پاکستان کو واچ لسٹ میں ڈالنے کے انتظامات

نصرت جاوید

پاکستان کو واچ لسٹ میں ڈالنے کے انتظامات

از، نصرت جاوید

ٹرمپ انتظامیہ کے اقتدار میں آنے کے دن سے بارہا اس کالم کے ذریعے متنبہ کرتا رہا ہوں کہ پاکستان کے بارے میں نام نہاد ”عالمی اداروں“ نے جو ارادے باندھ رکھے ہیں معاملات اب ان پر عمل درآمد کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ میری فریاد کسی نے سنی ہی نہیں۔ کالم ویسے بھی وہ ”ہٹ“ ہوتا ہے جس میں راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر کا تذکرہ ہو۔ چند ”چور لٹیرے“ سیاست دانوں کے لتے لیے جائیں۔ یہ امید دلائی جائے کہ ہمارے سیاپے بلھے شاہ کے بتائے کسی رانجھے یا اقبال کے مطلوب ”دیدہ ور“ کو جلد منظرِ عام پر لانے والے ہیں۔ وطنِ عزیز کے خلاف بنائے منصوبوں کا ذکر تک سننا بھی کوئی گوارہ نہیں کرتا۔ ”مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی“ کا ورد خود کو ناقابلِ تسخیر سمجھنے میں آسانیاں پیدا کرتا ہے۔ ذرا بھر کو یہ سوچنے کا تردد کیے بغیر کہ ہم کہاں کے ”مومن“ ہیں، کس ہنر میں یکتا ہیں۔

بہرحال منگل کی رات بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی کے ذریعے یہ اطلاع آگئی ہے کہ امریکہ نے برطانیہ کے ساتھ مل کر فرانس اور جرمنی کو بھی اس امر پر قائل کرلیا ہے کہ آئندہ ہفتے ”پیرس میں ہونے والے Financial Action Task Force (FATF) کے اجلاس میں پاکستان کو ان ممالک پر مشتمل فہرست میں شامل کر دیا جائے جو اس ادارے کی watch list  پر موجود ہیں۔

یہ بین الاقوامی ادارہ اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 1276 کے ذریعے قائم ہوا تھا۔ اس کے ذریعے بین الاقوامی بینکاری کے نظام میں ایسے اقدامات کو لازمی ٹھہرایا گیا ہے جو ”دہشت گرد“ ٹھہرائے افراد یا تنظیموں کو کسی بھی حوالے سے رقوم کی فراہمی کو ناممکن بنا دیں۔

جن ممالک میں ”دہشت گرد“ ٹھہرائے افراد یا تنظیمیں متحرک ہیں۔ انہیں بھی ایسے قوانین بنانے پر مجبور کیا جاتا ہے جو ان افراد یا تنظیموں کی باقاعدہ نشاندہی کے بعد ان کے خلاف حکومتی کارروائی کو یقینی بنائیں۔

پاکستان کے جن افراد یا تنظیموں کا اس حوالے سے ذکر ہوتا ہے مجھے ان کا نام لینے کی ضرورت نہیں۔ میں ہرگز یہ بات سرجھکاتے ہوئے تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ مذکورہ افراد یا تنظیمیں واقعتا ”دہشت گرد“ ہیں۔ برحق بات یہ بھی ہے کہ نام نہاد ”عالمی ضمیر“ کافی منافق ہے۔ یہ کھرے اور طے شدہ اصولوں کے مطابق کام نہیں کرتا۔ بسا اوقات جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا رویہ اختیار کرتا ہے۔ ”عالمی ضمیر“ کو لیکن کسی بھرپور بیانیے کی مدد سے متاثر کیا جاتا ہے۔ ہمارا بیانیہ اگر کوئی ہے بھی شاید مبنی برحق ہوگا لیکن ہم اسے باقی دنیا کے روبرو کامیابی سے مارکیٹ نہیں کر پائے ہیں۔

اس ضمن میں ہماری ناکامی کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ 9 فروری کے دن صدر پاکستان کے دستخطوں سے ایک ”آرڈیننس“ جاری ہوا ہے۔ قومی اسمبلی اور سینٹ کے ذریعے باقاعدہ قانون سازی کے مراحل سے گزرنے سے قبل ہی ہم نے دہشت گردی سے متعلق مختلف قوانین میں چند اہم ترامیم کردی ہیں۔ ان ترامیم کے ذریعے قانونی طورپر ہر وہ قدم اٹھالیا گیا ہے جن کا تقاضا ”عالمی اداروں“ کی جانب سے کئی برسوں سے ہو رہا تھا۔

میرے سمیت کئی پھنے خان رپورٹروں نے آپ کو تحقیق کے بعد یہ بتانے کا تردد ہی نہیں کیا کہ 9 فروری کو ”اچانک“ یہ ترامیم متعارف کروانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ ان ترامیم کی ”فرمائش“ ہمارے کن اداروں سے آئی اور انہیں عجلت میں متعارف کروانے کو تمام ریاستی اور حکومتی ادارے کیوں تیار ہو گئے۔

