عورتوں کی تعلیم اور ہماری سماجیات

عورتوں کی تعلیم اور ہماری سماجیات

از، قاسم یعقوب

عورتوں کی تعلیم کا مسئلہ ہمارے سماجی ماحول میں ایک ایسا تنازعہ ہے جسے حل کرنے والے خود تنازعات کا شکار ہو جاتے ہیں۔عورتوں کی تعلیم پاکستانی معاشرے میں ابھی تک انہی چند بنیادی سوالات کے گرد گھوم رہی ہے کہ کیا عورت کی تعلیم ضروری بھی ہے اور اگر عورت تعلیم یافتہ ہے تو اُس کو معاشرے میں کیا مقام دیا جانا چاہیے۔ یہ دونوں سوال ایک ہی نوعیت کے ہیں کیوں کہ ہمارا معاشرے میں عورت غیر تعلیم یافتہ بھی بے کار اور معاشرے کا عضوِ ناکارہ اور اگر تعلیم یافتہ ہے تو پھر بھی معاشرے کا ایک غیر فعال اور اضافی جزو ہی تصور کی جاتی ہے_____میں یہاں ان دو سوالوں میں سے پہلے دوسرے سوال کا جواب اُن مسائل کی روشنی میں دینے کی کوشش کرتاہوں جن سے عورت کو گزر کر نام نہاد ’’تعلیم یافتہ‘‘ ہونے کا لیبل دیا جاتاہے۔ یوں وہ بغیر تعلیم یافتہ عورت کے ہم پلہ ہی قرار پاتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں عورت کو بطور طالب علم’’ ناقبولنے‘‘ کا پہلا عمل تعلیمی ادارے ہی سے شروع ہوتا ہے۔ وہ تعلیمی اداروں میں سماج کے اُن رویوں کا سامنے کرتی ہیں جو رویے کم اوراخلاقی جرائم زیادہ ہوتے ہیں۔ صنف کی ادنیٰ اور اعلیٰ تقسیم تو وہیں سے شروع ہو جاتی ہے جب عورت کو مرد کے تناظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یوں مرد پہلا اور اعلیٰ جینڈرپہلے ہی موجود ہوتا ہے ۔ لڑکی ایک سیکنڈ جینڈر کے طور پر اپنی سماجی حیثیت کو معاشرے میں پیش کرتی ہے۔ تعلیمی اداروں میں عورت کا استحصال صرف مخالف جینڈر یعنی مرد نہیں کرتا۔بلکہ عورت ، عورت کا استحصال کرنے میں کسی بھی طرح مرد سے کم نہیں ہوتی۔ عورت، اپنی ہم جنس صنف کو یہ باور کرواتی ہے کہ وہ سیکنڈ جینڈر ہے۔بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ سکول اور کالج کی سطح پر لڑکیوں کو لڑکی بنانے میں سب سے زیادہ کردار ٹیچرز کا ہوتا ہے تو بے جا نہ گا۔ یہ ٹیچرز ہی لڑکیوں کو معاشرے میں رائج مر د حاکمیت کے اصول سکھاتی ہیں اورانھیں ایک دبی ہوئی زندگی گزارنے پر مائل کرتی ہیں۔ پھرتعلیمی اداروں میں عورتوں کے ہاتھوں طالبات کے ساتھ جنسی استحصال کے مشاہدات بھی ملتے ہیں ۔ ایسا نہیں کہ جنسی آلودگی صرف ہمارے جیسے معاشروں میں پائی جاتی ہے بلکہ ترقی یافتہ معاشروں میں بھی جہاں عورت کی فسٹ اور سیکنڈ جینڈر کی تقسیم والی شرح بہت کم ہے ، طالبات کے فی میل ٹیچرز کے ہاتھوں جنسی طور پر استعمال ہونے کے واقعات ملتے ہیں۔
ہمارے معاشروں میں ایک اور خطرناک فلاسفی عورت کو معاشرتی قدروں کی تخلیق میں حصہ دار تسلیم نہ کرنا بھی ہے۔ مزے والی بات یہ کہ عورت خود اپنے آپ کو اس بات پر قائل کر چکی ہے کہ وہ معاشرے میں خاموش(Dorment)کردار ہی ادا کرے گی۔کوئی متحرک [Active] سماجی ذمہ داری اُس کے کاندھوں پر نہیں لادی جا سکتی۔ آپ نے اکثر یہ سنا ہوگا کہ عورت خود یہ کہتی سنائی دیتی ہے کہ’’ میرے بچے تو میرے مرد(خاوند) کے ہیں‘‘۔ یعنی وہ خاوند کی اس ذمے داری کو ایک ملازمہ کے طور پر اداکررہی ہے۔ تعلیم یافتہ لڑکی تعلیم کے دوران بھی یہی تصور رکھتی ہے کہ میں شادی کے بعد صرف مرد کی ہو جاؤں گی اور میری زندگی کا تصور(World View)صرف وہی ہوگا جو وہ مجھے مہیا کرے گا۔تعلیم یافتہ ہوں یاان پڑھ، عورتیں وہی کامیاب سمجھی جاتی ہیں جو اپنے آپ کو ’’سسرال‘‘ کے ماحول میں ’’ڈھال ‘‘لیں۔میرے خیال میں اس نکتے کو سمجھنے کی ضرورت ہے جس نے عورت کوتعلیم کے شعبے میں بھی ایک ناکارہ عضو کے طور پر پیش کیا ہے۔ عورت پڑھی لکھی بھی بے کار اور ان پڑھ ہو کربھی معاشرے کی تخلیقی قدروں سے دورہی رہتی ہے_____عورت کی تعلیم اسی لیے ایک اضافی سرگرمی تصور کر لی جاتی ہے، وہ تو اپنے بچوں تک کی مالک نہیں تو معاشرے کی دیگر فعال سرگرمیاں کس طرح عورت کو سونپ دی جائیں۔ ہمارے ارد گرد آپ کو اکثر نظر آئے گا کہ عورت کو بہت پڑھا لکھا ہونے کے باوجود گھر میں بیٹھنے اور بچے پالنے جیسے ذمے داری تک محدود کرکے عورت کے مقام کو’’ توقیر‘‘ دینے کی کوشش ملتی ہے۔یہ تصور عام ہے کہ عورت کا کوئی نوکری یا ملازمت کرنا اصل میں اُسے معاشرے میں ذلیل کروانا ہے۔ عورت چوں کہ پورے خاندان خصوصاً مردوں کی ’’عزت‘‘ ہے اس لیے معاشرے میں چند ’’روپوں‘‘ کی خاطر دربدر دھکے کھانا پورے خاندان اور مردوں کی توہین ہے ، عورت خواہ کتنی ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو اس طرح کے تصورات کی وجہ سے گھر بیٹھنے پر مجبور کر دی جاتی ہے۔اب بھلا کیسے سمجھایا جائے کہ اگر ڈاکٹر یا سائنس دان یا کسی بھی سبجیکٹ کی لڑکی اپنے شعبے سے دور کر دی جائے تو وہ خاک تعلیم یافتہ رہے گی۔
عورت خود بھی شاید یہی چاہتی ہے۔ آپ ایک معمولی سا سروے کر کے دیکھ لیجیے۔ میں نے ایک یونیورسٹی کی ماسٹرزکی کلاس میں تواتر سے سوال دہرایا کہ آپ میں سے کتنی ہیں جو آگے ملازمت کرنے کی خواہاں ہیں یا مزید تعلیم حاصل کرنا اور ریسرچ سے منسلک ہونا چاہتی ہیں، مجھے صرف دو فیصد خواتین نے اثبات میں جواب دیا۔یہ جواب صرف ایک کلاس کا نہیں بلکہ ہر سال اسی طرح کا جواب ملتا رہا۔طالبات اگر اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں تو وہ پہلے ہی سے خود کو متعین کر رہی ہیں کہ ہمیں اس تعلیم سے محض معاشرے کا پیٹ بھرنا ہے اور بس___
پاکستان کے بڑے شہروں سے دور اور مضافاتی علاقے اس سلسلے میں ایک کیس سٹڈی کے طور پر پیش کئے جا سکتے ہیں۔جہاں عورت کی تعلیم عورت کو ذرا بھی بدلنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ عورت کو مذہب اور سماجی روایات کے بندھن میں غیر ضروری ’’اضافوں‘‘ کے ساتھ جکڑ دیا جاتا ہے۔وہ تعلیم حاصل کرتے ہوئے اور تعلیم دیتے ہوئے بھی اپنے آپ کو سیکنڈ جینڈر کے طور پر ہی تصور کرتی ہے۔ استحصال کروانا اُس کی گھٹی میں شامل کردیا جاتا ہے۔ ہماری نام نہاد ’’مغرب زدہ‘‘ این جی اوز نے عورت کے ساتھ جنسی زیادتی کو ہی عورت کا استحصال قرار دیا ہے۔ مگر یہ استحصال تو صرف ایک مسئلہ ہے اس طرح کے بیسیوں مسائل عورت کے سماجی اور معاشرتی رتبے کی توہین کر رہے ہیں مگر یہ سماجی ادارے بیکار پریکٹس کررہے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ عورتوں کی تعلیم میں اس بات کو پیشِ نظر رکھا جائے کہ سب سے پہلے تعلیم دینے والی عورت خود برابر صنف [Equal Gender]کا اعتماد حاصل کرے۔ ایسی عورت جو بچیوں کو تعلیم دیتے ہوئے عورت کو ایک سیکنڈ جینڈر کی مخلوق بناکر پیش کرے ، جرم قرار دیا جائے ۔تعلیم کے مسائل عورت کے سماجی مسائل کی روشنی میں مرتب کیے جائیں۔معاشرتی سطح پر دوسرا اہم کام ،عورت کا گھر میں اعتماد کو بحال کرنا ہے۔ اُسے عزت دی جائے اور اُسے فعال تصور کیا جائے۔ شاید اس طرح عورت کی تعلیم معاشرے میں مرد کی تعلیم کی طرح کوئی مثبت اور متحرک کردار ادا کر سکے۔ورنہ عورت پڑھی لکھی اور ان پڑھ دونوں صورتوں میں اپنی نظر اور معاشرے کی نظر میں، ایک دوسری سطح کا انسان ہی تصور کی جاتی رہے گی۔

About قاسم یعقوب 69 Articles
قاسم یعقوب نے اُردو ادب اور لسانیات میں جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے ماسٹرز کیا۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل کے لیے ’’اُردو شاعری پہ جنگوں کے اثرات‘‘ کے عنوان سے مقالہ لکھا۔ آج کل پی ایچ ڈی کے لیے ادبی تھیوری پر مقالہ لکھ رہے ہیں۔۔ اکادمی ادبیات پاکستان اور مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد کے لیے بھی کام کرتے رہے ہیں۔ قاسم یعقوب ایک ادبی مجلے ’’نقاط‘‘ کے مدیر ہیں۔ قاسم یعقوب اسلام آباد کے ایک کالج سے بطور استاد منسلک ہیں۔اس کے علاوہ وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے وزٹنگ فیکلٹی کے طور پر بھی وابستہ ہیں۔