اقبال آج بھی ہماری قوتِ محرکہ ثابت ہو سکتے ہیں: احمد جاوید سے گفتگو

 

(انٹرویو: روف ظفر)

احمد جاوید معروف ماہر اقبالیات ، دانشور، اسکالر اور فارسی اور اردو زبان کے شاعر ہیں۔

(انٹرویو: روف ظفر)
(انٹرویو: روف ظفر)

انھیں کئی زبانوں پر عبور اورجدید اسلامی فلسفہ میں کمال حاصل ہے۔ وہ علامہ اقبالؒ کے حوالے سے سات سے زائد کتابوں کے مصنف اور مؤلف ہیں۔ انھیں تصوف اور اقبالیات پر ہونے والی کئی بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کا اعزاز حاصل ہے۔ ۱۹۸۵ء سے اقبال اکادمی لاہور کے ساتھ وابستہ ہیں۔

س: کلاسیکی اردو شعراء کا اقبال پر اثر، آپ کی تحقیق کا موضوع رہا ہے، اس بارے میں کچھ بتائیے؟
ج: اقبالؒ پر صرف ایک شاعر کا اثر ہے اور وہ ہے غالب۔ باقی اردو کی پوری شعری روایت میں اقبالؒ بالکل الگ کھڑے نظر آتے ہیں۔ غالب نہ ہوتے تو شاعر کی حیثیت سے اقبالؒ بڑے شاعر نہیں بن پاتے۔ غالب کے دبستان سے اقبالؒ نے وہ آہنگ اور تصور اخذ کیا ہے، جو ان کی بڑائی کی بڑی وجہ ہے۔ غالب کے بعد دوسرے حافظ شیرازی ہیں اور پھر مولانا روم، جن کا اقبالؒ کی فکری شاعری پر گہرا اثر ہے۔
س: تہذیب و ثقافت کی آپ کیا تعریف کریں گے، کیا یہ بھی ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں؟
ج: ثقافت یعنی کلچر مقامی مظہر ہے، جب کہ تہذیب مقامی نہیں ہوتی، جیسے میں ازروئے ثقافت، کسی ملک کا باشندہ اور کسی ماحول کی پیداوار ہوں لیکن تہذیب کے اعتبار سے میں مسلمان اور ایک امت کا حصہ ہوں۔ تہذیب بین الاقوامیت کی مظہر ہے، جب کہ کلچر کسی قوم سے منسوب ہوتا ہے۔
س: قیام پاکستان کے بعد بحیثیت تہذیبی اور ثقافتی قوم ہم کس درجے پر ہیں؟
ج: ثقافتی اعتبار سے میں سمجھتا ہوں ، ایک تنزل آیا ہے۔ اس کا ایک بڑا نمونہ یہ ہے کہ لوگوں نے اپنی مادری زبانوں کو ترک کرنے کا رویہ اختیارکر لیا ہے جبکہ سب سے قیمتی چیز زبان ہوتی ہے۔ پاکستان میں اکثر ثقافتی اکائیوں(یونٹس) میں اپنی مادری زبان (بدیسی زبان کی قیمت پر) ترک کرنے کا رجحان روز بروز بڑھ رہا ہے اور یہ ایک پریشان کن بات ہے۔ تہذیبی سطح پر غالباً کوئی بڑا زوال نہیں آیااور اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہمارا تصور امتِ بعینہٖ ہے ۔ یہ تصور امت جذبات بھی پیدا کرتا ہے اور نظریات بھی اور تہذیب نام ہی اپنے نظریے کو ذہن کے لیے تشفی بخش بنانے کا ہے۔ ان معنوں میں شاید ہم کسی بڑے زوال میں مبتلا نہیں۔ ثقافتی سطح پر البتہ ہم روز بروز کمزور ہوتے جارہے ہیں۔ ہماری نئی نسل کو ہمارے آباء کی زبان نہیں آتی، جس سے شخصیت میں بعض چیزیں نمو نہیں پاتیں۔
س: علامہ اقبال ؒ کے حوالے سے آپ نے کئی اہم علمی تراجم کیے ہیں؟
