اوم پوری : ہندی سنیما کی رونق اٹھ گئی

(زمرد مغل)

’’میں شام کو ساڑھے پانچ بجے اوم پوری کے گھر گیا تھا وہاں ان کا ایک انٹرویو چل رہا تھا انٹرویو ختم ہونے کے بعد اوم پوری جی نے مجھ سے کہاایک تقریب ہے ہمارے ساتھ چلو گے ؟میں نے کہا مجھے تو دعوت ہے نہیں میں کس طرح جاؤں پھر اوم پوری جی نے کہا اچھا ٹھیک ہے مجھے وہاں تک چھوڑ دو ۔پھر ہم گاڑی سے منوج پاھوا کے گھر پہنچے وہاں

picture of author
زمرد مغل

اوم پوری جی کی کسی سے ہارٹ ٹاک ہوئی اس کے بعد اوم پوری جی نے کہاکہ چلو یہاں سے چلتے ہیں ہم دس ساڑھے دس بجے وہاں سے چل پڑے ۔پھر اوم پوری جی نے کہا کہ چلو اپنے بیٹے ایشانت سے مل لیتے ہیں سوسائٹی کے باہر پہنچے انہوں نے ایشانت کوفون کیا ایشانت تب تک پارٹی میں تھا ایشانت نے کہا پارٹی میں آجاو تو اوم پوری جی نے کہا پارٹی میں آجاو ۔اوم پوری نے ایک ڈرنک لی اور کہا کہ اگر ڈرنک ختم ہونے تک بیٹا نہیں آیا تو چل دیں گے ۔پھر ہم کچھ دیر بعد وہاں سے چل پڑئے بیٹے کے حوالے سے اوم پوری کافی فکر مند تھے کہہ رہے تھے سب کچھ میں دیتا ہوں پیسا ،فلیٹ ،نوکر لیکن بیٹے سے ملنے نہیں دیتے پھر ہم اوم پوری جی کے گھر چلے گئے رات کے ساڑھے گیارہ بج رہے تھے چلتے وقت مجھ سے گلے ملے بولے بیٹا مجھے تم پہ فخر ہے میں تمارے ساتھ ہوں پھر میں نیچے آگیا اپنی کار سے گھر چلا آیا ۔جب میں نے گاڑی پارک کی تو دیکھا کہ سیٹ پر اوم پوری جی کا بٹوہ پڑا ہے ان کا بٹوہ کار میں رہ گیا تھامیں نے سوچا اب رات کے بارہ بج رہے ہیں تو کیا فون کرناصبح فون کر کے انہیں بتا دوں گا پھر میں نے ساڑھے چھ بجے اوم پوری جی کو فون کیا کوئی جواب نہیں ملا میں نے ان کے ڈرائیور کو فون کیا اور کہا کہ اوم پوری جی کو پرس لے جانا ۔آٹھ بجے کے قریب ان کے ڈائیور کافون آیا اور اوم پوری جی کے انتقال کی خبر دی۔‘‘(خالد قداوئی جو اوم جی کی آنے والی فلم ڈائریکٹ کر رہے تھے نے یہ خبر بی بی سی کو دی)
اس طرح ہندی سنیما کے یہ عظیم شخصیت ہم سے جدا ہوگئی۔اوم پوری کی پیدائش انبالہ میں ۱۹۵۰ میں ایک غریب گھرانے میں ہوئی والد پہلے انڈین آرمی اور پھر ریلوئے میں ملازم ہوئے ریلوئے کی ملازمت کے زمانے میں ان پر چوری کا الزام لگا نوکری تو گئی ہی ساتھ میں جیل کی ہوا بھی کھانی پڑی۔دو بھائی گھر کی ذمہ داری ماں کا سایہ اور ساتھ بچوں نے ہار نہیں مانی بڑے بھائی نے قلی کی نوکری کی اور اوم پوری جی ایک چائے والے کے کھوکے پر نوکری کرنی پڑی۔ایک بچہ جس نے خواب تو کچھ اور دیکھ رکھے ہوں زندگی کو اپنے طریقے اور اپنی شرطوں پر جینے کا عزم کر رکھا ہو تو وہ کیسے اپنی زندگی کو ایسے ایسے پل پل مرنے دیتا ۔ایک شخص جس کا خواب فلم ہو تھیٹر ہو وہ کیسے کہیں ٹھہرتا قدم لاکھ لڑکھڑائے زمانے کی ہر مصیبت کا بڑی ہمت سے سا منا کیا ابتدائی زندگی میں چھوٹے چھوٹے رول کرنے لگے وہ بھی لوکل تھیٹر میں یہیں ان کی ملاقات پنجابی ایکٹر اورڈائریکٹر نیلم مان سنگھ سے ہوئی ۔نیلم مان سنگھ کے ساتھ پہلی بار اوم پوری جی کو نیشنل اسکول آف ڈرامہ آنے کا موقع ملا اور ان کی ملاقات ابراہیم القاضی سے کروائی ۔
۱۹۷۳ میں اوم پوری کا داخلہ این ایس ڈی میں ہوگیاکلاس میں ساتھ ملا نصیرالدین شاہ کا اور اس طرح این ایس ڈی سے شروع ہونے والی یہ دوستی تاحیات قائم رہی اور اس معمولی سی شکل و صورت والے ان دودوستوں نے ہندی سنیما کو بے شمار لازوال فلمیں دیں ۔بقول نصیرالدین شاہ کے اس نے اوم پوری سے بہت کچھ سیکھا ہے خاص طور سے ایکسپریشن ۔۱۹۷۶ میں پہلی بار انہیں بڑے پردے پر بریک ملا وہ اس فلم کا نام تھا گھاسی رام کوتوالی ۔تب تک اوم پوری تھیٹر کرتے رہے ۔