مجھ ایسے عقل کل بنے لکھاریوں نے آپ کو یہ سمجھانے کی بھی کوشش نہیں کی ہے کہ FATF ہے کیا بلا۔ کسی ملک کو یہ ادارہ اپنی واچ لسٹ پر ڈا ل دے تو اس کے مذکورہ ملک کی معاشی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ احتیاطاً یہ بات یاد دلانا بھی ضروری ہے کہ پاکستان اس سے قبل بھی اس ادارے کی watch list پر رہا۔ 2015ء میں وہاں سے ہٹایا گیا۔ watch list سے ہٹائے جانے کے لیے نواز حکومت نے چند ٹھوس اقدامات اٹھائے تھے۔ ان اقدامات کی تفصیل میں جائے بغیر عرض صرف اتنا کرنا ہے کہ ان ہی کی بدولت نواز شریف کو ”مودی کا یار“ ٹھہرایا گیا تھا۔

اس کے بعد ”پانامہ“ ہوا اور ”مودی کے یار“ کی فراغت ہوگئی watch list مگر اپنی جگہ موجود رہی۔ اب اس پر ہمارا نام دوبارہ ڈالنے کے ارادے ہیں۔ اسے روکنے ہی کو 9 فروری والا آرڈیننس جاری ہوا ہے۔ اس آرڈیننس کو تیار اور لاگو کرنے والوں پر مگر ”مودی کے یار“ ہونے کی تہمت نہیں لگی۔ سوال اگرچہ یہ بھی ہے کہ مذکورہ آرڈیننس کا نفاذ ہمیں واچ لسٹ سے باہر رکھنے میں کتنا مدد گار ثابت ہوگا۔

غیر ضروری تفصیلات میں الجھے بغیر فی الوقت یہ بتانا انتہائی ضروری ہے کہ اگر پاکستان کو دوبارہ FATF کی واچ لسٹ پر ڈال دیا گیا تو ہمارے ہاں بیرون ملک سے آئی رقوم کی ترسیل میں کئی سنگین رکاوٹیں کھڑی ہوجائیں گی۔ ان رکاوٹوں کا بنیادی اثر ہمارے ان صنعت کاروں پر ہو گا جو غیر ملکی منڈیوں، خاص کر امریکہ اور یورپ کے ملکوں کے لیے مختلف مصنوعات تیار کرتے ہیں۔ ان کے مال کی سپلائی کے بعد جو رقوم پاکستان آئی ہیں، ان کی ہمارے ہاں منتقلی سے قبل کڑی جانچ پڑتال ہوگی۔

یہ طے کیا جائے گا کہ مثال کے طورپر جرمنی سے بھاری رقم والا کوئی چیک جاری ہوا ہے تو یہ واقعتاً کسی ایسی کھیپ کی قیمت ہے جو مصنوعات کی صورت چیک جاری کرنے والے فرد یا ادارے کو بھیجی گئی تھی۔ double check کا اہتمام جو ہمارے برآمد کنندگان کے لیے cash flow کے بے تحاشا مسائل کھڑے کرسکتا ہے۔ بیرون ملک مقیم ہمارے بھائی اپنے پیاروں کی کفالت کے لیے جو رقوم بھیجتے ہیں وہ بھی پاکستان کے FATF کی بنائی واچ لسٹ پر آنے کی بدولت مزید چھان بین کا نشانہ بنیں گی۔

روزمرہ زندگی کے معاملات سے بالاتر حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں درآمدات اور برآمدات کے ذریعے خرچ یا حاصل ہوئی رقوم میں جو بھاری بھر کم تفاوت نظر آرہا ہے وہ ایک بار پھر پاکستان کو آئندہ آنے والے چند ہفتوں میں IMF سے کوئی بیل آﺅٹ پیکیج لینے پر مجبور کر سکتا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی اس ادارے کے اہم ترین فیصلہ ساز ہیں۔ ان ممالک کی خواہشات مناسب حد تک پوری کیے بغیر IMF ہمارے تجارتی خسارے کی وجہ سے آئی مشکلات سے نبرد آزما ہونے کے لیے کوئی cushion فراہم کرنے کو آمادہ نہیں ہوگا۔ چین اپنا یار ہے، اس پر جان بھی نچھار ہے۔ چین مگر اپنے دوست ممالک کی معاشی مشکلات کے مداوے کے لیے نقد رقوم فراہم کرنے کا عادی نہیں۔ ویسے بھی عالمی منڈی کا رائج الوقت سکہ امریکی ڈالر ہے۔ ہمارا دنیا سے معاشی رابطہ اسی کرنسی میں ہوتا ہے اور cushion والے ڈالر صرف IMF ہی فراہم کرسکتا ہے۔

بڑھک بازی کے بجائے فی الوقت مناسب یہی ہے کہ 9 فروری کو جاری ہوئے آرڈیننس پر کڑوا گھونٹ پی کر مناسب انداز میں عمل کیا جائے اور امید رکھی جائے کہ اس آرڈیننس کے ذریعے متعارف ہوئی ترامیم ہمیں FATF کی واچ لسٹ پر آنے سے محفوظ رکھیں گی۔
روزنامہ نوائے وقت