تہتر ۷۳ء کے آئین کے تناظر میں ایک مکالمہ

(شرجیل یوسف)

میں نے پوچھا “بھائی یہ کون سا شہر ہے”

بتانے والے نے بتایا “آئین آباد ہے۔”
میں نے حیرت سے دیکھا۔”کیسا عجب شہر ہے۔ کب بنا تھا؟”
بولا” ۱۹۷۳۔”
میں کسی پاگل کی طرح شہر میں گھس گیا۔شہر کیا تھا عجب دنیا آباد تھی۔داخل ہوتے ہی ایک غیر آباد سی مسجد تھی باہر مسلح محافظ کھڑے تھے۔ نہ کبھی کوئی مسجد میں آیا نہ گیا۔ یہ مسجد نہ کسی نے دیکھی، نہ کبھی اذان گونجی، نہ نماز نہ واعظ۔
میں نے پوچھا “یہ کیسی مسجد ہے؟”
جواب ملا۔ “اسے مسجد’ قراداد مقاصد ‘ کہتے ہیں۔
” سوال کیا “یہ مسلح لوگ کون ہیں؟”
جواب ملا “یہ مسجد کے رکھوالے ہیں جان دیں گے اسے کچھ ہونے نہیں دیں گے۔”
آگے بڑھا تو میں نے عجب مناظر دیکھے۔ شہر کے درمیان میں ایک دیوار تھی جس کے ایک طرف ان دفعات کی بستی تھی جو غریبوں، بھوکوں، لاچاروں، بیماورں کے حقوق کا تعین کرتی تھی۔ دوسری طرف حکمرانوں اور اشرافیہ کے حقوق کی ضامن شقوں کی بستی تھی۔ غریبوں والے حصے میں بھوک، افلاس اور ننگ کی تنگ گلیاں تھیں۔
پوچھا: “یہ پانی کیوں کھڑا ہے؟”
جواب ملا: “یہ آئین کے اُن آرٹیکلز کےابلتے گٹروں کا پانی ہے جن میں عزت نفس کی بحالی، جان و مال کا تحفظ اورروز گار کی فراہمی کا ذکر کیا گیا ہے۔”
پوچھا “یہ پکی سڑک کدھر کو جاتی ہے؟”
جواب ملا “یہ سول سروسز کے ایکٹ ہیں۔ اشرافیہ والے “حصے کی موٹروے۔۔۔”
بولا ” آئین آباد کے اس حصے میں لکھے کہےپر نہ جاؤ بلکہ عمل کو دیکھو”
تھوڑا آگے گیا تو پوچھا”یہ کونسا قبرستان ہے بھائی!”
جواب ملا “یہ بنیادی انسانی حقوق کا باب ہے۔ یہ قبر ہے آزادی اظہار رائے کی اور یہ حق اجتماع کا مرقد ہے ”
پوچھا “وہ مزار کا کس کا ہے؟”
بولا ” یہ اس وعدے کا مزار ہے جس میں ریاست نے وعدہ کیا تھا کہ بنیادی حقوق کی فراہمی اور تحفظ ہماری ذمہ داری ہے”
“اچھا یہ یہ تازہ قبر کس کی ہے؟”
بولا “تازہ نہیں ہے بہت پرانی ہے یہ قبر۔ یہ آئین کا وہ حصہ ہے جس میں اردو کو بطورقومی اور دفتری زبان کے رائج کرنے کی بات کی گئی تھی۔ پھر ایک جج صاحب نے اس کا کا گڑا مردہ اکھاڑا۔
میں نے فورا پوچھا :” اچھا زندگی ملی اس کو؟”

بولا “نہیں۔ فقط کفن بدل کے پھر دفنا دیا گیاہے”
کچھ قدم آگے بڑھا تو سوچا۔ کیسی گندی بستی ہے ۔ہر طرف آوے آوے جاوے جاوے کے نعروں کا شور ۔جیوے جیوے مردہ مردہ باد۔ کیا بے ہودگی ہے میرا دم گھٹنے لگا اس سڑان سے۔ میں بھاگا اور دیوار کے دوسرے پار آن پہنچا۔ یہ آئین آباد کا وہ حصہ تھا جس میں اشرافیہ کی شقیں تھیں، یہ کشادہ روشن ہوا دار تھا۔ جس میں اس قسم کے امور کا تعین کیا گیا تھا کہ صدر کیسے بنے گا،وزیر اعظم کیسے منتخب ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ اشرافیہ والے شہر کے بیچ سے ایک بڑی شاہراہ گزرتی تھی جو صدر اور وزیر اعظم کے حقوق کے ارٹیکلز کا تعین کرتی تھی۔اس شاہراہ پر کہیں صدر اور وزیر اعظم کے صوابدیدی فنڈز کے فوارے تھے، کہیں صدارتی استثٰی کی آبشاریں تو کہیں عیش و عشرت کے جھرنے تھے۔