ج: جی ہاں! شیخ محی الدین العربی کی ایک کتاب فارسی میں ہے، اس کاترجمہ اردو میں کیا۔ یہ خاصا مشکل کام تھا۔ پھر اقبالؒ کے دو فارسی مجموعوں پیام مشرق اور جاوید نامہ کا اردو میں ترجمہ کیا۔ اسی طرح کا ایک اور منصوبہ “Themes of Iqbal” ہے، جس کے تحت علامہ اقبالؒ کی بنیادی اصطلاحات کی تفصیلی شرح بیان کی جائے گی۔ ایک اور کام ، جو بہت اہم ہے، وہ ہے ، علامہ کے تمام کلام کی شرح کو لیکچر کی صورت میں تحریر کرنا۔ یہ ایک طرح کا انسائیکلوپیڈیا ہو گا، اس پر بھی کام جاری ہے۔ اس ضمن میں ہم نے ’’اسرارِ خودی‘‘ کی شرح کا آغاز کر دیا ہے۔ میں مزید جس موضوع پر کام میں دلچسپی رکھتا ہوں، وہ اسلام کے ’’ورلڈ ویو‘‘ کے بارے میں ہے یعنی اسلام زندگی ، انسان اور تاریخ کے بارے میں کیا شعور اور اصول دیتاہے، جو ابھی پوشیدہ ہیں۔ اس میں ظاہر ہے علامہ اقبالؒ کے کردار کا ذکر بھی ہو گا اور بتایا جائے گا کہ اسلام وہ کون سے اصول بیان کرتاہے، جس سے انسان کی روحانی پیاس بھی بجھ جاتی ہے اور اس کی معاشرت ، ریاست اور تہذیب کو جن اقدار کی ضرورت ہے وہ بھی فراہم ہو جاتی ہیں۔
س: آپ نے اقبالؒ پر کافی کام کیا ہے۔ تاہم اب بھی اقبالؒ کی کن کن جہات پر تحقیق کی ضرورت ہے؟
ج: اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عہدِ حاضر میں مسلمانوں کی بے کسی اور بے بسی کا ازالہ، علامہ اقبالؒ کے کلام سے کس طرح ہو سکتا ہے یعنی اس بدلی ہوئی صورتِ حال میں اقبالؒ کی فکر کیا کردار ادا کر سکتی ہے اور اسے کس طرح کارآمد بنایا جا سکتاہے۔اصل میں ہم اپنی قومی زندگی میں اقبالؒ کو قوتِ محرکہ کے طور پر استعمال کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں، حالانکہ ہندو مسلم کلچر میں اپنی بہترین تخلیقی قوت کے ساتھ جو چند لوگ پیدا ہوئے ہیں، اقبالؒ ان میں سے ایک ہیں۔ اقبالؒ کے ساتھ ایک بڑا ظلم یہ ہوا ہے کہ انھیں آگے بڑھانے والی قوت کے بجائے ایک جگہ خوش فہمیوں کے انبار میں دفن کر کے پڑے رہنے کا بہانہ بنا لیا گیا ہے۔ اقبالؒ آج بھی ہماری فکری اور تہذیبی جہتوں میں ایک بہترین قوتِ محرکہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان کا کلام آج بھی قوم کو جگانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
س: آپ ایک شاعر بھی ہیں لہٰذا موجودہ ادبی رجحانات کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
ج: اس حوالے سے میرے احساس میں تلخی اور رائے میں مایوسی ہے۔ ہمارے یہاں سب سے بھیانک زوال جو آیا ، وہ زبان کا زوال ہے۔ جس قوم اور تہذیب کا لفظ سے تعلق کمزور پڑجائے وہ کبھی اچھا ادب اور ادیب پیدا نہیں کر سکتی، کیونکہ ادب نام ہے ، لفظ کی تہوں میں اترنے کا اور ہمارا لفظ کا ذوق روز بروز کم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ کمی ادب اور شاعری وغیرہ سے بہت واضح ہوتی جا رہی ہے، اس لیے سردست ہمارے ہاں اردو زبان میں کوئی بڑا شاعر موجود نہیں ہے، حتیٰ کہ کوئی بڑا نقاد اور فکشن رائٹر بھی نظر نہیں آتا۔ شاعری ہو یا کوئی اور تخلیق، اس میں صرف جذبات کا اظہار نہیں ہوتا، کرافٹ اور تکنیک بھی ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے بھی ہم کمزور ہو گئے ہیں۔ اب ادب میں کوئی ایسا بڑا فن کار نظر نہیں آتا، جس پر مجھے یہ اعتماد ہو کہ وہ جس ڈسپلن میں لکھ رہا ہے ، اس کے فنی تقاضوں کا شعور بھی رکھتا ہے اور انھیں پورا کرنے کا اہل بھی ہے۔