شیشے کے گھروں میں رہنے والے اورسیرل المیڈا

یاسرچٹھہ

(یاسر چٹھہ)

سیرل المیڈا، معتبر اور موقر ڈان اخبار کے معاون مدیر ہیں۔ اسی اخبار میں ہفتہ وار باقاعدگی سے ایک بہت عمدہ کالم لکھتے ہیں۔ وقتا فوقتا اہم فیچر خبریں بھی پیش کرتے رہتے ہیں۔ پچھلے انتخابات میں ان کے مختلف اہم انتخابی حلقوں پر تحریری تبصرے، بڑی نفاست بھرے، اور تحقیقی انداز سے مزین مضامین کے طور پر ڈان اخبار میں جگہ پاتے رہیں۔

یہی سیرل المیڈا ہیں جنہوں نے گزشتہ ہفتے کی چھ تاریخ کو ایک ایسی نیوز سٹوری جاری کی جس سے ایک بار پھر ہمارے سیاسی و ادارہ جاتی نظام میں موجود حساس چائے کی پیالیوں میں طوفان برپا ہوگیا۔ اگرچہ اس خبر کے شروع کے پیرا گرافوں کے مندرجات میں ہی یہ بات واضح کردی گئی تھی کہ:

The following account is based on conversations with Dawn of individuals present in the crucial meetings this week…. All declined to speak on the record and none of the attributed statements were confirmed by the individuals mentioned

مزید یہ کہ خبری اقدار میں سے اہم قدر، fairness ، کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سلامتی کے اداروں کے ذمے داران سے اس بابت رائے مانگی گئی تاکہ ان کی طرف کا بیان بھی
شامل احوال ہو جائے۔ لیکن بقول سیرل المیڈا:

Military officials declined to comment

ان سب سیاق و سباق کی کھلی وضاحتوں اور اتمام حجتوں کے بعد بھی کچھ حلقوں کی جانب سے اگر سیرل المیڈا پر کچھ غلط کرنے کا دشنام تھوپا جائے تو وہ خود ان کی ہی جانب سے اپنے شعور و فہم کا بھرم خود تار تار کرنے والی بات ہوگی، یا صرف اور صرف سینہ زوری۔
علاوہ ازیں کسی بھی پیشہ ور صحافی، اور تو اور جو ڈان جیسے معتبر اور با وقار ادارے میں اہم سطح پر ذمے داری بھی نبھا رہا ہو، اس سے اس کے خبری ذرائع کی شناخت پوچھنا اپنے آپ کو احمقوں کی جنت کا سردار کہنے کے مترادف ہے۔ اپنے ذرائع کا تحفظ اور جان سے لگائے رکھنا پیشئہ صحافت کے کلمئہ اول کا درجہ رکھتا ہے۔

خیر یہ تو بنیادی نوعیت کی باتیں ہیں۔ ان باتوں کا اعادہ کرنا حروف تہجی کو ایک بار پھر سے حفظ کرنے میں لگ جانے جیسا ہے۔ چھ اکتوبر کو زیر بحث خبر ڈان اخبار میں شائع ہوئی اور سماجی ذرائع ابلاغ پر ہمہ دم نظر آنا شروع ہوگئی، اسے ہم سماجی ذرائع ابلاغ کی زبان میں وائرل ہونا بھی کہتے ہیں۔ اس پر تبصرے در تبصرے شروع ہوگئے۔ اقتدار کے اصلی اور بظاہر، ہر دو گروہوں میں کھلبلی سی مچ گئی۔ لیکن سوال اٹھا کہ کس بات پر اس قدر مسئلہ ہے؟ اس مہا سوال کا جواب اس وقت تک ان ٹکڑیوں میں ڈھونڈا جا سکتا تھا: “ملکی مفاد”، “انتہائی حساس”، “غداری” وغیرہ وغیرہ۔

البتہ اس سوال کا جواب نا مل سکا کہ سارا قضیہ، جس کا ذکر زیر بحث خبر میں تھا، وہ تو “غیر ریاستی عناصر” کی ترکیب اور اس خلق ہونے والی حقیقت کے گرد گھومتا تھا۔ اس سوال نے کئی ضمنی سوال پیدا کئے۔ کیا ان عناصر کا ہونا، ملکی میں مفاد میں ہے؟ یا کہ، وہ موجود ہیں ہی نہیں، مگر ان کے وجود میں ہونے کا تصور باندھنے کی کوئی بے سر و پا کوشش کی گئی؟ ان میں سے کون سی چیز اور کون سا یقین کس حد تک ملکی مفاد میں ہے، اور کون سی کانوں سنی بات اس پتلی چلمن سے پرے ہے۔ اس سوال کا کوئی جواب سو فیصدی اعتبار کے لائق نا آج تک آ سکا ہے، اور نا ہی آنے کی کسی توقع باندھنے کی ہمت ہو رہی ہے۔

