افزائش آبادی کا اجتماعی خود کش حملہ: ہمارے ملک کا ایک حقیقی مسئلہ

writer's picture
Shazia Dar

افزائش آبادی کا اجتماعی خود کش حملہ: ہمارے ملک کا ایک حقیقی مسئلہ

بطور قوم و معاشرہ ہمارا مزاج بہت مختلف و عجیب ہے۔ ہم نان ایشوز کو ایشوز بنانے؟ اور پھر انہیں ایشوز بنائے رکھنے کے ہنر میں یکتا ہیں۔ اپنے لئے کبھی کوئی مسئلہ کھڑا کر لیتے ہیں، کبھی کوئی۔ درختوں سے روپے اترتے تو نا سنے نا دیکھے تھے، لیکن لگتا ہے ہمیں مسئلے البتہ اسی انداز ہی سے دستیاب ہیں۔ یہ چلن اس ذہنی بانجھ پن اور تخیل کے سوتوں کی خشکی کے ایک ایسے نشان کے طور پر سامنے آتا ہے کہ خدا پناہ۔ بھئی سنئے، ہمارے بہت سارے حقیقی مسائل بھی ہیں۔ ان پر ہماری اجتماعی پریشان فکری کو توجہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ان مسائل میں ہماری روز افزوں بڑھتی شرح افزائش آبادی ایک ہے۔ یہ ہمارے اپنے پورے قومی و معاشرتی وجود پر ایک ایسا اجتماعی خودکش حملہ ہے جس سے ہم آنکھیں چرانے کو اپنے کردار کی عظمت سمجھتے ہیں، اور رب کی ربوبیت کے اقرار خام کے طور پر لیتے ہیں۔

(مدیر)

————————-

(شازیہ ڈار)

ڈاکٹر پرویز ہودبھائی کا  ایک آرٹیکل ۱۷ مارچ ۲۰۱۷ کو ڈان نیوز پیپر میں شائع ہوا۔ ڈاکٹر پرویز ہودبھائی تعارف کے محتاج ہر گز نہیں۔ البتہ کہتے چلیں کہ آپ لاہور اور اسلام آباد میں فزکس اور ریاضی کے معلم ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا اس مضمون میں کہنا ہے کہ آپ اپنے گردو و نواح میں لوگوں سے پاکستان کو درپیش تین مسائل پر بات کیجیے  تو عوام سے لےکر میڈیا کے نمائندوں تک، مولوی حضرات سے لے کر سیاسی رہنماؤں تک سب کا موضوع گفتگو کرپشن و بد عنوانی ، مذہبی انتہا پسندی ، امریکی و ہندوستانی سازشیں اور گرتی ہوئی اخلاقی اقدار ہوں گے لیکن ملک کو درپیش سب سے اہم اور خطرناک مسئلے “تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی” کی طرف کسی کا دھیان نہیں جائیگا اور اگر بالفرض کوئی اس پر بات کرے گا بھی تو وہ محض شہبات ہی ہوں گے۔

یہ پاک سرزمین پر مذہبی قدامت پسندوں سے مالا مال ہے تو اس طبقے کے پاس تو بالکل وقت نہیں ہے اس موضوع پر بات کرنے کا۔ بلکہ ان کے مطابق تو ہر نومولود اپنا گارنٹی شدہ رزق ساتھ لیکر آتا ہے۔ اور ویسے بھی یہ طبقہ چونکہ خود کثرت میں ہے تو کثرت کو پسند بھی کرتا ہے۔ چلیں ایک واضح حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوۓ ہم یہ فرض کرتے ہیں کہ ان کا یہ دعوٰی ٹھیک ہے تو اس صورتحال میں اگر آسمان سے من و سلوٰی بھی اترے تب بھی مستقبل میں پاکستان کو ایک تشویش ناک صورتحال کا سامنا تو بہرحال رہے گا اور وہ یہ کہ یہ پاک سرزمین ہمارے لیے کم پڑ جائیگی۔ اور یہ حقیقت اسیاتی نشوونما  (exponential growth) کے قانون کی بیان کردہ ہے کہ پاکستان کو آئندہ ۳۵ سال میں ۴۰۰ ملین بننے سے اب کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔

اسیات exponential growth
کے اس حسابی تصور کو سمجھنے  کے لیے ڈاکٹر پرویز صاحب نے فارسی کی ایک کہانی کی مثال بیان کی ہے۔ پرانے وقتوں کی بات ہے کہ ایک چالاک درباری نے بادشاہ وقت کے سامنے ہاتھی دانت سے بنا شطرنج کا سیٹ پیش کیا اور اس نے ہر چال کے عوض کچھ اناج کا مطالبہ کیا مثلاً اس درباری نے مطالبہ کیا کہ شطرنج کے پہلے مربع پر چاول کا ایک دانہ، دوسرے پر دو، تییسرے مربعے پر چار دانے اور اس طرح ہر مربعے پر تعداد ڈبل ہوتی رہی۔ حتٰی کہ دسویں مربعے پر ۵۱۲ دانے، چودھویں پر ایک کلو گرام اور بیسویں مربعے پر بات ۱۲۸ کلوگرام تک چلی گٔی اور بالاخر آخری مربعے یعنی ۶۴ تک اس بےوقوف بادشاہ نے شاہی سلطنت میں موجود تمام ذخیرہ ختم کر دیا ۔

