آرٹ ،جمالیات اور مابعد الطبیعیاتی مِتھ

aik Rozan writer picture
ارشد محمود

ارشد محمود

جمالیات کیا ہے، جمالیات کا اس کائنات اور بالخصوص انسانی زندگی میں کیا کردار ہے، ہماری مابعدالطبیعیاتی مِتھ کو جمالیات کی تمام شکلوں سے بیر کیوں ہے؟ صدیوں سے اس تقدیسانہ بیر سے ہمارا تہذیبی حلیہ کس حد تک متاثر ہوا ہے؟ علم بشریات تو کہتی ہے، جمالیاتی کام (Artistic Work) اتنا ہی پرانا ہے جتنا انسان۔ اور یہ سلسلہ قبل از تاریخ سے لے کر عصرِحاضر تک جاری و ساری ہے۔ انسان کو دوسری زی حیات سے ممتاز کرنے والی خصوصیت، فنونِ لطیفہ اور آرٹ سے اپنی ذات اور روح کی آزادی کا اظہار، متنوع اشکال اور نوع بہ نوع حالتوں کی اَبدی جستجو (Pursuite of Diversity) کا اظہار۔ ایک نا ختم ہونے والی کھوج (Exploration) کے سفر پر نکل جانے کی اُمنگ۔۔۔ رنگوں، سروں اور شکلوں اور زاویوں سے کھلنے کی آرزو۔ انھیں حسن و جمال کے نِت نئے معنی خیز پیکروں میں بدل دینے کی کوشش۔
آرٹ اورجمالیات کے ساتھ متھ کا ٹکراؤ۔۔۔ متھ وحدت، مرکزیت اور قطعیت کا مطالبہ کرتی ہے، آرٹ تنوع (Diversity) کا، متھ اوّل و آخر خالق ہونے کا دعویٰ دار، آرٹ بذاتِ خود تخلیقی جبلّت (Creative Impulse) کا شاہکار۔ آرٹسٹ بنایا نہیں جا سکتا، اس کی تاروپود اور کیمسٹری کچھ یوں کہ اس نے کچھ خیال چُن دینے ہوتے ہیں، کچھ بول کہہ دینے ہوتے ہیں، کوئی تصویر یا صورت بنا دینی ہوتی ہے، کوئی رنگ بھر دینا ہوتا ہے، کوئی سُر نکال لینا ہوتا ہے۔ تخلیق کار کو پتہ نہیں ہوتا کہ وہ ایسا کیوں اور کیسے کر رہ ہے۔۔۔ کچھ تو تخلیق شدہ (Being) نہیں۔۔۔ ہر چیز ہر وقت تخلیق کے عمل (Becoming) سے گزرتی ہوئی۔۔۔ ایک تخلیق کار کی حیثیت سے انسان اپنی اندر کی دنیا بھی بدلتا ہے اور گردو پیش کی بھی، ہر آن نئے خواب پیدا کرتا ہے، ان میں نئے معنی بھرتا ہے۔ اس کی دنیا میں تو کچھ بھی حرفِ آخر نہیں۔ اس کی نظرے ذرّوں کو چیر اور خلاؤں کو پھلانگ رہی ہیں۔۔۔ خوب سے خوب تر کی ابدی تلاش میں مبتلائے جنون، مرکزیت پسند متھ کو یہ ’’آوارگی‘‘ سخت ناپسند۔۔۔ شر اور گستاخیوں کے کئی درجے راہ میں آتے ہیں۔۔۔
آرٹ انسانی ذات اور روح کی آزادی کے ساتھ جڑا ہوا۔ غلام ہستی آرٹ نہیں پیدا کرتی، آزاد منش روح چاہیے۔ یہ جیسی ہے، جہاں ہے، کو تسلیم نہیں کرتی۔ انجماد (Fixation) قبول نہیں۔ وہ ظاہری شکلوں کو کسی اور طرح ہی دیکھنا چاہتی ہے، اسے کچھ اور ہی معنے دینا چاہتی ہے۔ اس میں کچھ اور ہی زاویے پیدا کرنا چاہتی ہے۔ اسے کسی اور ہی سطح پر رکھنا چاہتی ہے۔ وہ تخیل (Imxagination) کے وسیع و عریض سمندر میں بلاخوف و خطر، بلا روک ٹوک تیرنا پھرنا چاہتی ہے۔ متھ اور حریت فکر۔۔۔ متضاد قطبین! متھ کے دربار میں آزادی نہیں غلام ہونا اعلیٰ درجے پر فائز۔۔۔ بستی کی دیواریں ’’غلام ہیں، غلام ہیں۔۔۔‘‘ کے فخریہ نعروں سے یونہی تو بھری نہیں۔ اپنے سر اور ماتھے زمین پر رکھ دو! کسی کی جا نہیں، سر اُٹھا کے بات کرے۔۔۔ ادھر بشریات، ایک جانور اپنے جھکے سر اور زمین سے ہاتھ اٹھا اکڑوں کھڑا ہوا تو انسان کہلایا۔
