ساختیات کے چند اصول اور ادبی تھیوری پر ان کا اطلاق (پہلی قسط)

 ساختیات کے چند اصول اور ادبی تھیوری پر ان کا اطلاق
Photo Credit: Professor John Lye from Brock News

 ساختیات کے چند اصول اور ادبی تھیوری پر ان کا اطلاق (پہلی قسط)

ترجمہ، جواد حسنین بشر

عمومی اصول:

 1۔ معانی فرق سے قائم ہوتے ہیں:

معنی سے مراد کسی نشان (sign)کی پہچان کسی ایسی شے (referent) کے حوالے سے نہیں ہے جو حقیقی دنیا میں موجود ہو۔ نہ یہ کسی پیشگی، یا ازلی تصور کی مناسبت سے ہے اور نہ ہی کسی لازمی، فطری، ضروری، یا اصلی حقیقت کا حوالہ معنی کی اساس بنتا ہے۔ بَل کہ اس کی بَہ جائے معنی کی بنیاد کسی معنیاتی نظام میں، نشان کے ساتھ نشان کے فرق پر استوار ہوتی ہے۔

مثال کے طور پر ہم ان دو الفاظ کی معنویت کو لیتے ہیں۔ عورت اور خاتون۔ ان دو لفظوں کی معنویت کا قیام معنیاتی میدان، یا نظام میں ایک دوسرے کے ساتھ رشتے کی بَہ دولت ہے۔ یہ دونوں الفاظ انسانی مادہ (female) کے لیے بولے جاتے ہیں۔ لیکن لفظ انسان، بَہ حوالہ انسان کیسے مقرر ہوا؟ اور اسی طرح لفظ مادہ بھی؟

در اصل، انسان اور مادہ کے الفاظ کی معنویت بھی ایک دوسرے کے ساتھ اپنے فرق کی بناء پر قائم ہے نہ کہ ان کی کسی طرح کے جوہر کی بَہ دولت، یا کسی مثالی صداقت کے حوالے سے اِن کی شناخت پر یا پھر اسی جیسی کسی اور بنیاد پر۔

2۔ ساختیات کے مطابق ہمارے تصورات کی دنیا سرا سَر تشکیلی، یا ساختیاتی نوعیت کی ہے جو مخالف جوڑوں (binary oppositions) کے آپسی تال میل سے وجود میں آتی ہے۔ یہ مخالف جوڑے (جیسا کہ وجود اور عدم، گرم اور سرد، کلچر اور نیچر وغیرہ) ہی در اصل معنویت کی ساخت، یا تشکیل کا باعث ہیں۔

لہٰذا، ہم کلچرل فکر (ثقافتی فکری روایت، cultural thought) کو انھی جوڑوں کی مدد سے بیان کر سکتے ہیں کیوں کہ ثقافتی فکر (cultural thought) انھی کی بَہ دولت ترتیب پاتی ہے۔

3۔ ساختیاتی تھیوری، علم نشانیات (semiotics) کے لیے بنیادیں فراہم کرتی ہے۔ نشانیات علم کی وہ شاخ ہے جس میں نشانات (signs) کا مطالَعَہ کیا جاتا ہے۔ ایک نشان معنی نما(signifier) اور تصور معنی (signified)  کے اتحاد سے جنم لیتا ہے۔ اور ہاں ایک نشان کوئی بھی چیز ہو سکتی ہے جو کسی دوسری چیز (referent) کی نمائندگی کرے۔

4۔ کوڈز کا تصور بھی سِیمیاٹِکس یا علمِ نشانیات کے لیے مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ کوڈز (ضابطوں) کا تصور ایک ایسا تصور ہے جو نشانات کو سیاق فراہم کرتا ہے۔ جیسا کہ کلچرل کوڈز (cultural codes)، ادبی کوڈز (literary codes) وغیرہ۔ علم نشانیات (semiotics) اور کوڈز دونوں کا علم، ادبی تجزیے میں ثقافتی مطالعے کی راہ کھول دیتا ہے، اوران وسائل میں توسیع کا سبب بھی بنتا ہے جنھیں کوئی نقاد کسی بھی متن کی معنویت کو زیرِ بحث لانے کے لیے بَہ رُوئے کار لاتے ہیں۔

ساختیات، (جیسا کہ Gennet کا بیان ہے) ”در اصل ثقافتی بناوٹ کا مطالَعَہ ہے، یا پھر یہ مطالَعَہ ہے لسانی نشانات کے مطابق معنی کی شناخت کا۔ ان  نشانات کے مطابق جو کسی بھی ثقافت میں معنیاتی رنگا رنگی (meaning-spectrum) کے ظہور کی وجہ ہیں۔“

