سعادت حسن منٹو کا’ ٹوبہ ٹیک سنگھ‘

(پرویز انجم)

پنجاب۔۔۔ مشرقی پنجاب، مغربی پنجاب۔۔۔ ہندوستانی پنجاب، پاکستانی پنجاب۔۔۔ ہریانہ پنجاب، بھارتی پنجاب۔۔۔ سرائیکی پنجاب، وسطی پنجاب۔۔۔ خالصہ پنجاب، اٹوٹ پنجاب۔۔۔ پنجابی عوام الناس کا سماج تقسیم در تقسیم۔۔۔
کسی معاشرے میں یگانگت، اہم آہنگی اوروسعتِ نظر ایک کلچر کانام ہے۔ صدیوں میں یکسوئی کاسفر کوئی کلچر تعمیر کرتا ہے، اور اسی طرح کسی کلچر کو منتشر ہونے میں صدیاں درکار ہوتی ہیں۔ رہن سہن، رسم ورواج، سکھ دُکھ بانٹنے کی طلب کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں۔ ان کے بودے پن کا فیصلہ بھی صادر کردیاجائے تو اقوام کی روایت پسندی کارجحان انہیں قائم رکھتا ہے۔ مگر دوام تو کسی شے کو نہیں۔ جملہ مظاہرِکائنات ایک مسلسل ارتقائی عمل ہے۔دنیا کی ساری تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ یہ واقعات قدرتی طورپر انسانی جبلی خواہشات کی صورت میں انسانوں سے سرزد ہو اور بنی نوع انسان وہ سارے معاشرتی، مذہبی، اخلاقی، قانونی اصولوں کو فراموش کرکے حیوانوں کی سطح پر اترآتے ہیں۔ یہ اجتماعی حادثات کی صورت میں بھی رونما ہوتے ہیں۔ جیسے کہ بٹوارہ ہندوستان، جہاں ساری قومی زندگی ایک تنظیم کے پیٹرن سے ٹوٹ کر بالکل بکھرجاتی ہے۔ پارٹیشن ۱۹۴۷ء کے واقعات کو لیں، جب انسان حیوانوں کی طرح ساری بندشوں سے آزادہوگئے تھے اور سماجیات کی تقسیم در تقسیم کا یہ سلسلہ جاری ہے ۔
بھارت کے پنجابی لیکھک نندرسنگھ ِ گل لکھتے ہیں:
’’اسیں پاک بھارت دی وَنڈتوں بعددی پیداوار ہاں۔ ساہنوں سمجھ نئیں سی آؤندی کہ ایہ وَنڈکیوں ہوگئی؟ چلو جے کر ہندو، سکھ، مسلمان قوماں دے ادھہارت (بنیاد پر)وَنڈ ہوایگئی سی تاں ایناقتلِ عام کیوں ہویا؟ آدمی شیطان کیوں بن گیا؟ بھرابھرانوں کیوں مارن لگ پئے۔ ساڈے ای پنڈ دے سکھاں نے ساڈے ای پنڈ دے گوانڈھی مسلمانوں نوں کیوں وڈھیا، میں بزرگاں نوں ُ پچھدارہندسی۔ اوہاں دے ایس جواب نال میری تسلی نہیں سی ہوندی کہ ’’اودوں واء ای ایسی وَگ پئی سی۔‘‘ ایہناں قتلِ عاماں وچ پتا نہیں کنیاں دِیاں شلواراں کھلیاں ہون گیاں تے کنیاں داگوشت ٹھنڈا ہویا ہووے گا۔ وَنڈنال سمبندھت سپت (ادب کارشتہ) سمیت منٹو دے افسانے پڑھ کے مینوں ایس بھرامارو جنگ دی سمجھ نہیں سی پیندی پر جیویں ای پنجاب وچ خالصتان دی لہرچلی تاں مینو ں وَنڈاں پہلاں تے وَنڈتوں بعد دے قتلِ عام دی سمجھ پین لگی۔ َ جدوں میں سویڈن چلاآیا۔ یورپ وچ نویاں وَنڈاں خاص کر یوگوسلاویادِیاں ونڈاں بارے پڑھن ُ سنن لگاتاں میں اکثر ای سوچدا تے ُ ہن وی سوچدا ہاں پئی چلو ساڈے ملک تاں پچھیڑے ملک سن۔ صول اسبھاتے (غیر مہذب) اَن پڑھ سن۔ اوہ زماناوی پنجاہ سٹھ سال پڑنا سی۔۔۔ پرایہہ یورپ دے لوک تے پڑھے لکھے سبھیا (مہذب) لوک ہن۔ اج زماناوی آترادھنکتا داز مانا اے پَرایس دے باوجود ایتھے بھرا مارو جنگاں چل رہیاں ہن۔۔۔ بھارت توں یورپ آن دا اِک میرا کارن اوتھے ہندو، سکھ خالصتان دے ناں تے چلی بھراماروجنگ وی سی۔ دہشت دادَور سی۔ پَر ُ ہن جدوں ایتھے آکے نسل پرستی ویکھداہاں تے ویکھدا ہاں کہ ایہہ دن بدن ودھدی جاندی اے، گھٹ نہیں رہی، مینوں پتا نئیں لگدا کدھر جاواں! ایسی سوال وچ اُلجھے مینوں لگدا ے کہ میں پاگل ہوں جاواں گا تے میری حالت منٹو دے ٹوبہ ٹیک سنگھ والی ہوجاوے گی۔‘‘
(منٹو یورپی پنجاب وچ، ماہنامہ ’’مزدور جدوجہد‘‘ لاہور منٹو نمبر شمارہ ۱۳ تا ۱۹؍جنوری ۲۰۰۵ء ص،۳۹۔۴۰)
سرزمینِ پنجاب پر چلنے والی تلوار کی نوک پرلکھی کہانی ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ۔۔۔‘‘ یہ منٹو کا سب سے قدآور افسانہ ہے۔ یہ اُن کے افسانوی مجموعے ’’پھندنے‘‘ میں شامل ہے جو ۱۹۵۴ء میں شائع ہواتھا۔ ہندوستان کے بٹوارے کے پس منظر میں ہمیشہ زندہ رہنے والی اِس کہانی نے بے حد شہرت پائی۔یوں تو ۱۹۴۷ء کے فسادات پراُردو ادب میں کئی کہانیاں ہیں مگر منٹو کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ منٹو کہتے ہیں’’ایک لاکھ ہندومارکرمسلمانوں نے یہ سمجھا کہ ہندومذہب مرگیا اور لاکھ مسلمان کو قتل کرکے ہندوؤں نے بغلیں بجائیں کہ اسلام ختم ہوگیا۔ منٹو سوال کرتے ہیں کہ کیابندوقوں سے مذہب شکار کیے جاسکتے ہیں اور منٹو محض داغدار ہونے والے دوپٹوں پر رنجیدہ نہ تھے۔ وہ اِس سوال کا جواب بھی مانگ رہے تھے کہ پھولے ہوئے پیٹوں والیوں کو وہ ہندوستان کی ملکیت سمجھیں یا پاکستان کی؟ یہ بات بھی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ خاک وخون میں لتھڑی لاشوں کو دفنایا جائے یا آگ لگائی جائے؟۔۔۔ جب منٹو کو اپنے سوالوں کاجواب کہیں سے نہ ملا تو وہ چلااُٹھا، ’’اپڑدی گڑگڑی دی اڈیکس دی بے دھیان دی منگ دی وال آف دی پاکستان اینڈ ہندوستان آف دی دُرفٹے منہ!‘‘
’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘، یہ افسانہ منٹو نے یومِ میراجی حلقہ ارباب ذوق لاہور کے سالانہ اجلاس میں پڑھاتھا۔ اُس وقت یہ اجلاس وائی ۔ایم ۔سی ۔اے کے بڑے ہال میں منعقد ہوتے تھے۔ افسانہ نگار اے حمید بیان کرتے ہیں:
