دو نسلوں کے درمیان ذہنی فاصلہ یا جنریشن گیپ

(سجاد خالد)

ہم جنریشن گیپ کے ا لفاظ اکثر سنتے ہیں اور ان کا تجربہ بھی کرتے ہیں۔ ہمارا پہلا تجربہ اپنے والدین ، خاندان کے بزرگوں اور سکول کے استادوں کے حوالے سے ہوتا ہے۔ جو عام طور پر ہماری نسل کو نالائق، سست، بے ادب، کمزور اور کم فہم کے الفاظ سےنوازتے رہتے ہیں۔ اگر دو صاحبِ اولاد (بالخصوص اگر دادا یا نانا بن چکے ہوں) ایک دوسرے سے ملیں تو اُن کے پسندیدہ موضوعات میں نئی نسل کی عادات، تعلیم  اور شخصیت   کا موضوع سرِفہرست ہوتا ہے۔ وہ اپنی یا اپنے بزرگوں کی  اخلاقی تربیت، اعلٰی اقدار کی پاسداری، قابلیت، اُصول پسندی اور احترام آدمیت کی کہانی کچھ اِس طرح سُناتے ہیں کہ سُننے والے کے ذہن کی سکرین دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے، دائیں حصے میں سُنانے والا یا اُس کے بزرگ کی فلم چل رہی ہوتی ہے  جس میں وہ ہیرو کا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں اور بائیں حصے میں موجودہ نسل کے کسی نمائندے کی فلم جس میں وہ وِلن کا کردار ادا کر رہا ہوتا ہے۔

عام طور پر پرانی فلمیں بلیک اینڈ وائٹ اور نئی فلمیں رنگین ہوتی ہیں، لیکن یہاں پرانی فلم نہ صرف رنگین اور دلچسپ ہوتی ہے بلکہ صوتی اثرات اور سپیشل ایفیکٹس بھی اس میں بڑی مہارت سے شامل کئے جاتے ہیں۔ موجودہ نسل کی فلم کو بلیک اینڈ وائٹ اور کٹی پھٹی حالت میں دکھایا جاتا ہے۔ سُننے والا بھی ہر ہر سین پر ‘واہ ‘کہتا ہے اور اس مسئلے سے متعلق  اپنا قصہ سُنانے کو بیتاب رہتا ہے۔ جب دونوں ایک دوسرے کے دُکھڑے سُن لیتے ہیں تو بات یہاں ختم ہوتی ہے کہ یہ سب قیامت کی نشانیاں ہیں۔

قیامت کی نشانی مان لینے کے بعد یہ افراد اپنی ذمہ داری سے مکمل طور پر سبک دوش ہو جاتے ہیں۔ ویسے بھی انہوں نے ڈانٹنے ڈپٹنے، سمجھانے، ڈرانے اور مارنے میں کوئی کسر تو پہلے بھی نہیں چھوڑی تھی کہ کسی طرح کا پچھتاوا، حسرت یا ارمان رہ گیا ہو۔

لیکن  اُسی نالائق کا رشتہ آ جائے یا اُس کے لئے رشتہ تلاش کرنے نکلیں تو ہر وہ بات اُس کی شخصیت میں پوری بے ایمانی سے شامل کر دی جاتی ہے جو ماضی کی رنگین فلم کے نیک، درویش صفت، پاک باطن، شاہین جیسے ہیرو یا سگھڑ، باحیاء اور  نیک پروین ہیروئن میں پائی جاتی تھی۔ خوش قسمتی سے یہ کام بھی بزرگ نسل کے حصے میں آتا ہے۔ بس اتنی احتیاط کی جاتی ہے کہ جن کے ساتھ نئی نسل کی نالائقی کا دکھ بانٹا تھا، اُن سے آمنا سامنا نہ ہو جائے۔ اب اِس عمر میں شرمندگی کا سامنا کوئی بیوقوف ہی کر سکتا ہے۔

اگرچہ یہ تضاد بذاتِ خود ایک الگ موضوع ہے جس پر تفصیل سے بحث کسی اورموقعے پر کریں گے۔ یہاں تو ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ جنریشن گیپ کی وجہ کیاہے اور اس کے نقصانات اور فوائد کیا ہیں۔ نقصانات سے کیسے بچا جا سکتا ہے اور فوائد اگر ہیں تو ان سے مُستفید کیسے ہوا جا سکتا ہے۔

جنریشن گیپ پیدا ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دو مختلف انسان جب مختلف زمانوں ،مختلف ماحول اور حالات میں آنکھ کھولتے ہیں تو اُن کے معیارات مختلف بن سکتے ہیں۔انپڑھ اور دیہاتی والدین اور نسبتاً پڑھی لکھی نیم شہری  اولاد کے درمیان جنریشن گیپ کی وجہ صاف دکھائی دیتی ہے۔ اسی طرح جاگیردار والدین اور بیرون ِ ملک زیرِ تعلیم اولاد میں بھی بظاہر جنریشن گیپ کی وجوہات واضح لگتی ہیں۔ لیکن ایک ہی شہر میں ایک ہی معیار تعلیم رکھنے والے والدین اور اولاد کے درمیان آنے والے جنریشن گیپ کی وجہ تلاش کرنے میں قدرے دشواری ہوتی ہے۔ دو نسلوں میں یہ فاصلہ کم و بیش بیس سے پچاس برسوں پر پھیلا ہؤا ہو سکتا ہے۔

ایسا نہیں ہوتا کہ تبدیلی کے عمل کو کوئی ایک نسل مکمل طور پر نظر انداز کر دیتی ہے بلکہ جنریشن گیپ سے مراد وہ ذہنی فاصلہ ہے جو ناقابلِ قبول حد تک محسوس ہونے والی تبدیلیوں کی بنیاد پر پیدا ہوتا ہے۔

