خونی استعارہ سے زیادہ مقدس ثقافتی مظاہرہ کی طلبگار۔۔۔کربلائی روایت !

(شکور رافع)

مسیحیت اگر ولدیت کی عجب روایات سے لے کر حواریوں کے متضاد بیانات رکھنے کے باوجودمصلوب نہیں ہوئی، زندہ ہے جبکہ یہودیت مسیحیت سے صدیوں پہلے سے زندہ ہے..تب کہ جب ہیکل سلیمانی کا موسوی صندوقچہ فرعونی نہر سے کود کود پڑتا رہا مگر یہودیت زندہ رہی اور زندہ ہے.. ایسے میں ہم اکثریتی امتی،کربلائی روایت کو زندہ کی بجائے شرمندہ شرمندہ کیوں کرنا چاہتے ہیں.. اچھا الہامی چھوڑیں، مقامی عقائد دیکھ لیں کہ راون سیتا جیسی رامائنی کہانیوں کے ساتھ انسان کو چارچار درجوں میں بانٹ بانٹ کر ہندومت اگرشان سے زندہ ہے تو اسلام کو کربلا کے ان متنازعہ ضمنی تذکروں سے زندہ کر لینے میں کیاہرج ہے کہ غالب اکثریت یقیناً جن کی صحت اور نیت پر مختلف مؤقف رکھتی ہے.. ہم سمجھتے ہیں کہ اس سادہ و رنگیں داستان کو جتنا مرقع و مرصع بنایا جائے گا، مذہب کلچر کے نچلے اور دھیمے رنگوں میں گھلتا جائے گا بلکہ یوں کہیے کہ بالآخر وہ عوامی درجہ پر مقامی تہذیب میں ہی گھل مل جائے گا۔آج پہلے درجے کی دنیا میں،کبھی خون کے پیاسے یعنی موسوی و مسیحی مذہب پرست اک دوجے کی “مقدس سچائی” کا اعتراف کرتے ہوئے مسکرا کر مل سکتے ہیں تو اپنے ہاں ایک ہی مذہب (اسلام) سے منسوب افراد کے ہاں صحت, نیت ، حقیقت ، بدعت و شریعت کے خونی مباحث کب تک؟
سب جانتے ہیں کہ یہودیت مسیحیت الجھاؤ اور’ کرسیچین سنی شیعہ ٹکراؤ‘ میں مرنے والوں کی تعداد جنگ جمل و صفین میں رزق خاک بننے والوں سے کئی سو فیصد زیادہ تھی.. مگر آج چرچ یا سیناگوگ میںیہ کٹر مذہبی افراد بھی اک دوجے کی مقدس روایات کے احترام کے ساتھ ملتے ہیں.. اس لیے کہ اب وہ مذہبیاتی حقائق کو انسانی بچپن کی ایسی تجسساہٹ سمجھتے ہیں جس میں اکتاہٹ نہیں, ثقافتی مسکراہٹ ہے!
یہ ایک مذہبی مضمون نہیں ہے کہ جس میں ، میں اپنے مسلک کا دفاع کروں مگر بہت زیادہ منطقی ، حقیقت پسند اور حال پرست ہونے کے باوجود مجھے گھوڑا رونمائی سے مہندی و جھولا تک کی تقریباًسب کربلائی رسموں میں دلچسپی ہے.. آپ اسے نفسیاتی نقطہ نظر سے دیکھیے.. یہ سب گھٹے اور خشک روایتی معاشرہ کے تجدید, رجائیت اور رنگینی کی طرف ایک فنکارانہ جھکاؤ اور روایتی عقائد میں جدتی بہاؤ کی طرف اشارہ کرتاہے. ہم اسے غیرشعوری بغاوت بھی کہہ سکتے ہیں.. اسے چلتے رہنا چاہیے۔ زنجیر زنی اور سرعام خود اذیتی و تشدد وغیرہ پر شیعہ اہل فکر اگر ٹھوس اور واضح اجتہادی فیصلہ دے دیں تو بقیہ مذہبی رسومات مع خواہشات کا مقامی سطح پر احیااس کربلائی روایت کو متنوع بنا دے گا۔ خلافت و ملوکیت کی مشتعل تاریخ سے کوسوں دور،،سینکڑوں برس سے ارتقا پذیر یہ ڈرامائی واقعات، رسومات وروایات وغیرہ مجموعی مذہبی کلچر کو قدیم , ضخیم بلکہ عظیم بنا سکیں گے ۔تیر و تلوار اور ہاؤہوکار کی بنیادی تلخی ان لکھنوی رسوم و رواج کی ضمنی آمیزش سے قابل گوارا رہے گی. یوں انکار اور للکار کی جرات یا شہادت کی مرثیائی داستان کے ساتھ ساتھ ایک مقدس خاندان کی گھریلو زندگی کی ممکنہ دل پسند جھلکیاں کربلا کو محض جنگی استعارے کے بجائے عظیم تاریخ کے ثقافتی مظاہرے کی علامت بھی بنا سکیں گی ۔
مسئلہ اسی شدت پسند سوچ کو بدلنے کا ہے جو نسلِ نو سے واقعہ کربلا کا وہ ثقافتی پہلو چھین لینا چاہتی ہے جوسینکڑوں برس کی انسانی عقیدت وخواہش کا اظہاریہ ہے۔۔یہودیت و مسیحیت اساطیر جیسا تہذیبی اظہاریہ کہ دیگر مذاہب میں تعقلی سطح پران پر کوئی بھی بحث تک نہیں کرتا, صرف ثقافتی ورثہ کے طور پر قبول کرتا ہے!