فنونِ لطیفہ اور حسن پرستی سے اعتدال، نیکی اور اخلاق (Ethics and Virtues) کی راہ پھوٹتی ہے۔ آپ خوبصورت خواب دیکھتے ہیں، آپ خوبصورت چیزیں بناتے ہیں، آپ خود بھی خوبصورت بنتے ہیں، گردوپیش کو بھی خوبصورت بنتا دیکھنا چاہتے ہیں، آپ خود خوبصورت کے اعلیٰ تر معیار قایم کرتے چلے جاتے ہیں، اوروں کو بھی خوبصورت ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ آرٹ انسان کو نرم خو کرتا ہے، جس کی روح خوبصورت ہو، جو خوبصورتی کا شیدائی ہو۔ وہ ظلم پسند نہیں ہو سکتا، وہ ظلم کر نہیں سکتا، وہ انصاف اور اعتدال چاہے گا، وہ دوسروں کو بھی اپنے جیسا حق دے گا۔ اس کے برعکس اندر باہر کی تمام غلاظتیں وہی ٹھہریں، صفائی جہاں’’نصف ایمان‘‘۔۔۔ نیکی اور اخلاق اگر خود تخلیق کئے جائیں، اپنے تجربے سے وہ باہر آئیں تو اپنی روح کا حصہ، اگر نیکی و اخلاق کا پیکج آسمان سے اُتارا جائے تو یہی حشر۔۔۔ اوپر سے اوڑھے غلافوں میں نیک سیرتی نہیں منافقت کی آماجگاہ ہی ہو سکتی تھی۔ انھوں نے اپنی نیکیاں خود بنائی ہیں، وہ عمل پیرا بھی ہیں، خودکار طریقے سے معاشرہ ریاست کے ساتھ، ریاست شہریوں کے ساتھ، لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ہر آن نیکی کرتے، اخلاق برتت، باہمی معاونت کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ ’’Sorry‘‘ اور ’’Thank You‘‘ سے فضا میں رَس گھلتا رہتا ہے۔۔۔ اور انسانوں کے باہم دوستی کا غیر محسوس رشتہ تشکیل پاتا رہتا ہے۔
حسن کشش رکھتا ہے، اپنی طرف کھینچتا، محو کرتا ہے۔ اپنی طرف دیکھنے، اپنے پاس بٹھانے پر مائل کرتا ہے۔ منتقم اور حس متھ کو گوارا نہیں، اگر انسان سے اس کی تخلیقی جبلّت چھین لی جائے، اس کی جستجو کا بٹن آف کر دیا جائے، اسے رنگوں، سُروں اور تصویروں سے کھلنے سے محروم کر دیا جائے، رقص و سرود اور خوشی و مسرت کی لمحاتی مستی حرام کر دی جائے۔ انسانی کائنات میں رنگ بھرنے والا نسائی وجود اور بدن تصویر گناہ بن جائے، تب اس پر سیاہی کے چھینٹے پھنکنے تقوے کو بچانے کے لیے ضروری قرار پاتے ہیں! سوال، اختلاف اور تنقید کو جب سزئے موت دے دی جائے، کھوج حرام، ایسی ذہنی دنیا میں بن جائے جہاں سوال نہیں، صرف جواب ہی جواب ہوں، بنے بنائے تیار شدہ باریش جواب، آسمان سے اترے ناقابلِ تغیّر جوابات۔ اور پھر ان کی متضاد تعبیرات اور تشریحات کا ایک لامتناہی سلسلہ۔۔۔ جو رہی سہی ہوش بھی گنوا دے۔۔۔ نہ کچھ سمجھ آئے نہ کچھ ہاتھ!
