کلاسیکی موسیقی: راگ درباری اور اس کا بصری تصور

راگ درباری

(یاسر اقبال)

راگ درباری کے بارے میں کچھ لکھنے سے پہلے ضروری ہو گا کہ راگ کی تعریف اور اس کی ساخت و پرداخت کے بارے میں چند ضروری باتیں بیان کردی جائیں۔ موسیقی ہند کا مصنف لکھتا ہے کہ “راگ مختلف سروں کا ایک دلکش اور عمدہ مجموعہ ہے۔ سروں کا آپس میں کئی طریقوں سے میل ہوسکتا ہے ۔یعنی 7۔6۔5 سُر وغیرہ۔5 سر سے کم کوئی راگ نہیں بن سکتا۔اس راگ کے مجموعہ سے ایک خاص خیال پیدا ہوتاہے “ہر راگ کی اپنی ایک صوتی شکل ہوتی ہےجس سے اس راگ کی شناخت ہوتی ہے اور راگ کی صوتی بنت انھی خاص سروں سے کی جاتی ہے۔ ان مجموعی سروں کو ایک خاص صوتی تناسب کے ذریعے ادا کیا جاتا ہے یعنی کسی سر پر زیادہ قیام کیا جاتا ہے کسی پر کم اور بعض پر کو تو صرف چھو کر اگلے سر کی طرف بڑھ جانا ہوتاہے۔

ہر راگ میں چارسر ایسے ہوتے ہیں جس سے اس راگ کی صوتی شکل واضح ہوتی ہے اور راگ کی تاثیر میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ان چار سروں میں پہلا سر وادی سر کہلاتا ہے۔ وادی سر راگ کی جان ہوتا ہے۔ راگ کی صوتی شکل کو اس سر کی بار بارادائیگی سے واضح کیا جاتا ہے۔ اس سر پر باقی سروں کی نسبت مغنی کو زیادہ قیام کرنا ہوتا ہے۔
دوسرا سموادی سر ہوتا ہے یہ بھی راگ کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے تیسرا انوادی سر ہے جو کہ راگ کی شکل کو پورا کرتا ہے۔ یہ سموادی سر کے ماتحت ہوتا ہے۔چوتھا سر وِادادی سر ہے۔یہ وہ سر ہے جو راگ میں لگایا جائے تو راگ کی شکل خراب ہو جاتی ہے یا راگ بدل جاتا ہے۔ لیکن بعض اساتذہ نے اس سر کو لگانے کی اجازت دی ہے لیکن نہایت کمی کے ساتھ۔ موسیقی ہند میں ان چار سروں کے حوالے سے لکھا ہے کہ “وادی سر کو سروں کا بادشاہ، سموادی کو وزیر، انوادی کو نائب وزیر اور وِدادی کو دشمن کہہ سکتے ہیں”۔

راگ ان خفیف جذبات کے اظہار کا ذریعہ ہیں اور اپنے اندر ایک خاص طرح پیغام رکھتے ہیں کوئی راگ غصہ، کوئی قہر، کوئی فریاد اور التجا اور کوئی رحم وغیرہ کا اظہار کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ راگ انسانی جذبات کے ساتھ گہری مماثلت رکھتےہیں اور راگ کا اصل مقصد بھی یہی ہے کہ یہ انسان کے ہر اس جذبے کی ترجمانی کرے جو اس کی زبان کے الفاظ بیان کرنے سے قاصررہیں۔ ہر راگ کا اپنا ایک بصری تصور ہوتا ہے یہی بصری تصور دراصل راگ کے صوتی آہنگ سے پیدا ہو تا ہے۔

جس سے سامع کےذہن میں جذبات یا احساسات کی امیجری بنتی ہے۔ راگوں کی امیجری پر ابھی پوری طرح تحقیق نہیں ہو پائی لیکن راگ کے اسی بصری تصور کے بارے میں راگ درپن کا مصنف فقیراللہ سیف خان لکھتا ہے کہ:
“گانا شروع کرنے سے پہلے موسیقار متعلقہ راگ کا دھیان یعنی سراپا اور کیفیت نظم میں پیش کرتا تھا جسے سن کر سامعین بھی اس ذہنی کیفیت میں شریک ہو جاتے تھے جو موسیقار راگ کے ذریعے پیدا کرنا چاہتا تھا۔”

