مختاراں مائی میڈیا اور این جی اوز

(احمر اکبر)

گو کہ ہم ایک #روزن ٹیم نے عمومی طور پر بھی قارئین کو عرض کیا ہوا ہے کہ ایک روزن ویب سائٹ پر شائع شدہ مضامین کی بابت ہماری جانب سے کسی مضمون نگار کی رائے سے جزوی طور پر متفق ہونا کسی انداز سے بھی ضروری نہیں۔

بہ ہر صورت، اس مضمون کے مندرجات، اس میں شامل آراء، اس کی سماجی حقیقت کو پرکھنے اور جانچنے کی وجودیات و علمیات کے بارے میں ہمارے اس عمومی یقین کو مکرر عرض کرنا بڑی شدت کے ساتھ محسوس کیا گیا۔

(مدیر)

———————————————————————-
پاکستان میں زبان زد عام ہونے  کے طریقے سن لیں

 انسان کے پاس بہت سا پیسہ، میڈیا سے  تعلقات  ہوں کسی بھی مشکل وقت میں جعلی امدادی

(مصنف: احمر اکبر)
(مصنف: احمر اکبر)

چیک دینے کا خاصہ تجربہ ہو اور ان کے ایک فون پر  پریس کانفرنس منعقد ہو سکے دوسرا طریقہ عجیب و غریب  ، حیران کن ہونے کے علاوہ  دیر پا یاد رہنے والا ہے لوگ سالوں بعد بھی آپ کو  بھول نہیں سکتے اس طریقے میں انسان کو سب سے زیادہ ذلیل ہونا

