نا تمام ابھی نا تمام ہے شاید

تبصرہ کتاب

نا تمام ابھی نا تمام ہے شاید

نا تمام ابھی نا تمام ہے شاید

(ارشد علی)

جب چال ڈھال میں ایسی تبدیلی آ جائے کہ قدم اٹھاتے ہوئے زمین کو کھینچ لینے کا سا انداز ہو اور قدم رکھتے ہوئے زمین کو چیر دینے کا سا عزم تو ایسے میں کئی فطری تقاضوں سے انسان کی آشنائی ہونے لگتی ہے اور جبلت انسان کو اپنی جانب پکارنے لگتی ہے۔ لیکن جس سماج میں ہم سانس لے رہے ہیں وہاں فطر ت کی اس پکار کا گلہ گھونٹ دینے اور ان جبلی تقاضوں پر جبرا روک لگانے کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ پھر بھی کہیں پس پردہ یہ تقاضے اپنی راہ کسی نہ کسی صورت نکالتے نظر آتے ہیں ۔ جیسے جیسے انسانی شعور میں پختگی آنے لگتی ہے وہ ان سے بہتر طور نمٹنے کی صلاحیت حاصل کرتا جاتا ہے۔ لیکن اس کچی عمر کی سیدھی راہ پر کوئی الٹا قدم پڑجائے تو یہ گلے کا وہ طوق ثابت ہوتا ہے جو رہتی عمر تک انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتا اور یہ خطاء تا دم مرگ انسان کو خوار کرنے کا کام کرتی ہے۔ اور جب ایسا واقعہ کسی سرمد کی بجائے کسی صائمہ کی زندگی میں ہو تو پھر پورا سماج اپنی نا آسودگیوں کا بدلہ اس اکیلی جان سے لینے کے درپے ہو جاتا ہے۔ ہمارا سماج جہاں عورت ہمیشہ سے تیسرے درجے کی مخلوق رہی جہاں کبھی نروان پانے کے لیے اس تیاگ دیا گیا اور کبھی اسے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے آگ پر سے گزرنا پڑا پھر بھی جنگل باسی ہونا ہی مقدر ٹھہرا ۔ یشو دھرا اور سیتا کی یہ کہانی صدیوں سے صائمہ ، نسرین ، کلثوم اور رضیہ کے روپ میں خود کو دہراتی چلی آ رہی ہے۔
صائمہ جو ایک سکول جاتی کچی عمر کی لڑکی ہے اور اپنی فطری پکار پر صرف ایک بار سیدھی راہ پر الٹا قدم رکھنے کی مرتکب ہو جاتی ہے۔ اور پھر پورا سماج اس کے استحصال پر کمر بستہ ہو چکتا ہے اور اسے دھتکارتا نظر آتا ہے ۔ افسوس کا مقام ہے کہ دھتکارے جانے کا یہ عمل گھر کی چار دیواری سے ہی آغاز ہوتا ہے اور وہ آدھی ادھوری زندگی جی کر قبر کی گہرائیوں میں اتر کر ہی اس وبال سے آزاد ہو پاتی ہے۔ اس دوران اس کی ہمجولیاں اور اس کے ساتھ زندگی گزارتے کردار اب چاہے وہ ڈاکٹر وقاص ہو یا کلثوم یا نسرین یا خود اس کی بڑی بہن باجی رضیہ، ماں یا اماں حاجن سب کی زندگی اس کی زندگی کا ہی پر تو دکھائی دیتی ہے یا اس کی زندگی ان کی ہی زندگیوں کا تسلسل ہے بس فرق اتنا کہ یہ ان سے کہیں زیادہ بے رنگ اور پھیکی ہے۔ عاصم بٹ نے اپنی نثر سے اس داستان کی تاثیر میں رنگ بھرنے کی مقدور بھر کوشش تو کی ہے اور اس میں کسی حد تک کامیاب بھی ٹھہرے ہیں۔ جیسا کہ مستنصر حسین تارڑ صاحب نے بھی کہا ہے۔