انسان کا سفر حیوانیت سے انسانیت (خود اپنا بنایا تہذیبی و ثقافتی سفر) کی طرف بڑھ رہا ہے، جس میں حریت فکر اور جمالیاتی ذوق نے بنیادی طاقت ور انجن کے طور پر کام کیا ہے۔ کیاکسی متھ کے چرنوں پر حریت فکر اور جمالیاتی ذوق کو تج کر انسان اپنا تہذیبی و ثقافتی انسانی سفر قایم رکھ سکتا ہے؟ کیا متھ زندگی پر موت کو ترجیح نہیں دیتی؟ کیا متھ آج پر کل کو اوّلین قرار نہیں دیتی؟ کیا متھ زمین پر آسمان کو اوّلیت نہیں دیتی؟ کیا متھ آرٹ پر رسوم (Rituals) کو ترجیح نہیں دیتی۔۔۔ روایات کو عقلیات پر۔ آج زندگی پر موت کو جو بخوشی ترجیح دی جا رہی ہے، جو ان سالوں کا مقدس کلمات کے ساتھ دوسرے انسانوں کو تیز دھار آلے سے ذبح کرنا یا خود کو بارود سے لپیٹ کر موت کے حوالے کرنا۔۔۔ بعد از موت (زندگی!) کے لیے۔ متھ حیات کی اس حد تک نفی اور اسے اس حد تک بے قدر (Devalue) کرتی ہے اور اس خطرناک نقطے تک پہنچا دیتی ہے، جہاں زندگی وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں اس کا خوفناک طریقے سے خاتمہ ہوتا ہے۔ یہ اس سفر کی انتہا تو نہیں۔۔۔ جو صحرا میں صدیوں پہلے حسن زندگی سے آشنا کرنے والے فنون (Arts) اور فطرت کی عطا کردہ لذتیں (Pleasures) خود پر حرام کر دینے سے ہوا تھا۔ تاریخ، تہذیب اور ثقافت کی سب علامتوں کو مٹا دینے پر تیار۔۔۔ ایک متھ کی خاطر، ایک متھ کے نام۔۔۔ جس کا پتہ تاریخ کے کسی لمحے کسی اور نے ہم کو دیا تھا۔۔۔ اور ہم نے آباء کی متھوں کو چھوڑ کر ایک نئی متھ کو سنگھاسن پر بٹھا دیا تھا۔ آج انسانی علم متھ کی پوجا کرنے کے لیے نہیں، خود انسان کو اور اس کے سفر کو سمجھنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ حد تو یہ ہے، آخری تجزیے میں انسان خود ہی سب متھوں کا مصنف تھا۔ اور ایک کے بعد دوسری کو تخلیق کر کے پہلی کو چھوڑتا رہا۔ یہ اس کے ذہنی بچپنے کا ایک مشکل اور طویل سفر تھا، جس سے وہ بالآخر اپنی ذہنی بلوغت کے ساتھ آزاد ہو گیا۔ زندگی تو اپنا فلسفہ آپ تھی، اپنی تعبیر آپ، اپنا سفر آپ، اپنی راہنما آپ۔۔۔ یہ خود ہی خود کو Define کر سکتی ہے۔ یہ اپنے رستے خود ہی بناتی ہے۔ یہ اپنے اندھیرے اور اُجالوں کا خود ہی تجزیہ کر سکتی ہے۔ سب آنکھیں اس کے اندر ہی لگی ہیں، سارے مفہوم اس کے اندر ہی ہیں۔ ہم نے خود ہی ٹٹولنا ہے، خود ہی کھنگالنا ہے۔ زندگی اور کائنات کا عمل یک رنگا نہیں، ’’ست رنگا‘‘ ہے۔ یہاں سب کچھ Diversityسے عبارت ہے۔ اسے کسی ایک نقطے پر مرکوز کرنا، ہونے کی نفی ہے۔ ایک رُخ کو امامت نہیں بخشی جا سکتی۔۔۔ زندگی، کائنات کے بے حساب روپ ہیں۔۔۔ بے حساب زاویے۔۔۔ بے حساب درجے۔
علم کو، آرٹ کو، رقص کو، اداکاری کو، مجسمہ سازی کو، شاعری کو، مصوری کو، ڈرامے کو، سینما کو، سازوں کو، رنگوں کو، موج کو، مستی کو، تفریح کو، ہنسی کو، کھیل کو انسانی زندگی سے نکال دیا جائے تو کیا وہ چوسے ہوئے آم کی طرح نہ ہو جائے گا۔۔۔ زندگی کے رَس سے محروم۔۔۔ ایک انبوہ کثیر۔۔۔ کتنی غارت گری کا سبب بن سکتا ہے۔ موت زندگی پر غالب ہو رہی ہو، جہالت پر، جذبات پر، عقل پر، خیالی سچائی، سامنے کی ٹھوس صداقت پر، روایت تحقیق پر۔۔۔ ماورائیت مادے پر۔۔۔
انسان نے کبھی شکست نہیں کھائی، زندگی نے کبھی ہار نہیں مانی۔ اس نے آگ اور خون کے دریا پار کئے ہیں۔ اعتدال، انصاف، حسن سے محبت، روادار اور Pluralism پھر جیتے گی۔۔۔ موت کے فلسفے اور موت کے سامان تلف ہوں گے۔ خواہ وہ کسی طرف سے بھی اُٹھیں۔ زندگی اور زندہ رہنے کی اقدار جیتیں گی۔ زندگی کی خوبصورت عام ہو گی۔۔۔ جنت اسی زمین بنانی اور بسانی ہے!!!

About ارشد محمود 14 Articles
asif