“یہ سرنگ کیسی ہے؟”
جواب ملا “یہ صدر کو سزا معاف کر دینے کا چور رستہ ہے یہاں سےبڑے بڑے مجرم داخل ہوتے ہیں اور شہر کی سرحد پر صحیح سلامت نکلتے ہیں۔وہ دوسری طرف استثنٰی کی سرنگ ہے اور دائیں ہاتھ قومی و صوبائی اسمبلی او ر سینٹ کے ممبران کے محلے ہیں ۔”
میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔
“بھائی وہ اختیارات کا ایک منارہ کیسا ہے جس کی روشنی سے پورا شہر روشن ہے۔”
بولا :بھائی! وہ سپاہ سالار کا منارہ ہے۔”
“اچھا یہ دھک دھک دھک کا شور کیسا ہے ۔”
بولا “بھائی یہ بوٹوں کا شور ہے ۔اس شہر میں یہی ایک صوتی آلودگی ہے جو کبھی مدھم اور کبھی تیز ہو جاتی ہے۔”
اس شاہراہ سے کئی ذیلی راستے اور چھوٹی سڑکیں نکلتی تھی جو وزیروں، مشیروں اور گورنروں کے اختیارات سے مزین تھیں اور انکے وسائل اور ذمہ داریوں سے دمک رہی تھیں۔دیکھ کر جی باغ باغ ہو گیا۔۔
“یہ کیا ہے ۔؟”
“یہ ایمرجنسی نافذ کرنے والے صدارتی اختیار کا عقبی دروازہ ہے۔وہ دیکھ رہے ہو، وہ استصواب رائے ( referendum )
والی سڑک ہے۔ پہلے استعمال ہوئی تھی مگر اب کوئی نہیں جاتا ادھر ۔”
“یہ پگڈنڈیاں کیسی ہیں؟”
“وفاق اور صوبوں کے درمیان اختیارات کا باب ہے ۔”
“اچھا اچھا۔تبھی سارا رستہ الجھا ہوا ہے۔”
کچھ دور آگے گئے تو میں نے پھر سوال داغا۔”بھائی یہ کیسی وال چاکنگ ہے ؟”
بولا “یہ صدور، وزرائے اعظم، گورنروں اور وزیروں کے حلف نامے ہیں۔”
“بہت مدھم تحریر ہے، پڑھی ہی نہیں جا رہی۔ یہاں کی سٹریٹ لائیٹس کدھر گئیں ؟”
جواب ملا ” یہ بس شروع سے ایسی ہی ہیں ۔۔”
“یہ جگہ جگہ کھدائی کیسی ہے، یہ ناقص تعمیرات کی نا پختہ عمارتیں کیسی ہیں۔ لگتا ہے بار بار توڑ کر دوبارہ تعمیر کی گئی ہیں۔ کہیں دراڑیں ہیں تو کہیں مرمت۔۔”
جواب ملا “یہ ترامیم ہیں بھولے بادشاہ۔”
“مجھے کیا معلوم بھائی! ” میں نے شرمندگی سے سر نیچے کرلیا۔
“یہ دو پاگل جنونی کون ہیں جو آوارہ گلیوں میں بے نیاز ننگ دھڑنگ بھاگے پھر رہے ہیں۔”
یہ باسٹھ تریسٹھ کی شقیں ہیں۔ دو جڑواں بھائی جو اشرافیہ کے علاقے میں بھولے سے آئے تھے اشرافیہ کو صادق اور امین کا سبق پڑھانے۔ خوب دھلائی ہوتی ہے ان کی ہروقت۔ ھاھاھا ۔”
یہ کہہ کر وہ بے اختیارہنسنے لگا۔
“یہ چشمہ کیسا ہےجس کے گدلے پانی سے تعفن اٹھ رہا ہے؟”
“یہ این ار او کا مقدس چشمہ ہے جس سے نہا کر انسان پاک ہو جاتا تھا مگرفی الحال بند کر دیا گیاہے۔ ”
“مگر کیوں” میں نے حیرت سے پوچھا۔
“پتہ نہیں۔۔ شائد اس لیے کہ جس نے نہانا تھا، نہا لیا۔ اب پھر کبھی جب ضرورت پڑے گی تو یہ چشمہ دوبارہ رواں دواں ہوجائے گا۔”
آگے نکلے تو ایک باؤلہ سا شخص چبوترے پر چڑھ کر چلا رہا تھا۔
” یہ کملا کون ہے اور کیا کہہ رہا ہے ؟” میں نے پوچھا۔
“یہ یہاں کا دانشور ہے ۔”
“کیا کہہ رہا ہے ؟”
” خود ہی سُن لو!”
