سائنسی انقلاب اور کہنہ جنسی نظریات کا خاتمہ

aik Rozan writer picture
ارشد محمود

سائنسی انقلاب اور کہنہ جنسی نظریات کا خاتمہ

از، ارشد محمود

جدید سائنس سے قبل مذہبی عقائد کا دور تھا۔جس بات کو جاننا انسان کے لیے ناممکن تھا اس کے لیے انسانی ذہن نے ایک آسان راستہ تلاش کیا وہ کام ماورائی طاقت کے سپرد کردیتا تاکہ منطقی ذہن کو گنجلک سوالوں سے بچایا جاسکے۔ پیدائش کا عمل ایک فطری مظہرتھا جو انسان کی سمجھ سے بالا تھا۔ اس سادہ لوح زمانے میں بھی ذہن اس طرح کے سوال کرنے سے باز نہیں آتا تھا کہ ہم کہاں سے آئے ؟کس طرح پیدا ہوئے؟ کیوں پیدا ہوئے؟بچے میں جنسی تفریق کیوں کر پیداہوتی ہے ؟ وغیرہ وغیرہ۔ انسان کے لیے یہ سوالات کس قدر اہم تھے، ہم اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگا سکتے ہیں کہ مذاہب نے خدا کے وجود کے لیے جس دلیل کو سب سے زیادہ استعمال کیا وہ پیدا کرنے اور مارنے کی صلاحیت ہے۔

ہماری حالیہ تاریخ تک جنس اور پیدائش سے متعلقہ سب پہلو بلا شرکت غیر ے خدا کے قبضۂ قدرت میں تھے بچہ پیدا ہونا ہے یا نہیں،کب ہوناہے، صحت مند ہوگا یا معذور، لڑکی ہوگی یا لڑکا، شکل وصورت کس طرح کی ہونی ہے۔ خدا کی مرضی تھی کہ وہ کسی کو بانجھ کر دے یا زرخیز۔ ان چیزوں کے بارے میں انسان نہ تو کچھ کہہ سکتا تھا اور نہ ہی مداخلت کر سکتا تھا۔ یہ سب خدا کی منشا پر منحصر تھا۔ لیکن ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے پیدائش سے متعلق سب کام انسان کی اپنی دسترس میں آتے جارہے ہیں اور ان سب کاموں کے بارے میں پیش گوئی کرنا یا اپنی مرضی کی مداخلت کرنا آج ہسپتالوں اور لیبارٹریوں میں معمول کی بات ہو گئی ہے۔

پرانے زمانے نے جنسی ضوابط اور اخلاقیات کی ساری عمارت اسی نظریے پر رکھی تھی کہ پیدائش کا عمل ایک اُلوہی فعل ہے۔ پیدائش اور جنسی اختلاط کے بارے میں تمام مذہبی نظریات اور احکامات جدید سائنس نے صرف مانعِ حمل ادویات ایجاد کرکے اُلٹ کر رکھ دیے۔ بچہ پیدا کرنا ہے یا نہیں، اس کا انحصار انسان کی مرضی پر ہو گیا ہے۔ یہ ایک بڑا انقلاب ہے اور قدیم فکری نظام کے لیے بہت بڑا دھکا۔ زنا کا سارا شرعی حساب کتاب محض عورت کے حاملہ ہوجانے کی دلیل پر تھا اور شرعی عدالتیں عورت کو محض اسی کمزوری کی بنیاد پر زنا کا مجرم ٹھہرا دیا کرتی تھیں اور مرد شک کی بنیاد پر شرکتِ زنا سے بری کردیا جاتا تھا۔ گویا مانعِ حمل ادویات نے پدری اور فیوڈل سماج کے ظالمانہ اخلاقی شکنجے سے عورت کو آزاد کرنے سب سے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ جنس سے متعلق قدیم قوانین اور اخلاقی ضوابط مانعِ حمل ادویات کے آنے سے اپنی موت آپ مر چکے ہیں۔ مردوزن کا مباشرت کی طرف راغب ہونا ایک جبلی عمل ہے اور اس کے نتیجے میں بچے کی پیدائش ایک فطری عمل ہے۔ ماضی میں بچے کی پیدائش کے ہونے یا نہ ہونے میں انسان کو کوئی دسترس حاصل نہ تھی۔ اور اس میں مرد کو فطرت کی طرف سے ایک فائدہ (advantage) حاصل تھا، وہ جبلی تقاضے سے فارغ ہوتے ہی اس کے فطری نتیجے کی ذمے داری لینے یا نہ لینے میںآزاد ہوتا تھا،جب کہ عورت پھنس جاتی تھی اور سماج کا اندھا انصاف عورت پر لاگو کر دیا جاتا تھا۔سائنس کا عورت پر بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے مرد کا وہ فائدہ چھیننے میں مدد کی ہے جو فطرت نے اسے دے رکھا تھا۔ اب دونوں برابر کی سطح پر آگئے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مانعِ حمل ادویات آنے کے بعد زنا اپنی کلاسیکل تعریف میں زنا ہی نہیں رہا ہے۔ اس کا سارا منظرنامہ ہی بدل گیاہے۔ اب اپنے اور سوسائٹی کے لیے مسئلہ بنائے بغیر کوئی بھی مرد وزن اپنی باہمی مرضی سے جنسی فعل میں شریک ہو سکتے ہیں۔ اگر سماج نے اس عمل کو ناجائز بھی قرار دے رکھا ہے تو عملی طور پر اس کا نفاذ اور ثبوت ہی مشکل ہو گیاہے۔ یہاں مقصود زنا کی حمایت کرنا نہیں بلکہ مذہبی تصورات کی بنیاد پر قائم کردہ قدیم قوانین کے دیوالیہ ہوجانے اور اس کے نتیجے میں عورت کو جنسی استحصال سے جو نجات ملی ہے، ہم اس کی بات کررہے ہیں۔ اب جدید دور کے تقاضوں کے مطابق نئے اخلاقی ضوابط بنانے کی ضرورت ہے۔ اب پرانا اخلاقی نظام مزید قائم رکھنا بے کار فعل ہے، اسے اپنی شکست مان لینی چاہیے۔

