مرسی کا مصر فرعونوں کو ہی راس ہے

Naseer Ahmed, the writer

مرسی کا مصر فرعونوں کو ہی راس ہے

از، نصیر احمد

آئیے انھیں اپنی سخاوت سے حیران کرتے ہیں 

نیلسن منڈیلا

کہنے کو تو آقا (آیت اللہ خمینی) بھی اپنی فیاضی سے ایرانیوں کو حیران کر سکتے تھے، مگر مذہب کے نام پہ سیاست میں جو آمریت کے امکانات انھیں دل فریب لگے اور انھوں نے اپنے لیے ایک ایسا آئین ڈیزائن کر کے منظور کرا لیا جس کے بعد ان کی مخالفت ایران میں ممکن ہی نہ رہی۔ ایران ایک ایسی تھیو کریسی بن گیا ہے  جو اختلاف کو برداشت نہیں کرتی تھی اور اختلاف مٹانے کے لیے ہر قسم کا تشدد کر سکتی تھی اور ہر قسم کی دروغ گوئی بھی کر سکتی تھی۔

عراق کے نوری المالکی بھی صدام کی حکومت کے خاتمے کے بعد سخاوت کر سکتے تھے، مگر انھوں نے فرقہ بازی کو ہی ترجیح دی جس کے نتیجے میں لوگوں کے خوف میں اضافہ ہوا اور اس اضافے کے نتائج عراق کے لیے تباہ کن ثابت ہوئے۔

مصر کے پہلے منتخب شدہ صدر مرسی بھی دیا کر سکتے تھے مگر ان سے بھی نہیں ہو سکی اور وہ منتخب ہونے کے با وجود آیت اللہ اور فرعون کا  مجموعہ ہی بننے کے آرزو مند رہے، اور چُوں کہ فوج ان کی مخالف تھی اور اپنے نظریاتی جنون میں انھوں نے اپنے خلاف مقامی اور عالمی مخالفت میں اضافہ کر لیا تھا اور اضافے کی وجہ سے فوج کو سدھار نہیں سکے اور مصر کو جمہوریت کا جو موقع ملا تھا، وہ کھو دیا۔ 

اگر آپ عالمی سازشوں پر بہت زیادہ یقین رکھتے ہیں تو یہ بھی کہہ سکتے ہیں، یہ تو ہونا ہی تھا، مگر مرسی کے پاس بھی انتخاب تو تھا اور انھوں نے فوجی فرعون کی بہ جائے منتخب فرعون بننے کو ہی ترجیح دی تھی۔

اب تو منتخب فرعونیت کا رواج سا ہوتا جا رہا ہے، مگر مرسی کی مقامی اور عالمی مخالفت اتنی زیادہ تھی اور مصر کی فوج اتنی زیادہ طاقت ور تھی کہ یہ بات ان کے حق میں نہیں جا سکی۔ ان کی پارٹی مذہبی کاملیت کی سرخیل رہی ہے اور وہ اس کاملیت پرستی کے نفاذ کے خواہاں بھی تھے اور اپنے اقدامات کو عدالتی نظرِ ثانی سے ما وَرا بھی قرار دیتے رہے تھے۔ ایک طرف کاملیت پرست ایجنڈا ہو اور دوسری طرف اقدامات بھی اس کی تائید کرتے ہوں تو منتخب ہونے کے با وجود جمہوریت تو غائب ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ فوج کو بھی موقع مل گیا کہ وہ مقامی اور عالمی سطح پر مرسی کے خلاف ایک سمجھ میں آنے والا مقدمہ پیش کر سکیں۔

سخاوت کیوں نہیں ہو سکتی؟ مشکل ہو جاتی ہے، ساری زندگی محمد رضا شاہ، صدام حسین اور جمال ناصر، انور سادات اور حسنی مبارک جیسے آمروں سے پالا پڑا ہو تو آپ ان کی مخالفت کے با وجود اسی انتہا پسندی کے مقلد ہو جاتے ہیں جو آپ پر ستم کرتی ہے۔ اور شاید آپ کی انتہا پسندی ان آمروں کی انتہا پسندی سے بھی گھناؤنی ہو جاتی ہے جیسے آقا کے سلسلے میں ہوا کہ محمد رضا شاہ کی آمریت معمولی سی بات لگنے لگتی ہے۔ اور پھر اپنے پیرو کاروں کا بھی مسئلہ ہوتا ہے، رہنما ان کو جذباتی طور پر اتنا راکٹ کر دیتے ہیں کہ پھر ان کی انتہا پسندی کے بندی ہو جاتے ہیں۔ 

عقل مندی کی، سخاوت کی اور جمہوریت کی بات بھی کریں تو آس پاس ہی اتنا شور برپا ہو جاتا ہے کہ  ڈر لگتا ہے کہ کوئی اچھی بات کی تو اپنے ہی معزول کر دیں، مخالفوں تک بات ہی نہیں پہنچے گی۔

مَشرقِ وُسطیٰ میں تو دوسروں کے جمہوری حقوق کا احترام کرنے کا تجربہ ہی نہیں ہے۔ اور تجربے  میں اس کمی کی وجہ سے ایک آدھ سال میں مرسی کے لیے جمہوریت سیکھنا شاید اتنا آسان نہیں تھا۔ جمہوریت کا شاید بیسویں صدی کے آغاز میں کچھ فروغ ہو سکتا تھا، اس وقت برطانیۂِ عظیم اور فرانس سے  یہ سخاوت ممکن نہ ہوئی۔ ایران کے کیس میں تو امریکہ اور برطانیہ نے مل کر جمہوریت کے امکانات مسدود کیے۔