پڑتا ہے  انسان کی جتنی تذلیل کی جاتی ہے اتنا ہی انسان کو میڈیا کوریج دی جاتی ہے اس کو معصوم ظاہر کیا جاتا ہے طنز کے نشتر چلائے جاتے ہیں الغرض وہ انسان مکمل ذلیل ہونے کے باوجود پوری دنیا میں شہرت کا حامل ہو جاتا ہے اور اس کی ایک الگ پہچان بن جاتی ہے جو بے شک ملک و قوم کی بدنامی کا سبب ہی ہوتی ہے مگر وہ انسان میڈیا اور این جی اوز کے لیے  ہاٹ کیک کی حثیت رکھتا ہے ایسا ہی ایک کیس پاکستان میں مظفر گڑھ کے علاقے میں پیش آیا تھا جو عوام تقریبا بھول چکی تھی مگر   اس پر ایک بار پھر  لعن طعن ہو رہی ہے۔ اصل کہانی تب بھی میڈیا اور این جی اوز کی اپنی ریٹنگ تھی آج بھی ایک برانڈ نے اپنے ملبوسات کی انوکھی تشہیر کے لیے اسی کیس کو کھول کر رکھ دیا جس کا سچ اور جھوٹ سپریم کورٹ 2010 میں ثابت کر چکی ہے۔  وہ کیا تھا اس کی رپورٹ حاضر ہے جو تب کی ہے 29 جون 2002ءسے دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بننے والے مقدمے کا فیصلہ بالآخر سپریم کورٹ نے بھی سنا دیا جس میں مقدمے کی مرکزی کردار مختاراں مائی کے تمام دعوﺅں کو جھوٹا قرار دے دیا گیا ہے اور ایک کے سوا تمام ملزمان کو بری کر دیا گیا ہے۔ اس کیس کی حقیقت کیا ہے؟ مختاراں مائی کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا تھا اہل علاقہ کیا کہتے ہیں اور جائے وقوعہ کیا ہے؟ یہ تمام حالات جاننے کے لئے راقم الحروف نے مظفر گڑھ کے موضع میر والا کا خصوصی دورہ کیا اور ملزمان کے اہل خانہ، اہل علاقہ سے بات چیت کی اور مختاراں مائی کے مراکز کا دورہ کیا۔ دورے میں یہ بات بالکل کھل کر سامنے آ گئی کہ ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ کے فیصلے بالکل صحیح ہیں۔  سوائے عبدالخالق کی عمر قید کے اور یہ کہ مختاراں مائی کے تمام دعوے مکمل جھوٹے ہیں۔ مختاراں مائی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تھا اور نہ ہی سرے سے کوئی پنچایت بیٹھی تھی۔ ساری جھوٹی کہانی میں مرکزی کردار عبدالرزاق نامی اس مولوی کا ہے جس نے مختاراں مائی کا نکاح پہلے عبدالخالق نامی اس نوجوان سے پڑھایا تھا جس کی بہن سلمہ کے ساتھ مختاراں کے بھائی عبدالشکور عرف شکورے نے زیادتی کی۔ اسے وہاں کے لوگوں جن میں عبدالخالق بھی شامل تھا نے پکڑ لیا تھا۔ اس کے بعد عبدالخالق کا خاندان تھانے پہنچا اور مختاراں کے بھائی گرفتار ہو گئے جس کے بعد صلح اور راضی نامے کیلئے مختاراں کا نکاح باہمی مشاورت سے عبدالخالق سے کیا گیا۔ اس فیصلے میں دونوں خاندانوں کے سرکردہ لوگ شامل تھے۔ 10 ہزار روپے کی ادائیگی اور پھر راضی نامے کے بعد مختاراں کے بھائی رہا ہو گئے تو ان mukhtaranmai-story_67_110316094752whatsapp-image-2016-11-01-at-11-07-46-pmکی نیت خراب ہو گئی اور پھر معاملہ ختم کرنے کیلئے کوششیں شروع ہو گئیں۔ اسی دوران 22 جون کو معمولی جھگڑا ہوا اور پھر مولوی عبدالرزاق نے جو مختاراں مائی کا قریبی رشتہ دار بھی ہے ،ایک ہفتہ بعد 29 جون کو خطبہ جمعہ کے دوران لوگوں کو کہا کہ عبدالخالق نے اپنے ماموں کے ساتھ مل کر مختاراں سے جبراً زیادتی کی ہے کیونکہ دونوں کے گھر پاس پاس ہیں۔ اس کے بعد مولوی عبدالرزاق مقامی صحافی مرید عباس کو لایا اور پھر اس معاملے کو آگے لے جانے کے لئے مختاراں کے باپ اور خاندان کو راضی کر کے خبر چلا دی اور انہیں ساتھ لے کر تھانے پہنچ گیا۔ خبر چھپتے ہی معاملہ مقامی سطح سے نکل کر ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پہنچ گیا اور ساری صورتحال بدل گئی اور پھر پاکستان اور اسلام دشمن این جی اوز کو خوب ہتھیار ہاتھ آ گیا اور پھر دنیا بھر میں ہلچل مچ گئی۔ سارے ڈرامے کو آگے بڑھانے کے لئے مختاراں نے کپڑے بھی پھاڑے۔ زیادتی کے الزام کے 9 دن بعد مختاراں کے جسم کے میڈیکل ٹیسٹ اور کپڑوں کے میڈیکل معائنے کے بعد جو رپورٹ تیار ہوئی اس میں بھی یہ بات سامنے آئی کہ اس سے ایک شخص نے زیادتی کی ہے اور ممکن ہے کہ وہ عبدالخالق ہو کیونکہ زیادتی کا سارا ڈرامہ اسی کے گھر میں رچایا گیا تھا اور اسی بنا پر وہی مجرم بنا اور عمر قید سزا بھی دی گئی۔ 10 سال کے عرصے کے بعد بالآخر مختاراں جھوٹی اور ملزمان سچے ثابت ہو گئے جس سے پاکستان دشمن این جی اوز اور حلقے اب شدید پریشانی اور مشکلات سے دوچار ہیں اور اب اس مسئلے کو آگے لے جانے کے لئے بے تاب بھی ہیں ۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اس وقت کی رپورٹ ہے تب بھی میڈیا اور این جی اوز نے اپنا مشن پورا کیا۔  دس سال بعد جو فیصلہ آیا اس کو تسلیم کیا۔ اب سولہ سال بعد ایک بار پھر مختاراں مائی کو ایک معروف سماجی کارکن بنا کر فیشن ویک میں کیٹ واک کروائی گئی اور پھر سے وہ جھوٹی کہانی چل نکلی جس کو لے کر پاکستان کا نام بدنام کیا گیا تھا ۔پھر سے دنیا اپنی اپنی راے دے رہی ہے ،کوئی مختاراں مائی کو بدکار کہ رہا ہے کوئی وہاں کی عوام کو مگر حقیقت یہ ہے ہم کل بھی استعمال ہو رہے تھے آج بھی ہو رہے ہیں۔ اپنے برانڈ کی پرموشن کے لیے مختاراں مائی کی سلیکشن ثابت کرتی ہے کہ آج بھی ملک دشمن این جی اوز سرگرم ہیں جن کی رپورٹ بھی کچھ ماہ پہلے وزیر داخلہ کو بھیج دی گئی تھی اور ایک پریس کانفرنس بھی ہوئی تھی۔ مگر آج بھی سب کچھ ویسے ہی چل رہا ہے۔ ملک میں انڈیا کے جاسوس بھی پکڑے جاتے ہیں مگر ہمارے پاس اپنے معاملات کو حل کرنے کا وقت کب تھا۔ اپنی حکومت کریں پھر ایک ڈیل اور ملک سے باہر ۔۔۔۔۔۔۔ بات دور نکل گئی اصل بات تھی ہاٹ کیک کی، میڈیا پر مختاراں مائی کے چرچے تو سب نے سنے مگر دو دن سے گڈانی شپ کے مزدوروں کے گھر کون سا ٹی وی چینل گیا، کون سی مزدور این جی او گئی، کون سی آواز بلند ہوئی ۔۔۔۔نہیں ہوئی، کیونکہ یہ سیدھا سادھا معاملہ ہے۔ اس میں پاکستان کی بدنامی قندیل بلوچ اور مختاراں مائی ملالہ یوسف زائی جیسے نہیں ہو پائے گی۔ ہر کوئی اپنی ریٹنگ کا بھوکا ہے صاحب ہر کوئی اپنا مفاد دیکھتا ہے وہ سیاستدان ہوں ملالہ ہو یا مختاراں مائی۔  پاکستان کا امیج کیا بن رہا اس کی فکر نہیں کیونکہ اللہ کے نام پر بنایا ہوا ملک اللہ ہی چلا رہا ہے انسان تو اپنی اپنی جیبیں بھر رہا ہے۔