5۔ کچھ نشانات، اپنے آپ میں وسیع ثقافتی معنویت کے حامل ہوتے ہیں اور عام طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ رولاں بارتھ ایسے نشانات کو مِتھس یا سیکنڈ آرڈر سگنی فائرز کا نام دیتے ہیں۔

6۔ ساختیات، ایک مستحکم اور پوشیدہ ego کے حامل فرد کے تصور کی بَہ جائے موضوع، یاsubject کا تصور متعارف کرواتی ہے۔

موضوع، یا subject کی اصطلاح، ایتھنالوجی (ethnology)، تحلیل نفسی (psychoanalysis) اور علم نشانیات (semiotics) کے ما بین تعلق پر محیط ہے۔ یہ اصطلاح انسانی حقیقت کو ایک تشکیل کے طور پر سمجھنے میں ہماری مدد کرتی ہے کیوں کہ انسانی حقیقت ایسی معنوی سر گرمیوں کی پیداوار ہے جو اپنے آپ میں نہ صرف ثفاقتی طور پر متعین ہوتی ہیں, بَل کہ عمومی طور پر لا شعوری بھی ہوتی ہیں۔

یہ اصطلاح، نجی یا ذاتی یاپھر خودی اور ذات جیسے تصورات پر بھی سوال قائم کرتی ہے جنھیں عموماً شعور کے مترادفات کے طور پر برتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ خواہشات کا ابھرنا بھی اپنے آپ میں ثقافتی نوعیت کا عمل ہے۔ لہٰذا یہ ایک اجتماعی مظہر ہے جو شعور کو بے مرکز کرتا ہے بَل کہ اسے خالصتاً ایک تاثر پذیر صلاحیت کے زمرے میں دھکیل دیتا ہے۔

بالآخر، موضوع، subject، کی اصطلاح، ایک طرح کے نفسی عوامل کی دوسری طرح کے نفسی عوامل سے امتیازی شناخت اور تقسیم کاری، یا درجہ بندی کو توجہ کا مرکز بناتے ہوئے، فرد (انفرادیت) سے منسوب پائیداری یا استحکام کی صفات اور حیثیتوں کو چیلنج کرتی ہے۔

8۔ اس تصور کی بَہ دولت ہمیں ذہنی طور پر انسانوں کی اندرونی دنیا تک رسائی حاصل ہوتی ہے، تا کہ ہم انسانی تجربے (human experience) اور ثقافتی تجربے (cultural experience) میں تعلق کو دیکھ سکیں۔ اور معانی کو ایک ایسی ساختہ چیز کے طو ر پر بیان کر سکیں (وہ بھی معقول انداز میں) جو ہمارے اندر، یا ہمارے دماغ میں موجود ہے۔

9۔ ساختیات کی نظر میں حقیقت کے بارے میں ہمارا علم نہ صرف ضابطہ بند یا اشاراتی (کوڈڈ) ہے، بَل کہ، سرا سر روایتی، رواجی اور رسمی بھی ہوتا ہے۔ یہ علم، در اصل، رسمیات (کنونشنز) کی بَہ دولت اور انھی کے ذریعے سے وجود میں آتا ہے اور نشانات (sings) اور معنی خیز مشقوں یا پھر بار بار دُہرانے کے عمل کے باعث ساخت میں ڈھلتا ہے۔

اسی مظہر کو  حقیقت کی سماجی تشکیل (social construction) کی اصطلاح میں بیان کیا جاتا ہے۔

10۔ لہٰذا، ساختیاتی فلسفہ میں، حقیقت، سماج، انفرادیت، شخصیت اور لا شعُور جیسے تصورات کے ما بین ایک مربوط اور منطقی اتصال ابھر کر سامنے آتا ہے کیوں کہ یہ تمام تصورات در اصل یَک سَاں نوعیت کے نشانات، ضابطوں (codes) اور رسمیات (conventions) سے متشکّل ہوئے ہیں، بَل کہ، انھی عناصر پر مشتمل ہیں اور ایک جیسے قوانین کے تحت عمل پیرا ہوتے ہیں۔

Some Elements of Structuralism and its Application to Literary Theory by Professor John Lye, Brock University.

(اہم نکات اور حصوں کا ترجمہ، مفہوم، تلخیص)