“عاصم کی اتھری نثر بھی منہ زور ہے اسے زیر کرنا بہت مشکل ہے اس کے ناولوں کے قبضے میں جو کردار ہیں، وہ اتنے منہ زور ہیں کہ فکشن کے میدان میں بگٹٹ بھاگتے ہیں اور قابو میں نہیں آتے”
یہی وجہ ہے کہ یہ منہ زور کردار کلے سے بندھے نہ رہ سکے اور اپنا دامن چھوڑا کر نکل بھاگنے کی کوشش میں رہے۔ کہیں کہیں عاصم بٹ ان کو زیر کر پائے اور کہیں کہیں اس میں ناکام بھی ہوتے رہے۔ جس سے کہانی میں لنکس اور تواتر کی کمی در آئی ۔ پھر کچھ ایسی باتیں/ مناظربھی کہانی کا حصہ بنا دئیے گئے جو متن میں گوندھ نہ سکے اور خلاف واقع ہونے کی وجہ سے زمین میں گھڑے کسی ایسے پتھر سے مشابہ دکھائی دینے لگے جس سے قاری ٹھوکر کھا کر گر سکتا ہے۔ ایسا ہی ایک کردار اماں حاجن ہے اماں حاجن جیسے کردار ہمارے گلی محلوں میں اکثر مل جاتے ہیں۔ جن کی اپنی زندگیاں رنج و الم اور ادھورے پن کا عملی نمونہ ہوتی ہیں، لیکن وہ دوسروں کی زندگیاں مکمل کرنے کی سعی کر کے اپنے ادھورے پن کا مداوا کرنے کی کوشش میں مصروف رہتی ہیں۔ اماں حاجن کے کردار میں لکھاری سے جو چوک ہوئی وہ یہ کے اماں حاجن کا شوہر کریم اسے چھوڑ کر یورپ چلا جاتا ہے اور کبھی وآپس نہیں لوٹتا اماں حاجن اپنی گزر اوقات دایہ کا کام کرکے یا بچوں کو ناظرہ قرآن پڑھا کر کرتی ہے۔ لیکن جب پنتیس سال بعد کریم کا خط آتا ہے تو
“ایک روز لاہور کے مکان کے پتے پر اماں حاجن کو کریم احمد کا خط موصول ہوا جسے اماں نے محلے کی ہر عورت اور دیہات کے ہر پڑھے لکھے فرد سے بار بار پڑھوا کر سنا”
(صفحہ : 26(
یہ وہ پہلا پتھر تھا جس سے قاری کو ٹھوکر لگتی ہے کہ اماں اگر قرآن پڑھا رہی ہے تو وہ خود کریم کا خط پڑھنے سے کیوں قاصر ہے ۔ (اس سوال کو میں نے فیس بک پر بھی مکالمے کے لیے رکھا ، جہاں اکثریتی رائے ، تجربات اور مشاہدات یہی سامنے آئے کہ ناظرہ قرآن پڑھنے کے اہل اردو پڑھنے کے بھی اہل ہوتے ہیں) اور اماں جو قرآن کی استانی ہے وہ اردو نہیں پڑھ سکتی حقیقت کے قطعی برعکس معلوم ہوتا ہے۔
پھر ایک منظر بیان کرتے ہوئے صائمہ کے مکان کو ایک منزلہ بتایا گیا اور
“صائمہ کے کمرے کی چھت پر ایک طرف سٹور روم کی طرز کی برساتی بنی ہوئی تھی”
(صفحہ : 49(
لیکن اس کے بعد جب بھی صائمہ کے کمرے کا زکر ہوا تو وہ چھت پر بتایا گیا جب وسیم اس سے چوری چھپے ملنے آتا تب بھی
“کچھ دیر بعد وہ دونوں سیڑھیاں چڑھ کر صائمہ کے کمرے میں چلے گئے”