بچہ پیداکیا جائے یا نہ کیا جائے،اس پر انسان اور بالخصوص عورت کی دسترس انسانی سماج میں ایک نیا تصور اور بڑا انقلاب ہے۔ اس پر پرانے نظریات کی شکست وریخت یقینی ہے۔ کہا جاتا تھا کہ جن کو پیدا کرنا تھا، خدا نے ان کی روحیں پیدا کررکھی ہیں،لیکن اب چونکہ انسان اپنی مرضی سے بچوں کی تعداد کم یا زیادہ کر سکتا ہے، تو پہلے سے روحیں پیدا کرنے کا تصور محل نظر ہو گیا ہے۔ دراصل واقعہ یہ ہے کہ قدرت کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق حیات پیدا ہونے کی جب بھی مادی صورتِ حال وقوع پذیر ہوتی ہے، بچہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اب انسانی آبادی کے اضافے میں انارکی کا خاتمہ ہو گیا ہے، انسان انفرادی اور قومی سطح پر اپنے وسائل کے مطابق آبادی کی منصوبہ بندی کر سکتا ہے اور جنسی عمل محض افزائشِ نسل کے لیے نہیں، بلکہ فریقِ ثانی کے لیے شدتِ محبت کے اظہار اور جبلی ونفسی تناؤکے خاتمے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ اب یہ ممکن ہے کہ سوسائٹی اور اپنی ذات کے لیے مسئلہ پیدا کیے بغیر جنسی فعل میں شریک ہوا جاسکتا ہے۔ یہ بات غلط تھی کہ جنسی خواہش محض افزائشِ نسل کے لیے فطرت نے پیدا کر رکھی ہے۔ اگر یہ بات حقیقی ہوتی تو کم عمری میں ہی فطرت انسان کو جنسی فعل کے لیے تیار نہ کرتی، گیارہ بارہ سال کی بچی کو حیض نہ آتے، اور اسی عمر کے لڑکوں کو گیلے خوابوں سے واسطہ نہ پڑتا، نوزائیدہ بچے کو جنسی اعضا سے لذت نہ ملتی،اور عورت کو حاملہ ہونے کے بعد جنسی خواہش نہ ہوتی، جب کہ بسا اوقات حاملہ عورت کی جنسی خواہش معمول سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جنسی جبلّت کثیر المقاصد فعل ہے، اور ان مقاصد کو الگ الگ یا ایک ساتھ حاصل کیاجا سکتا ہے۔ جنسی فعل گویا تین مقاصد کا مجموعہ ہے: اس سے افزائشِ نسل بھی کی جاسکتی ہے، یہ لذت حاصل کرنے اور جسمانی تناؤ کے خاتمے کا ذریعہ بھی ہے، اور یہ محبت کی انتہا کابھی نام ہے، جس میں دو مخالف اکائیاں یک جان ہو جاتی ہیں۔ سائنس نے اسے انسان کے بس میں کر دیا ہے کہ وہ ان مقاصد کوالگ الگ یاایک ساتھ استعمال میں لا سکتا ہے، جب کہ پرانی اخلاقیات اُسی منافقانہ رویے سے چل رہی ہے۔ کہنا ان کا یہ ہے کہ جنسی جبلت کا مقصد محض افزائشِ نسل کرنا ہے، لیکن رہتے ہر وقت نفسانی خواہشات کے چکر میں ہیں۔

