نئی نسل جدید قبیلے ہیں

Yasser Chattha

نئی نسل جدید قبیلے ہیں

از، یاسر چٹھہ

کیان بختیاری، Kian Bakhtiar، دی پیپل، The People کا بانی ہیں جو کہ نو جوانوں کی ثقافت سے متعلق ایوارڈ یافتہ مشاورتی ادارہ ہے۔ یہ پہلے ڈینسو ایجیس نیٹ ورک، Dentsu Aegis Network میں حکمتِ عملی کے سربراہ تھے، جو دنیا کے سب سے بڑے میڈیا اور اشتہاری گروپوں میں سے ایک ہے۔ مارکیٹنگ میں اپنی خدمات کے لیے، انہیں فنانشل ٹائمز کے ذریعے مستقبل کے 20 اعلیٰ رہنماؤں میں شامل کیا گیا ہے۔ آپ میڈیا فیسٹیول کے لیے عالمی جج، وَن ینگ ورلڈ ایمبیسڈر، اور ورلڈ اکنامک فورم میں ایجنڈا بنانے کے شراکت کار بھی ہیں۔ کیان بختیاری برانڈز اور نو جوان افراد کے ما بین فاصلے کو دور کرنے اور تخلیقی صلاحیتوں کی طاقت کو اچھے انداز سے استعمال کرنے کے پُر جوش حامی ہیں۔

بختیاری نے فوربز میگزین، Forbes میں حالیہ ایک مضمون، Stop Marketing to Millennials or Gen-Z and Start Marketing to Tribes میں نو جوان نسل کے لیے مارکیٹنگ کے لیے ان کا سماجیاتی و نفسیاتی انداز کا تجزیہ کیا ہے۔ یہ تجزیہ نو جوانوں کے ووٹنگ کے روَیّہ کو سمجھنے میں بھی کافی معاون ہو سکتا ہے۔ اس مضمون کے چند نکات یہاں پیش کیے جاتے ہیں:

1۔ عالم گیریت کے خاتمے نے ایک نئے معاشرتی نظام کو جنم دیا ہے۔ دنیا اب ایک عالمی گاؤں نہیں رہی ہے، بَل کہ مختلف رنگوں ڈھنگوں کے قبائل کا تِھیئٹر بن گئی ہے: جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے غیر متوقع انتخاب، برطانیہ کی بریکسٹ تقسیم، اور معدومیت کی بغاوت، Extinction Rebellion جیسی تحریکوں کے عروج سے دیکھا گیا ہے۔ موجودہ ڈیجیٹل دور میں جدید قبائل عمر یا مقام کی بَہ جائے مشترکہ ذہن اور سوچنے کے انداز کے ذریعے متحد ہو کر سامنے آئے ہیں۔  پَنک Punk، ہِپّی، hippy، اور گزرے دنوں کے گوتھز، Goths کے برعکس، یہ نئی قبائلی وابستگیاں پوشیدہ رہی ہیں۔ جدید قبائل فیس بک، ٹویٹر، رَیڈِّیٹ، Reddit، ٹویچ، Twitch، اور ڈسکارڈ، Discord پر ایک جیسی آوازوں کے بیچوں بیچ رہتے ہیں۔

2۔ جدید قبائل کا سامنے آنا اور نمُو پانا برانڈز اور مارکیٹرز کے لیے بڑے مضمرات کا حامل ہے۔ 2020 تک، جنریشن Z، عالمی سطح پر millennials سے تعداد کے لحاظ سے آگے نکل جانے والا ہے۔ اگر برانڈز صارفین کی اگلی نسل تک پہنچنا چاہتے ہیں تو، انہیں نو جوانوں کے مختلف طبقات کی مختلف ضروریات، طرزِ عمل اور رویّوں کے بارے میں گہری بصیرت حاصل کرنے کی ضرورت ہو گی۔ آبادیاتی تفصیلات، یعنی ڈیموگرافک پروفائلز، سے آگے جانا کسی مارکیٹنگ سٹریٹجی کو اب کسی قسم کے سرخاب کے پَر لگانے جیسا معاملہ نہیں رہا، بَل کہ کار و بار کے لیے اشد ضروری اَمر بن گئے ہے۔