عالمی  جمہوری طاقتوں کا رویہ اس معاملے میں کچھ اچھا نہیں ہے۔ ایک طرف آپ جمہوریت کی راہیں بند کریں اور دوسری طرف آپ یہ توقع کریں گے کہ آمریت کے خلاف تربیت یافتہ جمہوری قوتیں ترقی کریں گی اور اقتدار میں آنے کے بعد بہتر قسم کے جمہوری آئین نافذ کریں گی جن  کا ایک شہری حقوق کا احساس رکھنے والے عوام کریں گے۔ یہ تو نہیں ہونے والا۔ 

سب نے کاملیت پرستی کی منظم کامیابی دیکھی ہوئی تھی اور مصر میں آمریت کے خلاف مزاحمت نے کاملیت پرستی کو مذہب سے منسلک کرنے کا رخ کر لیا۔ اور یہ مذہبی کاملیت پرست سال ہا سال جبر و ستم سہتے رہے، اس امید پر کہ جب انھیں موقع  ملے گا تو وہ ایک مکمل ضابطۂِ حیات نافذ کریں گے اور جب انھیں موقع ملا تو وہ حقائق کی طرف دیکھنے کی بہ جائے اپنے نظریے سے ہی چمٹے رہے۔ اور پھر آقا نے مذہبی کاملیت پرستی کے کامیاب نفاذ کی مثال بھی قائم کی ہوئی تھی۔

ان سب  باتوں کے با وجود مرسی، بہ ہر حال، مصر کے اکلوتے منتخب حکم ران تھے اور مصری فوج نے ان پر بے پناہ تشدد کیا۔ وہ بیمار تھے ان کا علاج نہیں ہونے دیا۔ ان کو فرش پر سونے پر مجبور کیا۔ ان کے خلاف جھوٹے مقدمے بنائے۔ جب کہ گزشتہ فرعون حسنی مبارک کے لیے قید بھی گلستان بنا دی۔ ساٹھ ہزار کے قریب لوگ جیلوں میں بند ہیں اور جب ان کے لیڈر کے ساتھ یہ ظلم و ستم روا ہے تو ان بے چاروں کا تو بہت ہی برا حال ہو گا۔ 

قطب سے مرسی تک پہنچنے میں تو بہت عرصہ لگ گیا تھا کیوں کہ جمال ناصر اس وقت مصر میں اور اسلامی دنیا میں  مقبول تھے، لیکن سیسی کی فرعونیت کے حوالے سے مصری اور غیر ملکی مشکوک بھی نہیں ہیں۔ اس دفعہ شاید الاخوان کی حکومت میں واپسی جلد ہو جائے اور قطب کے قتل کے بعد وہ سخاوت پر مائل نہیں ہو سکے تو اپنے منتخب ہیرو کے بیہمانہ قتل کو وہ کب فراموش کریں گے؟

جمہوریت کے حوالے سے معاملات مشکل ہی لگتے ہیں، لیکن حل اس معاملے کا سیکیولر یا مذہبی فرعون بننے میں نہیں ہے۔ جو تاریخ میں ہوا ہے، اس سے مختلف ہونے میں ہی ہے اور اختلاف کو برداشت کرنے میں ہی ہے۔ جمہوری قوانین کے نفاذ اور انسانی حقوق کے احترام میں ہی ہے۔

قطب، شریعتی اور خمینی وغیرہ کے خیالات کا جواب بہتر طرزِ حکومت تھا۔ وہ رستہ کسی نے نہیں چُنا اور آمریت کو ہی توانا کرتے رہے۔ اور اب شاید ایک بد تر طرز حکومت کا جواب خیالات کے اس سلسلے کو فروغ دے جو قطب، شریعتی اور خمینی وغیرہ سے بھی بد تر ہو۔ یہ بہت مشکل لگتا ہے کہ حسنی اور سیسی وغیرہ سے بھی بد تر حکومتیں مشکل ہیں۔ لیکن سمندر کی گہرائی تو ماپی جا سکتی ہے، مگر انسانی اچھائی کی طرح انسانی بدی کے امکانات کو ماپنا آسان نہیں ہوتا، بس حیرتیں ہی حیرتیں۔

 چوں کہ غلطیوں میں مَشعلِ راہ بننے کا امکان ہر وقت موجود رہتا ہے اس لیے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مصر میں بھی کچھ دانا موجود ہوں اور وہ یہ بات سمجھ لیں کہ اصل مسئلہ تو آمریت اور عدم برداشت ہے اور کسی سٹیج پر اس دانائی کے گرد ایک بہتر حکومت استوار کر لیں۔ اب دنیا سے کتنی صدیاں پیچھے رہیں گے۔ آمریت کی جتنی بھی شکلیں اختیار کی، سب کے نتائج تو ایک جیسے ہی نکلے۔ کسی نہ کسی سٹیج پر تو یہ شعُور پیدا ہو گا کہ آزمائے کو کیا آزمانا۔ اس کے بھی امکانات ہیں کہ شاید ایسا نہ ہو سکے۔