لینگ اور پیرول کی نفسیاتی منطق

حمیرا جبیں

 

زبان (language )کی ساخت (structure )کے ضمن میں متعارف ہونے والی دو جہتیں یا Ferdinand_de_Saussure_by_Jullienاِصطلاحات جنہیں سوسیئر نے لینگ اور پیرول کا نام دیا، اپنے اندر کسی بھی بولی جانے والی زبان کا ایک پورا نظام یا سسٹم رکھتی ہیں. اردو میں انہیں سمجھنے اور اپنی آسانی کے لیے ہم اسے لسان اور تکلم کا نام دیتے ہیں. لسان عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں زبان یا بولی جو کسی علاقے میں بولی جاتی ہے اور تکلم بمعنی کلام کرنا یا بات چیت کرنا.کائنات میں کوئی بھی مظاہرِ فطرت جڑا ہوا نہیں ہے ہر شے مختلف لیکن ایک دوسرے سے منضبط و منسلک ہے.سوسیئر کے مطابق اسی طرح زبان بھی بہت سے الفاظ کا مرکب ہے جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن ان میں انضباط وانسلاک کا ایک رشتہ موجود ہے. یہ رشتہ ایک سسٹم کے تحت مربوط یے.اس سسٹم میں تضاد اور ارتباط موجود ہے. منہ سے نکلنے والے الفاظ کا تضاد اس سسٹم کی تخصیص ہے.اگر ہم ایک ہی لفظ کتاب کتاب کتاب کتاب بولتے رہیں گے تو یہ کوئی جملہ نہیں. جب ہم کتاب کے لفظ کے ساتھ دیگر الفاظ کا انسلاک کریں گے تب ہی کوئی جملہ قابلِ فہم ہوگا. کسی بھی زبان کے طے شدہ قواعد اس تضاد میں ارتباط پیدا کرتے ہیں. منہ سی نکلنے والا لفظ ایک آواز ہے ایک صوت ہے. زبان گویا منہ سے نکلنے والی مختلف اصوات کا مجموعہ ہے.ہم نے مختلف اصوات کو کسی نہ کسی چیز سے وابستہ کر رکھا ہے نہ صرف اصوات کو بلکہ نفی و اثبات کے اشاروں کو،ریاضی کی علامتوں کو،ٹریفک کے سگنلز کے رنگوں کو اور ٹرین کی جھنڈیوں کو بھی کسی نشانی کے طور پر خیالات کی ترسیل کے لیے استعمال کیا جاتا ہے. آوازیں ،الفاظ،علامتیں یہ سب ایک زبان ہیں لینگوئج ہیں. سوسیئر نے زبان کو انہی نشانات کا مجموعہ یا سیمیالوجی قرار دیا ہے .لینگ (لسان ) اور پیرول (تکلم و تحریر )زبان یا لینگوئج سے وابستہ ہیں.زبان سے ادا ہونے یا ہماری سماعت سے گزر نے والی اصوات یا الفاظ جن کی ہم تفہیم حاصل کر لیتے ہیں ،ہمارے ذخیرہ ء الفاظ کا حصہ بن جاتی ہیں. وہ ہمارا لینگ ہوتی ہیں. ہمارے لینگ میں لاکھوں، کروڑوں بلکہ ان گنت الفاظ موجود ہوتے ہیں جنہیں ہم بوقتِ ضرورت پردہ ء شعور پہ لاکر ایک لفظ یا ایک جملے کے طور پر استعمال کرتے ہیں بولتے یا تحریر کرتے ہیں.یعنی “یہ ایک کتاب ہے”،ایک جملہ ہے.
الفاظ+الفاظ +الفاظ +الفاظ =جملہ (چار الفاظ پر مشتمل جملہ)
ان چار الفاظ کو ترتیب دینا ہمیں ہمارے قواعدِ زبان نے سکھایا.دراصل” ہے،یہ،کتاب ،ایک”…جیسے الفاظ ہمارے لینگ میں موجود تھے جو ایک مرتب جملہ بن کر ہمارے منہ سے ادا ہوئے یا کاغذ پر تحریر ہوئے تو پیرول بنے. گویا ذخیرہ ء الفاظ لینگ ہے اور اس سے نکال کر الفاظ کا بولنے یا لکھنے میں استعمال پیرول کہلاتا ہے. یہ ایک لسانی ساخت ہے Sign_Signifiedلیکن میرے نزدیک اس کا علمِ نفسیات کے ساتھ گہرا ربط ہے.نفسیات جو انسانی ذہن کے تمام تر افعال کا جائزہ لیتی ہے،ہر پہلو سے اس لسانی ساخت سے وابستہ ہے اس میں تمام ذہنی وظائف مثلاً ادراک ،استدلال ،ذہانت اور تخیل کارفرما ہیں. ادراک کی تعریف کچھ یوں ہے کہ جب ہم حسی صفات (یعنی حواسِ خمسہ )کو ان اشیاء سے منسوب کرتے ہیں جن سے ہم پہلے سے واقف ہوتے ہیں تو اس کو ہم ادراک کہتے ہیں. مثلاً ہارن کی آواز سن کر پہچان لینا کہ یہ ہارن کی آواز ہے پھر استدلال کرنا کہ یہ بس کا ہارن ہے یا کار کا یا موٹر بائیک کا. اس کے ساتھ ہی پردہء تخیل پر اس چیز کی تصویر ابھر آتی ہے جس کاہارن ہو یہ ادراکی ،استدلالی،تخیلی ،اور تفہیمی عمل کافی سرعت سے اورکسی غیر محسوس طریقے سے میکانکی انداز میں وقوع پذیر ہوتا ہے.بالکل اسی طرح لینگ اور پیرول بھی اپنا کام کرتے ہیں اگر ہماری سماعت کوئی ایسی آواز سنے جو ہم نے پہلے کبھی نہ سنی ہو تو ہم پہچان نہیں پائیں گے کہ یہ کس چیز کی آواز ہے اسی طرح ہمارے سامنے لفظ” کتاب “یا “میز”بولا جائے تو ہم نہ صرف سمجھ جاتے ہیں کہ یہ کتاب یا میز ہے بلکہ ان کی تصویر بھی ہمارے تصور میں بن جاتی ہے لیکن اگر ہمارے سامنے لفظ “دویدن “بولا جائے یا کسی اور زبان کا لفظ بولا جائے تو ہم نہیں سمجھ پائیں گے جب تک کہ ہمیں ان الفاظ کے معنی کی تفہیم نہ ہوجائے. جب ہمیں الفاظ کے معنی کا علم ہو جائے گا تو گویا وہ لفظ ہمارے احاطہء لسان و زبان میں داخل ہو گیا.ہمارے لینگ کا حصہ بن گیا.لینگ اور پیرول کی نفسیاتی منطق یعنی ان کا ادراک ،استدلال ،تخیل اور ذہانت کے ساتھ جو ارتباط و انسلاک پیش کیا گیا ہے شاعری اس کی بہترین مثال ہے.شاعر کے پردہء ذہن پر کوئی منظر یا خیال ابھرتا ہے اور شاعر اپنے ذخیرہء الفاظ سے مدد لے کر قواعدِ زبان وعروض کو سامنے رکھتے ہوئے اسے ایک مربوط و منضبط شعر کے قالب میں ڈھالتا ہے گویا وہ مذکورہ ذہنی قوٰی و وظائف مثلاً ادراک، استدلال اور تخیل وذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے لینگ اور پیرول کو بھی استعمال کرتا ہے.لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ لینگ اور پیرول ایک لسانی ساخت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نفسیاتی موضوع بھی ہیں.