سرحد پر کل رات سنا ہے چلی تھی گولی

picture of author
زمرد مغل

( زمرد مغل )

ایک ایسے وقت میں جب ہندوستان اور پاکستان کی حکومتیں جنگ کی تیاری میں مصروف ہوں ہر طرف لفظی جنگ چل رہی ہو میڈیا جنگ سے کم پر بات ہی نہ کرتا ہو ایسے وقت میں ادب یاادیب کی بات کرنا شاید آنے والے وقتوں میں گناہ عظیم سے تعبیر کیا جائے گا مگر ہم یہ غلطی یہ گناہ کرنے کو تیار ہیں ۔ان دونوں ملکوں کے بیچ کیا ہورہا ہے نہ میں جاننا چاہتا ہوں اور کیوں ہورہا ہے نہ اسے سمجھنا چاہتا ہوں ۔میں بس اتنا جانتا ہوں کہ جو ہورہا ہے بہت برا ہورہا ہے ہم آہستہ آہستہ تباہی کے دھانے پر پہنچ چکے ہیں میں اس تباہی کو گواہ نہیں بننا چاہتا اس لئے میں نے اپنی آنکھیں بند کرلی ہیں مگر یہ کانوں میں کیسا شور ہے جنگ،ایٹم بم ،پرمانو بم اور آزادی،ہندو ،مسلمان،سالا پاکستانی،میں سوچتا ہوں کاش ہم نے ادب پڑھنے اور لکھنے پر اپنی توانائی صرف کی ہوتی تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتادنیا کو جہنم بنانے کی تیاری اپنے زوروں پر ہے میں اس کا گواہ نہیں بننا چاہتا اس لیے میں نے اپنی آنکھیں بند کرلی ہیں مگر کانوں کا کیا کروں۔ادیب ہندو یا مسلمان تو ہوسکتا ہے مگر ادب ہماری مشترکہ وراثت ،ہمارے مشترک خواب ۔فیض نے کہا ہے
ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غم الفت کے
اتنے احسان کہ گنواؤں تو گنوا نہ سکوں
اب لڑائی نہیں جنگیں ہوتی ہیں اور جنگوں کی تباہی ہیرو شیما اور ناگا ساکی والوں سے پوچھو ۔اب اگر جنگ ہوتی ہے تو تلواریں نہیں توپیں اپنا کام کریں گی ایٹم بم گرائے جائیں گے جس سے کتنی تباہی ہوئی تم اسے دیکھنے اور حساب کرنے اپنوں کی موت پر رونے کو زندہ نہیں بچو گے تو ائے جنگ کی وکالت کرنے والو سوچو یہ دنیا چائے کتنی بھی خوفناک اور بدصورت ہو اسے اس طرح تباہ کرنا مناسب ہوگا۔زندگی کتنی مشکل کیوں نہ ہو اسے بسر کیا جاسکتا ہے زندگی بسر کرنے کے لیے زندہ رہنا بھی تو ضروری ہے ۔جو لوگ بھی جنگ کی وکالت کرتے ہیں ملکوں کو تباہ کرنے کی بات کرتے ہیں مجھے ترس آتا ہے ایسے لوگوں پر ،یہ لوگ شاید دوملکوں کی جنگ کو دو پڑوسیوں کی لڑائی سمجھے بیٹھیں ہیں۔ہم خوف کی حالت میں ڈرے ہوئے ہیں ایک دوسرئے سے ڈرئے سہمے مگر زندہ ہیں خدارا اس زندگی کو ہم سے مت چھینئے ہم اپنے ملک کی بہتری کے لیے اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے انہیں ایک اچھا کل دینے کے لیے اور اس دنیا کو رہنے کی جگہ بنانے کے لیے آپ سے زندگی کی بھیک مانگتے ہیں۔میں ڈرا ہوں اس بات سے کہ کل کوئی مجھ سے یہ نہ پوچھنے لگے کہ آپ اپنے دیش سے کتنا پریم کرتے ہیں میں کیا جواب دوں گا اس سوال کا اور کیا دکھاؤں گا میرے پاس تو کوئی سرٹیفکیٹ بھی نہیں ہے جسے میں دکھا کر اپنی اور اپنے گھر والوں کی جان بچاسکوں گا۔
آخر میں گلزار کی نظم پیش کر رہا ہوں اسے پڑھیں ۔
صبح صبح اک خواب کی دستک پر دروازہ کھولا
سرحد کے اس پار سے کچھ مہمان آئے ہیں
آنکھوں سے مانوس تھے سارئے
چہرئے سارے سنے سنائے
پاؤں دھوئے،ہاتھ دھلائے
آنگن میں آسن لگوائے
اور تنور پہ مکی کے کچھ موٹے موٹے روٹ پکائے
پوٹلی میں مہمان مرئے
پچھلے سال کی فصلوں کا گڑ لائے تھے
آنکھ کھلی تو دیکھا گھر میں کوئی نہیں تھا
ہاتھ لگا کر دیکھا تو تنور ابھی تک بجھا نہیں تھا
اور ہونٹوں پر میٹھے گڑ کا ذائقہ اب تک چپک رہا تھا
خواب تھا شاید خواب ہی ہوگا
خواب ہی ہوگا
سرحد پر کل رات سنا ہے چلی تھی گولی
سرحد پر کل رات سنا ہے
کچھ خوابوں کا خون ہوا ہے