بھی ملتی ہے لیکن وہاں تو کوئی واویلا نہیں کرتا۔ یہ مغرب کی سازش ہے اس سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں اور وہ لوگ جو اس برائی کی نشاندہی کریں وہ مغربی ایجنٹ ہیں۔ اب دیکھیں نا ان کا سب سے بڑا ایجنٹ حسن نثار بھی تو شرابی ہے نا۔
برتھ سرٹفیکیٹ نکلوانے سے لے کر امتحان میں نقل کروانے تک۔ ہسپتال میں اپنی باری سے سے لے کر اپنے خالی پلاٹ میں کسی موبائل نیٹ ورک کا سگنل ٹاور لگوانے تک، گلیوں نالیوں کے ٹھیکوں سے لے کر عوام سے ووٹ خریدنے تک اس ملک میں سوائے رشوت اور سفارش کے علاوہ کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ ہر کوئی اپنے آپ میں جس حد تک کرپٹ ہو سکتا ہے اتنا ہی کرپٹ ہے۔ ہر ایک کی سوچ یہی ہے کہ اس ملک میں قائد اعظم کی تصویروں والی پرچیاں پھینک کر کوئی بھی کام لیا جا سکتا ہے۔ ہر کام کا دام ہے لیکن فکر کی کوئی بات نہیں۔

دنیا کے کس ملک میں رشوت نہیں ہے۔ اب آصف زرداری صاحب نے بھی تو فرانسیسی کمپنیوں کو رشوت دی تھی نا۔ یقین کریں مغرب ہم سے زیادہ کرپٹ ہے۔ یہ تو ہمارے خلاف ایک سازش ہے۔ ہم تو محنتی لوگ ہیں انتھک لگن سے کام کرنے والے۔ ہمیں کرپٹ ثابت کرنے کی اس سازش میں یہودی و صیہونی طاقتیں عمل فرما ہیں۔ اور وہ جو ایسی خبریں شائع کرتے ہیں ان کے ایجنٹ۔
اس ملک میں قتل و غارت، ڈکیتیوں کا بازار گرم ہے۔ کوئی غیرت کے نام پر کوئی انتقام کے نام پر قتل کر رہا ہے۔ بھوک کے مارے لوگ اپنے بچوں کو بازار میں فروخت کے لیے لے آئے ہیں۔ ہر دوسرا شخص کم از کم ایک دفعہ ڈکیٹی کا شکار ہو چکا ہے لیکن فکر کی کوئی ضرورت نہیں۔ امریکہ ، یورپ میں بھی یہی حالات ہیں وہاں بھی عورتوں کی عصمت دری ہوتی ہے، وہاں بھی قتل و غارت ہوتی ہے لیکن وہاں میڈیا کوئی شور شرابہ نہیں کرتا لیکن ادھر بس ان کو تو کوئی بہانہ چاہئے پاکستان کو بدنام کرنے کا اور یہ اسلحہ ہمیں امریکہ نے ہی تو دیا ہے۔ کوئی کچھ اچھا بھی تو دکھائے پاکستان کے بارے میں۔
یہ وہ چند باتیں ہیں جو آج کل پرنٹ میڈیا، الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیاپر زیادہ تر زیرِ بحث رہتی ہیں۔ میرا سوال بالکل سادہ ہے کیا ہم نے یہ ملک اس لیے حاصل کیا تھا کہ یہاں ہمارے بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کیا جائے اور ملزمان ضمانت قبل از گرفتاری لے کر آزادانہ گھومتے پھریں۔ کیا ہم ساری عمر لٹتے ہی رہیں گے؟ کیا ہم سوال اٹھانے والوں کو یہودی ایجنٹس کہہ کر سوئے رہیں گے؟ کیا امریکہ اور یورپ میں ہونے والے جرائم ہمیں اس بات کا لائسنس دیتے ہیں کہ ہم جو مرضی کرتے پھریں جب امریکہ ٹھیک ہو گا تب ہم بھی دیکھیں گے؟ کیا یہ وہ تجربہ گاہ ہے جو ہمیں مطالعہ پاکستان میں بتائی جاتی رہی ہے۔ ہم کب تک نرگسیت کا شکار رہیں گے۔ خیر فکر کی کوئی بات نہیں کیونکہ نرگِس اب بوڑھی ہوتی جا رہی ہے اور اب اس میں وہ بات کہاں۔