’’مجھے یومِ میراجی کاوہ سالانہ اجلاس آج بھی یاد ہے جہاں منٹو صاحب نے اپنا افسانہ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ پڑھاتھا۔ سٹیج سیکرٹری شہرت بخاری جب اعلان کیا کہ اب میں اُردو کے مایہ ناز افسانہ نگار جناب سعادت حسن منٹو سے گزارش کروں گا کہ وہ سٹیج پر تشریف لائیں تو ہال تالیون سے گونچ اٹھا تھا۔ جب تک منٹو صاحب اپنے مخصوص انداز میں چلتے ہوئے سٹیج پر چڑھ کر روسٹرم کے آگے جاکر کھڑے نہیں ہوگئے لوگ تالیاں بجاتے رہے۔ جس طرح منٹو صاحب کا لکھنے میں اپنا منفرد اُسلوب تھا، اسی طرح اُن افسانہ پڑھنے کاانداز بھی سب سے الگ اورنیچرل تھا۔‘‘
(مضمون: ’’سعادت حسن منٹو کی یاد میں‘‘ روزنامہ نوائے وقت سنڈے ایڈیشن ، ۳۱؍جنوری ۱۹۹۹ء، ص،۱۱)
پارٹیشن کے اَلمیے پر دِل میں چھیدکرتی ہوئی اِس کہانی میں جوتاثر ہے، بقول استاد دامن:
روئےُ تسی وی او ، تے روئے اَسی وی آں
دنیا کی تاریخ میں تقسیم کے سب سے بڑے نوحے، سب سے بڑی ٹریجڈی،پارٹیشن کے پس منظر میں منٹو صاحب نے ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ کے نام سے جو افسانہ ضبطِ قلم کیاہے۔ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ ایک سکھ پاگل بشن سنگھ کی کہانی ہے جو کئی برسوں سے پاگل خانے میں داخل تھا اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کارہائشی تھا۔ یہ قصبہ جھنگ اور ساندل بار، (موجودہ فیصل آباد)، کے بیچ واقع ہے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے بطن میں بھی ایک کہانی ہے۔ٹوبہ ٹیک سنگھ میں پنجاب کے آج جانگلی کہے جانے والے لوگ، نیم صحرائی زندگی گزارتے تھے۔پنجاب پر انگریزوں کے پورے تسلط کے باوجود انہوں نے انگریز حکومت کوتسلیم نہ کیاتھا۔ (ٹوبہ ٹیک سنگھ انتظامی طورپر جڑانوالہ کی مانند فیصل آباد کی تحصیل تھا۔) بھگت سنگھ اور جگا بھی اسی ساندل بارکے علاقے کے رہنے والے تھے۔ منٹو نے یہ جوافسانہ لکھا ہے۔ اِس میں ٹوبہ ٹیک سنگھ کی ترکیب قوت جرأت اور بغاوت کی علامت کے طورپر استعمال ہوئی ہے۔
منٹو کے قلم کی بدولت، عالمگیر شناخت پانے والے اس قطعۂ ارضی کی داستان یوں ہے کہ جس جگہ اِن دِنوں ٹوبہ ٹیک سنگھ کا ریلوے اسٹیشن ہے اس کے آس پاس ہی ایک پانی کا ٹوبہ ہوتا تھا۔یہ علاقہ ابھی آباد نہ ہواتھا کہ ایک درویش صفت بوڑھا، جس کا نام ٹیک سنگھ تھا، اِس ٹوبے کے کنارے آبیٹھ گیا۔ اُس نے ُ جھگی ڈال لی اور ہندو، سکھ اور مسلمان مسافروں کو پانی پلانا اُس کی زندگی کا مشن بن گیا۔ یہ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں سے آیاتھا۔ کس کنبے یا قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ ٹیک سنگھ کو عرفِ عام میں لوگ ٹیکوسنگھ بھی کہتے تھے۔ ٹیکو سنگھ صبح سویرے گھڑے اُٹھا کر چلاجاتا اور مسافروں کے انتظار میں بیٹھ جاتا۔ وہ تھکے ماندے مسافروں کی خدمت پانی سے اور ُ بھنے ہوئے چنوں سے ضیافت کرتا رہا۔ رفتہ رفتہ وہاں ایک ماچھی نے تندور لگا لیا۔ پھر ایک آن بنیااور پھر لوگ یہاں مقیم ہونے اور زمین اَلات کروانے لگے، مگر ٹیک سنگھ نے کچھ الاٹ نہیں کرایااورٹوبے کے کنارے ساری عمر گزاردی اور ایک دن جب اس ویرانے میں بستی کی بنیاد پڑچکی تھی۔ وہ اپنی ُ جھگی میں چپ چاپ مر گیا۔ اب عالمی سطح پر ٹوبہ ٹیک سنگھ، پاکستانی شہر نہیں منٹو کی کہانی کے طورپر مشہورہے۔
منٹو کے کردار بشن سنگھ کا تعلق اسی قصبہ سے تھا۔ بشن سنگھ جو پاگل خانے میں ہر کسی سے یہی پوچھتا رہتا تھا کہ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے‘‘اور ہروقت عجیب وغریب اور بے ربط الفاظ بولتا رہتا تھا۔ اُس بے چارے بشن سنگھ عرف ٹوبہ ٹیک سنگھ کواپنی کوئی سدھ بدھ نہ تھی۔ داڑھی بڑھی ہوئی ہے، سر کے بال آپس میں جکڑے ہوئے ، کھانے پینے کاہوش نہیں۔ وہ پاگل خانے میں سارادن ایک طرف کھڑارہتا تھا۔ پاؤں سوجے ہوئے،پنڈلیاں پھولی ہوئیں۔ اُسے کبھی کسی نے سوئے ہوئے یا لیٹے ہوئے نہیں دیکھا تھا، بس تمام وقت کھڑا رہتا اور بڑبڑاتا رہتا۔ وہی بے ترتیب الفا٭۔۔۔ اُسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ ہندوستان میں تھا پاکستان کس طرح چلا گیا اوریہ پاکستان کیاہے؟ اور اُس کا گاؤں ٹوبہ ٹیک سنگھ کدھر گیا؟ اب اُسے کہاں جانا ہے۔۔۔ اِس دوران ہندوستان تقسیم ہوگیاتھا۔ اُس کے بھائی بلبیرسنگھ اور ودھاواسنگھ اور بیٹی روپ کو ردیگر خاندان کے ساتھ بھارت چلے گئے تھے۔ اُن پر کیاگزری یہ جاننے کے لیے اُس کے اوسان بحال نہ تھے۔ اُس کا مسلمان دوست فضل دین کبھی کبھی پاگل خانے اُس سے ملاقات کرنے آجاتا اور بشن سنگھ عرف ٹوبہ ٹیک سنگھ کی بے ربط باتیں سن کر چلاجاتا۔ بٹوارے کے عرصہ بعدپاکستان اورہندوستان کی حکومتوں کوخیال آیا کہ باقی اشیاء کے تبادلوں کی طرح پاگلوں کا تبادلہ بھی کیاجائے۔لہٰذا جب تبادلے کی تیاریاں مکمل ہوگئیں،پاگلوں کہ فہرستیں دونوں طرف پہنچ گئیں اور تبادلے کادن مقررہوگیا۔ بشن سنگھ کی جب باری آئی اور واہگہ بارڈر کے اُس پارکا متعلقہ افسراِس کا نام پتہ رجسٹرمیں درج کرنے لگا تو اُس سے پوچھتا ہے۔ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟ پاکستان میں یاہندوستان میں؟‘‘ یہ سن کربشن سنگھ پیچھے کی طرف دوڑ پڑا اور اپنے باقی ماندہ ساتھیوں کے پاس پہنچ گیا۔ پاکستانی سپاہیوں نے اُس کو پکڑا اوردوسری طرف لے جانے لگے، مگر اُس نے جانے سے انکار کردیا کہ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ یہاں ہے۔‘‘ اور زورزور سے چلانے لگا،’’اوپردی گڑگڑدی اینکس دی بے دھیان دی منگ دی وال آف دی پاکستان اینڈ ہندوستان دی دُرفٹے منہ!‘‘
