سرمایہ داریت، کشمکش اور نیا عالمی منظر نامہ

(عرفان یونس)

نوٹ: اس آرٹیکل کو لکھنےمیں ہالی ووڈ کی ایوارڈ یافتہ دستاویزی فلم (The Inside Job)
سےکافی حدتک مدد لی گئی ہے ۔

طبقاتی کشمکش اور استحصال پر مبنی عالمی سرمایہ داری نظام کو اپنے بقاء کی جنگ لڑنی پر رہی ہے۔ تین سالوں پر محیط (2007-2010) عالمی مالیاتی بحران نے اس نظام کی بنیادیں ہلانے کے ساتھ ساتھ اس کو اپنے بنیادی اصولوں، جیسے کہ حکومت کی عملدآری سے پاک مارکیٹ کا نظام، اوپن مارکیٹ وغیرہ سے بھی ہٹنے پر مجبور کیا ہے۔ ایسے میں وہ تمام ماہرینِ اقتصادیات جن کو سرمایہ داری اصول وضوابط سے ذرہ بھر تبدیلی بڑی گراں گزرتی تھی، وہ بھی طرح طرح کے عذر تراش کر اپنی خفت مٹانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ جیسے کہ معروف امریکی صحافی اور نیوز ویک انٹر نیشنل کے ایڈیٹر فرید ذکریا نے جون 2009 کے نیوز ویک کے شمارے میں سرمایہ داری منشور (Capitalist Manifesto) کے نام سے آرٹیکل لکھا (یا ان سے لکھوایا گیا) اور اپنے اس آرٹیکل میں انہوں نے سرمایہ داریت کے بنیادی استحصالی اصولوں سے صر فِ نظر کرتے ہوئے، عالمی بحران کی ساری ذمہ داری مالیاتی اداروں کے سربراہان اور اعلی افسران پر ڈال دی اور ان کو “اخلاقیات” کا دامن نہ چھوڑنے کی تلقین کی۔ان کے مطابق اس طرح کے بحران پہلے بھی آتے رہے ہیں اور سرمایہ داریت ہمیشہ ان بحرانوں سے نبرد آزما ہو کر ، مزید پختہ ہو کر نکلی ہے۔
عالمی بحران آیا اور ماہرین کے مطابق 2010ء میں ختم ہو گیا۔ مگر یہاں ایک بات واضح کرنا ضروری ہے کہ پہلے یہ بحران چند دہائیوں کے وقفے سے آتے تھے۔ مگر اب یہ بحران تواتر کے ساتھ ہر چند سال بعد کسی نہ کسی شکل میں وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں، ویلفیئر اسٹیٹ کا لبادہ اوڑھے کئی ممالک)اٹلی، یونان، امریکہ، آئس لینڈ وغیرہ( اب سرمایہ داریت کا مکروہ چہرہ آشکار کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ یہ بحران اب اختتام پذیر ہو چکا اور اب معیشتیں دوبارہ ترقی کی منازل طے کریں گی۔ بات یہ ہے کہ جس نظام کی بنیادیں ہی عوام کے استحصال پر اوراجتماع کے مقابلے پر گروہی مفادات کے تحفظ پر مبنی ہوتو نظام چند سال تو کامیابی سے شاید چلتا رہے کہ جب تک ۹۵ فیصدی عوام کی قوتِ خرید مختلف ٹیکس اور سرچارج لگا لگا کر ختم نہیں کر دی جاتی اورجب قوتِ خرید جواب دے جاتی ہے تو بظاہر یہ خوشنما نظام دھڑام سے زمین پر آ گرتا ہے۔ مگر صد افسوس کہ گرتا بھی اسی عوام پر ہی ہے۔ جس کی ایک مثال کہ اس بحران کے نتیجے میں اس بحران کے مرکزامریکا میں عوام کو تو گھروں سے بے گھر ، ملازمتوں سے فارغ اور تمام عمر کی جمع پونجی سے محروم کیا گیا ۔ مگر دوسری طرف انہی مالیاتی اداروں کو بچانے کے لیے عوام کے ادا کردہ ٹیکسوں میں سے حکومت نے بیل آوٹ کے نام پر 700 ارب ڈالران کمپنیوں کو فراہم کیئے۔یہ بیل آوٹ پیکج سرمایہ داریت کے اوپن مارکیٹ اصول کی صریح خلاف ورزی تھی، مگر سب خاموش رہے۔یہاں ایک اور بات قابلِ ذکر ہے کہ ہر بحران کے بعد عوام کی جمع پونجی تو لٹ گئی، مگر یہ مالیاتی ادارے اور ملٹی نیشنل کمپنیاں معاشی اور سیاسی طور پر مزید مضبوط ہوتی رہیں۔اور حکومتوں کو بلیک میل کر کے اپنےسرمایہ دارانہ مفادات کے تابع قانون سازی پر مجبور کرتی رہیں۔جس کی تفصیلات آگے آئیں گی۔ آخر یہ عالمی مالیاتی بحران آیا کیسے؟ یہ وہ سوال ہے کہ جس سےہر ذی شعو ر شخص کو آگاہی ہونی چاہیئے ۔
دنیا کا کوئی بھی بحران یا حادثہ ایک دن یا ایک رات یا چند ہفتوں کی پیداوار نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کے پیچھے تسلسل کے ساتھ برتی گئی مجرمانہ غفلتوں ، غلطیوں کی ایک لمبی داستان ہوتی ہے۔ اس عالمی بحران میں بھی کچھ ایسا ہی کیا گیا۔امریکہ کو عالمی مالیاتی نظام میں اس کے سیاسی و معاشی نظام اور سب سے بڑھ کے ڈالر کی وجہ سے مرکزیت حاصل ہے۔ امریکہ میں ہونے والی کسی بھی معاشی بحران کا اثر پوری دنیا پر پڑتا ہے۔ اس لیے اس معاشی بحران کا آغاز بھی امریکہ سے ہی ہوا لیکن سب سے پہلے متاثر برطانیہ کی معاشی منڈی ہوئی، جب امریکی کمپنی لیہمن برادرز (Lehman Brothers) کا برطانوی دفتر برطانوی قانون کے مطابق اسی وقت بند کرنا پڑا کیونکہ کمپنی نے امریکہ میں دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔سینکڑوں لوگ یکمشت روزگار سے گئے اور اس کمپنی کے گاہکوں کو اتنی بھی مہلت نہ دی گئی کہ وہ اپنی رقوم نکلوا سکیں۔