نصیرالدین شاہ نے ان کی ملاقات شیام بینیگل سے کروائی جو ہندی سنیما کے عظیم ڈائریکٹر کے طور پر جانے مانے جاتے ہیں شیام بینیگل کے ساتھ انہوں نے فلم آکروش میں کام کیا شیام کی ڈائریکشن اور اوم پوری کی ایکٹنگ نے اس فلم کو یادگا ر بنا دیا ۔ہندی آرٹ اور کمرشل فلموں کے اس کردار نے کئی کردار نبھائے کئی کمرشل ہٹ فلمیں دیں اور کئی آرٹ فلموں میں اپنی اداکاری سے نئے باب رقم کہیے۔ایسا بہت کم ہوا ہے کہ کوئی شخص آرٹ فلموں اپنی ایک مخصوص پہچان رکھتا ہو اور پھر اسے کمرشل سنمیا بھی اسے طرح قبول کرئے ،شبانہ آعظمی،نصیرالدین شاہ،سمیتا پاٹل کے علاوہ اگر کسی نے ہندی سنیما کے کمر شل اور آرٹ فلموں میں یکساں مقبولیت پائی تو وہ نام تھا اوم پوری جی کا۔
اوم پوری نے پنجابی فلموں میں بھی کام کیا ،انگریزی فلمیں پاکستانی میں بننے والی فلم میں بھی کام کیا ۔کہی زمانے تک لوگ ہندی سنیما کے ویلن امریش پوری اور اوم پوری کو بھائی سمجھتے رہے ہیں ہم بھی اپنے بچپن اور بہت بعد تک بھی امریش پوری اور اوم پوری کو بھائی سمجھتے رہے ہیں ایک تو پوری ہونے کی وجہ سے اور دوسرے بہت حد تک آواز میں مشابہت بھی تھی حالانکہ دو الگ چھوڑ کے ایکٹر تھے ۔اوم پوری اپنے خاندان مین واحد ایسے شخص تھے جن کاتعلق فلم سے تھا۔اوم پوری اپنی فلموں میں ہندستانی معاشرے میں پھیلی برائیوں کو پیش کرتے رہے ہیں ان کی ہر فلم اپنی جگہ ایک نیا سفر تھی ہندی سنیما کے لئے ان کی فلمیں ہمیں فلمی دنیا کے اس شورشرابے میں ایک ایسے احساس سے روبرو کرواتی تھیں جو معاشرے کامجموعی درد ہے اور اس درد اور درد کے احساس کے ساتھ ہم سفر کرتے کرتے کہاں تک آگئے ہیں کہ اگلا قدم پچھلے قدم سے منزل سے دور لے جاتا ہے ۔ہم سب ایک ایسی دنیا خلق کرنئے میں لگے ہیں جو ہماری زندگی کو تو خوبصورت بنائے مگر دوسرے کی زندگی کی کچھ خبر نہ ہو ایسے میں ہم ایک بہتر معاشرے کی تشکیل کیسے کرسکتے ہیں ۔ایسے میں کبھی کبھی ہندی سنیما کی طرف سے ایک آواز سننے کو ملتی تھی جو ہمیں ہماری ذمہ داری کا احساس دلاتی تھی اور ہمارے آس پاس کیا کچھ کتنا بدل گیا ہے کتنا غلط ہوگیا ہے اس کی طرف ہماری توجہ دلاتی تھی اور وہ آواز تھی اوم پوری کی آواز جو اب ہمیں سنائی نہیں دے گی ۔اردو کے مشہور افسانہ نگار غلام عباس نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ وہ اور ان کے دوست ایک فلم دیکھنے گئے ہم باہر کھڑئے تھے تو ایک بھکارن اپنے بچے کو گودھ میں اٹھائے بھیک مانگنے لگی تو ہمارے دوست نے اسے دھتکار دیا اور ہم لوگ فلم دیکھنے چلے گئے فلم کی ہیروئن پر افتاد پڑی تو وہ اپنے بچے کے ساتھ گھر سے نکل گئی اور کئی دکھ جھیلنے کے بعد وہ بھکارن بن گئی وہ لکھتے ہیں کہ اس منظر نے میرے دوست کو اتنا متاثر کیا کہ وہ رونے لگا بتانا یہ تھا کہ نقل کبھی کبھی اصل سے زیادہ ہمارے ذہن و دل پہ اثر انداز ہوتی ہے ۔مگر یہ تبھی ممکن ہے کہ آپ اس کردا ر کو پردے پر جی رہے ہوں افسوس کہ کرداروں کو جینے والا اوم پوری اب ہم میں نہیں رہا۔غالب نے خوب کہا ہے
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم!
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایا کیا کیے
ہندی سنیما پہ جب جب بھی ہم نے اوم پوری کو دیکھا تو وہ کردار اپنے سے کئی زیادہ جاندار اور پر اثر لگا کہ پرے کا اپنا حسن ہے اور اپنا جادو ۔اردو کے ڈائلاگ ادا کرنے پہ آئے تو آپ عش عش کر اٹھیں اتنی صاف ستھری اردو بولنے والے اب انڈسٹری میں خال خال ہی بچے ہیں ۔اوم پوری کا انتقال فلمی دنیا ہی نہیں بلکہ اردو بولنے والوں کا بھی نقصان ہے کہ ہندی سنیما کے پردے پر اتنی اچھی اور عمدہ اردو بولنے والا اب آپ کو پردے پر نظر نہیں آئے گا ۔دنیا بھر میں ہندی سنیما اور اوم پوری جی کے چاہنے والوں نے ٹویٹ کرکے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ۔