ذہن کے کسی مبہم سے سلامت گوشے سے نکلنے والے نیم شعوری یہ بے ترتیب الفاظ، دراصل اُس نے اپنے مؤقف کے دفاع میں کیے کہ میں کوئی کم فہم یا اَن پڑھ جاہل آدمی نہیں ہوں۔ میرے ساتھ زیادتی نہ کی جائے چونکہ وہ غیرحاضر دماغ تھا۔ اس لیے حاضر دماغ اشخاص نے اُسے سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ یہ قوموں کا تبادلہ ہورہا ہے اور تمہیں دوسرے ملک ہندوستان جانا ہے، مگر وہ کسی طورنہ مانا۔ آدمی چونکہ بے ضررتھا اس لیے باقی پاگلوں کے تبادلے کا کام جاری رہااور وہ ہٹ دھرم درمیان میں اپنی سوجی ہوئی ٹانگوں پر ایک طرف کھڑا رہا اور کئی دن کھڑارہا۔ پھر ایک فلک شگاف چیخ اُس کے حلق سے نکلی۔ تبادلے میں مصروف اِدھراُدھر سے کئی افسر اور سپاہی دوڑے آئے اور دیکھا کہ وہ آدمی جو دن رات اپنی ٹانگوں پر کھڑا رہتاتھا، اوندھے منہ لیٹاتھا۔ اُدھر خاردار تاروں کے پیچھے ہندوستان تھا۔۔۔ اِدھر ویسی ہی تاروں کے پیچھے پاکستان۔۔۔ درمیان میں زمین کے اُس ٹکڑے پر جس کا ’’نومنیز لینڈ‘‘ کوئی نام نہیں تھا، ٹوبہ ٹیک سنگھ مردہ پڑاتھا۔
منٹو پربھی ایک وقت ایسا آیا تھا کہ وہ شراب چھوڑنے کی غرض سے پاگل خانے میں زیرِعلاج تھے اور ایک عجیب وغریب کیفیت اُن پر طاری تھی۔ وہ بے ہوشی اور نیم بے ہوشی کے ایک گرداب میں آپھنسے تھے۔ کچھ سمجھ نہ آتا کہ ہوش مندی کاعلاقہ کب شروع ہوتا ہے اور بے ہوشی کے عالم میں کب پہنچ جاتے۔ دونوں کی سرحدیں کچھ اس طرح آپس میں گڈمد ہوگئی تھیں کہ وہ خود کو ’’نومنیزلینڈ‘‘ میں بھٹکتا ہوا محسوس کرتے۔ اُس ماحول سے کشیدکی ہوئی ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ کی کہانی منٹو کااُردو ادب کے لیے ایک انمول تحفہ ہے۔ ایسی کہانی کسی بھی تخلیق کار کا اثاثہ ہوتی ہے۔ جس میں پاگل خانے میں پاگلوں کی چہ مگوئیاں ، اُن کی اُلٹی سیدھی حرکتوں اور سروں پر لٹکتے دوحکومتوں کے فیصلوں میں منٹو نے ’’معصوم تاریخی المیے‘‘ کااحساس کروایا ہے۔ ایسی کہانی روحانی تجربے کے بغیر ضبطِ تحریر نہیں آسکتی۔ اُس جانکا ہی کا ثمریہ افسانہ تھا۔ منٹو کے ’’بامعنی طنز‘‘ نے اِس کہانی کو وقت کی قید سے آزاد کردیا ہے۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعدہندوستان کے فسادات سب سے بڑا انسانی حادثہ تھا۔ اس حادثے کی وسعت کے مقابلے میں جوادب تخلیق کیاگیا وہ محدود اور مختصر ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات کے دوران جو جذباتی، مذہبی اور اقداری شکست وریخت ہوئی وہ ناقابلِ فراموش ہے۔ لاکھوں عصمتوں کوتاراج کیاگیا اورلاکھوں مردوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو سفا کی سیتہ تیغ کردیاگیا۔ مگر انہیں جس طرح زندگی سے موت کی طرف لے جایاگیا اس کی داستانیں لرزہ خیز ہیں۔ اس سیاق وسباق میں نٹو اُردو کے واحد ادیب ہیں جنہوں نے ۱۹۴۷ء کے فسادات کو بھرپور طریقے سے اپنے افسانوں کا موضوع بناکر بے حد مؤثر افسانے لکھے۔
