آرٹ اور بقاء کی جستجو: آرٹ کے تین نظریات کی روشنی میں

آرٹ اور بقاء کی جستجو: آرٹ کے تین نظریات کی روشنی میں

از، اصغر بشیر

قریباً چودہ ہزار سال پرانی قدیم ترین معلوم داستان گِلگامیش سے لے کر اکیسویں صدی کی ما بعد جدیدی پسِ ساختیاتی تحریروں تک انسانی ارتقاء میں آرٹ کہیں نہ کہیں موجود رہا ہے۔ لیکن جب زندگی کی بقا کی جد و جہد میں ضروری حیاتیاتی عوامل کا جائزہ لیا جاتا ہے تو واضح طور پر ایسا کوئی عُنصر نظر نہیں آتا جس کا شاعری یا آرٹ کی دوسری حالتوں کے ساتھ تعلق رہا ہو گا۔ انسانی ارتقاء اور بقا کی جنگ میں آرٹ کیسے وقوع پذیر ہوا ہو گا اس حوالے سے تین نظریات پائے جاتے ہیں۔ آرٹ کے متعلق پہلا نظریہ یہ ہے کہ یہ زندگی کے بقاء کے لیے معیاری عمل کی حیثیت رکھتا ہے۔

Asghar Bashir

آرٹ یہ بتاتا ہے کہ زندگی میں کون سا عمل اور اس عمل کا کون سا پہلو معیاری ہے اور کس طرف بہتری کی گنجائش موجود ہے۔

اسی طرح یہ ان حیاتیاتی خصوصیات کو بھی واضح کرتا ہے جن کے حامل اچھی اور بہتر نسل کے حامل ہوں گے۔ اس بارے میں دوسرا نظریہ یہ ہے کہ آرٹ زندگی کی بقا کی جنگ میں ظاہر ہونے والی بائی پروڈکٹ ہے۔ (بائی بروڈکٹ سے مراد ایسی چیز جو کسی اور چیز کو بناتے ہوئے اضافی طور پر حاصل ہوتی ہے۔ ) اس کا ارتقاء اور انسانی زندگی کی بہتری کے لیے یہ لازمی عمل نہیں تھا۔ اس حوالے سے تیسرا نظریہ یہ ہے کہ آرٹ ٹیکنالوجی کی پیدائش ہے اور وقت کے ساتھ جب معاشرے اپنی ارتقائی شکل بدلیں گے تو یہ بھی ختم ہو جائے گا۔

اس حوالے سے ایک اہم سوال یہ ہے کہ انسانی ارتقائی مراحل میں ایسا کیا وقوع پذیر ہوا ہو گا کہ انسانوں نے دیواروں پر تصویریں بنانا شروع کر دیں؟ اس حوالے سے دو نظریات پائے جاتے ہیں: پہلا یہ ہے کہ انسان کے ذہن میں ایسی کوئی مخصوص صلاحیت موجود رہی ہے جو اسے مختلف ادبی مظاہر کی طرف راغب کرتی ہے۔

جب کہ اس سلسلہ میں دوسرا نظریہ یہ ہے کہ انسان کو وقت گزاری کے لیے کچھ نہ کچھ مصروفیت ضرور چاہیے تھی۔ اس لیے ادب ابتدا میں انسان کے وقت گزاری کا ایک سبب تھا۔ جنسی ساتھی کے چناؤ کا نظریہ آرٹ کو ایک اعلیٰ خصوصیت سمجھتا ہے جس سے اس کو بہتر ساتھی مل سکتا ہے۔
اسی طرح سماجی زندگی کی ضروریات کے پیشِ نظر مختلف فوائد کے حصول کے لیے بھی آرٹ کا استعمال ماضی میں کیا جاتا رہا ہو گا۔

مختلف فوائد کی بنیاد میں لازمی طور پر یہ صورت رہی ہو گی کہ گروپ یا قبیلے کو باہمی اتحاد کی بنیاد فراہم کی جائے۔ اس سلسلے میں یہ بھی ایک اہم بات ہے کہ گروہ یا قبیلے کو متحد رکھنے کے لیے مخصوص رسومات ادا جاتی ہوں گی جن کو عقلی اور ذہنی بنیاد لازمی طور پر آرٹ کی صورت میں مہیا کی جاتی رہی ہو گی۔