(صفحہ : 59(
اور جب صائمہ آخری بار باجی کی وفات کے بعد گھر آئی
“اوپر اس کے کمرے پر بھی تالا پڑا تھا جس کی چابی وہ نہیں ڈھونڈ پائی”
(صفحہ :116(
ہر مقام پر صائمہ کے کمرے کو بالائی منزل پر بتایا گیا اور صائمہ کے کمرے کی چھت پر برساتی نما سٹور روم بھی ہے ۔ جہاں چارپائیاں وغیرہ رکھی جاتی ہیں اور یہ ایک منزلہ گھر ہے۔ یہ صورتحال قاری کو چکرا دیتی ہے اور وہ اپنے تخیل میں اس گھر کا کوئی بھی منظر بنانے سے بری طرح قاصر رہتا ہے۔
صائمہ جو صرف سیڑھیوں پر وسیم کے ساتھ دیکھے جانے پر اپنی زندگی کی راہ گم کر بیٹھتی ہے، اور گھر محلے اور پورے علاقے میں ویشیا کے طور پر بدنام ہو کر گھر چھوڑنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ وہ کس علاقے میں اور کس طرح کے لوگوں میں زندگی گزار رہی ہوگی اور اس کی ذہن سازی کس قسم کی ہوئی ہوگی کوئی بھی باآسانی اس کا تصور کر سکتا ہے۔ لیکن وہی صائمہ جو سکول میں پڑھتی ہے اس کا طرز عمل اس تمام تر کی نفی کرتا دکھائی دیتا ہے
“صائمہ نے کھڑکی کے برابر دیوار پر لگی ایک چھوٹی سی کیل سے ، جس سے پہلے آئینہ ٹنکا ہوا تھا دھاگہ باندھ کر یہ خط ٹانک دیا”
(صفحہ :52(
اور پھر روز سونے سے پہلے اور اٹھنے کے بعد اس خط کو پڑھنا اس کا معمول بن گیا۔ اب اس درجہ بے وقوفانہ دلیری کے طرز عمل کا تصور ہی اس کردار سے محال دکھائی دیتا ہے اور پھر اس پر یہ خط اس کے لیے کبھی کسی مشکل کا باعث بھی نہ بنا نری اچھنبھے کی بات معلوم ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ ناول میں زمانی اعتبار سے بھی چیزوں کو خلط ملط کیا گیا ہے جیسے کہ وسیم کا کردار صائمہ کے ساتھ پکڑے جانے کے ایک ماہ بعد تک بسلسلہ تعلیم فلپائن بھیج دیا جاتا ہے اور وہ صائمہ کو جانے سے پہلے بذریعہ خط اس کی اطلاع دیتا ہے اور امیدیں دلاتا ہے بعد ازاں
“ابتدائی کچھ عرصہ صائمہ کو فلپائن سے وسیم کے خط باقاعدگی سے ملتے رہے جن میں زیادہ تر انہی الفاظ کی بھر مار ہوتی اکثر وہ دیار غیر میں اپنے شب و روز کے معمولات کا بہت تفصیل سے زکر کرتا ۔ ان خطوں کا صائمہ نے ابتدائی دو ایک خط کے بعد پھر کبھی جواب نہیں دیا۔ فلپائن سے بھی خطوں کی آمد کے تواتر میں پہلے بے قاعدگی پیدا ہوئی اور پھر یہ سلسلہ منقطع ہو گیا”
(صفحہ :66-67(
