بس میرا کہا قول فیصل

imtiaz Alam aik Rozan writer
امتیاز عالم، صاحبِ مضمون

بس میرا کہا قول فیصل

(امتیازعالم)

عدالتی فیصلہ تو آنے دیں۔ پھر دیکھیں کہ آسمان کیسے رنگ جماتا ہے۔ لیکن ایک آفت ہے کہ میڈیا پہ ٹوٹے نہیں رُکتی۔ بھانت بھانت کے لال بھجکڑ ہیں اور لن ترانیوں کی نہ کوئی حد! سیاسی منہ زور گھوڑے اور جواری بھی بازیاں لگانے کے لئے بے چین۔ پانامہ لیکس کیس میں وزیراعظم نواز شریف اور اُن کے بچوں کےبارےمیں سپریم کورٹ کیا حکم صادر کرتی ہے اور کیا نہیں، کسی کو کیا پروا۔ جیسے کیسے بس وزیراعظم کو فارغ کر دیا جائے اور نواز لیگ کی لاش پر اپنی فتح کے جھنڈے لہرا دیئے جائیں۔ ماضی میں بھی سیاستدان ایک دوسرے کے ساتھ یہی کرتے رہے ہیں۔ بھٹو صاحب کو پھانسی لگوانے کے لئے پی این اے والوں نے ’نظامِ مصطفی‘ کے مقدس نام پر کیا کیا ڈھونگ نہیں رچائے، ہم بھولے نہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ بھی یہی کچھ کیا جاتا رہا اور بالآخر اُنہیں شہید کر کے راہ سے ہٹا دیا گیا۔
اب غالباً اُسی طرح کی مشقِ ستم کا نشانہ میاں نواز شریف ہیں اور انھیں فارغ کر دینے کے لئے ہواؤں میں گونج ہے۔ بھاڑ میں گئی پانامہ لیکس میں شامل سینکڑوں لوگوں کی مبینہ کرپشن، بس احتساب کی تلوار سرعام قتل کی ترغیب ہے۔ عدالتِ عالیہ کو دباؤ میں لایا جا رہا ہے کہ بس شہادتیں اور ثبوت ہوں نہ ہوں، جو ہم سمجھتے ہیں وہی ہے قولِ فیصل! اُس سے روگردانی کا مطلب ہے کہ عوام کی انصاف کی اُمنگوں کا قتل۔ ڈاکٹر عاصم کی 19 مہینے بعد سندھ ہائی کورٹ سے خرابی صحت کی بنیاد پر ضمانت کیا ہوئی کہ ’’ڈیل ہوگئی، ڈیل ہوگئی‘‘ کا طوفانِ بدتمیزی بپا کر دیا گیا۔ یہ بھولتے ہوئے کہ اسی سندھ ہائی کورٹ نے پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کے بڑے بڑے انتظامی فیصلوں کو اُلٹ کر رکھ دیا ہے، اس سے زیادہ ایک سیاسی انتظامیہ کی پکڑ کیا ہوگی جو عدالت ہائے عظمیٰ اور عالیہ کے ہاتھوں صوبائی حکومت کی نہیں ہو رہی۔ ابھی جو حشر عدالتِ عظمی نے قومی احتساب بیورو (NAB) میں کی گئی 100 سے زائد تعیناتیوں کا کیا ہے، احتساب والوں کے احتساب کی اس سے اچھی مثال اورکیا ہوگی۔