سن 1930 کے عالمی بحران (Great Depression)کے بعد اگلے ۴۰ سے ۵۰ سال امریکی معیشت نے زبردست ترقی کی۔ کیونکہ اس بحران کے بعد امریکی حکومت نے ایک قانون کے تحت مالیاتی اداروں کے کام کرنے کا ایک طریقہِ کار وضع کیا۔ اس قانون کو ،اس کے بنانے والے سینیٹرز کے نا م پر،، گلاس –سٹیگل ایکٹ ۱۹۳۳(Glass-Steagal Act 1933) کہا جاتا تھا۔ اس قانون کے تحت ایسے تمام مالیاتی ادارے جن میں عوام براہِ راست سرمایہ کاری کر سکتے تھے، ان پر ایک قدغن لگائی گئی کہ وہ کوئی بھی ایسی سرمایہ کاری نہیں کرسکتے تھے، جن میں عوام کے پیسے یا اس کمپنی کے ڈوبنے کا خطرہ زیادہ ہو۔ اب کیوں کہ وہ کمپنیاں مالکان اپنے پیسے سے یا تھوڑے بہت عوام کے پیسے سے چلاتے تھے تو وہ سرمایہ کاری بھی سوچ سمجھ کے کرتے تھے ۔
سن 1980ء میں، امریکی صدر رونالڈ ریگن (Ronal Reagan) نے برسرِ اقتدار آتے ہی، جو بڑے کام کیے ،ان میں سے ایک ان مالیاتی اداروں پر عائد کردہ حکومتی پابندیوں میں نرمی بھی تھی۔ انہوں نے ڈی –ریگولیشن (De-Regulations) کے نام پر مالیاتی اداروں اور سرمایہ دارملٹی نیشنل کمپنیوں کو کھلی چھوٹ دینے کے ساتھ ساتھ، انہی بنکوں اور مالیاتی اداروں کے سربراہان اور بڑے افسران کو حکومت میں شامل کرنے کے عمل کا آغاز کیا۔اس سلسلے میں انہوں نے وزیر ِ خزانہ کے طور پر ڈونالڈ ریگن (Donald Reagan)کو لیا، جو کہ ایک بڑے بنک گولڈ مین ساکس (Goldman Sachs) کے سربراہ تھے۔ ڈی –ریگولیشن کا آغاز انہی موصوف کی سربراہی میں شروع کیا گیا اور اس کے نتیجے میں سینکڑوں چھوٹی بڑی بچت اور قرضدار ی کمپنیاں (Saving and Loan Companies) معرضِ وجو دمیں آئیں۔ سرمایہ داریت کا ایک اصول ہے کہ جتنا زیادہ خطرہ، اتنا زیادہ منافع۔(Higher the risk, Higher the return)۔خطرہ سے مراد سرمائےکے ڈوبنے یا کمپنی کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ۔ اس اصول کوسامنے رکھتے ہوئےان کمپنیوں نےزیادہ منافع کے لالچ میں، قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئےکئی خطرے والی سرمایہ کاری کر ڈالیں۔اس چیز نے مشہورومعروف بحران کو جنم دیا، جو قریباََ ایک دہائی تک چلا۔ 1980ء سے 1990ء تک چلنے والے اس بحران میں 747 کمپنیاں دیوالیہ ہوئیں اور عوام کے 124 ارب ڈالر ڈوب گئے۔ قانون حرکت میں آیا اور کئی بچت اور قرضدار ی کمپنیوں کے سربراہان جیل میں گئے۔ ان سربراہان میں سے چارلس کیٹنگ(Charles Keating) کے کیس کو سب سے زیادہ شہرت ملی۔ صرف ان کی کمپنی کے 23 ہزار گاہک اپنے،کمپنی میں لگائے، سرمائے سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ 1985ء میں تحقیقاتی اداروں نے ان کو تحویل میں لے کر فراڈ، جعلسازی اور دیگر الزامات کے تحت مقدمات چلانے شروع کیئے۔ چارلس کیٹنگ نے ایک ماہر اقتصادیات ایلن گرینسپین(Alan Greenspan) کو اپنے دفاع میں عدالت کے سامنے پیش کیا۔ ایلن نے عدالت اور تحقیقاتی اداروں کے نا م اپنے ایک خط میں چارلس کیٹنگ کے پروگرام، صلاحیتوں اور اس کی معاشی اسکیموں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ان اسکیموں میں پیسہ کمانے کے زبردست امکانات ہیں۔ چارلس کیٹنگ کو تو بعد میں جیل ہو گئی مگر ایلن گرینسپین کو رونالڈ ریگن نے امریکی مرکزی بنک (Federal Reserve) کا چیئر مین بنا دیا۔ ایلن کو بعد ازاں امریکی صدور کلنٹن اور بش جونیئر نے بھی چیئر مین برقرار رکھا۔
1990ء تک امریکی حکومت کے آشیرباد تلے ، یہ مالیاتی ادارے اپنے حجم میں اتنے بڑے ادارے بن گئے کہ ان کی ناکامی کا لازمی نتیجہ پورے نظام کی ناکامی کی صورت میں نکلتا۔ کلنٹن انتظامیہ کے دور میں دو بڑی کمپنیوں نے مل کر سٹی گروپ (Citi Group) کی بنیاد رکھی۔ کمپنیوں کا یہ اتحاد (Merger) گلاس –سٹیگل ایکٹ کی کھلی خلاف ورزی تھی۔ مگر تمام متعلقہ ادارے مجرمانہ مصلحت اختیار کیے رکھے۔ بلکہ الٹا اس گروپ کو اس قانون سے ایک سال کا استثناء دیا گیا اور پھر ایک سال کے اندر اندر کلنٹن انتظامیہ کے دو مالیاتی مشیروں لیر ی سمرز (Larry Summers) اور رابرٹ روبن (Robert Rubin) کے دباو کے نتیجے میں کلنٹن انتظامیہ نے امریکی کانگریس سے اس قانون کو سرے سے ہی ختم کروا دیا۔ یعنی کہ اگلے 90ء کے بحران کی بنیاد رکھ دی گئی۔ لیری سمرزامریکہ کے مشہور ماہر ِ اقتصادیات ہیں اور کئی حکومتی کلیدی عہدوں پر کام کر چکے ہیں۔ ورلڈ بنک میں چیف معیشت دان بھی رہے ہیں اوردنیا کے ٹاپ کے امریکی ہارورڈ بزنس سکول کے سربراہ بھی رہے ۔ان جیسے لوگ عوام اور میڈیا کو دلائل کے ذریعے سے مطمئن کرنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں تا کہ سرمایہ داریت کوبوقتِ ضرورت علمی چادر بھی اوڑھائی جا سکے۔ رابرٹ روبن 70 ویں امریکی وزیرِ خزانہ تھے اور موصوف امریکی بنک گولڈ مین ساکس (Goldman Sachs) کےکو-چیئرمین بھی تھے۔