وسیم کے جانے کے بعد صائمہ حاملہ ہو جاتی ہے اور وہ اسے ایک طویل خط لکھتی ہے جس کے جواب میں وسیم اسے ابارشن کا مشورہ دیتا ہے کہ شادی کے بغیر یہ سب بدنامی کا باعث ہے اور صائمہ اس خط کا جواب نہیں دیتی ۔ اب یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ مہینے بھر بعد وسیم گیا ، اس کی خط وکتابت بھی شروع ہوگئی صائمہ نے جب خط لکھا تو وہ پانچ ہفتوں کی حاملہ ہے وسیم کا جواب اس کے دو ہفتوں بعد آیا جس کا جواب صائمہ نے نہ دیا۔ اب یہاں ایسا گنجل بن جاتا ہے جو مجھ سے تو سلجھائے نہیں سلجھ رہا کہ ایک ماہ بعد وسیم فلپائن گیا اس نے خط لکھا اور اپنا پتا وغیرہ دیا اس کے جواب میں صائمہ نے خط لکھا تو فلپائن جاتے ہی ایک ہفتے میں یہ کیونکر ممکن ہوا اور اگر جانے سے پہلے وسیم اپنا پتا وغیرہ دے گیا تھا اور پہلا خط صائمہ نے لکھا اور اس کے جواب میں آنے والے خط کا جواب تک نہ دیاتو وہ کونسے خطوط تھے جن کا صائمہ جواب دیتی رہی۔ یہ ایک ایسا قضیہ ہے جو قاری کو الجھا کر رکھ دیتا ہے۔
ایسا ہی قضیہ ڈاکٹر وقاص کا کردار ہے جو صائمہ کی زندگی میں امید جگاتا ہے اسے اپنے پیروں پر کھڑا کرتا ہے ۔ لیکن پھر اچانک وہ منظر سے غائب ہو گیا اور چھ سال کا عرصہ بیت گیا اس چھ سال میں صائمہ جاب بھی کرتی رہی ، ڈاکٹر وقاص ہفتے میں تین راتیں صائمہ کے فلیٹ پر بھی گزارتا رہا اور اچانک صائمہ کو یہ زندگی بے رنگ دکھائی دینے لگی اس نے جاب چھوڑ دی اور پتا چلا کہ ڈاکٹر کی آمد و رفت میں اچانک مہینوں کا تعطل آچکا تھا۔ اب اتنی بڑی بڑی تبدیلیاں ایک لگی بندھی ڈگر پر چلتے ہوئے کیسے اور کیونکر ممکن ہوئی ؟ لیکن اس سوال کے جواب میں ناول کا متن مکمل خاموش ہے۔ ایسے کئی سوال ناول کی قرآت کے دوران قاری کے ذہن میں سر اٹھائے جاتے ہیں جو آخر تک لا ینحل رہتے ہیں۔
لیکن اختتام کا حصہ جہاں صائمہ کو مختلف نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہوتے دکھایا گیا اور کیسے پہ در پہ ہونے والے حادثات کے سامنے بے بس ہو کر وہ تنہائی ، بے خوابی ، مد ہوشی اور نیم پاگل پن کا شکار ہو رہتی ہے اور پھر یہی کیفیت ایک روز اس کی تیسری اور کامیاب خود کشی کا باعث بنتی ہے۔ یہ حصہ اس ناول کا بیانیے کے اعتبار سے سب سے خوبصورت حصہ ہے جس میں روانی قاری کو ساتھ لیے بہائے چلی جاتی ہے اور اس کی انگلی اس وقت چھوڑتی ہے جب آنکھوں میں نمی تیرنے لگتی ہے اور بلقیس کے کلینک پر بھولی بھالی صورت والی بن بیاہی لڑکی پیٹ سے ہونے کے باعث بیٹھی صائمہ کی تصویر بنی آنسو بہا رہی ہوتی ہے۔ ناتمام میں بعض مقامات پر ناول جیسی گرفت نہ ہونے اور مناظر کے دھندلے یا روٹین کی فلمی سی کہانی کا منظر پیش کرنے کے باوجود اس کو پڑھنا کسی صورت ناخوشگوار تجربہ نہیں رہا۔

لکھاری کی فوٹو
ارشد علی، صاحب تحریر