چنانچہ یہ راگ کی خاصیت ہے کہ اگر اس کا الاپ پورے فنی لوازمات کے ساتھ کیا جا رہا ہو تو سامع کہ ذہن میں اس راگ کا ایک امیج بنتا نظر آتا ہے اس کیفیت کو راگ کا بصری تصور کہتے ہیں، راگ کے بصری تصور پر ایک الگ مقالہ تحریر کرنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا راگ کے تعارف اور اس کی ساخت و پرداخت کے بعد راگ درباری کی طرف آتے ہیں۔

متعلقہ راگ کا دھیان یعنی سراپا اور کیف

راگ درباری کا صوتی آہنگ اپنے اندر ایک انفرادی کشش رکھتا ہے۔یہ راگ تان سین کی اختراع سمجھا جاتا ہے اور تان سین کے مخصوص راگوں میں سے ایک اہم راگ ہے۔ اس کےصوتی اسلوب سے ایک خاص طرح کی شان و شوکت اور رعب و جلال کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے۔ راگ درباری کا ٹھاٹھ اساوری ہے اور یہ سمپورن ذات کا راگ ہے یعنی سات سروں کا راگ، اس کا وا دی سررکھب تیور ہے، اورسموادی سر پنچم ہے اور پورے راگ میں صرف رکھب سر تیور لگتا ہے باقی تمام سر کومل لگتے ہیں۔ اس راگ کی آرو ھی امروھی کچھ اس طرح بنتی ہے۔
بائیں سے دائیں آروھی اوردائیں سے بائیں امروھی
سا ۔نی ۔دھا ۔پا ۔ما ۔گا ۔رے(تیور)۔سا آروھی
امروھی سا۔دھا ۔نی ۔پا۔ما۔پا۔گا۔ما۔رے(تیور)۔سا
اس راگ کے الاپ میں ایک جھول ہے یعنی وادی سر رکھب یا رے کو جھولانا ہو گا۔ اور اس پر قیام بھی باقی سروں سے زیادہ ہوگا۔ اس راگ سے سکون کا ایک تاثر ابھرتا ہے کیوں کہ سروں کی ادائیگی میں ایک خاص طرح کا ٹھہراؤ ہے۔ اس راگ کی خوبصورتی اور تمام لطف مندر سپتک یعنی نچلےسروں سے پیدا ہوتا ہے۔ اس راگ کو بلمپت یعنی دھمی لے میں گایا جاتا ہے تا کہ اس کا صوتی آہنگ برقرار رہے اور آواز کو اپنی دسترس میں رکھ کر استعمال کرنا ہوتا ہے۔

راگ درباری کے صوتی آہنگ میں ایک خاص طرح کا جھول ہےجو اس راگ کی نہ صرف شکل کو بناتا ہےبلکہ راگ کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے۔خاص کر رکھب اور دھیوت پہ تو آواز کو جھولانا ہےیعنی ان سروں پہ زیادہ ٹھہرنا ہے۔یہ راگ آلاپ کے قابل ہے۔راگ درباری کا آلاپ ملاحظہ ہو

خیال ٹھمری کی گائیکی کے لیے یہ راگ تو ہر دور میں موزوں رہا ہی لیکن غزل گائیکی میں تو اس راگ کو خوب نبھایا جاتا رہا اور کئی ایسی غزلیں جو اس راگ کی وجہ سے مقبول زمانہ ہوئیں۔مثال کے طور پر مہدی حسن صاحب کی غزل:

اس غزل میں راگ درباری کا صوتی اسلوب سامع کےتصور کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور جب تک غزل ختم نہیں ہوتی نہ صرف راگ کا بصری تصو ر برقرار رہتا ہے بلکہ سامع بھی اس تصور سے باہر نہی جا پاتا۔راگ درباری کی ایسی مثالیں خیال اور ٹھمری کی گائیکی میں بھی نظر آتی ہیں۔یہ راگ شہنشاہ کبر کہ دربار میں اکثر گایا جاتا تھا۔اور چونکہ شہنشاہ اکبر کا یہ ہر دلعزیز راگ تھا۔اور اکبر کے دربار کی مناسبت سے یہ درباری کہلایا جانے لگا۔ ورنہ تو اس راگ کی ابتدا کرناٹک میں ہوئی تھی اور اسی شہر کی نسبت سےاس کا پہلا نام کرناٹ تھا۔جو بعد میں کانہڑا کہا جانے لگا لیکن اکبر کے دربار میں جب اس کی مقبولیت بڑھی تو درباری نام پڑ گیا۔اور آج بھی یہ راگ درباری ہمارےذہن میں مغل دور کی تہذیب اورشہنشاہ اکبر کے رعب وجلال کابصری تصور تازہ کر دیتا ہے۔