بس لاڈلے کھلاڑی کو سیاسی چھکا لگانے کے لئے گیند نہیں سر چاہئے۔ یا پھر کہنہ مشق شکاری کو احتساب کا (شکار کردہ ہی سہی) سیاسی شکار چاہئے اور یہ بھولتے ہوئے کہ وہ خود ایک دہائی سے زیادہ دامِ صیاد کا شکار رہے ہیں۔ پھر گلہ کیسا کہ بی بی کہتی تھیں کہ ’’ہمارے حق اور اُن کے خلاف بھی فیصلہ نہیں ہوا۔‘‘ چھاج بولے تو بولے، چھلنی بولے تو کیا بولے۔ حساب و احتساب تو سبھی کا ہو اور کوئی معزز استثنیٰ کیوں۔ اندھیر نگری اور چوپٹ راج میں کوئی ہے جو بتائے کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ ہماری قانونی معیشت کا دو سے تین گنا غیررسمی کھاتوں، نقد لین دین، ہنڈی، بے نام کھاتوں اور جائیدادوں اور سمندر پار کمپنیوں کی بھول بھلیوں میں سمایا ہے اور پھل پھول رہا ہے۔ اوپر سے لے کر نیچے تک ایک نظامِ رشوت ہے جس کا ہمیں صبح شام پالا ہے۔ کیا پولیس، کیا عدلیہ، کیا نوکرشاہی اور کیا وہاں جہاں بات کرتے پَر جلتے ہیں۔ ایسے کتنے ہی قومی کھاتے ہیں، جہاں معلوم نہیں کہ کیا کہاں جاتا ہے۔ اوپر سے جو جتنا طاقتور ہے، اُتنا ہی مراعات یافتہ، کوئی پوچھے تو خیر نہیں۔ ذرا سیاسی جماعتوں بشمول مومنوں کی مذہبی جماعتوں سے کوئی اُن کے غصب کی بابت پوچھ کر تو دکھائے۔ اور جس کی ایمانداری پر لوگ آنکھیں بند کر کے پیسے لُٹاتے ہیں، ذرا اُس کی جماعت کو ملنے والے بے حساب چندوں کا کوئی حساب تو لے کر دکھائے اور اپنے کپڑے پھڑوانے کی فکر کرے۔ حساب تو 12 گرہ کپڑے کا بھی چاہئے، بھلے آپ امیر المومنین ہی ہوں یا پھر مقدس گائے۔ لیکن مملکتِ خداداد میں تو احتساب ہوا بھی ہے تو صرف سیاستدانوں کا۔ یقیناًعوام کے منتخب نمائندوں کا احتساب سب سے پہلے ہو لیکن اوروں کو کس نے 100 چوہے کھا کر حج پر جانے کی راہداری دی ہے۔ جہاں بس نہیں چلتا، وہاں بغلیں بجانے کا شوق پورا کرنے کے کھسیانے پن کا کیا فائدہ۔

اب ذرا آتے ہیں پانامہ لیکس کی جانب۔ شکایت کنندگان نے ٹھیک ٹھیکلئے عدالتِ عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور عدالت نے اُن کی ’’انصاف ہوتے ہوئے دِکھے بھی‘‘ کی اِچھّا بھی پوری کر دی۔ دستاویزات کے انبار لگا دیئے گئے اور اتنے کہ کھنگالے نہ بنے۔ لیکن ثبوت ندارد۔ ایسے اخباری تراشوں پہ پکوڑے کھانے کی پھبتی ہی مناسب تھی۔ پھر بات وزیراعظم کے قومی اسمبلی میں دیئے گئے بیان پہ جا کے ٹکی کہ وہ ’’سچے اور امین‘‘ نہیں رہے۔ لہٰذا نااہلی کے سزاوار۔ بھئی بات تو مبینہ طور پر ٹیکس چوری اور کالے دھن کی سفیدی کی تھی، آٹا گوندھتے ہلنے کی کہاں تھی۔ اور جب مدعا علیہ (Defendants) کے وکلاء جوق در جوق اپنے اپنے موکلوں کے لئے پیش ہوئے تو ہر کوئی سر دُھن کے رہ گیا۔ میاں نواز شریف کا تو نام ہی نہ تھا۔ سو وہ معاملہ بالغ اور خودمختار بچوں کی طرف بڑھا کر مُکتی ہوئے۔ بیچ میں آن پڑیں مریم نواز جنہیں ثابت کرنا تھا کہ وہ والد بزرگوار کی دست نگر نہیں اور نہ ہی سمندر پار کھاتوں کی منفعت بخش رُکن۔ اور یہی وہ کڑی تھی جس پر وزیراعظم پہ کوئی آنچ آ سکتی تھی۔ اینٹی کلائمیکس تو تب ہوا جب حسن نواز نے (جو ببانگِ دہل لندن فلیٹس کے مالک ہیں) تاریخ کے مٹے ہوئے اوراق کی جانب رجوع کر کے عدالتِ عالیہ کو روحوں سے استفسار کرنے کی راہ دکھائی۔ مطلب یہ کہ دادا حضور جانیں اور اُن کے کاروباری قطری حصہ دار۔ اللہ اللہ خیر صلہ! نہ ثبوت استغاثہ کے پاس اور نہ پیسے کی لکیر کا کوئی نام و نشان۔ اب عدالت جائے تو کہاں جائے، مُردوں کو تو طلب کرنے سے رہی۔ اب سوال ہے کہ مردے کون اُکھاڑے، اعلیٰ عدلیہ تو کوئی تحقیقاتی ادارہ نہیں، البتہ حقائق سے پردہ اُٹھائے جانے کے جتن سے اُسے کون روک سکتا ہے۔ انصاف کا تقاضا بھی ہے اور قانون کا احترام بھی ضروری۔ 20 سال تک یاد رکھے جانے والے فیصلے کے انتظار ہی میں بھلا ہے۔ بھلے اپنے خلاف کیے گئے فیصلے کو کسی نے مانا نہیں اور کسی کے حق میں کیے گئے فیصلے کی توصیف مخالفوں سے سنی نہیں۔ ابھی بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ قانون کی حکمرانی، چہ معنی دارد!