۹۰ء کی دہائی میں دنیا ڈیجیٹل دور (Digital Age) میں داخل ہوئی اور انٹرنیٹ کے ساتھ ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی نت نئی جہتوں سے متعارف ہوئی۔ نتیجتاََ کئی انٹرنیٹ کمپنیاں معرضِ وجود میں آئیں۔ اب جب کہ سرمایہ کار کمپنیوں اور مالیاتی اداروں کو کھلی چھوٹ مل چکی تھی تو انہوں نے عوام کے پیسوں سے کھل کھیلنا شروع کیا اور انٹرنیٹ کمپنیوں میں دھڑا دھڑ سرمایہ کاری شروع کر دی۔ اس ڈی –ریگولیشن کی حکومتی پالیسی اور ٹیکنالوجی کے ہمہ جہت اضافہ نے مارکیٹ میں ایک نئی پراڈکٹ متعارف کروائی۔ جس کو ماخوذ (Derivatives) یا (Collateralized Debt Obligations – CDO)کا نا م دیا گیا۔ اس ماخوذ سیکیورٹی کی اپنی کوئی قیمت نہیں ہوتی، بلکہ یہ اپنی قیمت اپنے سے منسلک دوسرے اثاثہ سے اخذ کرتی ہے۔ مثال کے طورپر، ایک بنک نے اپنے گاہکوں کو جو قرضے دیئے ہوتے ہیں، وہ اس بنک کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ بنک اپنے تمام یا چند قرضوں کو مِلا کر ایک ماخوذ سیکیورٹی بنا کر مارکیٹ میں فروخت کے لیے پیش کر دیتے ہیں۔ اب جتنی اس بنک یا قرضوں کی کارکردگی بہتر ہو گی، اتنی ہی ماخوذ سیکیورٹی بہتر تصور کی جائے گی۔ اب عوام کو ان مالیاتی مصنوعات کی اتنی سوجھ بوجھ نہیں ہوتی تو اس بنیاد پر مالیاتی مصنوعات کی درجہ بند ی کرنے والی کمپنیاں، جیسے کے موڈیز(Moodys)،سٹینڈرڈ اینڈ پورز(Standard and Poors)، اور فچ (Fitch) وغیرہ سے بھی ان ماخوذ سیکیورٹیز کی اچھی درجہ بند ی حاصل کی جاتی، جو کہ عموماََ AA, AAA, AA+ وغیرہ ہوتی تھی۔ اصل میں یہ درجہ بندی کرنے والی نجی کمپنیاں”آزادنہ” طور پر کام کرتی ہیں اور عوام کو آسان الفاظ میں یہ سمجھاتی ہیں کہ ہم نے ان سیکیورٹیز اور ان کو جاری کرنے والی کمپنیوں کی اچھی طرح چھان پھٹک کر لی ہے، اور یہ عوام کی سرمایہ کاری کے لیے محفوظ ہیں۔ ان درجہ بندی کرنے والی کمپنیوں کا اپنا کیا حال تھا، اس کا ذکر آگے آئے گا۔
اس ماخوذ سیکیورٹی کے بعد ماہرین کہنا شروع ہو گئے کہ ہم نے اپنی مارکیٹ کو محفوظ بنا لیا ہے اور اب بحران آنا مشکل ہے۔ مالیاتی اداروں نے انٹرنیٹ کمپنیوں میں عوام کے پیسوں سے سرمایہ کاری کرنا شروع کی۔ اب جیسے کہ بتایا گیا کہ ماخوذ سیکیورٹی کا اپنا تو کوئی وجود نہیں ہوتا ، تو جب انٹرنیٹ کمپنیاں دیوالیہ ہوئیں تو مالیاتی اداروں کے پا س ایسا کچھ نہیں تھا کہ جس کو بیچ کر اپنا نقصان پورا کیا جاتا۔ ایسے ہی ایک انٹرنیٹ کمپنی انفوسس (Infosys) میں ان مالیاتی اداروں نے سرمایہ کاری کر رکھی تھی۔ اس کے شیئرز کی قیمت اور ماخوذ سیکیورٹی کی قیمت آسمان سے باتیں کر نے لگیں۔ اب مالیاتی اداروں کے اند ر اپنے افسران ہوتے ہیں، جنہیں یہ کام سونپا جاتا ہے کہ وہ کمپنی کو مستقبل میں ہونے والے کسی نقصان کے بارے میں پہلے سے ہی آگاہ کر دیں، انہیں (Risk Analyst) کہا جاتا ہے۔ مگر ان افسران کو بھی ان کے کام سے ہٹا کرزیادہ سے زیادہ ماخوذ سیکیورٹیز بیچنے پر لگا دیا گیا۔ سرمایہ داریت کے اصول کہ جتنا زیادہ خطرہ، اتنا زیادہ منافع پر زیادہ سے زیادہ وہ سیکیورٹیز بیچی گئیں، جن کہ ڈوبنے کا خطرہ زیادہ تھا، تا کہ زیادہ منافع کمایا جاسکے۔ ان کمپنیوں نے یہ بات اپنے گاہکوں سے چھپا کے رکھی کہ ان سیکیورٹیز کے ڈوبنے کا خطرہ زیادہ ہے، بلکہ الٹا درجہ بندی کرنے والی کمپنیوں کو پیسے دے کر اچھی درجا بندی لے کر عوام کے اعتماد کو برقرار رکھا گیا۔اور جب 2000 ء میں انفوسس دیوالیہ ہوئی تو مالیاتی اداروں میں رکھے گئے امریکی عوام کے 5000 ارب ڈالر ڈوب گئے۔ اور وہ تمام حکومتی ادارے کہ جنہیں عوام کے پیسوں کے تحفظ کے لیے بنا یا گیا تھا ، انہوں نے کوئی قدم نہ اٹھایا۔
یہی ماخوذ سیکیورٹی 2007ء تک امریکہ میں 50,000 ارب ڈالر کی مارکیٹ بن چکی تھی۔ یہ ایک ایسی مارکیٹ تھی، جس پر کوئی حکومتی کنٹرول نہیں تھا۔امریکی صدر بل کلنٹن کے دور میں ایک حکومتی ادارے(Commodity Future Trading Commision) کی سربراہ بروکلسلے بورن (Brooksley Born) نے اس ماخوذ سیکیورٹی کی مارکیٹ کو حکومتی کنٹرول میں لانے کے حوالےقانون سازی کرنے سے متعلق ایک بیان دیا۔ اس بیان کا کیا ردعمل سامنے آیا،اس کو بروکلسلے بورن کے ایک آفس کے ساتھی کی زبانی سنیئے:
“میں اس کے کمرے میں گیاتو دیکھا کہ وہ فون رکھ رہی تھی اور خون اس کی آنکھوں اور چہرے سے غائب ہو چکا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ پتا ہے کس کا فون تھا؟ میں نے کہا کس کا؟ اس نے جواب دیا، لیر ی سمرز کا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اس وقت13 بنکوں کے سربراہان میرے دفتر میں بدمعاشوں کی طرح موجود ہیں اور تمھارے خیالات کی سخت الفاظ میں مذمت کر رہے ہیں۔ تمھارے لئے بہتر یہی ہو گا کہ اس معاملے سے دور رہو۔”

بعد ازاں بروکلسلے بورن نے تو استعفی دے دیا اور امریکی وزیرِ خزانہ رابرٹ روبن ، ایلن گرینسپین چیئرمین امریکی مرکزی بنک اور سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن (Securities and Exchange Commission) کے سربراہ آرتھر لیوٹ(Arthur Lewit) نے مشترکہ مذمتی بیان جاری کیا کہ بروکلسلے بورن کا یہ بیان سرمایہ داریت کے اصول یعنی کمپنیوں اورمارکیٹ کی آزادی کے خلاف ہے اور حکومت مالیاتی اداروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں پر کسی بھی قسم کی کوئی بھی پابندی لگانے کے حوالے سے کوئی غور نہیں کر رہی۔ اس کے بعد امریکی کانگریس سے ایک بل پاس کروایا گیا، جس کی رو سے کوئی بھی حکومتی ادارہ ماخوذ سیکیورٹی کی مارکیٹ میں کسی بھی قسم کی دخل اندازی نہیں کرسکتا تھا۔ اس بل کو پاس کروانے میں سینیٹ کے ایک ممبر فل گرام(Phil Gram) نے کلیدی کردار ادا کیا۔ موصوف سینیٹ میں بنک کمیٹی کے چیئرمین تھے اور اس بل کو پا س کروانے کے حوالے سے بڑی مضبوط لابی فراہم کی۔ انہیں ان کی”خدمات” کے صلے میں ان کی سینیٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعدایک امریکی بنک کا سربراہ بنایا گیا۔ اوران کی بیگم کو توانائی کی ایک بڑی امریکی کمپنی انرون(Enron) میں ڈائریکٹر لگایا گیا۔یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ انرون کمپنی کا دیوالیہ مالیاتی دنیاکی تاریخ کا ایک بڑا دیوالیہ مانا جا تا ہے۔
گروی قرضہ(Mortgage Loan) امریکہ میں ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے، جس کے تحت عام امریکی عوام کو گھر بنانے کے لیئے قرضہ دیا جاتا ہے۔اس حوالے سے فینی مے(Fannie Mae) اور فریڈی میک(Freddie Mac) دو امریکی نجی ادارے اپنا کردارادا کرتے ہیں۔امریکی بنک 1930ء کی عالمی بحران کے بعد کافی محتاط تھے۔وہ جب کسی کو گھر بنانے کے حوالے سے قرضہ دیتے تھےتو اس کی مالی حالت کو اچھی طرح جانچتے تھے۔ کیونکہ گھر بنانے کا قرضہ کئی دہائیوں تک چل کر بنک کو واپس ملتا تھا۔ لیکن جب ماخوذ سیکیورٹی اس میں بھی داخل ہوئی تو اس سادہ اور مضبوط نظام کو انتہائی مشکل اور دیوالیہ ہونے کے قابل بنا دیا۔ اس چیز کو اس تصویر سے سمجھا جا سکتا ہے۔

pak-old-system

new-system

اب نئے نظام کے تحت بنکوں کو کوئی پرواہ نہیں تھی کہ گاہک قرضہ واپس کر سکتا ہے کہ نہیں۔ کیونکہ انہوں نے تو اسےسرمایہ کار بنک کو بیچ دینا تھا۔اور اس سرمایہ کار بنک نےسرمایہ کار کو اور اس نے اس کی انشورنس کروا کر اپنے تیئں اپنے آپ کو محفوظ کر لینا تھا۔کسی کو پرواہ نہیں تھی کہ گاہک قرضہ واپس کر سکتا ہے کہ نہیں۔اب گاہک کا گھر تو ایک ہی تھا مگر اس کو تین سے چار جگہ پر بیچ کر تین سے چار جگہ پر انشورنس بھی کی جا رہی تھی۔ اب گھر کی مالیت اگر ۱۰ ڈالر ہے توسسٹم میں اس کے عوض ۴۰ ڈالر کی خریدوفروخت نظر آئے گی، کیونکہ وہ ۳ سے ۴ ہاتھ بِک چکا ہے۔ اب اگر گاہک قرضہ کی قسط دینا بند کر دے تو ریکوری تو ۱۰ ڈالر کی ہو گی مگر نقصان ۳۰ ڈالر کا ہو گا۔
الٹا قرضے کی ایک نئی شکل ایجاد کی گئی۔ جس کا نا م کمتر درجے کا قرضہ (Subprime Loan) رکھا گیا۔اب پھر وہی سرمایہ داریت کے اصول کہ جتنا زیادہ خطرہ، اتنا زیادہ منافع کہ تحت زیادہ امریکی عوام کو قرضوں کے شکنجے میں کسنے کے لیے قرض دینے کی شرائط میں نرمی کی گئی۔ اور ایسی تمام قرضوں کو، جو کہ نرم شرائط پر دیئے گئے ،ان کوکمتر درجے کا قرض کہا گیا۔ یعنی کہ اچھا قرضے دینےکے لیےاگر ۱۰ شرائط رکھی گئیں تھیں تو کمتر درجے کے قرضے کے لیئےوہ شرائط ۴ یا ۵ کر دی گئیں۔ اور انہیں کمتر درجے کا گروی قرضہ یعنی (Subprime Mortgage Loan) کہا گیا۔ان قرضوں پر شرح سود زیادہ ہوتی ہے۔ اب جب ان کمتر درجے کے قرضوں سے بنائی گئی ماخوذ سیکیورٹی کی، کہ جن کو خود ان کے بیچنے والے کوڑا کہتے تھے، درجہ بندی کرنے والی کمپنیوں سے درجہ بندی کروائی گئی تو سب کو اعلی ترین درجہ AAA دیا گیا۔ مزید پتے کی بات یہ ہے کہ امریکی کانگریس نے جب اس بحران کی تفتیش کے سلسلے میں ان درجہ بندی کرنے والی کمپنیوں سے پوچھ تاچھ کی کہ وہ کیسے ان کچرہ سیکیورٹیز کو اچھا درجہ دیتی رہیں تو وہ یہ کہہ کر بری الزمہ ہو گئے کہ ہم تو صرف اپنی رائے دیتے ہیں ، جو کے غلط بھی ہو سکتی ہے۔