یاسر اقبال

راگ درباری کا سارا حسن و جمال اس کےآلاپ سے واضح ہوتا ہے۔اور اگرآلاپ کے دوران غنائی ترکیبوں کے تکرار اور اعادےسے اجتناب برتا جائے اس راگ کی جمالیات اور بھی بڑھ جاتی ہے۔غنائی ترکیبوں کےاعادے سے میری مراد فنکار کا ہرارادہ (یعنی،تان،پلٹا،بہلاوہ،زمزہ،مرکی،کھٹکہ اور دوسرے النکار وغیرہ) پہلے والے ارادے سے مختلف ہو ۔ویسے بھی ایک اچھا اور پختہ کار فنکار اپنے آپ کو دہراتا نہیں۔اس کی ہر تان گزشتہ تان سے مختلف ہوتی ہے۔ اور راگ درباری ایک فنکار سے اسی اصول کا تقاضا کرتا ہے۔

راگ درباری کو جتنا بلمپت لے میں آزاد ہو کے فنکار گائے گااتنا ہی اس کا بصری تصور واضح ہوگا۔اس راگ کے آلاپ میں ایک خاص طرح کا جھولاؤ ہے جس سے راگ کی جمالیات واضح ہوتی ہے۔ اگر فنکار اس جھولاؤ کو نظر انداز کرکے راگ کو آلاپنا شروع کردے گا تو راگ کی مکمل شکل سامع پر واضح نہیں ہوگی۔راگ درباری کا بصری تصور ایک خاص عہدکے جاہ و جلال اور عظمت ِرفتہ کو پیش کرتا ہے۔
راگ کو علم موسیقی میں ایک اساسی حیثیت حاصل رہی ہے اور کسی بھی گانے کی دھن کا جملہ تاثر راگ کی بدولت ہی ممکن ہوتا ہے۔فنون لطیفہ میں فن موسیقی کو دیگر فنون کی نسبت ہر دور میں زیادہ اہمیت حاصل رہی ہے۔اس کی وجہ شاہد یہ ہےکہ فنون لطیفہ کا نہ صرف انسانی نفسیات سے گہرا تعلق رہا ہے بلکہ انسانی تاریخ میں بھی اس کا سلسلہ اُتنا ہی قدیم ہے جتنی خودانسانی تاریخ۔ فنونِ لطیفہ میں فن موسیقی کی تاریخ بہت قدیمی ہے۔اور ہر دور میں یہ فن خاص و عام کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔اپنی مشکل پسندی کے اعتبار سے یہ فن مسلسل ریاضت اور محنت شاقہ کا متقاضی ہے اس کے باوجود دورِ حاضر میں اس کی مقبولیت اور اس فن کو سیکھنے کے شوق میں گراں قدر اضافہ ہو رہا ہے۔

لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں دیگر فنون لطیفہ کی طرح اس فن کی تعلیم و تربیت کے لیے باضابطہ تربیت گاہوں کا فقدان شروع سے رہا ہے۔اپنی مدد آپ کے تحت یہ فن فنکاروں کے ذاتی شوق و ذوق کی بدولت فروغ پا رہا ہے۔

موسیقی،مصوری،خطاطی،سنگتراشی،شاعری،رقص ان جملہ فنون نے انسانی رویوں پرگہرااثر ڈالا ہے۔لیکن اسلامی معاشرے میں فنون لطیفہ کو گناہ کبیرہ سمجھا گیا۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی تاریخی حقیقت ہےکہ فن موسیقی اور مصوری کو سب سے زیادہ مسلمانوں نے ترقی دی۔ اور یہ ترقی اس وقت ممکن ہوئی جب مسلمان اپنے آبائی خطوں کو چھوڑکر برصغیر پاک و ہند کے خطہ میں آئے۔ شاید برصغیر کی زمین فنون لطیفہ کےلیے بہت زیادہ زرخیز تھی کیوں کہ جتنی فنون لطیفہ کی ترقی اس خطے میں ہوئی ہےکسی اور خطے میں نہیں ہوئی۔بڑے بڑے فنکاروں نے سرزمین ہند سے جنم لیا ہے۔ یہ تو ابتدائی دور کی باتیں ہیں جب فن کی سرکاری سطح پرقدرحوصلہ افزائی ہوتی تھی۔اور سماجی سطح پر بھی اس کی اہمیت کوتسلیم کیا جاتا تھا۔اورشرفا کے گھروں میں اس فن کی علمی و عملی تربیت کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا تھا۔