اوم پوری آپ نے بھی ہمیں بہت جلدی چھوڑ دیا مجھے دکھ ہے ۔وہ ہنسنا ہنسانا وہ بحث میرے دماغ میں گھوم رہی ہے میں آپ کو ہمیشہ یادرکھوں گی۔
(شبانہ اعظمی)
ایک پختہ فلم اداکاربہت ہی زیادہ ہنر آپ کی روح کو سکون ملے ہندی سنیما ایک بہت ہی بہترین اداکار کھودیا ہے۔
(کرن جوہر)
یقین نہیں ہوتا کہ وہ چلے گئے ہیں میں ان شکر گزار ہوں کہ انہوں مجھے اپنے ساتھ کام کرنے کا موقع دیا ۔
(میشاشفیع)
ہم نے ایک بہت ہی بہترین اور ہنر مند اداکار کھو دیا ہے یہ ہمارے ملک کا فلم انڈسٹری کا بہت بڑا نقصان ہے آپ کی روح کو سکون ملے
(نصیرالدین شاہ)
دنیا ایک بہترین کلاکار کھودیا میری دعا ہے کہ ان کی روح کو سکون ملے۔
(ماہرہ خان)

اوم پوری کی اہم فلمیں
گاشی رام کوتوال
بھومیکا
اروند دیسائی کی عجیب داستان
البرٹ پنٹو کو غصہ کیوں آتا ہے
جانے بھی دو یارو
ایک ہی مقصد
وناشک
ارتھ
دبنگ
بجرنگی بھائی جان
چن پردیسی (پنجابی)
لونگ دا لشکارا (پنجابی)
جانے بھی دو یارو (مزاحیہ)
ہیرا پھیری (مزاحیہ)
چور مچائے شور (مزاحیہ)