جادو، جادو گر اور خواہشات کا سیلابِ بلا

(عادل فاروق)
دل سے جو بات نکلتی ھے اثر رکھتی ھے
  پر نہیں، طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
دل میں نت نئی خواہشات کا جنم لینا زندگی کا خاصا ھے۔ کمزور لوگ ان خواہشات کا شکار ہو کر ان کو پورا کرنے کو اپنا مقصد حیات بنا لیتے ہیں۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ایک خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہی اگلی خواہش دل میں جنم لے چکی ہوتی ھے۔ اب یہ انسان پر ہے کہ وہ کس حد تک خود کو ان خواہشات کا غلام بنا کر چلتا ھے یا آزاد اور خود مختار راستہ اختیار کرتا ھے۔ اور عمومی خواہشات کے اتباع میں خود کو مٹانے کی بجائے خالق حقیقی کے بتائے ہوئے طریقے پر اپنی ضروریات و ذمہ داریوں کو انجام دیتا ھے۔
خواہشات کا ہونا کوئی بری بات نہیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ خواہش کس حد تک جائز ھے۔ اور اس کو پورا کرنے کہ لیے کونسا راستہ اختیار کیا جا رہا ھے۔
بعض افراد اپنے جائز و ناجائز مقصد کو جلد از جلد حاصل کرنے کہ لیے ناجائز طریقہ اختیار کر لیتے ہیں اور شارٹ کٹ کے چکر میں اپنی دونوں جہاں کی بربادی کا باعث تو بنتے ہی ہیں بلکہ ساتھ میں اپنے اہل و اعیال و عزیز و اقارب پر بھی اس کے نہایت برے اثرات چھوڑ جاتے ہیں۔
ایسے ہی کسی ناجائز مقصد کی تکمیل میں اگر کوئی انسان رکاوٹ نظر آئے تو اس کو راستے سے ہٹانا ان کو نہایت ضروری نظر آتا ھے۔ اور اگر راستے میں آنے والا شخص کسی صلاحیت کا حامل ہو تو ساتھ میں حسد، جلن، بغض و کینہ جیسی بیماریاں بھی جنم لے لیتی ہیں۔
ایسی ہی بیماریوں اور ناجائز خواہشات کے حصول کے لیے قدیم دور سے ایک طریقہ اختیار کیا جا رہا جسے عرف عام میں جادو کہتے ہیں۔ اس کی تاریخ بھی بہت پرانی ھے اور طریقے بھی نت نئے ہیں۔ لیکن جس طریقے کا یہاں ذکر ہونے جا رہا ھے وہ ان سب پر حاوی ہے اور ابلیس ملعون کے باقاعدہ زیر نگرانی اس پرعمل کیا جاتا ھے۔
 
:سفلی و شیطانی جادو
وہ جادو جو بذاتِ خود شیطان کی طرف سے کیا جاتا ہے، اسے سفلی جادو کہتے ہیں۔ یہ سب سے زیادہ مہلک اور خطرناک ترین صورت ہے کیونکہ اس میں شیطان خود دلچسپی سے عمل کر رہے ہوتے ہیں اور وہ عمل کرنے میں کسی کے محتاج نہیں۔
اس سفلی طریقہ والے ساحر کے شیاطین کی ایک بڑی ٹولی ہوتی ہے جو اس کی خدمت کرنے اور اس کے حکم کی تعمیل و تنفیذ میں مصروف رہتی ہے۔ بعض جادوگروں کی مدد کے لیے شیاطین کے کئی کئی قبیلے موجود ہوتے ہیں۔ جادوگر جادو کروانے والوں سے وصول کی گئی رقم کے مطابق ان کو شیاطین کی فوج مہیا کرتا ھے اور ساتھ میں زیادہ موثر کرنے کہ لیے قرآن شریف کی بگاڑی ہوئی پڑھائی بھی بتاتا ھے۔ خصوصی کاموں کے لیے اس پڑھائی کا کرنا ضروری ہوتا ھے ورنہ شیاطین پوری طرح ساتھ نہیں دیتے۔
  چوں کہ تمام جادوگروں میں یہ سب سے زیادہ کفر و شرک اور الحاد کا مر تکب ہوتاہے، اس طریقہ کو اپنانے والا ساحر (اس پر اللہﷻ کی لعنت ہو) مصحف کے اوراق کو اپنے قدموں میں لپیٹتا ہے، (یعنی جوتے کی جگہ استعمال کرتا ہے ) پھر بیت الخلاء میں داخل ہوتا ہے اور شیاطین کو جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے۔ چناں چہ شیاطین اس کی اطاعت کرتے  ہیں۔ بلکہ اس کے ہر حکم کو عملی جامہ پہناتے ہیں اور اس کی ہر خواہش کو پورا کرتے ہیں۔