اخلاقی سبق: اگر کوئی شے بار بار ڈبل ہوتی رہے تو پھر آسمان کی بلندی بھی کم لگتی ہے۔

۱۹۴۷ میں پاکستان کی آبادی ۲۷ ملین تھی اور اب ماشا۶ اللہ یہ ۲۰۰ ملین سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ ڈبلنگ فارمولا کے مطابق یہ اضافہ کم و بیش ۲۵ سالوں میں ہوا ہے۔ اب فرض کریں کہ مذہبی قدامت پسند اپنے عزم پر قائم رہتے ہیں اور ڈبلنگ ٹائم بھی اپنی موجودہ رفتار جاری رکھتا ہے تو آئندہ ۲۵ سالوں میں پاکستان میں ۴۰۰ ملین شناختی کارڈ ہولڈرز ہوں گے۔ اسی رفتار کو برقرار رکھتے ہوۓ یہ تعداد دنیا کی حالیہ آبادی ۷۔۲ بلین سے بھی تجاوز کر جائیگی۔ اور اس صورتحال میں زمین کے اس ٹکڑے پر صرف کھڑے ہونے کے لیے جگہ بچے گی۔ تو جو جرنیل حضرات آج اپنی ریٹارمنٹ پر ۹۳ ایکڑ زمین کا تحفہ قبول کرتے ہیں ان کے لیے اُس صورتحال میں ۹۳ مربع فٹ ملنا بہت خوش قسمتی کی علامت ہو گی۔

پاکستان کی افزائش آبادیلیکن اچھی خبر یہ ہے کہ ابھی حقیقتاً ایسا ہوا نہیں۔  بلکہ مردم نگاروں کے مطابق اس شرح میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن ٹائم ڈبلنگ کی رفتار میں اضافہ بتدریج جاری ہے۔ اور بری خبر یہ ہے کہ رہنے کی جگہوں کا مطالبہ تیزی سے بڑھ رھا ہے جس کی وجہ سے یہ کمی کچھ کارآمد ثابت نہیں ہو رہی۔ گاؤں ختم ہو کر شہر بنتے جارہے ہیں اور شہر مزید رقبے پر پھیلتے جا رہے ہیں۔ اگر پاکستان کی آبادی آئندہ ۳۵ سالوں میں ۴۰۰ ملین ہوتی ہے تو ہمارے پاس پینے کا پانی نصف مقدار میں موجود ہو گا۔ فضا میں گندگی کا اضافہ ہو جائیگا۔ متعفن مادے ہمارے دریاؤں میں زہر گھول دیں گے اور سڑکوں پر ٹریفک کے برے حالات ہوں گے۔ یہی نہیں غربت اور بے روز گاری کی افراط ہوگی اور ہم بیٹھ کر یہ سوچیں گے کہ ہماری اس حالت کی ذمہ دار کہیں کوئی انٹرنیشنل سازش تو نہیں؟؟

موجودہ صورتحال میں ہماری حالت کو سمجھانے کے لیے ڈاکٹر صاحب ایک اور مثال بیان فرماتے ہیں۔ ایک مینڈک گرم پانی کے تالاب میں گرگیا اور اس کو اس قدر زور سے جھٹکا لگا کہ وہ فوراً ہی باہر کود گیا۔ جبکہ دوسرا مینڈک ایک ایسے تالاب میں گرا جہاں پانی کو مسلسل حرارت مل رہی تھی۔ مینڈک نیم گرم پانی میں بہت مزے سے تیرتا رہا اور اس کو پانی کی حدت کا احساس تب ہوا جب وہ شدید گرم ہوا لیکن وہ اپنی انرجی تیرنے میں ضائع کر چکا تھا اور نتیجتاً وہ اپنی زندگی کی بازی ھار گیا۔

سوال یہ ہے کہ ہم اس مایوس کن صورتحال سے کیسے اجتناب کر سکتی ہیں ؟ تو ڈاکٹر پرویز صاحب اس کے کچھ ممکن حل بھی بتاتے ہیں۔ ہمیں اس متنازعہ موضوع یعنی منصوبہ بندی پر کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ سکولوں، کالجوں اور سوشل میڈیا پر منصوبہ بندی سے آگاہی کی مہمات چلانی چاہئیے۔ اور حکومت کو بھی کچھ ہمت سے کام لینا پڑے گا۔ پر تشدد قدامت پسندوں کے خوف سے محکمہ منصوبہ بندی کٔی سالوں سے بند پڑا ہے۔

بیش افزاہی  overbreeding کی اس تباہی کو ٹالنے کے لیے کوئی راکٹ سانئس درکار نہیں ہے بلکہ کامن سینس کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے اعدادوشمار کے مطابق ہمارے ملک کو ضرب عضب سے زیادہ ضرب تولید کی ضرورت ہے۔ تو پھر شاید کوئی معجزہ ہی ہو جو آئندہ ۳۵ سال میں پاکستان کو ۴۰۰ ملین سے تجاوز کرنے سے روک لے ورنہ پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