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
یہاں پر ایک اور سرمایہ داری اصول کے کوئی بھی بنک اپنے ایک پیسے کے عوض دس پیسے قرضہ دے سکتا ہےتو ان قرضوں کو زیادہ سے زیادہ دینے کے لیے اس اصول میں بھی مزید نرمی برتی گئی اور بنکوں کو کھلی چھوٹ دی گئی۔ بلکہ کئی بڑی مالیاتی کمپنیوں نے تواپنے پیسوں کے عوض 33 گنا تک قرضہ دے دیا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ اگر اس بنک کے اثاثہ جات میں اگر 3 فیصد بھی کمی واقع ہوئی تو وہ بنک دیوالیہ ہو جائے گا اور عوام کا اس کمپنی میں لگایا ہو ا سرمایہ ڈوب جائے گا۔یہاں یہ چیز قابلِ ذکر ہے کہ یہ سب امریکی حکومت کی آشیرباد سے ہو رہا تھا اور اب بھی جاری ہے۔ لیکن ایسا نہیں تھا کہ اس کے خلاف کوئی بھی آواز نہیں اٹھ رہی تھی۔
IMF میں بنکوں کے سربراہان کے اعلی ترین ایک اجلاس میں ڈاکٹر راگھورام راجن، جو اس وقت IMF میں چیف معیشت دان کے طور پرکام کر رہے تھے اور آج کل انڈین مرکزی بنک کے سربراہ ہیں، نےاپنا تحقیقی مقالہ پیش کیا۔ جس میں ماخوذ سیکیورٹی اور امریکی حکومت کی مالیاتی مارکیٹ پر کنٹرول میں نرمی پر تنقید کی گئی تھی۔ اس اجلاس میں لیر ی سمرز اور ایلن گرینسپین بھی موجو د تھے ، بقول راگھورام کہ میری تقریر سننے کے بعد یہ دونوں اس قدر ناراض ہوئے کہ مجھے جدید دنیا سے ناآشنا اور جدید مالیاتی نظام سے نا بلد قرار دیتے ہوئےترقی کا دشمن قرار دے دیا۔ اسی طرح اس وقت کی فرانسیسی وزیرِ خزانہ اور IMF کی موجودہ سربراہ کریسٹین لیگارڈ (Christine Lagarde) نے بھی کئی دفعہ اپنے امریکی ہم منصب کے سامنے اپنے خدشہ کا اظہار کیا، لیکن انہیں یقین دہانی کروائی جاتی رہی کہ فرانسیسی عوام کا پیسہ محفوظ ہاتھوں میں ہے اور ہر چیز امریکی حکومت کے کنٹرول میں ہے۔ یہ وہ جھوٹ تھا جو امریکی عوام کے ساتھ ساتھ فرانسیسی وزیرِ خزانہ سے بھی بول دیا گیا۔ اس طرح کی کچرا سیکیورٹیز کو جس بنک نے سب سے زیادہ بیچا، اس کا نام گولڈ مین ساکس تھا، اس بنک نے2006ء کے پہلے 6 ماہ میں 3.1 ارب ڈالر کی اس طرح کی سیکیورٹیز امریکی عوام کو بیچی اور ان سب پر خو د کو محفوظ رکھنے کے لیے انشورنس کرواتے رہے۔
اس بحران کے شروع ہونے سے ذرا پہلے امریکی صدر بش نےاسی گولڈ مین ساکس کے سربراہ ہینری پالسن (Henry Paulson) کو مئی 2006ء میں اپنا وزیرِ خرانہ لگا دیا۔موصوف امریکہ کی وال سٹریٹ کے سب سے زیادہ تنخواہ لینے والےنجی کمپنی کے سربراہ تھے۔ کچھ امریکی صحافیوں کو دال میں کالا نظر آیا کہ کیسے اتنی اچھی تنخواہ چھوڑ کر کوئی حکومت کی تھوڑی سی تنخواہ پر کام کرنے پر راضی ہو سکتا ہے۔ تحقیق ہوئی تو پتا چلا کہ موصوف نے یہ عہدہ قبول کرنے سے پہلے اپنے بنک کےذاتی48 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کے شیئرز بیچے، اور امریکی قانون کے تحت انہیں اس فروخت پر 5 کروڑ ڈالر ٹیکس دینا پڑتا، مگر بش سینئیر کے پاس کردہ ایک قانون کے تحت کہ جس میں حکومتی عہدے دار کو یہ ٹیکس نہیں دینا پڑتا، انہیں یہ ٹیکس معاف کر دیا گیا۔ ایک اور بات قابلِ ذکر ہے کہ اس عہدے کو قبول کرنے سے ذرا پہلے، ان کے بنک کے 30 فیصد قرضے پہلے ہی دیوالیہ ہو چکے تھے۔ جن کی مالیات 200 ارب ڈالر بنتی تھی۔ یعنی کہ سرمایہ داری نظام نے بھانپ لیا تھا کہ بحران آنے والا ہے اور اس بحران کے نتیجے میں ہونے والے نقصان، حکومتی پابندیوں ، سزاوں اور قوانین سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ وزیرِ خزانہ جیسی طاقتور پوزیشن پر اپنا بندہ ہو، جو خود اس “کارِ خیر”میں اپنا حصہ ڈال چکا ہو اور اس کے ذریعے سے اپنے آپ کو نقصان سے محفوظ رکھا جا سکے۔امریکی مالیاتی کمپنیاں 1998ء سے لے کر 2008ء تک لابنگ فرموں کو ادائیگیوں اور سیاسی چندوں کی صورت میں 5 ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کر چکی ہیں۔ اور اس بحران کے بعد وہ اب اور بھی زیادہ فنڈنگ کر رہی ہیں۔ اس با ت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی دارلحکومت واشنگٹن میں ایک رکن ِ کانگریس کے لیے 5 لابنگ کرنے والی کمپنیوں کے بندے موجو د ہیں۔ جو دارلحکومت سے وقت وقت کی حکومتی رپورٹیں کمپنیوں کو پہنچاتے رہتے ہیں ۔