سفلی جادو شیاطین کی مدد سے کیا جاتا ھے ۔اور شیطان تب تک جادوگر کی مدد نھیں کرتا جب تک وہ دائرہ اسلام سے خارج نہ ھو جائے اور  قران شریف کی بے حرمتی نا کرے۔ جب تک جادوگر دین اسلام کو گالیاں نہیں بکتا اور انبیا کرام علیہ السلام کو برا بھلا نہیں کہتا تب تک جادو کام نھی کرتا۔

مزید یہ کہ شیطان ملعون پاک زبان سے ادا کیے گئے کفر کو قبول ہی نہیں کرتا جس کے لیے جادوگر زبان کو انسانی و حیوانی فضلے سے ناپاک کرتا ھے۔

:اسلام میں جادو کرنے کروانے کا حکم

امام مالک رحمہ اللہ جادوگر کو قتل کرنے کے قائل ہیں ۔ ابن قدامہ ؒ فرماتے ہیں کہ ساحر کی حد قتل ہے ، اس سلسہ میں انہوں نے حضرت عمرؓ حضرت عثمانؓ ، ابن عمر ، ام المومنین حضرت حفصہؓ، حضرت جندب بن عبداللہؓ، جندب بن کعبؓ، قیس بن سعدؓ، اور عمر بن عبدالعزیزؒ سے روایت نقل کی ہے، نیز امام ابو حنیفہؒ کا بھی یہی قول ہے۔
امام مالک، ابوحنیفہ، احمد بن حنبل اور امام شافعی کامذہب یہ ہے کہ مسلم اگر ایسے کلمات سے جادو کرتا ہے جو کفر پر مشتمل ہوں تو اسے قتل کردیا جائے گا اور اس کی توبہ قابل قبول نہ ہوگی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سحر کو کفر کا نام دیا ہے۔
ابن المنذرؒ کہتے ہیں کہ : اگر آدمی یہ اعتراف کرلے کہ اس نے کفر پر مشتمل کلمات سے جادو کیا ہے تو اس کا قتل واجب ہوگا، اس طرح اگر وہ اعتراف نہ کرے لیکن قائن و شواہد سے اس کی نشاندہی ہو تو بھی اسے قتل کیا جائے۔
عمر بن خطاب نے لکھا کہ ہر جادوگر اور جادوگرنی کو قتل کردو، بجلہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں نے تین جادوگرنیوں کو قتل کیا۔
صحیح طور پر یہ بات ثابت ہے ام المؤمنین حضرت حفصہؓ پران کی ایک باندی نے جادو کیا، تو اسے قتل کرنے کا حکم دیا گیا چنانچہ وہ قتل کردی گئی۔
امام احمدؒ فرماتے ہیں کہ : نبیؐ کے صحابؓ میں سے تین سے صحیح طور پر قتل ساحر کا حکم ثابت ہے۔
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ : ساحر کا وہی حکم ہے جو زندیق کا ہے، اس کی تو بہ قبول نہیں کی جائے گی اور اس کی حد قتل ہے۔
اوپر مذکور تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جمہور علماء ساحر کے قتل کے قائل ہیں۔
سعودی عرب میں یہی قانون لاگو ھے اور جادوگر کی سزا سر قلم کرنا ھے۔

واضح رھے کہ شرعی سزا کو نافذ کرنا اور عمل کرنا حکومت وقت کے ذمہ ھے ناکہ کسی واحد شخص یا گروہ کے۔ ایسی صورت میں حکومت وقت سے ہی انصاف کا تقاضا کیا جانا چاہیے
ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ جادو سے جادو کی کاٹ کرنا۔ یہی شیطان کا عمل ہے۔
حسن بصری کا قول ہے کہ “جادو کے ذریعہ علاج کرنے اور کروانے والا دونوں شیطان کے قریب ہوتے ہیں”۔
 
البتہ تعوذات، أدعیہ و اذکار اور مبح کلمات سے علاج کرنا۔ یہ جائز ہے۔
اگر آپ کو پتہ چل جائے کہ معالج جادو گر ہے تو اس کے پاس جانے سے گریز کرنا ضروری ہے، اگر پتہ چلنے کے بعد بھی آپ نے گریز نہیں کیا تو حضورؐ کا درج ذیل قول آپ پر منطبق ہوگا کہ “جو کسی کاہن کے پاس آئے اور اس کی بات کی تصدیق کرے تو اس نے محمد ﷺ پر نازل کردہ چیز (قرآن و شریعت ) کا انکار (کفر) کیا”۔
ابن قدامہؒ فرماتے ہیں جادو کا سیکھنا اور سکھانا حرام ہے اور اس معاملہ میں اہل علم کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ جادو سیکھنے اور کرنے سے آدمی کافر ہوجائے گا۔