اپنی طرف صورتحال یہ ہے کہ بچے اگر سوال کریں کہ محرم میں دو چھٹیاں کیوں ہوتی ہیں تو ہمیں ان جیسے کروڑوں یک عشری بچوں کو یہی جواب نہیں دینا پڑتا ہے کہ نوجوانوں کے جنتی سردار کو ظالموں نے شہید کر دیا تھا ۔ وہ پوچھتے ہیں کہ اس بات پر موبائل فون سے لیکر راستے تک سب کیوں بند ہو گئے ہیں.. ظاہر ہے اس کے جواب میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کا قضیہ لے کر انہیں اس عمر میں مذہبی دائرہ سے بدظن تو نہیں کیا جاسکتا سو یہاں ان ثقافتی مظاہر کی علامات و رسومات کے تذکرہ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے مثلاً انہیں مہندی ، مشکیزہ اور جھولے وغیرہ کی دلچسپ روایات سے آگاہ کیا جائے تو بچے ان میں دلچسپی لے کر چھٹیوں کو دہشتگردی خطرات کے بجائے اس پورے تہذیبی منظرنامہ سے جوڑسکتے ہیں.. مگر المیہ یہ کہ مکتب فکر کے اختلاف کی وجہ سے بزرگ ایسی متنازعہ روایات بچوں تک کو سنانا پسند نہیں کرتے… انہیں یزید کی وہی آمریت اور امام کی مظلومیت سنانے کے بعدزنجیروں چھریوں کی چھرچھڑاہٹ سے چھٹیوں کا محرک سامنے لایا جاتا ہے مگر بچے یہ واقعہ سن کر پوچھتے ہیں کہ اس کے بعد یزید کو کیا سزا ملی تھی؟ کیا اس کی یا اسکے خاندان کی بادشاہت ختم ہو گئی تھی تو ’گوگل جواب‘ تو یہی ہے کہ یزید اور اس کے خاندان کی بادشاہت اس واقعے کے بعد کئی سو سال تک دھوم دھڑکے سے چلتی رہی۔ تب وہ پوچھتے ہیں کہ اگر واقعہ کربلا کے بعد امام حسین شہید ہو گئے اور یزید اور ان کا خاندان زندہ پائیندہ رہا تو درسی کتاب والے شعر میں اسلام ہر کربلا کے بعد زندہ کیسے ہو جاتا ہے۔
بزرگوں کی خیروشرکی مختلف المیعاد ڈانٹ ڈپٹ یا پھرحفظ المراتبہ خاموشی کے بعد میں بچوں بوڑھوں سے الگ، کمرے میں قلم قرطاس سے نقش بناتے ہوئے اپنا ابتدائیہ پھر دہراتا ہوں کہ مسیحیت اگر ولدیت کی عجب روایات سے لیکر حواریوں کے متضاد بیانات رکھنے کے باوجودمصلوب نہیں ہوئی، زندہ ہے جبکہ یہودیت مسیحیت سے بھی صدیوں پہلے سے زندہ ہے..راون سیتا جیسی رامائنی کہانیوں کے ساتھ ہندومت اگرشان سے زندہ ہے تو اسلام کو کربلا کے ان متنازعہ ضمنی تذکروں سے زندہ کر لینے میں کیاہرج ہے ۔اس سادہ و رنگیں داستان کو جتنا مرقع ومرصع بنایا جائے گا، مذہب کلچر کے نچلے اور دھیمے رنگوں میں گھلتا جائے گا بلکہ یوں کہیے کہ بالآخر وہ عوامی درجہ پر مقامی تہذیب میں ہی گھل مل جائے گا. آج پہلے درجے کی دنیا میں،کبھی خونی پیاسے یعنی موسوی و مسیحی مذہب پرست اک دوجے کی “مقدس سچائی” کا اعتراف کرتے ہوئے مسکرا کر مل سکتے ہیں تو اپنے ہاں ایک ہی مذہب (اسلام) سے منسوب افراد کے ہاں صحت, نیت ، حقیقت ، بدعت و شریعت کے خونی مباحث کب تک؟