میں نے غور کیاتو پتہ چلا کہ وہ کہہ رہا تھا۔
“دیپ جس کا محلات ہی میں جلے۔ چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے۔وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے۔ایسے دستور کو صبح بے نور کو۔میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا۔”
“مگر یہ تو اسی دستور کے تحت عہدے کے مزے لوٹ رہا ہے ۔”
جواب ملا “شہر کے اس حصے میں ایسا ہی ہے۔۔”
“اچھا! یہ لاچار بوڑھابے چارہ کون ہے جو چارپائی پر پڑا کھانس رہا ہے؟”
“یہ اسلامی نظریاتی کونسل ہے۔آپ کو ایسے کئی بوڑھے ملیں گے یہاں۔ کچھ تو باقائدہ اپاہج ہیں جیسےوفاقی محتسب اوردیگر تحقیقاتی ادارےوغیرہ۔”
“ارے قبرستان تو یہاں بھی ہے۔ یہاں کون دفن ہے؟ کچھ دور آگے چل کر میں چونکا۔
یہا‎ں اس آئین کے تحت بننے والے لاتعداد کمیشن دفن ہیں۔ کہیں کہیں وہ سوموٹو نوٹس دفن ہیں جو وقتا” فوقتا” لیے جاتے تھے۔”
“اچھا یہ بتاؤیہ کھنڈرات کیسے ہیں ؟”
“اندھے کہیں کے تمہیں یہ کھنڈر نظر آتا ہے یہ عدالت اعظمی کے اختیارات کا صفحہ ہے۔”
“معاف کرنا بھائی میں نیا ہوں یہاں!” میں نے پھر ندامت سے سر جھکا لیا۔
“احترام کرو ۔ یہ مقدس دستاویز کا شہر ہے ۔بے موت مرو گے معلوم بھی ہے آئین شکنی کی سزا موت ہے!”