جدید سائنس نے جن دیگر پرانے جنسی نظریات کو باطل قرار دیا اور عورت کی آزادی اور مساوی حیثیت کی راہ ہموار کی، ان میں کنوارپن کا تصور بھی ہے، اور یہ کہ بچہ مرددیتا ہے، عورت مفعول کاکام کرتی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ مذہب نے ان غیر سائنسی حقائق کی اپنے وقت میں حمایت کی، یا کم ازکم تردید نہیں کی۔پہلی بات یہ ہے کہ کنوارپن کا جو ثبوت مردوں نے مقرر کر رکھا تھا اور نوبیاہتا دلہنوں پر پہلی رات لہو کے نہ آنے پر اس حد تک ظلم ہوتے رہے ہیں کہ عرب ممالک میں آج بھی لڑکیاں شادی سے پہلے ایک آپریشن کے ذریعے اپنے پردے کو مصنوعی طریقے سے بحال کرواتی ہیں، جدید سائنسی حقائق نے اسے باطل ثابت کر دیا اور کہا کہ پردۂ بکارت کا ہونا یا نہ ہونا کنوار پن کی کوئی دلیل نہیں۔ دوسرے عورت محض مفعول یا کھیتی کاکام نہیں کرتی، وہ تخلیقی اور جنسی فعل میں مرد کی برابر کی حصے دار ہوتی ہے، مرد کا بیج ڈالنے کا تصور غلط ہے۔ ایک اور جنسی متھ جس کی وجہ سے عورت نے بے حساب ظلم سہے وہ یہ تھا کہ جب بھی لڑکی پیدا ہوتی، اس کا قصور وار عورت کو ٹھہرا دیا جاتا۔ سائنس نے اسے بھی باطل قرار دے دیا،بلکہ یہ ثابت ہوا کہ لڑکی اور لڑکے کے پیدا ہونے میں مرد کی طرف سے جو کروموسوم آتا ہے، وہ بچے کی جنس متعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے تک یہ عقیدہ عام تھا کہ لڑکی پیدا ہوگی یا لڑکا، اس کا علم صرف’’غیبی قوتوں کو ہے ‘‘ لیکن اب حمل کے ابتدائی مرحلے میں ہی ہونے والے بچے کی جنس کو معلوم کیا جا سکتا ہے، اور غیر مطلوبہ صنف ہونے کی صورت میں حمل گرایا بھی جاسکتا ہے۔ (ہم یہاں قانونی اور سماجی نقطۂ نظر سے بحث نہیں کررہے۔) حتیٰ کہ جنس کا تعین کرنے کا بھی اختیار سائنس کے ہاتھ میں آرہا ہے۔ بچے کی شکل وصورت کا تعین بھی غیبی قوتوں کے ہی ہاتھ میں تھا، مستقبل قریب کے والدین catalogue دیکھ کر اپنی مرضی سے ہونے والے بچے کی شکل وصورت اور رنگ رکھوا سکیں گے۔ حد تو یہ ہے کہ کلوننگ سے تخلیق اور پیدائش کا سارا عمل ہی انسان کی دسترس میں آگیا ہے، انسان جتنی چاہے روحیں اور اجسام پیدا کرلے۔ ایک شخص جو پیدا ہو گیا ہے، اس کی کئی دوسری ’’کاپیاں ‘‘تیار کی جاسکیں گی۔

ایک اور انقلاب جو مستقبل قریب میں آنے والا ہے، اور جس سے عورت کے کھیتی ہونے کا تصور بالکل ہی باطل ہو جائے گا، یہ ہے کہ پیدائش اور افزائشِ نسل کے لیے عورت کا ہونا کوئی ضروری نہیں ہو گا، بچے لیبارٹری میں پیدا ہو سکیں گے۔ ابھی تک تو بات صرف ٹیسٹ ٹیوب
بے بی تک تھی کہ مردوزن کے جرثوموں کو باہر ہی ملا کر تخلیقی عمل شروع کروا دیا جاتا ہے اور پھر اسے ماں کے اندر باقی کی نشوو نما اور پیدائش کے فطری مراحل کی تکمیل کے لیے رکھ دیا جاتا ہے، لیکن آنے والے زمانے میں (جوبہت دور نہیں ) بچے کی پیدائش اور تخلیق کے تمام مراحل عورت کے وجود کے بغیر ہی مکمل کر لیے جایا کریں گے۔

اس سارے تناظر میں یہ بات طے ہے کہ آج اور آنے والے کل کے لیے پرانے زمانے کے جنسی ضوابط اور تصورات اب مزید ساتھ نہیں چل سکتے۔ ہمیں اپنے رویے بدلنے ہوں گے اور اپنے صحت مند مستقبل کے لیے ایک نئی اخلاقیات کو جنم دینا ہو گا۔

About ارشد محمود 14 Articles
asif

1 Comment

  1. Respected sir, Please define what type of Ethics do you want to introduce in this World. Who will define, What will be their credibility.
    Thanks

Comments are closed.