بیسویں صدی کے ایک مشہور افسانہ نگار ایوالین نے بھی پاگل خانے کے پسِ منظر میں ایک کہانی لکھی تھی جو مشہور ہوئی لیکن اگراُس کو سامنے رکھ کر ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ کی کہانی کا جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ منٹو کے فن میں زیادہ جہتیں ہیں۔ ایک سوسال میں افسانے میں ہمارے افسانہ نگاروں نے بھی ایسی کہانیاں تخلیق کی ہیں کہ جن کا دوسری زبانوں کے ساتھ تقابل کیاجاسکتا ہے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ افسانہ پڑھ کر سب سے پہلے خیال تو یہی آتا ہے کہ پاگل پن جوتھا، پاگل خانے کے اندر تھا یا پاگل خانے کے باہر اور آج بھی یہ سوال اہم ہے کہ دیوانگی ہے کہاں پر۔ اِس دیوانگی کے Sourceکو منٹو نے جس طریقے سے بیان کیا ہے کوئی اور نہیں کہ سکتا۔اِس افسانے میں ایک قطرہ خون بھی ٹپکتے ہوئے نہیں دکھایاگیا۔ یہ مصنف کی کتنی بڑی کامیابی ہے۔ پڑھنے کے بعداندازہ تو ہوتا ہے کہ اس افسانے کے پیچھے غارت گری کا کتنا بڑا سیلاب، کتنا بڑاطوفان چھپاہوا ہے، جس میں دس لاکھ لوگ تہہ تیغ ہوئے تھے اور ایک کروڑ کے قریب بے گھر ہوئے۔
۱۹۴۷ء کے المیے میں بے گھر ہونے والے لوگوں کے شہر گاؤں، گلیاں اور بازار چھوٹ گئے۔ بس ایک خواب تھا ’’آزادی‘‘ جس کی تعبیر نے ابنارمل فرد کی ذہنی کیفیت کو کچھ اور ابنارمل کردیاتھا۔ افسانے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے مرکزی کردار کا بھی بنیادی وصف اُس کے یہاں عقل کی عدم کارفرمائی ہے۔ یعنی عقل کا عمل دخل نہ ہونے کے سبب تمدن کی ملمع کاری اور سیاست کی شعبدہ بازی کے اثرات سے اس کی ذات منزہ ہے۔ یہ کردار حب الوطنی کے تصوّر کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اس کے لیے مٹی کی محبت ہی سب کچھ ہے۔ اس تعلق سے اُسے کسی سمجھوتے پر راضی نہیں کیاجاسکتا۔ حالات کے پیشِ نظر عقل کا تقاضہ یہی تھا کہ اوروں کی طرح وہ بھی اس ’’ونڈ‘‘ کو ذہنی طورپرقبول کرلیتا ، جس کے حق میں ارباب ذی ہوش نے اس کے متعلق فیصلہ کیاتھا۔ اگر اس میں ان باتوں کو اس طرح سمجھنے کی اہلیت ہوتی تو وہ پاگل خانے میں نہ ہوتا۔ تقسیم کے پسِ منظر میں لکھی گئی یہ ایک ایسی فکررساکہانی ہے جس میں ایک پاگل آدمی مٹی کی محبت کی علامت بن کر اُبھرتا ہے جو پاکستان کوجانتا ہے نہ بھارت کوبلکہ اُس کی محبت اور سوچ کی جڑیں اس کے گاؤں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں گہری پیوست ہیں۔ مٹی کی محبت انسان کی فطرت کا حصہ ہے۔ ُ حب الوطنی جدید عہد کی ایک سیاسی تشکیل (Political Construct) ہے جو قومی مملکت کے تصوّر کازائیدہ ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب برصغیر کی آبادی اپنی شناخت کے معاملے میں دوقومی مملکتوں میں بٹی ہوئی تھی، بشن سنگھ؍ٹوبہ ٹیک سنگھ ایک اکیلا ہے جسے مٹی کی محبت کی آن عزیز ہے۔ وہ جیتے جی اس محبت کادَم بھرتا ہے اور اپنی موت کے ساتھ دوسرحدوں کے درمیان کی بے نام زمین کو اپنا نام دے جاتا ہے۔ بٹوارے کے دوران میں ہونے والی موتوں کاحساب کس نے رکھا ہے۔ بشن سنگھ کی مانند کتنے لوگوں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن واقعہ یہ ہے کہ ایک ٹوبہ ٹیک سنگھ کی موت ان تمام موتوں پر بھاری ہے۔
مرگِ مجنوں پہ عقل گم ہے میرؔ
کیا دِیوانے نے موت پائی ہے
اس افسانے کی معنویت، طنز اور چوٹ منٹو کے بالغ سیاسی شعور کی غماز ہے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کا موضوع آزادی اورتقسیم کی نفسیات اور مابعداثرات ہیں۔ پاگل خانہ اور آزادی، پاگلوں کا تبادلہ اوردیوانوں کی ہوش مند باتیں، اس افسانے کے اہم اشارے ہیں۔ تاہم پاگل خانہ اورٹوبہ ٹیک سنگھ دواستعارے ہیں جو آزادی کے منافی روّیوں کو بیان کرتے ہیں۔ یعنی آزادی کی تعبیر نے فرد کی نفسیاتی کیفیت درہم برہم کردی اور تقسیم کے بعدمعاشی وسماجی، نفسیاتی وسیاسی، جنس اور عقائد کی بنیاد پر جاری تقسیم نے ذہنی پاگل پن پیداکردیا۔ یہاں ٹوبہ ٹیک سنگھ آزادی کے خلاف نہیں، تقسیم کے خلاف ضرور ہے جو فرد سے اُس کی شناخت چھین لیتی ہے۔ ہاں افسانے کا موضوع پاگل پن ہے۔ اس سے یہ سوال اُٹھتا ہے کہ پاگل کون ہے؟ یہ گہرا اور زندہ رہنے والا سوال ہے۔کیا پاگل خانے میں بند لوگ ہی پاگل ہیں اور باہر سارے نارمل انسان ہیں؟ ۔۔۔ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ کی تھیم ایسی ہے جو صرف پاکستان ہندوستان کی تقسیم تک محدود نہیں، بلکہ یہ یونیورسل ہے کسی کلچر کی تقسیم کا یہ موضوع ایسے کئی ممالک کی تقسیم کی صورت میں کئی مرتبہ تاریخ میں سامنے آیا ہے جن کے تنازعے کو پسِ منظر اور پیشِ منظر پاک بھارت تقسیم سے ملتا جلتا ہے۔ آج بھی کرۂ ارض کے باسیوں کو کئی جگہ ’’نومینزلینڈ‘‘ جیسی صورتِ حال کا سامنا ہے، جب بھی ملک تقسیم ہوتے ہیں تو وہاں کے باشندوں پر اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ انہی اثرات کا بیان ہے۔۔۔ لیکن کیایہ ٹوبہ ٹیک سنگھ برابر زندہ نہیں؟ منٹو کی یہ ایسی کہانی ہے جسے صرف وہ دل سن سکتا ہے جو دکھ سے گزرنا جانتا ہے۔