زندگی کا سفر: اور جتنا مرضی ہے نوچ لو

(ذوالفقار علی)

ایک دن یوں ہوا میں اُس کے ساتھ چل پڑا جہاں وہ لے جانا چاہتی تھی۔ راستہ بہت کٹھن اور دشوار گُزار تھا۔ کئی پگڈنڈیاں ایسی تھیں جو اچانک بند گلی میں لے جاتیں اور ہم واپس آتے اور پھر سے کوئی راستہ پکڑتے مگر وہ راستہ بھی منزل پر پہنچنے سے پہلے غائب ہو جاتا۔ یہ جان جوکھوں بھرا سفر طے کرتے کرتے کہاں سے کہاں پہنچ گئے مُجھے کچھ پتا ہی نہیں چلا۔ کُچھ پڑاؤ راستے میں ضرور آئے مگر اُس نے مُجھے سانس نہیں لینے دیا بس کہا چلتے رہو۔ اگر سستاو گے تو پھر جو میں آپ کو دینا چاہتی ہوں وہ نہیں مل پائے گا۔ اُس کی چکنی باتوں میں ایک غضب کا نشہ تھا جس کی مُجھے لت لگ گئی تھی اور میں ہر قیمت پر اپنے دل میں چُھپے ارمان اور خواہشوں کو حاصل کرنے کی ٹھان چُکا تھا۔
میری ڈوریاں اس کے ہاتھوں میں تھی اور میں انجان منزلوں کا راہی اس کے اشاروں پے چلتا رہا۔ اپنی خواہشوں کو بالائے طاق رکھ کر اُس کی طے کیے ہوئے ضابطوں پر عمل کرتے ہوئے کیا کیا نہ کیا۔ پاؤں زخمی ہوئے مگر علاج کرانے کی فرصت نہ ملی، بھوک پیاس سے نڈھال جسم کو سمبھالنا مُشکل ہوا تو اُس نے پیٹھ پر تھپکی دے کر آگے بڑھا دیا، گُھپ اندھیروں کا سامنا کرتے ہوئے ڈر لگا تو بھی اُس نے ڈر پر قابو پانے کے مشورے دے کر ہمت بندھائی رکھی۔ کبھی اپنی انا اور عزت کا احساس جاگا تو اُس نے ایسی ایسی سُنائیں کہ چار و ناچار آگے بڑھنا پڑا۔
اس رخت سفر میں ہزاروں خواہشیں قُربان ہوئیں مگر اُس نے ٹکنے نہیں دیا کہا بس چلتے رہو منزل پر پہنچ کے جو کُچھ ملے گا وہ ان سب تکالیف کو بھُلا دے گا۔ اُس کی باتوں میں بے عمیق کشش تھی اُس کے خدوخال نے حسین رنگوں کو اپنے اندر سمیٹ رکھا تھا۔ اُس کے ہر ہر زاویے سے اُمید کے جام چھلکتے تھے۔ اُس کی چال کو لفظوں کی قید میں لانا میرے بس میں نہیں۔
اُس کی سنگت میں جو تجربے ہوئے اُن کو بیان کرنے بیٹھوں تو ان گنت صفحوں کے پیٹ بھر جائیں مگر جو سیکھا جو ہم پر بیتا وہ ختم نہیں ہو پائیگا۔ شروع شروع میں اُس کے ساتھ چلے تو اُس وقت کوئی ملال نہیں تھا۔ کُچھ پانے کی جُستجو تھی، کچھ کر گُزرنے کے خواب تھے، اُمڈتے ہوئے جذبات کا بے پایاں سمندر تھا، اُمنگوں کی بہتی ندیاں تھیں، ہونے کا غرور تھا اور آسمان کو چھو لینے کا حوصلہ۔
مگر وقت کے ساتھ ساتھ سفر بڑھتا گیا اور اور اُس نے مجھے جھنجھوڑنا شروع کر دیا۔ شام کے ڈھلتے سائے اور لمبے ہوتے گئے۔ میری روح اور سوچ دونوں زخمموں سے چور چور مگر نئی صبح کی جوت جگائے میں اُس کا ہم سفر بنا رہا۔ کبھی اُس نے رشتوں کے نام پر مُجھے پابند کیا تو کبھی اپنی خواہشوں کی رسیوں میں باندھ کے جکڑ دیا، کبھی لالچ اور مفاد کی کھائیوں میں اُتارا تو کبھی اپنے فلسفے کی بندشوں سے اپنا غلام بنایا،کبھی جذباتی ہیجان میں مُبتلا رکھا تو کبھی منطق کی مار سے میری دُرگت بنائی۔
کبھی روشن خیالی کے باب میں میرا ریپ کیا تو کبھی مذہب کی فکر سے میری سوچوں کو مقید کیا، کبھی روشن اقدار کا واسطہ دے کے مُجھے بلیک میل کیا تو کبھی بُنیاد پرستی کی خوش فہمی سے مجھے لوٹا، کبھی عارضی خوشیوں کا لولی پاپ میرے منہ میں ٹھونسا تو کبھی تاریخ کے کرداروں سے مُجھے بہلایا پُھسلایا۔
کبھی مُحبت کا درس دے کے مُجھے سمیٹا تو کبھی نفرتوں کے ہاتھوں مُجھے ریزہ ریزہ کیا۔ مگر اُس کی چاہ میں ایسی کشش تھی میں یہ سب کُچھ سہنے کے بعد بھی اُس کے ساتھ چل رہا ہوں۔ ایک بار میں نے اُس سے گلہ کیا اور اپنے فرار کا راستہ ڈھونڈنا چاہا تواُس نے کنور پاشا کی نظم سُنا کے میرے راستے بند کر دئے کہ

ہم نے کہاں جانا ہے
کہیں نہیں!
وقت اضافی ہو یا
یکساں
زندگی تخلیق ہو یا
ارتقاء
روح لافانی ہو یا
سلسلہ
آزادی نجات ہو یا
ابتلا
دکھ زنجیر ہو یا
قلعہ
مرض ہار ہو یا
اندیشہ
موت اختتام ہو یا
بقا
ہم نے کہاں جانا ہے؟
کائنات کے سارے زمانے
ہماری
خود مرکزیت پہ وا ہیں
فرار عبث ہے
کہ
فرد
عالمگیر قفس کا
قیدی ہے…
کیونکہ
کائنات سے باھر کوئی
دروازہ نھیں کھلتا!
میں آج تک اُس کے چُنگل میں ہوں وہ مُجھے نوچ رہی ہے اور میں آگے بڑھ رہا ہوں ہائے ری “ذمہ داری” تیرا ساتھ مُجھے کہاں سے کہاں لے آیا۔ اب ” لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے”!

About ذوالفقار زلفی 63 Articles
ذوالفقار علی نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا ہے۔ آج کل کچھ این جی اوز کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ایکو کنزرویشن پر چھوٹے چھوٹے خاکے لکھتےہیں اور ان کو کبھی کبھار عام لوگوں کے سامنے پرفارم بھی کرتے ہیں۔ اپنی ماں بولی میں شاعری بھی کرتے ہیں، مگر مشاعروں میں پڑھنے سے کتراتے ہیں۔ اس کے علاوہ دریا سے باتیں کرنا، فوک کہانیوں کو اکٹھا کرنا اور فوک دانش پہ مبنی تجربات کو اجاگر کرنا ان کے پسندیدہ کاموں میں سے ہے۔ ذمہ داریوں کے نام پہ اپنی آزادی کو کسی قیمت پر نہیں کھونا چاہتے۔