بین برنینکی (Ben Bernanke) 2006ء میں امریکی مرکزی بنک کے چیئر مین بنے۔ اس سال امریکی تاریخ میں کمتر درجے کے قرضےسب سے زیادہ دیئے گئے۔ مارکیٹ اور تجزیہ نگاروں کئی نشاندہیوں کے باوجود ان موصوف نے بھی کو ئی قدم نہ اٹھایا۔ اس کے نتیجے میں وہی ہوا، جس کا ڈر تھا۔ وہ تمام قرضے جو دیئے ہی اس لیئے گئے تھے کہ وہ دیوالیہ ہو جائیں اور سرمایہ کار بنک انشورنس کا پیسہ لےلیں، وہ تمام کمتر درجے کے گروی قرضے دیوالیہ ہونے شروع ہو گئے۔2007ء میں تقریباََ 250,000 امریکی اپنے گھروں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور یہ تعداد ستمبر 2009ء تک 950,000 تک جا پہنچی۔ اب ہاوسنگ مارکیٹ تو کریش کر گئی اور گھروں کی قیمتی جو پہلے آسمان سے باتیں کر رہی تھیں، وہ دھڑام سے زمین پر آ گریں۔ ان گھروں کے عوض دی گئی ماخوذ سیکیورٹی کی بھی کو ئی قیمت نہ رہی تو سرمایہ کار اور بنک ان کو کہیں بھی نہیں بیچ سکتے تھے، کیونکہ ان گھروں اور ماخوذ سیکیورٹی کا کوئی خریدار ہی نہیں تھا۔ اور اس طرح ایک ایک کرکے مالیاتی اور انشورنس کمپنیوں کا دیوالیہ شروع ہوا۔
2008ء میں بیئر سٹیرنز (Bear Stearns) کا دیوالیہ ہو ا اور اسی سال ہینری پالسن نے دو نجی کمپنیوں فینی مے(Fannie Mae) اور فریڈی میک(Freddie Mac) کودیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیےحکومتی تحویل میں لے لیا۔ان دونوں کمپنیوں کا کا م ہی گروی قرضے دینا تھا۔ یہاں پھر سرمایہ داری اصول، حکومتی عملداری سے پا ک مارکیٹ کے نظام ، کی خلاف ورزی کی گئی ۔اسی سال ایک اور ماخوذ سیکیورٹی کی بڑی کمپنی لیہمن برادرز (Lehman Brothers نے 3.2 ارب ڈالر کا نقصان دکھا کر دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دیا۔ بقول جیرومی فونز (Jerome Fons) جو موڈیز کے سابق مینیجنگ ڈائر یکٹر ہیں،کہ ان تمام کمپنیوں کو دیوالیہ ہونے سے کچھ ہی دن پہلے AAA درجہ دیا گیا تھا اور عوام کو پیغام دیا گیا کہ یہ کمپنیاںسرمایہ کاری کے لیے محفوظ ہیں۔
اب ایک سب سے بڑی امریکی انشورنس کمپنی کو(American General Insurance) انشورنس کی مد میں اپنے گاہکوں کو 13 ارب ڈالر دینا تھے، جو کے یقناََ اس کے پاس نہیں تھے۔ اب اگر یہ کمپنی بھی دیوالیہ کا اعلان کر دیتی تو تمام دنیا کے تقریباََ 70% جہازوں کوان کی کمپنیاں اڑنے نہ دیتی کہ انہوں نے اس کمپنی سے اپنے جہازوں، عملے اور مسافروں کا بیمہ کروایا ہواتھا۔اس لیے اس کمپنی کو بھی ہینری پالسن نےحکومتی تحویل میں لے لیا۔ یہاں پھر کس سرمایہ داری قانون کی خلاف ورزی ہوئی، امید ہے کہ قارئین اب تک جان چکے ہوں گے۔اور یہ صرف ایک انڈسٹری کی بات ہے۔ دوسر ی سب سے زیادہ متاثر ہونے والے انڈسڑی تجارتی کاغذ کی انڈسٹری تھی، جس کو اپنے روزانہ کے اخراجات کے لیے بنکوں سے رقوم نکلوانی ہوتی تھیں، اب جب کاغذ ہی نہیں تھا تو تمام کام جس میں کاغذ استعمال ہوتا تھا، وہ روک دیا گیا۔ حتی کہ کرنسی کی چھپائی بھی۔ان بنکوں کے اندر امریکی پنشن فنڈ کے لوگوں نے اپنا عمر بھر کا پیسہ لگایا ہواتھا۔ اب جب بنک دیوالیہ ہوئے تو صرف ایک امریکی ریاست مسی سیپی کے ریٹائرمنٹ فنڈ کے کروڑوں ڈالر ڈوب گئے ، یہ فنڈ 80,000 بوڑھوں کو ماہانہ ریٹائرمنٹ فنڈ دیتا تھا۔اور ان سب کو ان کی ماہانہ ادائیگیاں روک دی گئیں۔
اسی سال ہینری پالسن اور بین برنینکی نے امریکی کانگر یس سے 700 ارب ڈالر کے بیل آوٹ پیکج کی درخواست کی اور نہ دینے کے نتیجے میں ایک بہت بڑے مالیاتی بحران کی نوید بھی سنا دی۔ مرتا کیا نہ کرتا کہ مصادق، امریکی کانگریس نےبے چون و چراہ یکمشت دے دیئے۔ اور4اکتوبر 2008ء میں صدر بش نے اس بل پر دستخط کر کے اس کو قانونی شکل دے دی۔ جب امریکی عوام کے700 ارب ڈالر میں سے160 ارب ڈالر سے AIG کو بیل آوٹ کیا گیا تواس میں سے سب سے پہلے گولڈ مین ساکس کو 14 ارب ڈالر کی ادائیگی کی گئی۔ادئیگی سے پہلے AIG کے ساتھ ایک معاہدہ کیا گیا کہ وہ کسی بھی بنک پر فراڈ کا مقدمہ نہیں کریں گے۔یہ ایک ایسی مثال ہے کہ جس پر تمام سرمایہ داری کے اصولوں کے ماہر منہ چھپاتے پھرتے ہیں، کہ اگر آپ کو حکومت کی عملداری سے پاک نظام اتنا ہی عزیز ہے تو دیوالیہ ہونے پر آ پ کیوں حکومت کی طرف دیکھنے لگتے ہیں کہ اب آپ کے کرتوتوں پر حکومت ہی آپ کو بچائے؟ یا تو آپ پہلے غلط تھے یا اب غلط ہیں۔ نہ تو ان کمپنیوں نے، نہ ہی حکومتی اداروں نے، اور نہ ہی ان ماہرینِ معاشیات نے جو حکومتوں کو قانون سازی سے روکتے تھے، اس دیوالیہ کی صورت میں پہلے سے کوئی پلاننگ کی تھی۔ وہ توسب اس بات پر متفق تھے، کہ بحران تو آ ہی نہیں سکتا۔