4 Comments

  1. محترم مضمون نگار کی تحریر اس سدھا ئ ہو ئ سوچ کی تصویر ہے جو ہمارے معاشرے میں عورت کو بھیڑ بکری سے ذیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں ہے ۔ اس بات کا اقرار کررہے ہیں مضمون نگار کہ ’’زیادتی کے الزام کے 9 دن بعد مختاراں کے جسم کے میڈیکل ٹیسٹ اور کپڑوں کے میڈیکل معائنے کے بعد جو رپورٹ تیار ہوئی اس میں بھی یہ بات سامنے آئی کہ اس سے ایک شخص نے زیادتی کی ہے ’’ گو یا ایک بار ریپ کو ئ اہم مسئلہ کب تھا کہ بے وقوف مختاراں مائ آ واز اٹھا تی ۔ سارا عتاب ان این جی اوز پر ہے جوان ان پڑھ بے زبان اورتا وان میں دے دی جانے والی عورتوں کو آواز دیتی ہیں ۔ ان میں ہمت پیدا کرتی ہیں کہ ان بھیڑیوں کو بے نقاب کریں ان کے سامنے ڈٹ جا ئیں جنکی تقدیر کا فیصلہ جرگہ میں کرتے ہیں ۔ مختاراں مائ بھی جرگہ کے فیصلہ کے بعد تاوان میں دے دی گئ تھی ۔۔ مگریہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ یہ خبر پھیل گئ ۔ ورنہ نہ جانے کتنی عورتیں ایسےہی مظالم کا شکار ہوکے ساری عمر اپنی لا ش اپنے کا ندھے پر اٹھا ئے تاوان کا ذلت کی مہر چہرے پر لگوائے غلا می کی زندگی بسر کرتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیکڑوں حسین وجمیل نواجوان لڑکیا کیٹ واک کررہی ہیں اور ہزاروں شریک محفل مرد ان محافل میں شریک ہوکے بے خودی سے داد پیش کرتے ہیں لیکن ایک مختاراں مائ ایک ملا لہ ایک ریحانہ جباری کتنی بھاری پڑتی ہے عزت کے ڈھکوسلہ کی روا یات پر مضمون اس کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔۔۔

  2. نسیم سید 04/11/2016 AT 11:15 PM
    محترم مضمون نگار کی تحریر اس سدھا ئ ہو ئ سوچ کی تصویر ہے جو ہمارے معاشرے میں عورت کو بھیڑ بکری سے ذیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں ہے ۔ اس بات کا اقرار کررہے ہیں مضمون نگار کہ ’’زیادتی کے الزام کے 9 دن بعد مختاراں کے جسم کے میڈیکل ٹیسٹ اور کپڑوں کے میڈیکل معائنے کے بعد جو رپورٹ تیار ہوئی اس میں بھی یہ بات سامنے آئی کہ اس سے ایک شخص نے زیادتی کی ہے ’’ گو یا ایک بار ریپ کو ئ اہم مسئلہ کب تھا کہ بے وقوف مختاراں مائ آ واز اٹھا تی ۔ سارا عتاب ان این جی اوز پر ہے جوان ان پڑھ بے زبان اورتا وان میں دے دی جانے والی عورتوں کو آواز دیتی ہیں ۔ ان میں ہمت پیدا کرتی ہیں کہ ان بھیڑیوں کو بے نقاب کریں ان کے سامنے ڈٹ جا ئیں جنکی تقدیر کا فیصلہ جرگہ میں کرتے ہیں ۔ مختاراں مائ بھی جرگہ کے فیصلہ کے بعد تاوان میں دے دی گئ تھی ۔۔ مگریہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ یہ خبر پھیل گئ ۔ ورنہ نہ جانے کتنی عورتیں ایسےہی مظالم کا شکار ہوکے ساری عمر اپنی لا ش اپنے کا ندھے پر اٹھا ئے تاوان کا ذلت کی مہر چہرے پر لگوائے غلا می کی زندگی بسر کرتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیکڑوں حسین وجمیل نواجوان لڑکیا کیٹ واک کررہی ہیں اور ہزاروں شریک محفل مرد ان محافل میں شریک ہوکے بے خودی سے داد پیش کرتے ہیں لیکن ایک مختاراں مائ ایک ملا لہ ایک ریحانہ جباری کتنی بھاری پڑتی ہے عزت کے ڈھکوسلہ کی روا یات پر مضمون اس کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔۔۔

Comments are closed.