میں سہم کربولا “جی اچھا”
“آج تک کوئی مرا بھی ہے اس جرم میں؟” میں نے استفسار کیا۔
وہ بولا” نہیں ۔۔”
میں نے پوچھا ” مطلب آج تک کسی نے نہیں توڑا یہ آئین؟؟”
وہ بولا” نہیں کئی مرتبہ ٹوٹا ہے”
“پھر موت کیوں نا دی گئی اس کو؟
اس کا اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔
بولا ” کون سے آئین کا پوچھتے ہو۔غریبوں والا، عوام الناس والا تو بنتے ہی ٹوٹ گیا تھا اور آج بھی روز خلاف ورزی ہوتی ہے اس کی۔۔اشرافیہ والا حصہ دو مرتبہ ٹوٹا ہے۔کہرام مچ گیا تھا۔ آج تک جتنے سیاستدانوں نے تحریکیں چلائیں ،جیلیں کاٹیں، وہ اشرافیہ والی انہیں دفعات کے معطل ہونے کی وجہ سے کاٹیں۔۔ ہمارا سیاستدان تھوک نگل نگل کر جس آئین کے تناظر میں بات کرتا ہے وہ یہی والا حصہ ہے ۔جس آئین کو مقدس دستاویز کہا جاتا ہے وہ یہ حصہ ہے۔وہ آئین جس کی عظمت و حرمت کے قصیدے پڑھے جاتے وہ یہ ہے۔جس کی معطلی کی سزا موت ہے، وہ یہ والا ہے۔جس کے ٹوٹنے پر احتجاج ہوتا، شور مچتا ہے وہ یہ ہے۔اور بتاؤں تمہیں! عالمی دباؤ، یورپی یونین، سلامتی کونسل اور دولت مشترکہ جیسے بڑے لوگ بھی تب بولتے ہیں جب آئین کا یہ والا حصہ ٹوٹتا ہے۔غریبوں والا تو رہتا ہی معطل و مفلوج ہے کا کے ۔۔کس کو فکر کہ بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی والے آئین کے حصے پر آج تک عمل کیوں نہیں ہوسکا۔ اس پر عملدرآمد ہونے یا نہ ہونے کی کسے پرواہ۔۔یہ خیال اور خواہش ٹوٹ کر، کرچی کرچی ہو کر سرمہ پاؤڈر بن چکا ہے۔۔”
میں نے پوچھا ” ایسا کیوں ہے”
بتانے والے نے کان کے قریب آ کر بتایا “اصل میں بات یہ ہے کہ اشرافیہ اپنی دفعات کا دفاع مل جل کر کرتی ہے، انکی دفعات ٹوٹیں تو یہ جیل کاٹتے ہیں، دھرنے دیتے ہیں، جلا وطن ہو جاتے ہیں۔ اشرافیہ کی دفعات کا تحفظ کرنے میں غریب بھی اس کا مددگار بن جاتا ہے۔”
“اور غریبوں کی دفعات ٹوٹیں تو ۔۔؟ ” میں نے سادگی سے پوچھا۔
“انکی دفعات اللہ کی طرف سے ٹوٹتی ہیں۔ لہذا وہ صبرشکر کرکے گزارہ کرلیتے ہیں۔اگر وہ احتجاج کرنے نکلیں تو احتجاج والے دن کی روٹی بھی نہیں ملتی۔”
“اچھا بھائی ایک آخری بات بتا دو۔تم کون ہو اشرافیہ کی بستی کی شقوں سے لطوف اندوز ہونے والے یا غریبوں کی دفعات والے؟” میں نے تھک ہار کر پوچھا۔
اس نے قہقہ لگایا اور اور مسکرا کر بولا “میں نہ غریبوں والے حصے سے ہوں نہ امیروں والے حصے سے ہوں۔مگر اب سارا ماجرا سمجھ چکا ہوں، پڑھا لکھا ہوں۔اب میں غریبی کے مزے اور طاقت کے نشے لوٹتا ہوں۔”
“پر تم ہو کون؟”میں نے جھنجھلا کر پوچھا
بولا ” میں مڈل کلاس ہوں”
میں نے کہا “تم کوسب سمجھ ہے تو تم کچھ کرتے کیوں نہیں اپنے غریب بھائیوں کےلیے؟”
اس نے قہقہہ لگایا اور لہک لہک کر گنگناتے ہوئے چل پڑا “میں کیوں کروں غریب کی بات ! میں تو خود محل میں رہتا ہوں ا ور بات غریب کی کہتا ہوں۔قوم کے غم میں روتا ہوں اور قوم کی دولت ڈھوتا ہوں۔میں عورت کو نچواتا ہوں، بازار کی جنس بنواتا ہوں۔ اور اس عورت کے غم میں تحریکیں بھی چلواتا ہوں۔ میں کیوں کروں غریب کی بات! میں تو ہوں مڈل کلاس۔میں ہوں باغی۔۔ میں ہوں باغی مڈل کلاس!!

______________________________________

شرجیل یوسف، نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی فیصل آباد سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کررہے ہیں۔ فنون لطیفہ، تاریخ، مذہب اور سیاست کے طالب علم ہیں۔ اپنے معاشرے کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش میں سرگرداں ہیں تاکہ ایک بہتر سماج کی تشکیل میں اپنا کردار ادا سکیں۔