البتہ جیو نیوز کے مرکزی دھارے کے اینکر شاہزیب خانزادہ کے ذرائع کے مطابق طاقتور حلقے کو مسئلہ اس بات پر ہے کہ اتنے اہم اجلاس کے مندرجات آخر باہر کی دنیا میں کیونکر آ گئے؟ مطلب یہ کہ اس بات کا باہر آنا مسئلہ ہے کہ مبینہ طور پر قانونی طور پر کالعدم تنظیموں کے خلاف قانون کو حرکت میں آنے سے کون اور کہاں کی مداخلت روکتی ہے۔ اس پر ہمیشہ کی طرح وہی ہتک عزت اور مورال وغیرہ کے مسئلے کھڑے ہوگئے۔

لیکن عام عقل و فہم تو یہی باور کراتا ہے کہ اگر نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کرنا ہی ہے تو پھر برابری کے اصول اور کھلے ذہن کے ساتھ سب تنظیموں پر ہونا چاہئے۔ جو باضابطہ طور پر کالعدم ہیں، ان سے نمٹنے کے متعلق تو کوئی ذہنی ٹوٹ پھوٹ نہیں ہونا چاہئے۔ اب اور کتنے ثبوت درکار ہیں کہ ان تنظیموں کے جو بھی ایجنڈے ہیں، ان سے ہمیں بین الاقوامی فورموں پر کس قدر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے باہمی روابط کی باتیں بھی ذرائع ابلاغ میں گردش کرتی رہتی ہیں۔ ابھی کچھ مہینے قبل ہی ایک “محبوب” کالعدم جماعت کے کچھ ٹوٹے ہوئے ارکان داعش کی انسانی پنیریاں کاشتت کرتے سیالکوٹ کے قریب سے پکڑ میں آئے۔ ان احوال کو پیش نظر اور پس نظر رکھتے ہوئے تھوڑا انا کے منھ زور اثر سے پیچھے ہٹ کر سوچنا ہوگا۔

نیشنل ایکشن پلان کو صوبوں کی سویلین حکومتوں پر دباؤ کے ہی آلئہ کار تک محدود ہو کر رینجرز کی سپردادریوں میں لیتے جانے کا مترادف نہیں بنتے جانا چاہئے۔ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حب الوطنی اور قومی مفاد کا تعین اور تشکیل چند ذہنوں کی “قید با سہولت” میں ہی نہیں ہونا چاہئے۔ بلکہ ان کو وسیع البنیاد مشاورتی اداروں، جیسا کہ مجالس قانون ساز ہیں، ان سے رہنمائی لینا چاہئے۔

اس مضمون کا اختتام ہم ان سطروں کے ساتھ کرنا چاہیں گے کہ سیرل المیڈا نے اپنی خبر میں جو رقم کیا وہ محض ایک زمینی واقعہ کا بیان ہے۔ اگر وہ نہیں ہوا، یا آپ اس سے آنکھیں موند لینے پر بضد ہیں تو تین تردیدیں تو آ چکیں۔ مزید تردیدیں کریں، اور حقائق سے آنکھیں بند رکھیں، پاکستانی معاشرے، قوم اور اس کی بین الاقوامی شبیہ کا پہلے بھی آسمان والا وارث تھا، اور اب بھی اسے ہی رہنے دیتے ہیں۔ لیکن ہم سے نوحے لکھنے کا حق ہم  نا تو آپ کو دے سکتے ہیں اور نا ہی دیں گے۔ ایک بات البتہ یاد رکھنا شائد بہتر ہو کہ طاقت کے مراکز کی تقسیم در تقسیم سے ملک اور قومیں بنتی نہیں ہیں۔ اپنے اپنے ذرائع کے ذریعے صابر شاکروں، بھٹیوں، سمیع ابراہیموں، مبشر لقمانوں، ڈاکٹر دانشوں کی  منتخبہ دھواں دھاریوں کو ہی صرف اور صرف حلال لیکس سمجھ کر آپ اپنے شیشے کے گھر کو محفوظ نہیں رکھ سکتے۔ کبھی کبھی دفاعی “لیکس” کی بھی توقع رکھ لینے کی نفسیاتی تیاری رکھنا چاہئے۔

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔

1 Comment

Comments are closed.