اس خبر کے بعد پوری دنیا میں سنسنی پھیل گئی اور سٹاک مارکیٹس کریش ہونا شروع ہو گئیں۔ دسمبر 2008ء کو دو بڑی امریکی کار بنانے والی کمپنیوں جنرل موٹرز(General Motors) اور کرائیسلر (Chrysler)نے دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دیا۔او ر کیونکہ امریکہ میں لوگوں کے پیسے ڈوب چکے تھے اور ان کی قوتِ خرید جواب دے چکی تھی تو اس وجہ سے چین کی مارکیٹ میں بھی برا اثر پڑا کیونکہ چینی مال کی زیادہ کھپت بھی امریکہ میں ہی تھی۔اور چین میں تقریباََ ایک کروڑ لوگ اپنی نوکریوں سے گئے۔سنگاپور کی معیشت 20% سے ترقی کر رہی تھی اور 2009ء تک اس کی معیشت منفی 9 پر آگئی۔آئس لینڈ جو کسی زمانے میں ایک خوشحال ملک تھا، اور اس کی کل آبادی صرف 320,000 ہے، صرف اس کے بنکوں کے 100 ارب ڈالر ڈوب گئے، جبکہ اس کی کل GDP 13 ارب ڈالر ہے۔ خود امریکہ میں 2010ء تک 60 لاکھ لوگ اپنے گھروں سے محروم کیے گئے۔اور ایک اندازے کے مطابق یہ تعداد اس وقت ایک کروڑ 50 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے- امریکہ میں اب خیمہ بستیاں وجود میں آچکی ہیں، جنہیں Tent city کہا جاتا ہے۔گھروں سے محروم لوگ ایک خیمہ لے کر اس بستی میں آ کر رہنا شروع ہو جاتے ہیں اور کچھ لوگ اپنے طور پر ان کے کھانے پینے کا بندوبست کر دیتے ہیں۔
اب یہ بنک مزید مضبوط ہو چکے ہیں اور زیادہ اثر و رسوخ کے حامل ہیں۔ بڑے بنک چھوٹے بنکوں کو اپنے اندر ضم کر چکے ہیں۔ اب ان کا کوئی مقابلے کا بنک بھی موجود نہیں ہے۔یہ اب سیاسی و مالیاتی نظام کو مزید کرپٹ کر نے کی پہلے سے زیادہ بہتر پوزیشن میں ہیں۔ مگر اس کے ساتھ اس مالیاتی نظام نے ایک اور نظام کو اندر سے کرپٹ کر دیا ہے، جس سے امریکی اور دنیا کی باقی عوام ابھی تک نا آشنا ہیں۔ اور وہ یہ ہے کہ اس نے اس لوٹ مار کے نظام کو تعلیمی نظام میں باقاعدہ ایک کورس کی صورت میں ٹا پ کی یونیورسٹیوں میں متعارف کروا دیا ہے۔ مجھے یا د ہے کہ جب MBA میں ہمیں یہ ماخوذ سیکیورٹی پڑھائی جا تی تھی تو میں اپنے استاد سے سوال کرتا تھا کہ یہ پاکستان سے کس طرح متابقت رکھتی ہے، جب کہ ماخوذ سیکیورٹی کی مارکیٹ تو پاکستان میں ہے ہی نہیں؟ تو جواب یہی ملتا تھا کہ یہ امریکہ میں بہت بڑی مارکیٹ ہے اور اسی تناظر میں پڑھائی جا رہی ہے۔ خود امریکی یونیورسٹیوں جیسے کہ ہارورڈ بزنس سکول، براون یونیورسٹی، کولمبیا بزنس سکول وغیرہ میں انہی حکومتوں کے نمائندے اب ڈین، پروفیسرز کی صورت میں یہی لوٹ مار کے طریقے پڑھا رہے ہیں اور ان کمپنیوں کو (Human Resource) ہیومن ریسورس مہیا کر رہے ہیں۔ اور کئی ڈین اور پروفیسرزان یونیورسٹیوں میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ انہی مالیاتی اداروں میں پرکشش عہدوں پر بھی تعینا ت ہیں اور بھاری تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔حالانکہ ان میں سے کئی کمپنیاں جن کہ یہ پروفیسرز حضرات اعلی افسران بھی تھے، دیوالیہ ہو چکی ہیں اور اب بھی ڈھٹائی سے اپنے فیصلوں کا دفاع کرتےہیں۔
اس وقت امریکہ میں طبقاتیت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور دولت کا توازن بری طرح سے بگڑ چکا ہے۔ بحران میں سارا فائدہ امیر طبقے کو ہوا، اس سلسلے میں بیل آوٹ بھی انہی کو کیا گیا، ٹیکسوں میں چھوٹ کا فائدہ بھی اسی ایک فیصد طبقے کو ہوا۔ عام عوام کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آیا۔ایک ریسرچ کے مطابق آج کا امریکی نوجوان اپنے والدین سے کم تعلیم یافتہ اور کم دولت کا حامل ہے۔تمام دولت تیزی سے سمٹ کر ٹاپ ایک فیصد طبقے کے پاس جا رہی ہے۔ اچھی نوکریاں یونیورسٹی تعلیم یافتہ افراد کے لیے ہیں، مگر یونورسٹیوں نے اپنی فیسوں میں کئی گنا اضافہ کر کے اس کو عام امریکی عوام کے لیے ناقابلِ حصول بنا دیا ہے۔برطانوی نجی ادارے آسفام (Oxfam)کے مطابق دنیا کے 62 لوگوں کے پاس دنیا کے باقی پچاس فیصد لوگوں سےزیادہ دولت ہے۔ اسی ادارے نے 2013-14 میں اپنی ایک ریسرچ کی بنیاد پر اندازہ لگایا تھا کہ جس تیز رفتاری سے دولت سمٹ کر امیر وں کے ہاتھ میں جا رہی ہے، اگر یہ رفتار جاری رہی تو 2016 ء کے آخر تک دنیا کے ٹاپ 1% افراد کے پاس باقی دنیا کے 99% لوگوں کے برابر دولت آجائے گی۔ ان کا یہ اندازہ اس طرح غلط ثابت ہوا کہ یہ دولت ٹاپ 1% کے پاس 2015ء کے آخر میں ہی آگئی۔