سیاسی اور برتر مخالفوں کو دوسرے طریقوں سے میدان سے باہر کرنے کی آرزوئیں اور کوششیں بہت پرانی ہیں۔ جب کھلے میدان میں مقابلہ نہ ہو تو پیچھے سے چھرا گھونپنے سے کوئی کیوں باز رہے۔ لیکن ہم کیا رہے ہیں؟ ہم نے تو کرپشن جیسے موذی اور وبائی مرض کو بھی دو چار شخصیتوں کے مبینہ گھپلوں تک محدود کر دیا ہے۔ کرپشن کے نظام سے توجہ ہٹانے کا اس سے کامیاب نسخہ اور کیا ہوگا۔ اسی طرح احتساب کو بھی ہم نے قرونِ اولیٰ کی قہر انگیزیوں کے مماثل کر دیا ہے۔ اگر ہزار دو ہزار لوگوں کی گردن اُڑانے سے لوگ متقی و پرہیزگار ہو جاتے تو کبھی کے ہو چکے ہوتے۔ ہمارے ملک میں حساب کتاب، جوابدہی، روک تھام، جزا و سزا کا نظام ہے ہی نہیں۔ اِدھر پھنسے، اُدھر نکلے، بس کرپشن گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ! بھئی! ماضی کے سایوں کا تعاقب کرتے کرتے ہم ہانپ کر رہ گئے ہیں۔ اب ذرا توجہ کرپشن کے اس فراڑی سرمایہ دارانہ نظام اور نوکرِ شاہی مشینری کی کرایہ خوری پہ بھی کر لی جائے۔ پولیس، نوکر شاہی، عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں، ٹھیکوں، خرید و فروخت، اسٹیکس، تفتیش اور ریگولیٹری اداروں کی اصلاح کیے بغیر آپ کرپشن کا خاتمہ کر سکتے ہیں نہ احتساب کا کوئی موثر نظام لا سکتے ہیں۔

اگر اخلاق کے اسباق پڑھانے سے جرم و گناہ کی دُم نے سیدھا ہونا ہوتا تو کبھی کی ہو چکی ہوتی۔ یہ روحانی و اخلاقی مسئلہ سے زیادہ دنیاوی نظام کی اصلاح کا معاملہ ہے۔ جہاں رشوت بنا کام نہ ہو، رشوت کیسے ختم ہوگی۔ جہاں غبن بنا گھر نہ چلے، غبن کیسے ختم ہو، جہاں قومی ذرائع کو نجی ذرائع سمجھا جائے، وہاں اُنھیں کون بچائے۔ جہاں سیاسی کارکن حصہ مانگیں، وہاں پارٹیاں کیسے جمہوری و شفاف ہوں۔ ایسے میں بی جمہوریت کو طعنے دینے والے پرہیزگار حضرات ذرا اپنے مدرسوں اور مسجدوں کے چندے کا بھی تو حساب دیں۔ حساب چاہئے حساب! خفیہ کھاتوں کا بھی اور خفیہ ہاتھوں کا بھی۔ ملک دو لخت کرنے والوں کا بھی اور آئین توڑنے والوں کا بھی!! اور یہ صرف جمہوریت، قانون کی حکمرانی، ریاستی مشینری کی شفافیت اور راست بازی، جان کاری کے حق اور احتساب کے ہمہ گیر نظام کے قدم سے ہی ممکن ہے۔ حساب چاہئے، حساب! اور ہے کوئی کہ جس کا نہ ہو!

میری بُکل دے وچ چور، نکل پیا کجھ ہور