کارکنوں کے حقوق اور کرونا وبا کا چیلنج

صلاح الدین صفدر
صلاح الدین صفدر، تصویر بَہ وساطت فیس بک

کارکنوں کے حقوق اور کرونا وبا کا چیلنج

الٹا اس دوران کارکنوں کی مجموعی کارکردگی میں بہتری کا اعتراف بھی کیا گیا۔ اجلاس میں جب کارکنوں کا نقطۂِ نگاہ پیش کرنے کا وقت آیا اور گھر سے کام کرنے کے دوران چھٹی کا کوئی مُعیّن وقت نہ ہونے، انتظامیہ کی جانب سے ایک ایک منٹ کا حساب مانگنے کی روش، اور گرم موسم میں گھریلو دفتر کا درجۂِ حرارت معتدل رکھنے کے اضافی اخراجات جیسے مسائل کی طرف توجُّہ دلائی گئی تو اسے مذاق میں اڑا دیا گیا۔

از، صلاح الدین صفدر 

ایک بلا منافع، non-profit، کام کرنے والے ادارے میں کام کرتا ہوں۔ یہ ادارہ کارکنوں کے حقوق کے حوالے سے بلا شبہ پاکستان کے چنیدہ ترقی پسند اداروں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔

حالیہ وبا کے پیشِ نظر ہم گذشتہ دو ماہ سے گھر سے کام کر رہے ہیں۔ اس دوران ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی بَر وقت ہوتی رہی ہے جو ان حالات میں نجی شعبے میں کام کرنے والوں کے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں۔

دو ماہ سے اوپر ہو چلے بڑے بڑے اداروں کی کمر ٹوٹنے والی ہو گئی ہے، لیکن وبا کا زور نہیں ٹوٹا۔

لیکن ایک اور ساتھی کے کسی دوسرے شہر میں ادارے کے دفتر سے سننے میں آیا حالیہ دنوں میں اُس ادارے کے کاموں پر پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے ایک اجلاس ہوا تو انتظامیہ کو اس بات کے قلق میں مبتلا پایا گیا کہ ملازمین گھر سے کام کرتے ہوئے بیمار کم پڑ رہے ہیں، اور اتفاقیہ رخصت پر بھی کم جا رہے ہیں۔

وہاں اس چلن کو کارکنوں کی پیشہ وارانہ اوقاتِ کار میں ڈنڈی مارنے کی عادت پر محمول کیا گیا۔ حالاں کہ ان دو ماہ میں اُس دوست کے ادارے کے کسی ایک کارکن کے خلاف ایسی کوئی شکایت سامنے نہیں آئی کہ دفتری اوقات میں رابطہ کرنے پر اسے غیر حاضر پایا گیا ہو۔

الٹا اس دوران کارکنوں کی مجموعی کارکردگی میں بہتری کا اعتراف بھی کیا گیا۔ اجلاس میں جب کارکنان کا نقطۂِ نگاہ پیش کرنے کا وقت آیا اور گھر سے کام کرنے کے دوران چھٹی کا کوئی مُعیّن وقت نہ ہونے، انتظامیہ کی جانب سے ایک ایک منٹ کا حساب مانگنے کی روش، اور گرم موسم میں گھریلو دفتر کا درجۂِ حرارت معتدل رکھنے کے اضافی اخراجات جیسے مسائل کی طرف توجُّہ دلائی گئی تو اسے مذاق میں اڑا دیا گیا۔

حالاں کہ میرے دوست کے مطابق ایک عمومی جائزے کی رُو سے موجودہ حالات میں یہ مسائل کارکنوں کی اکثریت کے لیے سر درد کا باعث تھے۔

ملازمین کے حقوق اور مسائل کے تئیں اچھی شہرت کے حامل اداروں کا اس قسم کا مبینہ رویہ ہے، تو خالصتاً منافع کے لیے کام کرنے والی فیکٹریوں، اور کاروباری اداروں کا حال آپ خود سوچ لیجیے۔

آنے والے دنوں میں بے روزگاری میں اضافے کے ساتھ ساتھ کارکنان کے حقوق کی خلاف ورزی کا جن بھی بوتل سے باہر آنے والا ہے۔ یہ موضوع ہمارے ہاں پہلے ہی بہت پامال ہے اور اب اس کے پاتال میں گرنے کا وقت آنے لگا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ کارکنوں کے حقوق کا تحفظ صرف کارکن خود ہی کر سکتے ہیں۔ حکومت یا امداد پر چلنے والے منصوبوں سے ایسا ہونا ممکن نہیں لگتا۔ کارکنوں کو اپنی طاقت پہچاننا ہو گی کہ سیٹھ کی دکانیں، کارخانے دار کی ملیں، اور بابووں کے دفتر اس کے بَل پر چلتے ہیں۔

اگر کارکن اکٹھے ہو جائیں تو پھر کسی آجر کو کارکنوں کی کسی پریشانی کا ٹَھٹھا اڑانے کا موقع نہیں ملے گا۔

اس دورِ ابتلاء میں مالی وسائل اور کاروباری منافع پر لگی کاری ضرب اور ادارے چلانے میں پیش آنے والی مشکلات بَہ جا ہیں، لیکن کارکنوں کو درپیش ذہنی اور مالی مشکلات بھی نظر انداز کیے جانے کے قابل نہیں ہیں۔