“ہمیں وال سٹریٹ کے لالچ نے مروایا ہے اور میں اس انڈسٹری کو کنٹرول کروں گا، تا کہ امریکی معیشت دوبارہ اپنے پاوں پر کھڑی ہو سکے”۔ یہ الفاظ تھے، موجودہ امریکی صدر بارک اوبامہ کے، جو کہ تبدیلی کا نعرہ لے کر وائٹ ہاوس آئے تھے۔لیکن آئیں ان کی ٹیم کا بھی تجزیہ کریں،۔اوبامہ نے وزیرِ خزانہ کے طور پر ٹموتھی گائتھنر (Timothy Geithner) کو چنا۔ یہ موصوف بحران کے دنوں میں مرکزی بنک کی نیو یارک شاخ کے سربراہ تھے اور بیل آوٹ کے پیسوں میں سے 14 ارب ڈالر گولڈ مین ساکس کو اداکرنے کے فیصلے میں بنیادی فیصلہ ساز تھے۔امریکی مرکزی بنک کے نئے گورنر تھے، ولیم ڈڈلی(William Dudley) جو کہ اسی گولڈ مین ساکس کے چیف معیشت دان تھے۔ حکومتی ادارے(Commodity Future Trading Commision) کے سربراہ کے طور پر گیری گینسلر(Gary Gensler) کو چنا گیا ، جو کہ گولڈ مین ساکس کے اعلی افسر تھے۔ اور طاقتور امریکی مالیاتی ادارے سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن (Securities and Exchange Commission کے سربراہ کے طور پر ایک اور نجی بنک کی سربراہ کو چنا گیا۔ امریکی صدکے چیف آف سٹاف، جو کے بہت طاقتورعہدہ ہوتا ہے،کے طور پر راہم ایمانیول(Rahm Emanuel) کو منتخب کیا گیا، جو کے ایک اور دیوالیہ ہوئے ادارے فریڈی میک کے ڈائریکٹر تھے۔اور سب سے بڑھ کر اوبامہ کے چیف معاشی معاون تھے، جناب لیر ی سمرز۔ اوبامہ نے صرف یہاں بس نہیں کیا، بلکہ بین برنینکی کو بھی اس کے عہدے پر نہ صرف برقرار رکھا بلکہ ایک مزید مدت کا معاہدہ بھی کیا۔ان تعیناتیوں سے اندازہ ہو جا نا چاہیئے کہ امریکی سیاسی نظام میں امریکی صدر کی حیشیت ایک مینیجر سے زیادہ کی نہیں ہوتی۔امریکی عوام اپنے کھربوں ڈالرز سے محروم ہو گئی اورکسی ایک پر بھی اس بحران نما ڈاکےکی ذمہ داری نہ ڈالی گئی۔ اس بحران کے ذمہ داران نہ صرف اپنی ساری دولت اپنے پاس رکھنے میں کامیاب ہوئے بلکہ ابھی بھی حکومتی طاقتور عہدوں پر براجمان ہیں۔ کسی امریکی ادارے میں اتنی ہمت نہیں کہ ان پر ہاتھ ڈال کر ان کا احتساب کرسکے۔سرمایہ دار صرف پاکستان جیسے ملکوں میں ہی نہیں بلکہ ہر جگہ محفوظ ہے، بلکہ ایک بنک سے 5 ڈالر چرانے والے کے لیے پوری امریکی مشینری حرکت میں آ جائے گی، لیکن ایک سسٹم کے تحت پوری دنیا کا مال لوٹنے والوں کے لیے نہ تو ان کے پا س وقت ہے اور نہ ہی ثبوت۔
کسی بھی ملک میں جب بھی کوئی ادارہ سوسائٹی کے اجتماعی مفادات سے منہ موڑتا ہے تو اس ادارے کی تباہی تو یقینی ہے ہی، لیکن وہ اپنے ساتھ اور بھی بہت سے اداروں کو لے ڈوبتا ہے اور اس کے نتیجے میں ہوئے نقصان کے بڑے دور رس نتائج نکلتے ہیں ، کہ جس کی قیمت آنے والی نسلوں کو چکانی پڑتی ہے۔ عالمی معاشی نظام کا مقصد دنیا میں خوشحالی پیدا کرنا ہوتا ہے مگر کیونکہ یہ نظام سرمایہ داریت کے اصولوں پر مبنی ہے تو اس نے اپنے آپ کو عوام کے اجتماعی مفادات سے کا ٹ کر ایک فیصد طبقے کے مفادات کے تابع کر لیا ہے اور اسی چیز نے ہمارے ہر شعبے کو کرپٹ کر دیا ہے۔ حتی کہ سیاسی نظام کو بھی۔ہمارے حکومتی عہدیداران اسی طبقے کے مفاد پورے کرنے آتے ہیں۔ جوسرمایہ دارطبقہ امریکہ جیسے ملک میں اپنی مرضی کے خلاف صدر نہیں بننے دیتا، وہ کیا ہمارے جیسے تیسری دنیا کے ملک میں آنے دے گا، کہ جہاں قانون نام کی کوئی چیز بھی نہیں اور عوام کو اس حوالے سے کوئی سیاسی شعور بھی نہیں؟
ان بحرانوں کے باوجود سرمایہ داری نظام اسی لیے چل رہا ہے کہ اس کے مقابلے پر کوئی اور نظام موجود نہیں ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہےکہ اجتماعی سیاسی جدوجہد کرنے والے افراداپنی اس جدوجہد میں اپنی بہترین صلاحیتیں صرف کریں اور مزید جانفشانی سے اپنے اپنے کام کو آگے بڑھائیں۔ دنیا کی مظلوم اقوا م اس وقت ایک نئے نظا م کے لیے تڑپ رہی ہیں کہ جو ان کے مسائل حل کر سکے۔ اس لیے اس وقت کی سب سے بڑی سنت اور اللہ کی مخلوق کی خدمت یہی ہے کہ سرمایہ داریت کی لعنت سے اس دنیا کو پاک کر کے ایک ایسا نظام دنیا کو دیا جائے، جو عوام کے اجتماعی سیاسی و معاشی مسائل حل کر سکے۔

 

 

 

2 Comments

Comments are closed.