کیا وقت اور مقام آہستہ آہستہ انسانوں اور اُن کے ماحول کو اتنا بدل دیتے ہیں کہ انسان ایک دوسرے سے اس قدر اجنبی ہو جائیں۔ ماں باپ اپنی اولاد پر حیرت اور افسوس کا اظہار کریں اور اولاد ماں باپ کو برداشت کرنا کبھی مشکل اور کبھی ناممکن سمجھنے لگے۔

اس کا جواب ہے کہ ہاں ایسا ہو سکتا ہے کہ وقت اور مقام کی تبدیلی انتہائی آہستگی سے ہمارے اردگرد کی پوری دُنیا کو بدل کے رکھ دے اور ہمیں خبر بھی نہ ہو۔ ہم اپنی فعال زندگی کے دوران تقریباً بیس برس تک اس تبدیلی کو محسوس نہیں کر پاتے جبکہ اپنی اولاد کے لڑکپن میں ہمیں دُنیا نہیں اپنی اولاد یا اپنی اگلی نسل بدلی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ گویا زمانے میں ہونے والی سست رفتار تبدیلی اگلی نسل کی شکل میں ایک اچانک انقلاب کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ ہم آئندہ ہونے والی کسی تبدیلی کا پہلے سے  کیوں اندازہ  نہیں لگا سکتے۔ کیا یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جس کا کوئی حل نہیں یا ہم تدبرکر کے جنریشن گیپ پر قابو پا سکتے ہیں۔

ہماری تربیت اور تعلیم  ، حالات اور ماحول ہماری شخصیت کے بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر وقت کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں کو لازم قرار دیا جائے اورہمیں بتایا جائے کہ ہمیں ان تبدیلیوں کو کیسے قبول کرنا چاہئے۔ اگر ہمیں معلوم ہو کہ کامیاب زندگی کا راز ہر آن ہونے والی تبدیلیوں کو قبول کرنے میں ہے تو ہم مستقبل کے لئے زیاد ہ موزوں بن سکتے ہیں۔ اِس سے یہ مراد نہیں کہ ہم ہر آنے والی تبدیلی کو درست مان لیں اور اخلاق اور علم کے سارے پیمانے مفلوج کر کے بس ایک مفعول کی طرح جینا شروع کر دیں۔ بلکہ اِس سے یہ مراد ہے کہ ہم تبدیلی کے ہونے کو ایک مسلسل  عمل مان کر اپنا مثبت کردار ادا کرتے رہیں۔ ہمارا یہ کردار آئندہ ہونے والی تبدیلیوں پر اثر انداز ہو کر دنیا کو بدلنے کے عمل کا حصہ بنتا رہے گا۔

ہم اپنے سے پہلی نسلوں پر اس طرح اثرانداز ہو سکتے ہیں کہ اُن کے معاملےمیں یہ سوچ کر رعائت کریں کہ اُن کی تربیت وقت میں مسلسل ہونے والی تبدیلی کو ماننے کی بنیاد پر نہیں ہوئی۔ درمیانی نسل کے طور پر ہمیں خود کو تبدیلی کے مسلسل عمل کا فعال حصہ بننا ہو گا اور اپنی نئی نسل کے سامنے رول ماڈل پیش کرنا ہو گا کہ نہ ہمارے زمانے میں بننے والے معیارات حتمی ہیں اور نہ تمہارے زمانے میں حتمی ہوں گے۔ ہر پرانی نسل کو اپنی آئندہ نسل کو یہ رعائت دینی ہو گی کہ وہ اُن کے زمانے میں بننے والے معیارات کا احترام کرے اور جس حد تک ممکن ہو اُن کا پاس کرے۔

اگر مذہب اور اخلاقیات سے نئی نسل گریز کرتی ہے تو یہ کام آج سے شروع نہیں ہوا۔ ہر پچھلی نسل ایسا کرتی آئی ہے۔ ہر شخص کو آئینہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ  اپنی ذات کے لئے جبر کو پسند نہیں کرتا تھا تو دوسروں کو بھی مجبور نہ کرے۔ مذہب پر جبر کے ساتھ عمل کروانے کی ہر تحریک منفی ردعمل پیدا کرتی ہے، جس کے نتیجے میں مذہب اور خدا سے انکار کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ اور اگر کچھ لوگ اِس جبر کو اپنی کمزوری یا کم فہمی کی بنیاد پر قبول کر بھی لیتے ہیں تو وہ اس قابل کبھی نہیں ہوتے کہ دلیل کی بنیاد پر دنیا کے سامنے اپنے نظریات پیش کر سکیں یا اُن کا دفاع ہی کر سکیں۔ مذہب کو جیتے جاگتے انسان کی زندگی کا فعال اور ناگزیر حصہ بنانے کے جنریشن گیپ کے روایتی مکالمے سے الگ کر کے دیکھنا ہوگا۔

ایک زندہ سوسائٹی  میں دو نسلوں کے درمیان ذہنی فاصلے کی مثبت شکل بھی ہو سکتی ہے جس کی بنیار پر ہم ماضی قریب اور مستقبل قریب کو اچھی طرح سمجھ کر حال میں اپنے مسائل کا قابلِ عمل حل پیش کر سکتے ہیں۔جہاں ہر نسل تبدیلی کے عمل کو انسان کی ترقی کا لازمی حصہ سمجھتی ہو وہاں ماضی میں ہونے والے ہر تبدیلی پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اسی بنیاد پر مستقبل میں ہونے والی تبدیلیوں کے امکانات کو سمجھا جا  سکتاہے۔ یہ وہ مثبت رنگ ہے جو دو نسلوں کے فاصلے میں بھرا جا سکتا ہے۔