3۔ بات کے آغاز کے طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ millennials اور جنریشن زیڈ دنیا کی اس وقت کی پوری آبادی کا 64٪ بن گئے ہیں۔ یہ ششدر کردینے والی 4.7 بلین انسانوں کی تعداد ہے۔ وہ سب کیسے ایک ہی طرح سوچ سکتے ہیں، یا عمل کرسکتے ہیں؟ جہاں ہر کوئی رپورٹ یہ ہی کہہ رہی  ہوتی ہے کہ نو جوان سست ہیں، اور تو ساتھ ہی دوسری رپورٹ یہ بات بھی کرتی ہے کہ وہ بہت زیادہ کام کرتے ہیں۔ ہر ایک مضمون جو ان کے بارے میں یہ بتاتا ہے کہ وہ انفرادیت پسند ہیں، تو دوسرا مضمون اشارہ کرتا ہے کہ شراکت و معاشرتی ذہن کے حامل ہیں۔ اور ہر کہانی جو ان کے بارے میں بتاتی ہے کہ وہ نرگسیت کا شکار ہیں، جب کہ دوسری کہانی یہ بات بیان کرتی ہے کہ وہ دنیا کو بچانے کا سوچ رہے ہیں۔ اس طرح کے تضادات کا در آنا، زرخیز، متنوع اور کثیرالجہاتی آبادیاتی گروپ کو ایک ہی برش سے پینٹ کرنے کا نا گزیر نتیجہ ہیں۔ نو جوان لوگ یک رنگی مارکیٹنگ کا طبقہ نہیں ہیں۔ ان کے ساتھ ایسا سلوک کرنے کا مطلب ان افراد کو مناسب طور طور پر سمجھنے کی ذہنی سستی ہے، یہ اس نسل کے اندر کا مسئلہ نہیں۔

4۔ اب، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہر نسل منفرد تاریخی، معاشرتی اور معاشی واقعات کا تجربہ کرتی ہے جو ان کے تصورِ حیات اور زندگی کے امکانات کی تشکیل کرتی ہے۔ یقیناً، ایسا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، عظیم کساد بازاری کا مطلب یہ ہے کہ نو جوان بالغ اب اوسطاً اپنے ہم وطن کی نسبت 20٪ کماتے ہیں۔ ڈیجیٹل ڈیوائسز اور سوشل میڈیا کے عروج نے کم اَز کم برطانیہ میں نو جوانوں کو کسی بھی عمر کے گروپ سے زیادہ تنہا کردیا ہے۔ جب کہ موسمیاتی تبدیلی کا وجودی خطرہ دنیا بھر کے نو جوانوں کو کسی قسم کی بھی اقدامی کارروائی کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ لیکن کسی ایک نسل کے اپنے اندر اندر اتنا ہی تنوع پایا جاتا ہے جتنا مختلف نسلوں کے ما بین ہو سکتا ہے۔ کسی اور انداز سے سوچنا لوگوں کے انفراد، شخصیت اور انہیں مختاری سے محروم کر دینے کے مترادف ہے۔ مثال کے طور پر، ڈونلڈ ٹرمپ اور بارک اوباما دونوں Baby Boomers ہیں۔ جے زیڈ اور جیف بیزوس دونوں ہی جنریشن X کا ایک حصہ ہیں۔ کرسٹیانو رونالڈو اور مارک زکربرگ دونوں millennials ہیں؛ ملالہ یوسف زئی اور کائلی جینر دونوں ہی جنریشن زیڈ کا ایک حصہ ہیں۔ جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں، صرف عمر انفرادی شناخت یا ضروریات کا فرق کرنے کا ناقص پیمانہ ہے۔

5۔ ہم ایک ما بعد آبادیاتی، post demographic، دنیا میں رہتے ہیں، جہاں طرزِ عمل کے نمونوں کی پیش گوئیاں صرف اور صرف عمر کے معیار کے زیرِ اثر نہیں کی جا سکتی ہیں۔ لہٰذا، برانڈز کو روایتی آبادیاتی طبقات سے قبائل کی طرف جانے کی ضرورت ہے: وہ قبائل جو مشترکہ ذہن، فکر اور رویّوں کے گرد جمع شدہ افراد کے گروہ ہوں۔ ایسا کرنا آسان نہیں ہے، اس کے لیے افراد اور گروہوں دونوں کے بنیادی خیالات، خوابوں، چیلنجوں اور ضروریات کے بارے میں بڑی سرمایہ کاری، پہلی پارٹی کے اعداد و شمار اور کیفیاتی تحقیق کی بصیرتوں کی ضرورت ہے۔ اس کے با وُجود، طویل مدتی فوائد مختصرمدت کے اخراجات سے کہیں زیادہ ہیں۔ جدید صارفین کے قبائل کو ترتیب و منظم شکل دے کر، برانڈز کے پاس زندگی میں ایک بار موقع ہے کہ وہ صارفین کی اگلی نسل کے دل و دماغ جیت سکیں۔

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