اس سلسلہ میں جتنے بھی نظریات بیان کیے جائیں سبھی کسی نہ کسی حد تک درست ہیں اور سبھی ایک دوسرے سے کسی نہ کسی مقام پر آ کر متصادم ہو جاتے ہیں۔ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہی نظریات باہم متصل ہو کر ذہنی تصویر مکمل کرنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ چوں کہ ان میں سے کسی بھی نظریے کو مکمل ثبوتوں کے ساتھ پیش نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے ان سب پر شک کی گنجائش بَہ ہر حال موجود رہتی ہے۔

انسانی معاشرے کی ابتدائی شکلوں میں آرٹ کی حیثیت لازمی طور پر ایک فن کے بَہ جائے معاش کے حصول کا ذریعہ رہی ہو گی۔ اس کی حالت جاگیر داری معاشرے میں مزید ابتر ہو گئی اور ایک آدمی اسی وقت تحریر لکھنے یا دُھن بنانے، یا کینوس پر لکیر کھینچنے کے قابل ہوتا ہو گا جب کوئی جاگیر دار اسے اس کام کے لیے معاوضہ دیتا ہو گا۔

اسی طرح جب ادب کو دوسرے نظریے کے تحت دیکھا جاتا ہے جس میں ادب کسی دوسرے ارتقائی عمل کی بائی پروڈکٹ کے طور پر ظہور پذیر ہوا۔ یہ نظریہ زیادہ تر بیالوجی کے ماہرین کے ہاں پایا جاتا ہے اس نظریے کے مطابق انسان جب ارتقائی عمل کے تحت تخیل، یاد داشت، ذہانت، اور مزاح جیسی بقائی خصوصیات کا حامل ہوا تو آرٹ ان خصوصیات کی بائی پروڈکٹ کے طور پر وقوع پذیر ہوا۔

انہی خصوصیات کی بنیاد پر آرٹ صرف بائی پروڈکٹ ہی نہیں رہا، بَل کہ یہ بَہ ذاتِ خود ایک کام بن گیا۔ وقت کے ساتھ اس کی ارتقائی اہمیت ختم ہو گئی اور اس کی جگہ اس ثقافتی اہمیت نے لے لی۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ آرٹ نے وقت کے ساتھ انسانی ذہن کے لیے سکون کا سامان مہیا کرنا شروع کر دیا۔ اسی وجہ سے دباؤ کی حالت میں انسان آرٹ کی مختلف حالتوں میں دل چسپی ظاہر کرنے لگتا ہے۔ انسانی ارتقاء کے برفانی دور میں آرٹ کی سب سے زیادہ ترقی ہوئی۔

انسانی زندگی کے ارتقاء میں آرٹ کے متعلق تیسرا نظریہ یہ کہتا ہے کہ ہر جان دار اپنی بقا کے لیے اپنی سمجھ اور شعور کو استعمال کرتے ہوئے بہترین ٹیکنالوجی بنانے اور اس کو استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے لیے کوئی جینیاتی کوڈ نہیں ہوتا بل کہ ایک نسل اپنی اگلی نسل کو مخصوص مہارتیں منتقل کرتی ہے۔ جیسے انسان شعوری دور میں داخل ہونے سے پہلے قریباً تین سے چار لاکھ سال پہلے سے استعمال کر رہا ہے۔ لیکن لکھنا اور پڑھنا انسان سے قریباً پانچ ہزار سال پہلے شروع کیا۔ اس کام میں انسانی دماغ کا وہ حصہ استعمال ہوتا ہے جو مخصوص تصویروں کو ایک ترتیب میں شناخت کرتا ہے۔

اگر آرٹ اور ارتقاء کے باہمی تعلق کے بارے میں پائے جانے والے تینوں نظریات کا جائزہ لیا جائے تویہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کسی ایک نظریے کو دوسرے پر فوقیت نہیں دی جا سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آرٹ کا ارتقاء کے ساتھ تعلق بہت پیچیدہ ہے، کیوں کہ اکثریتی مقام پر بہت سارے ارتقائی عوامل بیالوجی اور ثقافت کا آمیزہ ہوتے ہیں۔

ان میں سے کسی ایک کو الگ کرنا نہایت مشکل امر ہے۔ ان تینوں نظریات میں سے کون سا زیادہ مناسب ہے کی بحث کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ آرٹ کا تعلق انسان کی فطرت سے ہے جس کی وجہ یہ سے ارتقائی عمل کے دوران مختلف ثقافتوں اور معاشروں میں انسان کے ساتھ رہا ہے۔